نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ معاشرے کےلیے لمحہ فکریہ

نئی نسل کو تباہی سے بچانےکے لیے فوری اقداماتضروری

از: زعیم الدین احمد حیدرآباد

آئے دن اخبارات و ٹی وی میں خبروں کی زینت بنتے ہوئے عشق و معاشقہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قتل کے واقعات میں اضافہ مہذب سماج کے لیے باعث تشویش ہے۔ حال ہی میں دلی میں پیش آنے والے قتل کے معاملے نے پھر ایک بار پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آخر ایک انسان اپنے جاننے والے اور اپنے پہچاننے والے کے ساتھ ایسے سفاکانہ جرم کا ارتکاب کیسے کرسکتا ہے؟ ایسی درندگی تو کوئی درندہ بھی نہیں کرتا۔ ظالم نے اپنے ساتھی کا نہ صرف گلا گھونٹ کر قتل کر دیا بلکہ اس کے جسم ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے حصوں کو جنگل میں پھینک دیا۔ یہ سارا کارنامہ سننے میں ہی وحشت ناک لگ رہا ہے کہ کس شقاوت کے ساتھ اس نے یہ سارا معاملہ انجام دیا ہو گا؟ اس قسم کے واقعات جہاں باعث تشویش ہیں وہیں قابل مذمت بھی ہیں اور سماج کے کھوکھلے پن کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں نہ اخلاقی اقدار موجود ہیں نہ تہذیبی شعور، لوگ اس کے مادی اسباب تلاش کر رہے ہیں کہ اس شخص کے دماغی توازن میں خلل تھا اسی وجہ سے اس نے یہ اقدام کیا۔ کوئی اس کی مذہبی شناخت کو ظاہر کرتے ہوئے تو کوئی اور نکتہ اس میں تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے لیکن کسی نے اس واقعہ کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے کہ ملک میں پہلی بار ہوا ہو، ایسے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ کہیں عاشق لڑکی کا کلام گھونٹ دیتا ہے تو کہیں لڑکی کسی دوسرے کے ساتھ مل کر لڑکے کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور کہیں والدین ذات پات کے نام پر تو کبھی عزت کے نام پر عشق مبتلا اپنی ہی اولاد کو قتل کردیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کے پس پردہ عوامل کیا ہیں یہ جاننا ضروری ہے۔ محض مادی محرکات ان واقعات کی درست توجیہ نہیں ہو سکتے بلکہ معاشرے میں گرتے ہوئے اخلاقی اقدار ہیں جو ان واقعات کے محرک بنتے ہیں۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان نسل ان جرائم میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے اخلاقی اقدار سے عاری تعلیم سے ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ در حقیقت لڑکے لڑکی کے درمیان ہونے والی محبت کے پیچھے جذبہ ہوس رانی کارفرما ہوتا ہے۔ جب لڑکا کسی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے یا لڑکی کسی لڑکے دام فریب میں گرفتار ہو جاتی ہے تب ان کے جنون کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان کو شہوانی خواہش کو پورا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں سوجھتا۔ اس عالم میں نہ انہیں اپنے ماں باپ نظر آتے ہیں اور نہ ہی کوئی رشتے دار، حتی کہ ان کی تعلیم بھی چھوٹ جاتی ہے لیکن ان کا جنون ختم نہیں ہوتا۔ وہ ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو صرف اپنی خواہش نفس پوری کرنے کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ جب انہیں اپنا مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اپنے جنون میں وہ کچھ کر ڈالتے ہیں جس سے ساری انسانیت شرم سار ہوجاتی ہے۔ وہ درندوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کیوں درندے تو صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہی شکار کرتے ہیں۔ انسان کے اسی کردار کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے "ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اسے الٹا پھیر کر سب نیچوں سے نیچ کر دیا” (سورۃ التین)
جب انسان برائی میں اس قدر ملوث ہوجاتا ہے تو وہ گراوٹ کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی دوسری مخلوق اس گراوٹ کو نہیں پہنچ سکتی، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے کہ شہوت پرستی میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس اخلاقی پستی اور زوال کی بہت بڑی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کے عنصر کی عدم موجودگی ہے۔ ہماری تعلیم یافتہ نوجوان نسل اخلاقی تربیت سے بے بہرہ ہے اور محض دنیا کا حصول ان کا مطمح نظر ہوتا ہے جس کے لیے وہ تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اس بد اخلاقی میں مبتلا ہونے میں ہمارے مخلوط تعلیم اداروں کا بڑا کردار ہے۔ تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم کے نتیجے میں آج کی نوجوان نسل اس خطرناک بیماری میں مبتلا ہوتی چلی جارہی ہے، جہاں نہ کوئی اخلاقی تعلیم کا نظم ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیم و تربیت کا انتظام، بچوں کو صرف اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں اپنے مادی کاموں کی تکمیل اور اپنے نفس کی تسکین کیسے کریں، نوخیز نسلوں کے ذہنوں میں یہ بات پیوست کی جاتی ہے کہ ان کا وجود محض مادی چیزوں کا حصول اور اپنے نفس کی تسکین کے لیے ہے وہ ان کا حصول کسی حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ قوموں کی زندگی میں زوال پیسے یا وسائل کی کمی سے نہیں بلکہ اخلاقی پستی کی وجہ سے آتا ہے۔ جس معاشرے کا مرد بگڑ جائے، وہاں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں نیلام ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جہاں اللہ نے عورتوں کو اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کا حکم دیا وہیں پہلے مرد کو اپنی نگاہ نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف ہمارا خاندانی نظام بھی اسی مادہ پرستی کی وجہ سے مثل جہنم بنا ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سب سے پہلی ذمہ داری ماں باپ کی ہے جو اپنے دینی اور اخلاقی فرض سے ایسے بے خبر ہو چکے ہیں کہ انہیں احساس تک نہیں کہ ان کی اولاد کدھر جا رہی ہے۔ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسا گھرانہ وجود میں آرہا ہے جہاں نہ ماں باپ کی عزت کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی بڑوں کا احترام۔ مسلم گھرانوں پر اگر آپ نظر ڈالیں تو آپ کو وہاں صرف اسلامی نام سنائی دیں گے لیکن ان کے کردار اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور دکھائی دیں گے۔ یہ سارے مادہ پرستی کے ثمرات ہیں۔ اس کے برعکس اسلام انسانوں میں موجود جذبہ محبت کا نہ صرف معترف ہے بلکہ اس جذبے کی تسکین کے لیے محبت، دوستی اور رشتوں کی پاکیزہ و شفاف بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد خاندانی نظام ہے اور خاندانی نظام کا قیام، اس کی پائیداری، باہمی الفت و محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسلام ان تمام افراد سے محبت اور احترام کا تعلق قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے جن کے ساتھ فرد کے خونی یا رضاعت کے یا سسرالی رشتے ہوتے ہیں جنہیں محرم رشتے بھی کہا جاتا ہے، جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اگر مرد و عورت کے درمیان کوئی خونی یا رضاعت کا یا سسرال کا کوئی رشتہ نہ ہو تو اسلام انہیں ایک دوسرے کے لیے نا محرم یا غیر محرم قرار دیتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں غیر محرم لڑکے اور لڑکی کے درمیان نکاح کے علاوہ اور کسی قسم کے تعلق کا تصور نہیں پایا جاتا اور نہ اسلام اسے قبول کرتا ہے۔ اسلام کے طرزِ معاشرت میں بوقتِ ضرورت غیر محرم سے بات کرنے میں بھی انتہائی محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo
نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ (الاحزاب، 33: 32)
اگرچہ اس آیت مبارکہ میں ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا ہے مگر اس کا پیغام قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کے لیے ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے ہوئے بھی نرم لہجہ اختیار نہ کیا جائے تاکہ کوئی بد طینت شخص اسے اپنے لیے کوئی اشارہ نہ سمجھ لے۔ رسول اللہ ﷺ نے تنہائی میں غیر محرم عورت کے پاس جانے اور اس سے ضروری بات چیت سے بھی منع کیا ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔
جب نامحرم عورت اور مرد تنہائی میں ہوتے ہیں تو جذبات ابھرتے ہیں اور شہوت جوش مارتی ہے جو برائی کی طرف مائل کرتی ہے، اسی طرح اگر غیر محرم لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو محبت نامے لکھیں، پیار و محبت کی باتیں کریں تو قوی امکان ہے کہ وہ برائی پر آمادہ ہو جائیں گے۔ دور حاضر کی ٹکنالوجی نے اس برائی میں مبتلا ہونے میں بڑی آسانیاں پیدا کر دیں ہیں۔ وہاٹس ایپ، انسٹاگرام اور دیگر بہت سارے سماجی رابطوں کے ایپس نے اس برائی کو اس قدر معمولی بنا دیا ہے کہ یہ برائی کا کام ہی نظر نہیں آتا۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
اپنے آپ کو تنہا (نامحرم) عورتوں کے پاس جانے سے بچاؤ۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول ﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں صرف دیور نہیں بلکہ تمام نامحرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ اس پوری بحث سے معلوم ہوا کہ غیر محرم لڑکوں اور لڑکیوں کا آپس میں مراسم رکھنا اور چھپ چھپ کر بات چیت کرنا اور ملاقاتیں کرنا حرام ہے کیونکہ یہی ملاقاتیں زنا کا سبب بنتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے زنا کا سدّباب کرنے کے لیے اس طرح کے تمام راستوں کو روکا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً.
زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل اور بڑا ہی برا راستہ۔
(بني اسرائيل، 17: 32)
ایک اور چیز معاشرے میں سرایت کر چکی ہے وہ ہے "لیو ان ریزیشن” اس پرکشش برائی نے نوجوان طلبا و طالبات کو اپنے دام فریب میں پھانس لیا ہے، یہ بیماری معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیلتی چلی جارہی ہے۔ معاشرے کے متمول گھرانوں کی جانب سے اس کی اس قدر پزیرائی کی جارہی ہے جیسے یہ کوئی مہذب معاشرے کی ممتاز نشانی ہو۔ ملازمت پیشہ لڑکے لڑکیوں میں اس کا بڑھتا ہوا رجحان معاشرے کی تباہی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ ٹی وی سیریلوں میں اس طرح کے رشتوں کو معمول بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے تاکہ معاشرے سے اس برائی کے تئیں گناہ کا تصور ختم ہو جائے۔ یقین جانیے کہ اگر اس برائی کو نہ روکا گیا تو بہت جلد ہمارا ملک ناجائز نسل کی آماجگاہ بن جائے گا۔
ہماری نوجوان نسل میں اخلاقی اقدار کے اس قدر زوال کی مزید وجوہات جنسی بے راہ روی، مخلوط نظام تعلیم، اخلاقی تربیت کی کمی اور مناسب رہنمائی کا فقدان بھی ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی اقدار سے دور لے جا رہے ہیں جو کہ پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر سنجیدگی سے ان معاملات کو اور کی نوعیت کو نہیں سمجھا گیا تو وہ دن دور نہیں جب پورا معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ معاشرے میں امن سکون قائم ہو۔ سب سے پہلے ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ صرف اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے بلکہ تعلیمی نصاب کو اس طرح مرتب کیا جائے جس سے نوخیز نسلوں میں اخلاقی اقدار پروان چڑھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور و آگہی پیدا کی جائے، اس کے عواقب و مضمرات سے نوخیز نسل کو آگاہ کیا جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو انسان ایک بار پھر انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔

 

***

 ہماری نوجوان نسل میں اخلاقی اقدار کے اس قدر زوال کی مزید وجوہات جنسی بے راہ روی، مخلوط نظام تعلیم، اخلاقی تربیت کی کمی اور مناسب رہنمائی کا فقدان بھی ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی اقدار سے دور لے جا رہے ہیں جو کہ پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر سنجیدگی سے ان معاملات کو اور کی نوعیت کو نہیں سمجھا گیا تو وہ دن دور نہیں جب پورا معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022