ہندوستان نے میانمار میں تشدد کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد پر ووٹنگ سے پرہیز کیا

نئی دہلی، دسمبر 22: ہندوستان نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس قرارداد پر ووٹنگ سے پرہیز کیا، جس میں میانمار میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ملک کے فوجی حکمرانوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ معزول رہنما آنگ سان سوچی سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔

فروری 2021 میں فوج کی طرف سے سوچی کی منتخب حکومت کو گرانے کے بعد سے جنوب مشرقی ایشیائی ملک ہنگامہ آرائی کا شکار ہے۔ اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کے مطابق، جو کہ بدامنی پر نظر رکھنے والے ایک حقوق گروپ ہے، فوج کے اختلاف رائے پر کریک ڈاؤن میں 2,500 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ .

بدھ کے روز 15 رکنی سلامتی کونسل نے، جو اس ماہ ہندوستان کی صدارت میں ہو رہی ہے، 74 سالوں میں میانمار پر اپنی پہلی قرارداد منظور کی۔ بارہ ارکان نے حق میں ووٹ دیا جب کہ بھارت کے ساتھ چین اور روس نے اس پر ووٹ نہیں دیا۔

میانمار کے بارے میں واحد پہلی قرارداد 1948 میں سلامتی کونسل نے منظور کی تھی، جب اس ادارے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اس ملک کو، جو پہلے برما کے نام سے جانا جاتا تھا، بطور رکن تسلیم کرنے کی سفارش کی تھی۔

بدھ کے روز اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ روچیرا کمبوج نے کہا کہ نئی دہلی کا ماننا ہے کہ میانمار کی پیچیدہ صورت حال کو ’’خاموش اور صبر آزما سفارت کاری‘‘ کی ضرورت ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’موجودہ حالات میں، ہمارا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد فریقین کو ایک جامع سیاسی بات چیت کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے نامناسب پوزیشن میں ڈال سکتی ہے۔‘‘

تاہم انھوں نے کہا کہ میانمار کی فوج کو جمہوریت کی بحالی کے لیے فوری طور پر ایک جامع سیاسی بات چیت شروع کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’سیاسی رہنماؤں کو رہا کیا جانا چاہیے اور انھیں سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘‘

ہندوستان نے کہا کہ عدم استحکام کے نتائج پڑوسی ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کریں گے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ میانمار کے لیے اپنے خیالات اور نقطہ نظر پر غور کرنا ضروری ہے۔ ہندوستان کی میانمار کے ساتھ تقریباً 1700 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔

کمبوج نے کہا کہ ’’موجودہ بحران کو حل کرنا اور میانمار میں امن، استحکام اور خوش حالی کو برقرار رکھنا ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔‘‘

دریں اثنا اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کے بعد کہا کہ بیجنگ کو قرارداد کے مسودے پر تحفظات ہیں۔ بدھ کی قرارداد میں ’’تمام فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق، بنیادی آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کا احترام کریں۔‘‘

لیکن ژانگ نے کہا کہ ’’مسئلے کا کوئی فوری حل نہیں ہے‘‘ اور سلامتی کونسل کے لیے یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ میانمار کے بارے میں باضابطہ بیان اپنائے۔

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے کہا کہ ماسکو نہیں سمجھتا کہ میانمار کی صورت حال بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس سلسلے میں سلامتی کونسل میں میانمار مخالف اقدامات کو فروغ دینا نامناسب اور نقصان دہ ہے۔‘‘