میانمار فوجی بغاوت: مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 18 افراد ہلاک، 30 سے زیادہ زخمی
نئی دہلی، یکم مارچ: اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بتایا کہ اتوار کے روز میانمار میں پولیس کے ذریعے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کی روک تھام کے لیے فائرنگ میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے تھے۔
اقوام متحدہ نے بتایا ’’پورے دن، پورے ملک میں متعدد مقامات پر پولیس اور فوجی دستوں نے مہلک قوت اور کم مہلک طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پرامن مظاہروں کو روکا، جس میں کم از کم 18 فوت ہو گئے اور 30 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔‘‘
محکمہ نے مزید کہا کہ اطلاعات کے مطابق یہ ہلاکتیں ینگون، داوئی، منڈالی، میئیک، باگو اور پوکوکو میں ہجوم پر براہ راست فائرنگ کی نتیجے میں ہوئی ہیں۔ آنسو گیس کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر مختلف مقامات پر فلیش بینگ اور اسٹن گرینیڈ کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے ریوٹرز کے مطابق پولیس نے ینگون میں ایک میڈیکل اسکول کے باہر بھی دستی بم پھینکے۔ وائٹ کوٹ الائنس نامی میڈیسن کی ایک تنظیم نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ طبی عملے کے 50 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
سنڈے ٹائمز کے ایشیا کے نمائندے فلپ شیرویل نے فرانس 24 کو بتایا کہ یہ ’’بغاوت کے خلاف اس مہینے جاری مظاہروں کا سب سے خوں ریز دن تھا۔‘‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے میانمار کی فوج سے پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے مزید کہا ’’انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں کے تحت پرامن مظاہرین کے خلاف مہلک طاقت کا استعمال کبھی بھی جائز نہیں ہے۔‘‘
یکم فروری کو میانمار میں ہونے والی فوجی بغاوت نے نومبر میں ہونے والے قومی انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اور آنگ سان سوچی کی زبردست فتح کے بعد حکومت کا تختہ پلٹ کیا۔
ملک کی فوج نے دھوکہ دہی کے غیر یقینی الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سوچی کو حراست میں لے لیا۔