پروفیسر محسن عثمانی ندوی
بیعت رضوان کا سبق: کسی کو مظلوم نہیں چھوڑا جاسکتا
سیرت رسول، اللہ کی مدد کے واقعات سے بھری پڑی ہے، غزوہ بدر میں جب صنادید قریش مارے گئے تو پورا مکہ ماتم کدہ بن گیا۔عمیر نے غصہ میں طے کیا کہ مدینہ جاکر رسول اکرمؐ کا خاتمہ کردے۔ اس سلسلہ میں اس کی صفوان سے مشاورت ہوئی۔ صفوان نے عمیر سے اس کے بال بچوں کی کفالت کا وعدہ کیا کیونکہ یہ مہم آسان نہ تھی، لیکن عمیر نے تلوار زہر میں بجھائی اور برے ارادے سے مدینہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ مدینہ میں حضرت عمر نے اسے پکڑ لیا اور رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں پیش کیا۔ رسول اللہ نے اس سے پوچھا عمیر تم نے مکہ میں صفوان کے ساتھ مل کر کیا سازش کی تھی؟ عمیر کے ہوش اڑ گئے۔ صفوان کے ساتھ گفتگو میں تو کوئی بھی شریک نہیں تھا، رسول اللہ کو کیسے اس واقعہ کی خبر ہوگئی؟ اس کے دل نے کہا یقینا یہ پیغمبر ہیں اور اللہ تعالی انہیں تمام باتوں کی خبر دیتا ہے۔ چنانچہ عمیر نے اسلام قبول کرلیا۔ مکہ والوں کو خبر ہوئی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ مکہ والے سمجھ رہے تھے کہ عمیر اپنی مہم میں کامیاب ہوکر اب واپس آتا ہوگا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ جو لوگ اللہ کے دین کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ان پر اللہ کی مدد اسی طرح نازل ہوتی ہے۔
اب قریش نے عرب کے بعض قبائل کو مدینہ کے خلاف کارروائی پر اکسایا۔ بہت سے قبائل قریش کی باتوں میں آگئے اور ایک قبیلہ نے کچھ لوگوں کو رسول اللہ کے پاس مدینہ بھیجا اور کہا کہ قبیلہ کے لوگ مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں، دین اسلام کی تعلیم کے لیے آپ کچھ مسلمانوں کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے دس مسلمان ان کے ساتھ کر دہے۔ قبیلہ کے لوگ جب ان دس معلموں کو لے کر اپنی آبادی میں پہنچے تو ان مسلمان معلموں پر حملہ آور ہوگئے اور دس مسلمانوں میں آٹھ کو قتل کردیا اور دو کو مکہ والوں کے ہاتھ فروخت کردیا۔ یہ دو مسلمان حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدؓ تھے۔ ان دونوں مسلمانوں کو مکہ والوں نے اذیت دے کر مارا، سولی پر چڑھایا آخر وقت تک یہ پیشکش کی کہ اگر تم دونوں دین اسلام چھوڑ دو اور آبائی دین میں واپس آجاو تو تمہاری جان بچ سکتی ہے۔ ان واقعات کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے قیامت تک کے لیے نمونہ پیش کیا ہے کہ حالات اگر مخالف ہوں تو کیسے ثابت قدم رہنا چاہیے۔ یہ ایسا ہی واقعہ ہے جس طرح ہندوستان میں کہا جاتا ہے جے شری رام کے نعرے لگانے کے لیے تیار ہوجاو تو تمہاری گلو خلاصی ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں اللہ کے بندے اپنے دین سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور موت کو گلے لگالیا۔ اسی طرح کی ثابت قدمی کی ہندوستان میں ضرورت ہے۔ ایسے ہی ایمان کی ضرورت ہے تاکہ اللہ کی مدد نازل ہو ۔
بدر کے معرکہ کے بعد مشرکین مکہ انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ وہ مدینہ کو نیست نابود کردینا چاہتے تھے وہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ بدر کی شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ چنانچہ پوری تیاریوں کے ساتھ وہ حملہ آور ہوئے، مدینہ کے مسلمانوں نے احد کے پہاڑ کے پاس مورچہ بندی کی، لڑائی کے لیے صف بندی ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ حضورؐ نے سعدؓبن و قاص اور ابوعبیدہؓ بن جراح کو سامنے کے دستہ پر متعین کیا۔ کفار مکہ نے میمنہ کا کمانڈر خالد بن ولید کو بنایا جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوے تھے۔ میسرہ کی کمان عکرمہ بن ابو جہل کے سپرد کی گئی اور قلب فوج میں ابو سفیان کو متعین کیا گیا جنگ کا آغازہوا اور دونوں طرف کے بہادر داد شجاعت دینے لگے۔ اس جنگ میں مسلمان شروع میں غالب تھے، بعد میں جب یہ خبر پھیلی کے مسلمان اس جنگ میں فاتح و منصور رہے ہیں تو پھر تیر اندازوں کے گروہ نے پہاڑی کو خالی چھوڑ دیا اور مال غنیمت لوٹنے میں لگ گئے حالانکہ حضورؐ نے تاکید کی تھی کہ کوئی بھی اس پہاڑی کو چھوڑ کر نہ جائے۔ بھاگتی ہوئی فوج کے کمانڈر خالد بن و لید نے جب دیکھا کہ پہاڑی کی طرف مسلمان تیر انداز اپنی جگہ چھوڑ چکے ہیں تو انہوں دوبارہ واپس ہوکر حملہ کردیا اور پھر مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ خود حضور اکرمؐ زخمی ہوئے۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر کے حکم سے معمولی سرتابی بھی کس قدر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، اس جنگ کے پہلے مرحلہ میں مسلمان فاتح اور کامیاب تھے دوسرے مرحلہ میں مسلمانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن جنگ ختم ہوئی کفار مکہ واپس ہوئے اور مسلمان مدینہ لوٹ گئے۔ حضرت حمزہ اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ مسلمان عورتوں تک نے اس جنگ میں بڑی پامردی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے مشکیزوں سے زخمیوں کو پانی پلایا۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ عورتوں کو جنگ کی ٹریننگ بھی دی
جانی چاہیے اور انہیں نرسنگ کا کام بھی سکھانا چاہیے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی سوسائٹی میں عورتوں کو اس طرح کی ٹریننگ معیوب سمجھی جاتی ہے۔ اس جنگ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں کبھی اگر غم انگیز واقعہ پیش آجائے تو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
قریش غزوہ احد میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے اس لیے پھر انہوں نے تمام قبائل کو ملاکر مدینہ پر چڑھائی کی۔ حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے حملہ کو روکنے کے لیے خندق کھودی گئی اسی لیے اسے غزوہ خندق کہتے ہیں۔ حضور اکرمؐ ہر موقع کے لیے مناسب دفاعی کارروائی کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ بات مناسب نہیں کہ دشمن مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کا منصوبہ بنائیں دھرم سنسد منعقد کریں اور مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور دفاع کا کوئی منصوبہ نہ بنائیں اور صرف مسجدوں میں نفل نمازیں پڑھنے کو کافی سمجھ لیں۔ یہ دین اسلام کا نا کافی اور نادرست تصور ہے۔ باہمی مشورہ سے خود حفاظتی کی تدبیریں اختیار کرنا بھی دین ہے۔ غزوہ خندق میں خود حضور اکرمؐ سب کے ساتھ ایک مزدور کی طرح کام کر رہے تھے۔ دنیا میں مزدوروں کے بڑے بڑے ترقی پسند کمیونسٹ لیڈر پیدا ہوئے لیکن وہ اس مساوات کا ثبوت نہیں دے سکے۔ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو تو معجزاتی باتیں بھی ظہور پذیر ہوتی ہیں پتھروں پر ضرب سے جو چمک ہوتی اس میں پیغمبر نے مصر و شام اور ایران کی سرحدوں کو دیکھا یعنی خوشخبری تھی کہ یہ ملک مسلمانوں کے لیے فتح ہوں گے۔ اس سے پہلے ہجرت کے سفر میں آپ نے دیکھا تھا کہ سراقہ کے ہاتھ میں شہنشاہ ایران کے کنگن ہیں۔ پیغمبر کے لیے معجزاتی طور پر اطمینان قلب کے لیے مستقبل کو حال بنا دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے سرداران قریش کے محاصرہ کے وقت آپ گھر سے باہر نکل آئے اور محاصرہ کرنے والوں کی آنکھیں آپ کو نہیں دیکھ سکیں۔
غزوہ خندق میں کافروں کی اجتماعی کوشش اور تمام عربوں کو اکٹھا کرنے کی سازش بھی ناکام ہو گئی اور اللہ تعالے نے ایسی آندھی بھیجی کہ کافروں کے خیمے اکھڑ گئے۔ زمین اور آسمان اور ہوائیں سب اللہ کے لشکر ہیں وللہ جنود السموات والارض۔ جب انسان اللہ کو راضی کرلیتا ہے تو یہ سارے لشکر اس کی مدد پر اتر آتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اللہ کے حکموں کی بجا آوری کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اللہ کی مدد کیسے نازل ہوگی۔ کامیابی کی دو شرطیں ہیں ایک اللہ کے حکم کی تعمیل اور چونکہ یہ دنیا دار الاسباب ہے اس لیے دوسری شرط ہے وقت پر مناسب تدبیر اختیارکرنا۔ جو گروہ دونوں شرطوں کو پورا کرے گا اسی کو فتح حاصل ہوگی۔ الغرض اس بار بھی قریش کی کوشش ناکام ہوگئی اور مشرکین غزوہ خندق سے نا مراد لوٹے۔
اب جب حج کا موسم آیا تو حضور (ﷺ) چودہ سو صحابہ کے ساتھ حج کے ارادہ سے نکلے۔ قربانی کے لیے اونٹوں کی قطاریں تھیں، ہاتھ میں تلوار تھی لیکن نیام میں بند۔ اس زمانہ میں کوئی گھر سے باہر نکلتا تو اس کے ہاتھ میں تلوار ضرور ہوتی۔ تلوار ثقافت و تہذیب کا حصہ تھی۔ جس طرح بعض ملکوں میں جہاں بارش بہت ہوتی ہے لوگ چھتری لے کر نکلتے ہیں۔ اسی طرح تلوار عربوں کی تہذیب اور ثقافت کا حصہ تھی۔ مکہ والوں کو خبر ہوئی کہ مدینہ سے مسلمان حج کے ارادے سے آرہے ہیں تو آگ بگولہ ہو گئے کہ ان کو یہ ہمت کیسے ہوگئی کہ وہ مکہ آئیں۔ وہ حج کا ارادہ کریں گے تو ان کے آنے سے بہت سے مکہ والوں کو اسلام کی جانب کشش ہوگی اسلام میں بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ طاقت اب بھی موجود ہے اگر مسلمانوں کے اخلاق اچھے ہوں۔ قریش کو ڈر تھا کہ پھر مکہ میں بہت سے لوگ مسلمان ہوجائیں گے اور آسانی سے انہیں اب مدینہ میں پناہ مل جائے گی۔ مکہ میں غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی کہ مسلمانوں کو نہیں آنے دینا ہے۔ رسول اللہ کو کافروں کی نقل وحرکت کی اطلاع ملتی رہی۔ قریش نے عروہ بن مسعود کو بات چیت کے لیے رسول اللہ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے صلح کے لیے حضورؐ سے گفتگو کی تاکہ مسلمان مکہ آنے سے باز آجائیں اور حدیبیہ سے ہی واپس لوٹ جائیں۔ عروہ جب واپس ہوئے تو انہوں نے رپورٹ دی کہ اہل دولت وثروت کا ذکر ہی کیا ہم نے تو نجاشی کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر وکسری کی شان خسروی بھی دیکھی ہے لیکن محمد کے ساتھی ان کا جتنا احترام کرتے ہیں ایسا احترام ہم نے کہیں نہیں دیکھا۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ پانی کے قطرے تک زمین پر گرنے نہیں دیتے۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو لوگ دین اسلام کے نمائندہ ہوں اور صحیح معنوں میں دینی قائد ہوں ان کا احترام کرنا چاہیے۔ ان سے سوال بھی کیا جا سکتا ہے ان پر اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے لیکن احترام ملحوظ رکھتے ہوئے۔ ایک تو اس لیے کہ ہر شخص کا ادب ملحوظ رکھنے کا حکم ہے دوسرے اس لیے کہ وہ دینی قائد ہیں۔مصالحت کی بات چیت جار ی تھی، قریش نے بھی اپنا نمائندہ بھیجا، مسلمانوں نے بھی اپنا نمائندہ بھیجا، قریش کے لوگوں نے جن اشخاص کو بھیجا تھا انہوں نے ظلم وزیادتی کی کوشش کی ان سب کو گرفتار کرلیا گیا تھا، لیکن رحمت عالم نے ان سب کومعاف کردیا اور واپس کردیا۔ رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ حج کی نیت سے آئے تھے چھیڑ خانی اور لڑائی کا کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے پھر صلح کی بات چیت کے لیے آپ نے حضرت عثمان غنیؓ کو مکہ بھیجا۔ مکہ کے لوگوں نے پھر زیادتی کی اور حضرت عثمان کو نظر بند کر دیا۔ جب کوئی واقعہ کہیں پیش آتا ہے تو لوگ نمک مرچ لگا کر غلط باتیں بھی مشہور کر دیتے ہیں چنانچہ یہ بات مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان قتل کردیے گئے۔ حضور کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا عثمان کا قصاص لینا فرض ہے۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ قتل کی خبر صحیح نہیں ہے لیکن آپ نے خبر سن کر یہ کہا تھا کہ قصاص لیا جائے گا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملا کہ مسلمانوں میں کسی پر ظلم ہو، کسی کو قتل کردیا جائے تو خبر سن کر خاموش بیٹھ جانا بھی ایک جرم ہے اور بے غیرتی کی بات ہے۔ کچھ نہیں تو پولیس کی کارروائی کرنا، میڈیا کو متوجہ کرنا، افسران حکومت کو کارروائی پر مجبور کرنا بھی ضروری ہے۔ مظلوموں کو بے یار ومددگار چھوڑ دینا گناہ اور بے غیرتی کی بات ہے۔حضور اکرمؐ نے شہات کی خبر سن کر صحابہ سے جو بیعت لی اسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمان مدینہ سے دور تھے سامان جنگ نہیں تھا لیکن یہ گوارا نہیں کیا گیا کہ قصاص نہ لیا جائے۔ ملت کے ہر شخص کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے اور یہاں تو معاملہ حضرت عثمان جیسی شخصیت کا تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی لیکن مسلمانوں کو اس سے یہ سبق ملا کہ ہار جیت کی پروا کیے بغیر ملت کے ہر فرد کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے، کسی کو مظلوم نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جو مسلمان مسلمانوں کی مظلومیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ظالم کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں ان کا یہ طریقہ اسلام کے مطابق ہے اور یہی غیرت کا تقاضا بھی ہے۔
ابھی قریش اور مسلمانوں کے درمیان عمرہ کرنے اور نہ کرنے پر فیصلہ نہیں ہوا تھا، بات چیت جاری تھی۔ قریش کی طرف سے گفتگو کے لیے سہیل بن عمرو آئے۔ یہ گفتگو حدیبیہ کے مقام پر ہوئی جو مکہ سے چند میل پر واقع تھا۔ مسلسل گفت و شنید کے بعد حضرت علیؓ کوحکم ہوا کہ معاہدہ قلم بند کریں۔ انہوں نے عربی میں تحریر کیا ’’یہ وہ معاہدہ ہے جسے محمد رسول اللہ نے مان لیا ہے‘‘ اس جملہ پر قریش کے سفیر سہیل نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو اللہ کا پیغمبر اور رسول نہیں مانتے اگر مان لیتے تو جھگڑا کس بات کا تھا؟ اس لیے رسول اللہ کا لفظ نکال دیا جائے۔ بات جب زیادہ بڑھی تو حضورؐ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دیں۔ حضرت علی نے کہا حکم سر آنکھوں پر لیکن رسول کا لفظ مٹانا میرے لیے ممکن نہیں ہے ۔معلوم ہوا کہ دین سے وابستگی میں جذبات کا بھی مقام ہے۔ اگرچہ رسول اللہ نے اپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹا دیا جس پر قریش کے سفیر کو اعتراض تھا۔ معاہدہ کے رو سے حج آئندہ سال ہوگا اور مسلمان تین روز سے زیادہ نہیں ٹھیریں گے۔ نیام میں بند تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں لائیں گے۔ مکہ سے کوئی شخص اگر مدینہ گیا تو اس کو واپس کردیا جائے گا اگر مدینہ سے کوئی مکہ آیا تو اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ کوئی مسلمان جو پہلے سے مکہ میں رہتا ہو اس کو اپنے ساتھ مدینہ نہیں لے جائیں گے۔ ابھی یہ ناہموار غیر منصفانہ معاہدہ لکھا جارہا تھا اور ابھی معاہدہ پر دستخط بھی نہیں ہوئے تھے کہ سہیل کے بیٹے ابو جندل بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آہ وزاری کرتے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور فریاد کرنے لگے۔ کہا کہ میں آپ سب کے ساتھ مدینہ جاوں گا۔ مکہ کے سفارتکاروں کا اصرار تھا کہ ابوجندل کو مدینہ نہیں جانے دیا جائے گا۔ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ ابھی معاہدہ پر دستخط نہیں ہوئے ہیں لیکن مکہ کے سفیروں نے بات نہیں مانی۔ ابو جندل کی فریاد و فغاں کام نہیں آئی۔ یہ معاہدہ نابرابری کا معاہدہ تھا، صحابہ بہت مغموم تھے، مظلوم ابو جندل کے واپس کیے جانے پر انہیں بہت ملال تھا۔ معاہدہ کی تمام شرطیں کافروں کے حق میں تھیں اور مسلمانوں کو دب کر صلح کرنی پڑی تھی لیکن اس صلح کے بعد کافروں کی ایک بڑی تعداد اسلام سے مشرف ہوئی اس میں خالد بن ولید بھی تھے اور عمرو بن عاص بھی تھے۔ اس صلح کے نتیجہ میں دوریاں ختم ہوئیں اور کافروں کو مسلمانوں کی معاشرت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ انہیں محسوس ہوا کہ زمین پر اخلاق وشرافت کے پھولوں کی نرسری وجود میں آگئی ہے۔ دین اسلام کی صداقت بوئے گل کی طرح ہر طرف پھیلنے لگی۔ ہندوستان میں مسلمان اگر خود کو اخلاق کا گلدستہ بنالیں اور انسانیت کے پھولوں سے خود کو آراستہ کرلیں خدمت خلق کے کاموں میں بہت نمایاں ہوں اور برادران وطن سے ان کے تعلقات بہتر ہوجائیں تو ایک انقلاب اس ملک میں بھی آسکتا ہے۔(جاری)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023