مطالعہ سیرت (سیریز۔ 1)

پیغمبر انقلابکی زندگی۔ بچپن سے بعثت تک

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

اعلیٰ ترین اخلاق ، حکمت کے ساتھ دعوت وموعظت ، صبروثبات اور استقامت کے اسباق
  دنیا میں بہار اور خزاں کا موسم آتا رہتا ہے لیکن رحمۃ للعالمین کی بعثت سے دنیا میں جو بہار آئی ایسی بہار نہ پہلے کبھی دنیا کی تاریخ میں آئی نہ اس کے بعد آس کی۔ آپ کے ذریعہ جو انقلاب آیا اس سے بڑا انقلاب دنیا کی تاریخ میں نہیں آیا ۔مشہور مصنف مائیکل ایچ ہارٹ کی کتاب The Hundred کے نام سے شائع  ہوئی ہے۔ اس کتاب میں تاریخ انسانی کی سو عظیم شخصیتوں کے نام اور حالات درج ہیں۔ مصنف نے جو خود عیسائی ہیں ترتیب میں پہلا مقام حضرت محمد (ﷺ) کو دیا ہے اور ان کو پیغمبر انقلاب قرار دیا ہے یعنی دنیا کی تاریخ میں کسی شخصیت کو اتنے کم عرصہ میں ایسی زبردست کا میابی نہیں ملی جیسی کہ آپ کو ملی۔ آپ تاریخ کے پہلے شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے۔ مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی۔
   آپ (ﷺ) کی پیدائش مکہ میں ہوئی۔ پورا جزیرۃ العرب شرک اور بت پرستی کا گہوارہ تھا۔ یمن میں کواکب پرستی کا زور تھا۔ حمیر کا قبیلہ سورج کی پرستش کرتا تھا جیسے ہندوستان میں بھی سوریہ نمسکار کے ذریعہ سورج کی پوجا ہوتی ہے۔ کنانہ کا قبیلہ چاند کی پوجا کرتا تھا۔ اسی طرح سے الگ الگ قبیلوں کے خدا الگ الگ تھے کہیں مشتری کی پوجا ہوتی تھی کہیں عطارد کی تو کہیں زہرہ کی۔ دل ودماغ پر شرک چھایا ہوا تھا۔ سارا عرب ہدایت کی روشنی سے محروم تھا۔ بے جان مورتیوں کی پوجا ہوا کرتی تھی۔ آخرت کے تصور سے قوم نابلد تھی۔ فسق وفجور اور سیاہ کاری میں ڈوبی ہوئی تھی۔ شجاعت تھی لیکن وہ باہم خون ریزی میں صرف تھی۔ قتل وغارت گری دن رات کا مشغلہ تھا۔ شراب گویا ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ جوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی ل۔ قمار بازی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ لڑکیوں کی پیدائش کو چھپاتے تھے اور اسے عار سمجھتے تھے۔ فحش کلامی اور عریاں شاعری جس میں ہوس ناکی ہوتی بہت مقبول تھی۔ ان کی جلوتیں اور خلوتیں فحش کاری سے معمور تھیں۔
اس سراپا معصیت کے ماحول میں عبدالمطلب کے حفید، عبداللہ کے فرزند، آمنہ کے لال محمدؐ نے پرورش پائی اور خوش اخلاقی اور نیک عملی کے ساتھ عہد طفلی اور عہد جوانی گزارا۔ دنیا کے اندھیرے میں یہی ایک چراغ تھا جس کی زندگی میں کسی گناہ کا اندھیرا نہیں تھا۔ کنکروں اور پتھروں کے درمیان یہ ایک گوہر بے بہا تھا۔ ببول کے ماحول کے درمیان آپ کی ذات گلاب کے پھول کی مانند تھی۔ آپ کی ذات ہدایت کا روشن چراغ تھی، مینارہ نور تھی، مجموعہ خوبی تھی، مجموعہ اخلاق تھی جس کی کوئی مثال نہ عرب میں تھی نہ عجم میں تھی۔ قوم نے ان کے اخلاق عالیہ کو دیکھ کر صادق اور امین کا خطاب دیا تھا، ہر طرف آپ کی تعریفیں تھیں، ہر زبان آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھی، آج تک کسی کی اتنی تعریفیں نہیں سنی گئی تھیں۔ دنیا بت پرستی میں غرق تھی لیکن نبوت سے پہلے بھی آپ کا دامن شرک سے آلودہ نہیں ہوا کیونکہ شرک اور بت پرستی کے لیے عقل سے مکمل محرومی درکار ہوتی ہے۔ جو مشرک  ہوتے ہیں وہ حقیقت میں محروم عقل ودانش ہوتے ہیں۔ آپ کی عقل پر لوگ بھروسہ کرتے تھے، آپ کی اصابت رائے اور انصاف پروری تھی کہ قریش کے قبیلوں کے درمیان خون ریزی نہ ہوسکی کیونکہ آپ نے غلاف کعبہ کو اپنی جگہ پر رکھنے کا عقل محکم کے ذریعہ فیصلہ کیا اور تلواریں پھر نیام میں واپس چلی گئیں۔ خون ریزی رک گئی، آپ ہی کو قوم نے اپنا ثالث بنایا تھا حجر اسود نصب کر دیا گیا۔ آپ نے اس سعادت میں سب کو شریک کرلیا۔
  بچپن میں ابو طالب نے اپنے یتیم بھتیجے کی کفالت کی، آپ نے جنگل میں بکریاں بھی چرائیں۔ بچپن کے راعی غنم کو آگے چل کر راعی قوم ہونا تھا، آپ نے اپنے چچا کے ساتھ تجارت کے سلسلہ میں شام کا سفر بھی کیا۔ آپ کی دیانت اور خوش معاملگی کے چرچے ہونے لگے۔ لوگوں کی نظروں میں آپ نہایت شریف نوجوان تھے، حضرت خدیجہ نے جو ایک دولت مند بیوہ خاتون تھیں، ان کا تجارتی کاروبار تھا آپ (ﷺ) کی خدمت میں پیام بھجوایا کہ وہ اپنا مال تجارت ان کے ذریعہ شام بھیجنا چاہتی ہیں، عورتوں کے لیے تجارت اور کسب مال اسلام میں بھی درست ہے۔ آپ نے اس آفر کو قبول فرمالیا۔ آپ سامان تجارت لے کر گئے اور غیر معمولی منافع لے کر واپس ہوئے۔ حضرت خدیجہ آپ کی معاملہ فہمی اور دیانت سے بہت متاثر ہوئیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی ویران زندگی میں حضرت محمدؐ سے بہتر اور کوئی دوسرا شخص نہیں آسکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں ادب کے ساتھ شادی کا پیغام بھجوایا جسے آپ نے قبول کرلیا تاکہ حضرت ابو طالب کی مالی کفالت کی ضرورت باقی نہ رہے۔ حضرت خدیجہ کی ضرورت پوری ہوئی کہ ان کے تجارتی کاروبار کے لیے ایک مستقل مددگار مل گیا۔ دونوں کو سکون ملا، دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار بن گئے۔
بچپن سے حضرت محمدؐ میں شرافت واخلاق کی تمام خوبیاں موجود تھیں، یہ خوبیاں اس لیے ودیعت کی گئی تھیں کہ آئندہ آپ کو پیغمبر اخلاق کے مرتبہ پر فائز ہونا تھا اور مکارم اخلاق کی تکمیل کا کام قدرت ان سے  لینے والی تھی، اور اب وہ ساعت ہمایونی قریب آگئی تھی۔ اب آپ کے دن رات غور وفکر میں گزرنے لگے اور اس غور وفکر کا آپ کو اتنا اہتمام تھا کہ گھر سے کھانے پینے کا سامان لے کر قریب کے پہاڑ کے غار میں چلے جاتے اور محاسبہ ومراقبہ اور تفکر وتدبر میں مصروف ہو جاتے تاکہ کائنات کی حقیقت کبری اور عالم کا سر نہاں آشکار ہو اور معلوم ہو کہ کائنات کاخالق ومالک کون ہے۔ آپ پر غور وفکر اور استغراق کی کیفیت طاری ہونے لگی، اسی کیفیت کی قرآن نے تشریح کی ہے وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى اس سے مراد یہی بے سکونی اور تلاش کی سرگشتگی ہے
   اب انتظار کے لمحات ختم ہوگئے۔ حضرت جبرئیلؑ رب السماوات والارض کا پیام لے کر آگئے اور حکم ہوا اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَ‌ۚ
یعنی پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ کائنالت کے خالق و مالک کا حکم آگیا۔ جس حقیقفت کبری کی تلاش تھی وہ مل گئی، اس عظیم واقعہ کے بعد جب آپ گھر تشریف لائے تو آپ پر لرزہ طاری تھا۔ آپ نے حضرت خدیجہ کو کہا زملونی زملونی مجھے اڑھادو  مجھے اڑھادو۔ یہ وحی الہی کی کیفیت تھی، یہ تجلی کا ظہور تھا جسے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ان روحانی کیفیات اور غیبی اسرار کو سمجھنا اور سمجھانا آسان کام نہیں ہے۔
  آپ غار حرا سے حضرت خدیجہ کے مکان میں آئے، پیشانی پسینہ سے عرق آلود تھی۔ حضرت خدیجہ نے آپ کے کہنے سے چادر اڑھا دی پھر وہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک خدا شناس بزرگ تھے۔ انہوں نے واقعہ سن کر کہا ’’یہ وہی ناموس ہے جو انبیاء بنی اسرائیل پر نازل ہوا کرتا تھا‘‘ ورقہ بن نوفل عیسائی بزرگ تھے انہیں حضرت عیسی کی اس پیشین گوئی کا علم رہا ہوگا، انہوں نے کہا تھا اللہ نے مجھے آنے والے نبی سے پہلے اس کا مبشر بنا کر بھیجا ہے جو میرے بعد آئے گا۔ ورقہ بن نوفل نے کہا ’’محمد، میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں‘‘حضرت خدیجہ نے آپؐ کو اطمنان دلایا کہ آپ غریبوں کی مدد کرتے ہیں مسافروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں، مسیکنوں اور غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، آپ کے اندر اتنی اچھی صفات ہیں۔ اللہ نے جس کے اندر اتنی اچھی صفات رکھی ہوں وہ اسے ضائع نہیں ہونے دے گا۔ حضرت خدیجہ کا بیان اس لائق ہے کہ اس پر غور کیا جائے۔ جو شخص دعوت کی ذمہ داری کو اٹھانا چاہتا ہے اسے غریبوں کا ہمدرد اور اخلاقی خوبیوں کا مرقع ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر دعوت کامیاب نہیں ہوتی۔
  جو واقعات پیش آئے وہ اس بات کا اشارہ تھا کہ حضرت محمدؐ اب منصب رسالت پر فائز کیے گئے ہیں، اب ان کے ذمہ انسانوں کی ہدایت ہے اور خدا کا پیغام پہنچانا ہے۔ حق کی تبلیغ کرنی ہے اور ایک خدا کی بندگی و اطاعت کی سب کو دعوت دینی ہے۔ بت پرستی اور شرک سے سب کو روکنا ہے۔ جہنم کی آگ سے سب کو ڈرانا ہے۔ آپ کو حق کے اعلان پر مامور کیا گیا اور آپ کو نبوت کے سلسلہ کا آخری پیغمبر بنایا گیا۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہے، اب قرآن ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ پیغمبر کی تعلیمات محفوظ رہیں گی، اب اس دین کو پھیلانے اور اس کی اشاعت کی ذمہ داری رسول کی امت کے سپرد کردی گئی ہے، جو کام آخری پیغمبر نے انجام دیا ہے اب ہمیشہ اس کام کو اس امت کو انجام دینا ہے۔ اب شرک اور بت پرستی سے روکنا اس امت کی ذمہ داری ہے۔ حضور اکرم (ﷺ) حکم کے بعد صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور لوگوں کو آوازدی۔ یہ عجیب واقعہ تھا، اس آواز کو سن کر لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ لوگ آپ کو صادق اور امین سمجھتے تھے۔ لوگوں نے سوچا کوئی خاص بات ہوگی جس کی وجہ سے آپ نے ہمیں آواز دی ہے۔ داعی کو یہ کام تو انجام دینا ہے، اسے لوگوں کو بلانا ہے، ان کے سامنے آخرت کی سچائی بیان کرنی ہے، ان کو بت پرستی سے روکنا ہے، مورتیوں کی پرستش سے منع کرنا ہے۔ شروع میں جھجھک ہوگی خوف بھی ہوگا، مخالفت کا ڈر بھی ہوگا لیکن اس امت کو یہ کام بہرحال انجام دینا ہے ورنہ یہ امت خیر امت کے لقب کی مستحق نہیں ہوگی۔ افسوس کہ یہ امت خیر امت کے لقب کی مستحق نہیں رہی کیونکہ وہ اس کام کے لیے تیار نہیں ہے۔ خیر امت کا لقب تو اس وقت اسے زیب دیتا جب وہ توحید کی دعوت دینے والی امت ہوتی وہ تو مندروں کے سامنے سے گزرتی ہے بتوں کی پوجا ہوتے ہوئے دیکھتی ہے لیکن اسے خیال بھی نہیں ہوتا کہ توحید کی دعوت دینا اس کا فرض منصبی ہے بت پرستی سے روکنا اور لوگوں کو سمجھانا اس کے ذمہ ہے۔
رسول اللہ (ﷺ) نے صفا کی پہاڑی سے آواز دی اور کہا ’’میں پہاڑ کے دونوں طرف دیکھ رہا ہوں اگر میں یہ کہوں کہ ایک مسلح لشکر آرہا ہے جو مکہ پر چڑھائی کرے گا تو کیا تم اس کا یقین کرو گے؟‘‘ سب نے کہا ’’آپ سچے ہیں صادق القول ہیں ہم کیوں نہیں یقین کریں گے‘‘ یہ ایک تمثیل تھی پیغمبر جس مقام پر ہوتا ہے، اس مقام سے آخرت کا منظر نظر آتا ہے گویا وہ بلند ٹیلہ ہوتا ہے جہاں سے آگے اور پیچھے کا منظر نظر آتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا ’’تم یقین کرلو کہ مرنے کے بعد ایک دوسری زندگی ہے اور تمہیں خدا کی سامنے حاضر ہونا ہے‘‘ مشرکین مکہ کے لیے یہ پیغام انوکھا تھا، وہ انکار کے ساتھ گھروں کو واپس ہوئے، وہ حضرت محمدؐ کو سچا بھی مانتے تھے مگر آخرت پر یقین کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اور آج مسلمان آخرت کی دعوت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، تو پھر ’’خیر امت‘‘  کے لقب کے بھی مستحق نہیں ہیں۔
   کوہ صفا پر اعلان کے بعد رسول اللہ (ﷺ) نے تبلیغ عام کردی، گلی کوچوں میں بازاروں میں سڑکوں اور چوراہوں پر میدانوں میں ہر جگہ آپ نے توحید کی منادی شروع کردی۔ کیا سیرت طیبہ ہمیں اس بات کی دعوت نہیں دیتی کہ ہم بھی ایسا کریں۔ آپ نے قریش کے سرداروں کی دعوت کی اور ان کو شرک سے روکا اور یہ کہا کہ خدا کو ایک مانو اور بتوں کی پوجا مت کرو۔ آج ہم میں کوئی بھی کہیں بھی کسی وقت بھی توحید کا اعلان نہیں کرتا، بت پرستی سے لوگوں کو نہیں روکتا، آخری نبی سے محبت کا دعوی ہر مسلمان کرتا ہے اور سیرت النبی کے جلسے منعقد کرتا ہے ان جلسوں میں بھی غیر مسلم بھائیوں کو نہیں بلاتا ہے، صرف نبی اکرم سے محبت کا زبانی دعوی کرتا ہے، خالی خولی دعوی۔ شرک سے روکنے اور بت پرستی سے منع کرنے کا اسے خیال تک نہیں آتا ہے۔ صرف رسول اکرم سے وابستگی پر فخر کرتا ہے۔ یہ مسلمانوں کا حال ہے۔ شرک اور بت پرستی سے نفرت صرف زبانی ہے۔
  قبول حق کی راہ میں خاندانی عصبیتیں حائل تھیں، موروثی عقائد سے پیچھا چھڑانا  مشکل ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت باپ دادا کے راستہ کو نہیں چھوڑتی۔ باپ دادا کے طریقوں کی مخالفت کرنے والوں کی دشمن بن جاتی ہے۔ قریش بھی آپ کے جانی دشمن بن گئے اور جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان کو ستانا شروع کیا۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھاکہ جسے نبوت ملے اسے دولت مند ہونا چاہیے اور اس کی زندگی عام انسانوں سے مختلف ہونی چاہیے، وہ اگر عام انسانوں کی طرح کھاتا ہے پیتا ہے سوتا ہے تو پھر وہ نبی نہیں ہے۔ آپ نے اپنے خاندان کی دعوت کی انہیں کھانے پر بلایا اور اس دعوت میں انہوں نے حق کا پیغام سنایا۔ آپ کی مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں صرف چند ہی لوگ ایمان لا سکے، آزاد مردوں میں حضرت ابوبکرؓ، بچوں میں علیؓ بن ابی طالب، عورتوں میں حضرت خدیجہؓ، موالی میں زیدؓ بن حارثہ اور غلاموں میں حضرت بلالؓ حبشی۔ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کے کام کے لیے تعلقات اور روابط کا ہونا بہت ضرری ہے، اگر یہ روابط نہیں ہوتے تو آپ تمام لوگوں کو صفا کی پہاڑی کے پاس کیسے بلاتے اور اپنے یہاں کھانے پر کیسے مدعو کرتے۔ صلح حدیبیہ کے بعد مشرکین کی ایک تعداد نے اسلام قبول کیا، وہ مسلمانوں کی معاشرت اور اخلاق کو دیکھ کر مسلمان ہوے تھے، اس لیے دعوت کے کام کا پہلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ اچھے اور خوشگوار تعلقات قائم کیے جائیں۔
حق کی دعوت کا کام پھولوں کی سیج نہیں ہے یہ خار زار ہے اور اس پر چلنا آسان نہیں ہے۔ آپ سے پہلے بھی پیغمبر آئے، ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے توحید کی دی ہو اور لوگ فورا ایمان لے آئے ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ نے دعوت پیش کی، آپ کی مخالفت میں خود آپ کا باپ آذر پیش پیش تھا، پوری قوم نے آپ کی دعوت کا مذاق اڑایا، چاند سورج اور بتوں کی پوجا کرنے والی قوم بگڑ گئی، قوم بادشاہ کو خدا سمجھتی تھی اور بادشاہ کے کہنے پر عمل کرتی تھی۔ قوم اسلاف کے راستہ سے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ حضرت موسیؑ نے جب توحیدکی دعوت پیش کی تو فرعون اور اس کے درباریوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ حضرت عیسیؑ کو ساری کوششوں کے باوجود بارہ آدمی ہی مل سکے تھے۔ قوم کو بتوں سے ہٹانا اور ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینا آسان کام نہیں ہے، لیکن پیغمبروں کا راستہ یہی ہے ،حضرت نوحؑ نے یہی کام کیا تھا اور ساڑھے نو سو سال تک کیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اور تمام پیغمبروں نے یہی کام اپنے اپنے زمانہ میں انجام دیا۔ لیکن ان کی قوموں نے بہت کم ان کا ساتھ دیا۔ اسی طرف  قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے يٰحَسۡرَةً عَلَى الۡعِبَادِ ؔ‌ۚ مَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ (یسین۲۳) افسوس ہے بندوں کے حال پر کہ جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کی ہنسی اڑائی‘‘۔ یہ صرف آخری رسول کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ ان کو اظہار دین یعنی غلبہ دین کی نعمت حاصل ہوئی۔ اب جن کو ورثۃالانبیاء کہا گیا ہے ان کو بھی یہی کام انجام انجام دینا ہے۔ اس راستہ کو چھوڑ کر اگرکوئی شخص دین متین کی شرح لکھے تفسیر لکھنے کا کام کرے حدیث کی شرح مرتب کرے، یہ سب بھی دینی کام ہیں لیکن انبیائی دعوت اس سے مختلف ہوتی ہے۔ پیغمبرانہ کام اس سے الگ ہوتا ہے۔ اب کوئی پیغمبرانہ کام کو لے کر اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے، کئی جلدوں میں تفسیر لکھنے اور حدیث کی شرح مرتب کرنے کے لیے بہت سے لوگ تیار ہوجاتے ہیں، لیکن یہ دین کی حفاظت کا کام ہے وہ اس کا نام دین کی دعوت رکھ دیتے ہیں۔مسلمانوں کے سامنے نماز روزہ کی تلقین کو لوگ دعوت دین سمجھنے لگتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے بہت کم لوگ اٹھتے ہیں جو پیغمبروں کی طرح قوم کو ایک اللہ کی بندگی و عبادت کی دعوت دیں اور ان کو شرک سے روکیں۔ پوری قوم میں دعوت کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ (جاری)
***

 

***

 اب کوئی پیغمبرانہ کام کو لے کر اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے، کئی جلدوں میں تفسیر لکھنے اور حدیث کی شرح مرتب کرنے کے لیے بہت سے لوگ تیار ہوجاتے ہیں، لیکن یہ دین کی حفاظت کا کام ہے وہ اس کا نام دین کی دعوت رکھ دیتے ہیں۔مسلمانوں کے سامنے نماز روزہ کی تلقین کو لوگ دعوت دین سمجھنے لگتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے بہت کم لوگ اٹھتے ہیں جو پیغمبروں کی طرح قوم کو ایک اللہ کی بندگی و عبادت کی دعوت دیں اور ان کو شرک سے روکیں۔ پوری قوم میں دعوت کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023