نشید : ستار فیضی کی غزلیات کا پہلا مجموعہ

جنوبی ہند کے شاعر کی اردو اور تلگو دونوں زبانوں کے ادبی شہ پاروں پر نظر

ظہیر دانش عمری
ریسرچ اسکالر،شعبہ فارسی،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،حیدرآباد

ستارفیضی کا نام میں نے اخبارات کے ذریعے سب سے پہلے اس وقت سنا جب میں حیدرآباد میں تعلیم حاصل کررہا تھا،اس وقت ستارفیضی کی کتابوں کی اشاعت کو تذکرہ ، کڈپہ کے ادبی پروگراموں کی خبریں یا ستار فیضی کو کسی بین الاقوامی مشاعرہ یا جلسہ میں شرکت کی دعوت کے متعلق خبریں روزناموں میں شائع ہواکرتی تھیں۔ اس سے قبل میں کڈپہ کے شاعروں میں صرف حضرت برق کڈپوی کو جانتا تھا۔بعدازاں کڈپہ کی مختلف ادبی تقریبات میں ان سے روبروہونے اور ان کی شخصیت وفن کو سمجھنے کا موقع ملا۔
انہوں نے اردو زبان میں ۲۱کتابیں اور تلگو میں ۴ کتابیں تصنیف فرمائیں، بچوں کے ادب میں ان کی تصنیف کردہ کتابیں یا کتابچے یوں ہیں:
1)چھبیس حرکاتی نظمیں
2)میرا بھارت مہان
3)اردو ایکٹیویٹی بک
4)فیضی کی پچاس پہیلیاں
5)مسکان 6)دھنک۔
7)غنچہ غنچہ(بچوں کے لئے شاعری)
سرورکونین اور شاہ امم کے نام سے دو نعتوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں،نشید ان کی غزلیات کا پہلا مجموعہ ہے۔انہوں نے بچوں کے ادب کے علاوہ ترجمہ نگاری، غزل،نظم،افسانہ وغیرہ اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے،اردو ادب کے ساتھ ساتھ تلگو زبان وادب کی واقفیت ان کی شخصیت میں چار چاند لگانے کے لئے کافی ہے کیونکہ ان کی نظر دونوں زبانوں میں ہورہی ادبی پیش رفت پر گہری ہے،دونوں زبانوں میں کس نوعیت اورانداز کا ادب لکھا جارہا ہے اس سے وہ بخوبی واقف ہیں۔
جہاں تک اعزازات کی بات ہے انہوں نے آندھراپردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے دیا جانے والا بیسٹ ٹیچر ایوارڈ اور کارنامہ حیات ایوارڈ حاصل کیا ہے۔
ان کی چالیس سالہ ادبی زندگی سے چند غزلیات کا بہت ہی عمدہ انتخاب شائع ہوا ہے،اس انتخاب کا نام نشید ہے اور اس میں پانچ نعتیں اور پچاس غزلیں شامل ہیں،انہوں نے مختصر،متوسط اور طویل بحروں میں طبع آزمائی کی ہے،ان کی غزلوں میں عروض کی غلطیاں نہ ہونے کے برابرہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ساغر جیدی جیسے جید اور عروض کے ماہر استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیاہے اور حضرت اقبال خسرو قادری سے مشاورت بھی کرتے رہتے ہیں۔
اپنی ادبی زندگی کے حوالے سے مختصر یوں تحریر کرتے ہیں کہ:
”ادبی زندگی کے تقریباً چالیس سال گزر گئے،اب کہیں جاکر میری غزلوں کا پہلا مجموعہ نشید زیور طباعت سے آراستہ ہورہا ہے،اس سے پہلے نعت نبی پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آئیں،اردوکے ساتھ ساتھ تلگو زبان میں ادب اطفال سے متعلق متعدد رسالے بھی شائع ہوئے لیکن میری پسندیدہ صنف غزل کا کوئی مجموعہ شائع نہ ہوسکا، حالاں کہ غزل ہمیشہ میری محبوب صنف سخن رہی ہے۔میر ے شہرکے سخن پرورماحول اور یہاں کے بزرگوں،ساتھیوں کی جانب سے ملنے والی انہی ہمت افزائیوں کے نتیجے میں ادبی سفر جاری ہے۔“
(نشید،ص:۰۱۔۱۱)
ان کی حمدیں ہماری توجہ اپنی طرف منعطف کرتی ہیں،اللہ کی شان،جاہ و جلا ل و عظمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کی دعابھی مانگتے نظر آتے ہیں ان کی شاعری کو اللہ تعالی چارچاند لگادیں،مثال کے طور پر حمد کے چند شعر دیکھیں:
جسے چاہے تو عزت دے
جسے چاہے تو ذلت دے
مراباغ سخن بے رنگ
اسے رنگ اور نکہت دے
معانی کا چمن مہکا
اثر دے،حسن ندرت دے
گدائے عشق ہے فیضیؔ
یقیں،ایماں کی دولت دے
ان کی نعت کا یہ شعر ناچیز کو بہت اچھا لگا جو یوں ہے:
دونوں جہاں میں ساقی محشر کا ہوں غلام
زم زم پیاکروں کبھی کوثر پیا کروں
کتنی عمدہ بات انہوں نے زمزم کے حوالے سے لکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننے والا دونوں جہانوں کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے،دنیا و آخرت میں اسے کھانے اورپینے کے لئے پاک چیزیں ہی میسر آتی ہیں۔
ان کی غزلوں میں دورحاضر کی برائیوں اور اپنے آپ پر طنز نظر آتا ہے،ان کی شاعری میں روایتی مضامین بہت تھوڑے ہیں،ان کے پاس زیادہ تر جدید مضامین اور جدت نظر آتی ہے، اپنی شاعری پر وہ خود یوں طنز کرتے ہیں کہ
معتبربزم شعر میں ہم ہیں
چند الفاظ کی جگالی ہے
اپنی شاعری کے حوالے سے دیگر شعرا ء نے عموما تعلی سے کا م لیاہے،یہ اردو شاعر وں کا مزاج ہے جیسے منور رانا نے کہاہے:
میرے سارے شعر نقاد کے ہاتھوں میں ہیں
پھول سے بچے مرے جلاد کے ہاتھوں میں ہیں
اس ضمن میں اپنی شاعری کو جگالی سے تعبیر کرنا دل گردے کا کام ہے،شہر کڈپہ کے ایک شاعر اقبال خسرو قادری نے بھی ایسی ہی بات اپنی غزل میں لکھی ہے
اقبال خسرو قادری
کانا تغزل کب تلک
انہوں نے چھوٹی بحروں میں جو غزلیں لکھی ہیں بہت اچھی ہیں،ان کی دیگر غزلوں پر یہ غزلیں بہت بھاری ہیں، ان میں انہوں نے جہان معنی سمونے کی کوشش کی ہے،مختصر لفظوں میں انہوں نے کمال فن کو انڈیل دیاہے،یہ شاعر کا کمال ہے کہ کم لفظوں میں بڑی بات کہہ دینا،تھوڑے لفظوں کو استعمال کرتے ہوئے کام کی بات کرجانا کسی ایسے ویسے شاعر کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے نہایت آسان زبان میں اپنا مافی الضمیر پیش کرنے کی کوشش کی ہے:
وہ اپنا وعدہ وفا تو کرنا
مگر مناسب فضا نہیں ہے
***
شہر کے لوگ یاد کرتے ہیں
کیا جہاں سے گزرگیا ہوں میں
***
ہم کو بزدل سمجھ گئی دنیا
اپنی اوقات تھی شہادت کی
***
عروج دیکھ لو میاں
زوال بھی قریب ہے
***
شاندار تھا محل
ملبہ لاجواب ہے
***
جیسا کہ غزل کا مزاج ہے کہ اس میں ہر طرح کے موضوعات پر گفتگوکرنے کی گنجائش ہے، جدید غزل خاص طورپر بہت وسعت اختیار کرچکی ہے اس میں لیلی کے حسن کے علاوہ قیس کی ذمہ داریوں اور معاشی حالات کابھی بیان ہے،ذاتی زندگی کے مسائل کے بیان کے ساتھ عوامی مسائل اور پریشانیوں کا بیان بھی غزل میں کیاجاسکتا ہے اسی کے مد نظر ستارفیضی نے بھوک،جہالت، جدائی اور ڈپریشن کے حوالے سے بہت عمدہ شعر کہے ہیں،ان کی غزلوں میں سوز دروں اور مسرت و شادمانی کا تذکرہ ملتا ہے، وہ گزرے ہوئے وقت کا نوحہ پڑھتے ہیں اور مستقبل کا خوف کھاکر چمک جاتے ہیں۔
ان کے چند اشعار دیکھیں،سرسری مطالعے میں انہیں میں نے منتخب کیاہے:
یہ اگر تو نہیں تو کون ہے پھر
دل کے آنگن میں کس کا سایہ ہے؟
یہ ہیں عالم،خطیب و مفتی
مجھ سے جاہل کی کون سنتا ہے؟
مسرت کے شگوفے کھل رہے ہیں میری باتوں پر
کسی پر کھل نہیں پایا کہیں درد نہاں میرا
تو پھر نابود ہوجائے گی ظلم و جبر کی بستی
کسی دن جاگ جائے گا اگر آتش فشاں میرا
محل کے فرش مخمل کو زمیں کا درد کیامعلوم؟
ہواہے تخت پر بیٹھا ہوا ہے حکمراں میرا
صبر کی شکر کی تعلیم بزرگوں سے ملی
پھر بھی چہرے پہ کبھی رنگ ملال آتا ہے
عمر کے سائے بڑھے، سانس کی لو گٹھنے لگی
تحفہ سال گرہ سال بہ سال آتا ہے
زندگی چین سے کٹتی ہے میری اے فیضی!
روکھا سوکھا ہی سہی،رزق حلال آتا ہے
اس مختصر مگر نہایت مفید اور معیاری مجموعے کی اشاعت پر میں جناب ستار فیضی قابل مبارک باد ہیں۔ ستارفیضی سے اس نمبر پر رابطہ کیاجاسکتا ہے:
9701020626
***

 

***

 ادبی زندگی کے تقریباً چالیس سال گزر گئے،اب کہیں جاکر میری غزلوں کا پہلا مجموعہ نشید زیور طباعت سے آراستہ ہورہا ہے،اس سے پہلے نعت نبی پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آئیں،اردوکے ساتھ ساتھ تلگو زبان میں ادب اطفال سے متعلق متعدد رسالے بھی شائع ہوئے لیکن میری پسندیدہ صنف غزل کا کوئی مجموعہ شائع نہ ہوسکا، حالاں کہ غزل ہمیشہ میری محبوب صنف سخن رہی ہے


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023