ناقص حج انتظامات،بھارتی عازمین کو صبر آزما صورتحال کا سامنا
غیر معیاری فضائی سروس، رہائش گاہوں کی فراہمی میں بھی گڑبڑ!
نور اللہ جاوید
ایمبارکیشن پورٹ کے نام پر لوٹ۔کرایوں میں غیر منصفانہ تفاوت!
وزارت اقلیتی امور کی سردمہری اور اختیار سے عاری حج کمیٹی کی بے بسی!
مرکزی وزیر اقلیتی امور پرائیوٹ ٹور آپریٹرس سے جی ایس ٹی کی وصولی سے خوش لیکن بدانتظامی پر جواب دہی سے گریز؟
’’نئی حج پالیسی 2023‘‘ کے اجرا کے وقت وزیر اقلیتی امور سمرتی ایرانی نے وی آئی پی کلچر کے خاتمہ، حج کمیٹی آف انڈیا کے کوٹہ میں اضافہ اور حج کے سفر میں پچاس ہزار روپے کی کمی کا مژدہ جاں فزاں سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سب وزیرا عظم مودی کی ’’اقلیتوں پر مہربانی‘‘ پر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا ’قومی میڈیا‘ میں جسے ’گودی میڈیا‘ بھی کہا جانے لگا ہے خوب پذیرائی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ اسی طرح کی سیاست مودی حکومت کا شیوہ رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’نئی حج پالیسی‘ میں عازمین حج کو فراہم کی جانے والی خدمات میں خامیوں کا ازالہ کیا جاتا اور بہتری کے اقدامات کیے جاتے مگر ’وی آئی پی‘ کلچر کے خاتمے کے نام پر بنیادی سوالات پر خاموشی اختیار کرلی گئی اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’’وی آئی پی‘‘ کلچر حج سروس کی بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف پانچ سو سیٹیں صدر جمہوریہ، نائب صدر اور وزیر اعظم کے کوٹے میں تھیں اور اس کوٹے کی موجودگی و غیر موجودگی سے عام عازمین حج کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بغیر محرم کے حج پر جانے والی خواتین کے کوٹے میں اضافے پر تالیاں بجانے والوں نے اس مسئلے پر کبھی غور ہی نہیں کیا کہ اتنے بڑے اجتماع کے موقع پر بغیر کسی محرم کے خواتین کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نئی حج پالیسی کے اجرا کے موقع پر یہ تاثر بھی دیا گیا کہ عازمین حج پر بوجھ کم کیا گیا ہے مگر گزشتہ ایک دہائی میں حج کمیٹی کے ذریعہ وصول کی گئی رقم کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ 2019 کے مقابلے میں 2023 میں حج کمیٹی نے عازمین سے دوگنی رقم وصول کی گئی ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ کرایہ کی رقم میں بھاری تفاوت کے باوجود عازمین حج کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی اور بالکل آخری وقت میں انہیں مطلع کیا گیا۔ واضح رہے کہ حج ایکٹ 2002 کے تحت 2019 کے بعد سے آج تک مرکزی حج کمیٹی آف انڈیا کی مکمل تشکیل ہوئی ہی نہیں ہے۔ 23 رکنی حج کمیٹی میں اس وقت چھ سے سات ممبرز موجود ہیں۔ مارچ 2023 میں اس معاملے میں سپریم کورٹ نے واضح ہدایات دیں اس کے باوجود سمرتی ایرانی نے اس پر عمل درآمد کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ چونکہ اس وقت حج کمیٹی آف انڈیا غیر فعال ہے اس لیے وہ عازمین کی مشکلات و شکایات کا ازالہ کرنے میں بے بس نظر آرہی ہے۔
مدینہ منورہ اور حرم مکی سے سوشل میڈیا پر عازمین حج کی جانب سے جو تصاویر اور ویڈیو پوسٹ کیے جا رہے ہیں وہ نہ صرف پریشان کن ہیں بلکہ ملک کی بدنامی کا بھی باعث ہیں۔ ماضی میں بھارتی حکومت کی صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات کے لیے خوب خوب واہ واہی ہوتی تھی مگر اس مرتبہ نہ صرف بھارتی عازمین حج پریشان ہیں بلکہ ملک کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ نئی حج پالیسی کے تحت دعویٰ کیا گیا تھا کہ گزشتہ برسوں کے بالمقابل امسال سفر حج میں پچاس ہزار روپے سے نوے ہزار روپے تک کی کمی ہوسکتی ہے مگر عملا یہ کمی کہیں نظر نہیں آئی بلکہ الٹا مختلف امبارکیشن پوائنٹس کے درمیان ساٹھ سے ستر ہزار روپے کا فرق پایا جاتا ہے۔ بنگلورو، حیدرآباد اور ممبئی جیسے دیگر شہروں کے مقابلے میں کولکاتا، گوہاٹی، احمد آباد، اورنگ آباد، ناگپور، سری نگر اور دیگر امبارکیشن پوائنٹس سے سفر کرنے والوں سے ساٹھ تا ستر ہزار روپے اضافی وصول کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ممبئی امبارکیشن پوائنٹ اور ناگپور، احمد آباد اور اورنگ آباد امبارکیشن پوائنٹ کے درمیان مسافت کے اعتبار سے فرق ہی کتنا ہے؟ ممبئی امبارکیشن پوائنٹ کے مقابلے میں مذکورہ امبارکیشن پوائنٹ سے ساتھ سے ستر ہزار اضافی رقم وصول کرنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ماضی میں بھی مختلف امبارکیشن پوائنٹس سے سفر کرنے والوں سے اضافی رقم لی جاتی تھی مگر یہ فرق پندرہ سے بیس ہزار کے آس پاس ہی ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ اتنا بھاری فرق کیوں؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ فضائی کمپنی کے انتخاب کا معیار کیا ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ فضائی کمپنیوں نے عازمین حج کے لیے جو طیارے فراہم کیے ہیں وہ نہ صرف انتہائی غیر معیاری ہیں بلکہ بین الاقوامی فلائٹس میں فراہم کی جانے والی سہولتوں سے بھی عاری ہیں ۔
غیر فعال حج کمیٹی آف انڈیا اور اس کے اثرات
حج ایکٹ 2002 کے تحت حج انتظامات کی تمام تر ذمہ داری حج کمیٹی آف انڈیا اور ریاستی حج کمیٹیوں کی ہے مگر جب حج کمیٹی کی مکمل تشکیل ہی نہیں ہوئی ہے تو یہ کمیٹی اپنی ذمہ داریاں کس طرح ادا کرے گی۔ مارچ 2023 میں حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق ممبر حافظ نوشاد اعظمی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ جلد از جلد مرکزی حج کمیٹی کے عہدیدار کی تقرری کرلی جائے لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو دو مہینے سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک کمیٹی کی مکمل تشکیل نہیں ہوسکی ہے۔ نوشاد اعظمی ہفت روزہ دعوت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حج کمیٹی پہلے وزارت خارجہ کے تحت کام کرتی تھی اور سابق یو پی اے حکومت کے دور میں اس وقت کے مرکزی وزیر کے رحمن خان نے اسے وزارت اقلیتی امور کے تحت لانے کی کوشش کی تھی۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سے اس معاملے میں ایک وفد نے ملاقات کی تھی جس میں وہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وفد نے حج کمیٹی کو وزارت اقلیتی امور کے تحت لانے کی شدید مخالفت کی تھی۔ یو پی اے کے دور حکومت میں یہ تجویز سرد خانے میں چلی گئی۔ 2014 میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ایک بار پھر حج کمیٹی کو وزارت اقلیتی امور کے تحت لانے کی لابنگ شروع ہوئی اور آخرکار 2016 میں حج کمیٹی وزارت اقلیتی امور کے ماتحت آ ہی گئی۔ سابق مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے اپنے دور میں حج ایکٹ 2002 کی کھلے عام خلاف ورزی کی۔ایکٹ میں کہا گیا تھا ہے کہ حج کمیٹی کے ممبروں میں دو مستند عالم دین ہوں گے مگر 2016 میں مختار عباس نقوی کے ذریعہ تشکیل دی گئی کمیٹی نے اس شق کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ۔کمیٹی کی مدت مکمل ہونے کے بعد نئی کمیٹی کی تشکیل نہیں کی گئی جبکہ 2022 میں وزارت سے رخصت ہونے سے قبل عباس نقوی نے آدھی ادھوری کمیٹی کی تشکیل کر دی۔ حج کمیٹی میں کل 23 ممبرز ہوتے ہیں مگر اس وقت محض سات رکنی کمیٹی ہی کام کر رہی ہیں‘‘۔ سوال یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ حج کے اس سیزن میں مرکزی حج کمیٹی کے ممبروں کی میٹنگ ہوئی یا نہیں، اگر ہوئی ہے تو اس خبر کو عام کیوں نہیں کیا گیا؟ اسی طرح ہر سال منعقد ہونے والی حج کانفرنس کا اس سال بھی انعقاد کیا گیا مگر میڈیا کی رسائی نہیں ہونے دی گئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر میڈیا تک خبر کیوں نہیں پہنچائی گئی اور اس کو روکنے کے پیچھے مقاصد کیا تھے؟ نوشاد اعظمی کہتے ہیں کہ سمرتی ایرانی کے پاس گزشتہ سال جولائی سے ہی وزارت اقلیتی امور کا چارج ہے، گزشتہ گیارہ مہینوں میں انہیں متعدد خطوط لکھے گئے ہیں اور حج کمیٹی آف انڈیا کی مکمل تشکیل کی طرف توجہ دلائی گئی مگر انہوں نے ہماری درخواستوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ حج کمیٹی کی غیر مکمل تشکیل اور حج پالیسی میں اجرا میں تاخیر کی وجہ سے حج فارم کی درخواستیں جمع کرنے کا عمل چار مہینے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اس کے نتیجے میں سارا نظام درہم برہم ہوگیا اور ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری سے سمرتی ایرانی بچ نہیں سکتیں۔
فضائی سروس میں بدانتظامی اور ناواجبی کرایے
’نام نہاد‘ سبسیڈی کے خاتمے اور ایر انڈیا کے پرائیوٹائزیشن کے بعد حاجیوں کے آمد ورفت کے لیے ٹینڈر نکالے جاتے ہیں اور سب سے کم بولی لگانے والی فضائی سروس کو وہ ٹینڈر الاٹ کیے جاتے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ آیا ٹینڈر میں حصہ لینے والی فضائی کمپنی کی صلاحیت اور معیار کو پرکھنے کے لیے کوئی اصول وضع کیے گئے ہیں یا نہیں اور کیا معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والی فضائی کمپنی سے جواب طلبی کا کوئی طریقہ کار موجود بھی ہے؟ 2018 میں حج سبسیڈی جس کی پوری رقم ایر انڈیا کو جاتی تھی اس کے خاتمے کے بعد سے ہی یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ فضائی سروس کے لیے گلوبل ٹینڈر نکالے جائیں تاکہ عازمین حج کو فائدہ پہنچے ۔اس معاملے میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی بھی نوشاد اعظمی نے دائر کی تھی مگر سابق چیف جسٹس دیپک مشرا نے اس عرضی کو چار سماعتوں کے بعد خارج کر دیا، جبکہ بروقت فضائی سروس کی عدم دستیابی اور شیڈول کے مطابق جہاز میں کم سیٹوں کی وجہ سے روانگی میں غیر معمولی تاخیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے حرمین شریفین میں عازمین کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نئی حج پالیسی میں پچیس مقامات سے عازمین حج کی روانگی کا اعلان کیا گیا تھا مگر فضائی کمپنیوں نے صرف بائیس امبارکیشن پوائنٹس کے لیے بولی لگائی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکیس مئی سے بیس امبارکیشن پوائنٹس سے عازمین حج کی روانگی ہونی تھی۔ محض پندرہ دنوں میں تیسری قسط کے طور پر رقم طلب کر لی گئی اور امبارکیشن پوائنٹ کے چارجس بھی غیر منصفانہ طور پر لیے گئے۔ مثال کے طور پر ممبئی امبارکیشن پوائنٹ سے روانہ ہونے والے عازمین حج سے ساڑھے تین لاکھ روپے طلب کیے گئے جب کہ ممبئی سے صرف چار سو کلومیٹر دور واقع اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے عازمین حج سے تین لاکھ ترانوے ہزار روپے طلب کیے گئے اور مہاراشٹر کے ایک اور امبارکیشن پوائنٹ ناگپور سے روانہ ہونے والے عازمین سے تین لاکھ بہتر ہزار روپے طلب کیے گئے جب کہ گوہائی سے روانہ ہونے والے عازمین سے چار لاکھ انتالیس ہزار روپے طلب کیے گئے۔ حیدرآباد اور بنگلور سے روانہ ہونے والے عازمین کو بالترتیب ساڑھے تین لاکھ اور تین لاکھ چار ہزار روپے جمع کرنے پڑے۔ اس کے برعکس سری نگر، گیا (بہار) اور گوہاٹی سے بالترتیب تین لاکھ پچانوے ہزار اور چار لاکھ انتالیس ہزار روپے طلب کیے گئے۔ اسی طرح کولکاتا اور احمدآباد کے عازمین حج کو ستر ہزار روپے اضافی خرچ کرنا پڑا ہے، جبکہ دعویٰ تو یہ تھا کہ عازمین حج کو پچاس سے نوے ہزار روپے کا فائدہ پہنچایا جائے گا۔ اس معاملے میں ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ اور گجرات ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ مغربی بنگال کے چیف سکریٹری نے خط لکھ کر شکایت کی ہے کہ بنگال کے عازمین حج کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے کیونکہ ان سے ممبئی، حیدرآباد، دلی اور بنگلورو کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم وصول کی جا رہی۔سوال یہ ہے کہ وزارت شہری ہوا بازی کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرا کر وزارت اقلیتی امور اپنی ذمہ داریوں سے کیسے سبک دوش ہو سکتی ہے؟ سوال یہ ہے بھی کہ اگر فضائی خدمات کے لیے ٹینڈر گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں ہی جاری کر دیے جاتے تو شاید فضائی کمپنیوں کو اس طریقے سے من مانی کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ ’گو فرسٹ ائیر‘ کی معاشی حالات پہلے ہی سے خراب تھی تو پھر اسی کو دس امبارکیشنس کی ذمہ داری کیوں دی گئی یا اس کو بولی کا حصہ کیوں بننے دیا گیا جس کی وجہ سے رانچی اور گوہاٹی کے عازمین حج کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ گوہاٹی اور رانچی کے عازمین حج کو آخری وقت میں دلی یا پھر کولکاتا سے فلائیٹ لینے کی ہدایت دی گئی۔اسی طرح فضائی کمپنیوں کی لاپروائی بھی سامنے آئی ہے۔ تلنگانہ کے عازمین حج کو وستارا ائیرویز نے حیدرآباد سے لے جاکر مسقط ائیر پورٹ پر گھنٹوں روکے رکھا۔ اس دوران انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی طرح کولکاتا سے عازمین حج کو فضائی سروس فراہم کرنے کی ذمہ داری سعودی ائیرلائنس نے حاصل کی تھی لیکن اس نے ممبئی کی ایک غیر معروف کمپنی کو یہ ذمہ داری دے دی جس کے پاس بین الاقوامی پروازوں کے لیے جہاز دستیاب نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے پورا نظام بدنظمی کا شکار ہو گیا۔ حج کمیٹی کی طرف سے تین سو عازمین حج کو بورڈنگ کے لیے طلب کیا جاتا ہے مگر آخر وقت میں بتایا جاتا کہ ویزا نہیں آیا ہے یا پھر جہاز میں صرف ڈھائی سو سیٹوں کی ہی گنجائش ہے۔ اسی طرح بنگال کے دیہی علاقوں سے آنے والے عازمین حج کو بھی پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
اس پس منظر میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اقلیتی امور عارف نسیم خان وزیر اعظم مودی کے نام لکھے گئے اپنے خط میں حج کرایہ کے نام پر فراڈاور گھوٹالے کے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ بادی النظر میں صد فیصد درست معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ’’حج 2023 کے انتظام میں بڑا گھپلا کیا گیا ہے اور وہ یہ الزامات مرکزی حج کمیٹی کے چند ارکان کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر لگا رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2019 سے پہلے ہر ایک عازم حج سے دو لاکھ نوے ہزار روپے لیے جاتے تھے جس میں اکیس سو ریال بھی شامل ہوتے تھے جو ہر عازم حج کو ائیر پورٹ پر روانگی کے وقت دیے جاتے تھے۔ عارف نسیم خان کا پہلا الزام ہے کہ اس سال عازمین حج سے تین لاکھ ستر ہزار لاکھ روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، امبارکیشن پوائنٹس کے درمیان چارجز کا فرق بھی بہت بڑا ہے۔ ممبئی سے پرواز کرنے والے عازمین حج سے 3,04,843 روپے وصول کیے گئے جب کہ ناگپور سے روانہ ہونے والے عازمین حج سے 3,67,044 اور اورنگ آباد سے روانہ ہونے والے عازمین حج سے 3,92,738 روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ ممبئی اور ناگپور/اورنگ آباد میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے جبکہ یہ شہر ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں؟
عارف نسیم کا دوسرا الزام ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کے کوٹے میں اضافے میں دعوی کے برعکس عازمین حج کے کوٹہ کو دو لاکھ سے کم کر کے ایک لاکھ چالیس ہزار کیوں کر دیا گیا ہے؟ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز (PTOs) کا کوٹہ اس سال ہندوستان کے کل ایک لاکھ ستر ہزار حج کوٹہ سے پینتیس ہزار دیا گیا ہے مگر پرائیوٹ ٹور آپریٹرس کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ طے نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ سے پرائیوٹ ٹورآپریٹرس فی حاجی پانچ سے دس لاکھ روپے کے درمیان وصول کر رہے ہیں۔
عارف نسیم کا تیسرا الزام ہے کہ عازمین حج کے لیے مکہ اور مدینہ میں غیر معیاری قیام کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
عارف نسیم خان کے ان تینوں کے الزامات کے جواب میں حج کمیٹی کے سی ای او محمد یعقوب شیخ صرف یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ کرایہ کا فیصلہ وزارت شہری ہوا بازی طے کرتی ہے اس میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔ حاجیوں کے قیام کے لیے غیر معیاری سہولتوں اور اس میں گھوٹالہ ہونے کے شبہ کے سوال پر رہائشی مکانات کا جائزہ لینے والی ٹیم کے رکن حاجی حیدر اعظم کہتے ہیں کہ جدہ قونصل جنرل نے ٹینڈرنگ کے بعد مکانات کرایہ پر حاصل کیے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں جوابات غیر اطمینان بخش ہیں۔
عزیزیہ گٹیگری میں ایک کمرے میں زیادہ سے زیادہ چار افراد کا قیام ہوتا ہے مگر خبریں آرہی ہیں کہ ایک ایک کمرے میں پانچ تا چھ افراد کو رکھا گیا ہے ۔اسی طرح کچن، بیت الخلا وغیرہ کے انتظامات بھی غیر اطمینان بخش ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عزیزیہ میں مقیم پاکستان اور بنگلہ دیش کے عازمین حج کو بھارتی عازمین حج سے زیادہ سہولتیں دستیاب ہیں۔ بھارت کے عازمین حج حرم شریف کو دو بسوں کی تبدیلی کے بعد پہنچتے ہیں جبکہ پاکستانی عازمین حج براہ راست حرم پہنچ جاتے ہیں۔ ماضی میں بھارتی عازمین حج کو ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ بہتر سہولتیں، معیاری ہوٹلس اور فعال ہیلتھ نظام دستیاب تھا مگر اس مرتبہ وہ سب قصہ پارینہ ہو گیا ہے۔
ریاستی حج کمیٹیوں کے اختیارات
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ریاستی حج کمیٹیوں کا اصل کردار کیا ہے؟ کیا ریاستی حج کمیٹی کی ذمہ داری صرف عازمین حج کو ائیر پورٹ پہنچا دینا اور پاسپورٹ ویزا سپرد کر دینا ہے یا اس کا کام صرف تھرڈ پارٹی کا سا ہے؟ کیا پالیسی اور اہم فیصلے میں ریاستی حج کمیٹیوں کا کوئی رول ہوتا ہے یا نہیں؟ حافظ نوشاد اعظمی اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ریاستی حج کمیٹیوں کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ ریاستی حج کمیٹی کے چیرمین کم از کم مختلف فورموں پر عازمین حج کے مسائل پیش کر سکتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں رہائش کے انتخاب کے لیے ایک طریقہ رائج تھا جس کے تحت ریاستی حج کمیٹیوں کے ممبروں کو بھی مکانات کا جائزہ لینے والی ٹیم کا حصہ بنایا جاتا تھا۔اس ٹیم کے مہر لگنے کے بعد ہی مکانات کا فیصلہ ہوتا تھا، مگر اس مرتبہ ریاستی حج کمیٹی کے ممبروں کو جائزہ لینے والی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پر ریاستی حج کمیٹی نے احتجاج کیوں نہیں کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ وزارت اقلیتی امور کی من مانی کے خلاف ریاستی حج کمیٹیوں نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟
اس پورے معاملے میں وزیر اقلیتی امور سمرتی ایرانی مکمل طور پر غیر فعال نظر آئیں۔ جب دلی میں منعقدہ ایک پروگرام میں کچھ صحافیوں نے ان کی توجہ عازمین حج کو درپیش مشکلات کی طرف مبذول کرائی تو ان کی طرف سے مایوس کن جواب آیا، وہ مکہ و مدینہ میں عازمین حج کو درپیش مشکلات سے متعلق سوال کا جواب دینے کے بجائے پرائیوٹ ٹور آپریٹرس سے وصول کیے گئے جی ایس ٹی کا حوالہ دینے لگیں کہ ان ٹور آپریٹرس سے ڈیڑھ سو کروڑ روپے بطور جی ایس ٹی ٹی حکومت کے خزانے میں آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزارت اقلیتی امور کی ذمہ داری جی ایس ٹی وصول کرنا ہے یا حج کے انتظامات کو بہتر کرنا ہے؟ پرائیوٹ ٹور آپریٹرس پر جی ایس ٹی، ان کے ذریعہ کی جانے والی من مانیاں، حج کے نام پر غیر رجسٹرڈ ٹور آپریٹرس کی لوٹ مار ایک مستقل موضوع ہے جس پر آئندہ لکھا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے عازمین حج کے مسائل کبھی حل ہوں گے بھی یا نہیں؟ یا پھر دیگر آئینی اور خود مختار اداروں کی طرح حج کمیٹی آف انڈیا بھی غیر موثر اور غیر فعال ہو کر رہ جائے گی؟ مرکزی حج کمیٹی کے سابق رکن ڈاکٹر فواد حلیم ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں کہتے ہیں کہ حج کے انتظامات میں سب سے بڑی خامی جو مسلسل چلی آرہی ہے وہ جواب دہی کا فقدان ہے۔ جب تک جواب دہی طے نہیں ہو گی اس وقت تک عازمین حج کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور ہر سال نئی نئی پریشانیاں سامنے آئیں گی۔ ڈاکٹر فواد حلیم کہتے ہیں کہ مرکزی حج کمیٹی کا فعال ہونا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ ریاستی اور مرکزی حج کمیٹی کے درمیان ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔ ریاستی حج کمیٹیاں ویزے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتیں، انہیں مرکزی حکومت سے ہم آہنگی قائم کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر فواد حلیم کہتے ہیں کہ جب محسنہ قدوائی مرکزی حج کمیٹی کی چیرمین تھیں تب وہ ممبر کی حیثیت سے اعلیٰ سطحی ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں۔اس لیے وہ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ رہائش کے لیے مکانات کے انتخاب میں بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہوئی ہے اور اس کی شناخت ضرورت ہے۔
(ممبئی، پٹنہ دلی اور حیدرآباد سے حاصل کردہ مواد بھی اس تحریر کا حصہ ہے)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023