مطالعہ سیرت (آخری قسط)

پیغمبرانہ مشن کو اختیار کیے بغیر حالات تبدیل نہیں ہوسکتے

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مطالعہ سیرت کے ذریعہ انقلاب محمدی کو سمجھنے اور اپنا لائحہ عمل متعین کرنے کی ضرورت
صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان واپس لوٹے تو خیبر کا معرکہ پیش آیا، خیبر کے یہودی سازشی تھے مکہ اور آس پاس کے عرب قبائل کو وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے پر اکساتے تھے اور مکہ کے مشرکین یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلاتے تھے۔ جنگ احزاب ان ہی لوگوں کے فتنہ وفساد کی وجہ سے برپا ہوئی تھی۔ اب وقت آگیا تھا کہ یہود کی سرکوبی کی جائے ۔دین اسلام راہبوں کا اور بھکشووں کا دین نہیں ہے یہ بیک وقت عبادت بھی ہے اور ریاست بھی ہے، اخلاق بھی ہے اور حکومت وخلافت بھی ہے۔ دین کا متوازن تصور ذہنوں میں بٹھانا ضروری ہے۔ اسلام صرف مسجد میں بیٹھ کر عبادت کرنا اور ذکر کرنا نہیں سکھاتا، کوئی فتنہ سر اٹھائے اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو نقصان پہنچے تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہود اور غطفان کے قبیلہ نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کی تیاریاں شروع کردی تھی ۔ رسول اللہ (ﷺ) کو سازش کا علم ہو گیا انہوں نے صحابہ کو لے کر خیبر کے یہودیوں پر حملہ کردیا ۔یہ حملہ مسلمانوں کے خلاف سازش کی وجہ سے تھا ۔جو حکومت قرب وجوارکی سازشوں سے بے خبر ہو یا خبر ملنے کے باجود کوئی کارروائی نہ کرے وہ مثالی اسلامی حکومت نہیں ہوسکتی ۔خیبر کے چاروں طرف قوم یہود کے قلعے تھے پانچ قلعے تو آسانی سے فتح ہوگئے لیکن آخری قلعہ قموص کا قلعہ تھا۔ حضور اکرم (ﷺ) نے فرمایا کل میں جنگ کی کمان اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں اور جوقموص کے قلعہ کا فاتح ہوگا ۔لوگوں کو انتظار تھا کہ وہ خوش نصیب کون ہے۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی بے قراری بڑھی ۔آپ نے جنگ کا پرچم حضرت علی کے سپرد کیا آپ ہی کے ذریعہ قلعہ قموص فتح ہوا جس کاسردار مرحب تھا جس کی بہادری اور پہلوانی مشہور تھی۔
  شام کے سرحدی علاقہ کاایک رئیس تھا شرحبیل بن عمر۔ آپ نے مدینہ کی اسلامی ریاست سے دنیا کے بہت سے بادشاہوں اور فرماں رواوں کو دعوت اسلام کے خطوط لکھے۔آپ پیغمبر تھے آپ کا فرض منصبی ہی یہ تھا کہ دنیا والوں کو دین توحید کی دعوت دی جائے ۔آپ نے شرحبیل کوبھی دین کی دعوت دی وہ آگ بگولہ ہوگیا اور نامہ بر حضرت حارث کوقتل کردیا ۔آج کل دنیا کی مسلم حکومتیں دنیا کے کسی فرماں روا کو دین کی دعوت نہیں دیتی ہیں اسی لیے کسی ایک حکومت کو بھی اسلامی حکومت نہیں کہا جاسکتاہے ۔رسول اللہ (ﷺ) کوجب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے تین ہزار مسلم سپاہیوں کی فوج حضرت زید بن حارثہ کی قیادت میں روانہ کی ۔حضرت زید ایک غلام تھے جنہیں حضور نے آزاد فرمایا تھا ان کی قیادت میں مہاجرین اور انصارکا قافلہ تھا ۔اسلام میں عزت تو صرف دین اسلام کی عزت ہوتی ہے لیکن مسلمانوں نے خاندان اور برادریوں کو عزت کا معیار قرار دے دیا ہے۔ حضور نے کہہ دیا تھا کہ زید بن حارثہ شہید ہو جائیں تو جعفر طیار فوج کی قیادت سنبھالیں اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ کمان اپنے ہاتھ میں لیں۔ شرحبیل کی فوج کی تعداد بہت زیادہ تھی تقریبا ایک لاکھ۔اور مسلمانوں کی فوج تین ہزار ۔’’کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ ، مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی‘‘۔یہ تھا مزاج جو اسلام نے بنایا تھا۔کوئی موت سے نہیں ڈرتاتھا۔ہر شخص اپنے دل میں شہات کی تمنا رکھتا تھا۔ خود شرحبیل کا لشکر بہت بڑا لشکر تھا ادھر سے قیصر روم نے بھی ایک لشکر مدد کے لیے تیار کردیا ۔مسلمان بہت پامردی اور جانبازی سے لڑے حضرت زید شہید ہوئے، پھرکمان جضرت جعفر طیار کے ہاتھ آئی وہ بھی شہید ہوگئے، پھر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے کمان ہاتھ میں لی وہ بھی عروس شہادت سے ہمکنار ہوئے ۔اس جنگ کے لیے فوج بھیجنا پہاڑ سے ٹکرانا تھا لیکن یہ وہ لوگ تھے جو زندگی کے مقابلہ میں موت کو عزیز رکھتے تھے ۔آخر میں خالد بن ولید نے کمان اپنے ہاتھ میں لی اور اسلامی فوج کو بچا کر واپس لے آئے۔ یہ میدان جہاں گھمسان کارن پڑا تھا اس وقت اردن میں واقع ہے اور یہیں حضرت زید حضرت رواجہ اور جعفر بن طیار کی قبریں بھی ہیں ۔اگر زندگی پر موت کو ترجیح دینے والے مسلمان اس دور میں پیدا ہوجائیں تو اسرائیل کا مسٔلہ ختم ہوسکتا ہے لیکن آہ یہ بزدل عرب قوم۰۰۰یہ قوم اب اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے ۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر بنی خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے تھے لیکن بنی خزاعہ کے لوگوں کو حدود حرم میں قتل کیا گیا اور قتل کرنے والے بنو بکر کے لوگ تھے جو قریش کے حلیف تھے۔ یعنی صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ حضور کے پاس بنو خزاعہ کی طرف سے فریاد پہنچی۔ آپ نے قریش کوخط لکھا کہ بنو خزاعہ کا خون بہا دیا جائے اور قریش بنو بکر کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیں یا پھر یہ اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ قریش کے نمائندوں نے کہا پہلی دونوںشرطیں یعنی خون بہا ادا کرنے کی شرط اور بنو بکر کی حمایت سے ہاتھ اٹھانے کی شرط منظور نہیں البتہ تیسری شرط منظور ہے یعنی اب معاہدہ حدیبیہ ٹوٹ گیا ۔حضور نے مکہ پر فوج کشی کا فیصلہ کیا ۔اسلام میں مداہنت اور خوف اور بے غیرتی کی کوئی جگہ نہیں۔ قریش نے دوبارہ معاہدہ کی تجدید کی کوشش کی لیکن آپ تیار نہیں ہوئے ۔وقت آگیا تھا کہ قریش کی سرزنش کی جائے اور کعبہ کی تطہیر کی جائے۔اور بتوں کو منہدم کیا جائے ۔یہ تھا مناسب وقت پرمناسب فیصلہ۔دانش مندی کاتقاضا ہے کہ ہر کام کو اس کے صحیح وقت پر کیا جائے نہ بے سبب جلد بازی کی جائے نہ بے سبب تاخیر کی جائے ۔قریش مسلمانوں کی فوج دیکھ کر سراسیمہ اور بدحواس ہوگئے ان کے بازوئے شجاعت آج شل ہوگئے تھے ایک جگہ معمولی سا مقابلہ ہوا ،حضرت خالد نے حملہ آوروں کو شکست دی کافروں کے تیرہ آدمی کام آئے یہاں بھی چھیڑ خانی کافروں کی طرف سے ہوئی تھی۔پیغمبر اخلاق نے عام معافی کا اعلان کیا۔ پیغمبر کوئی کارروائی انتقام کے مقصد سے نہیں کرتاہے ۔اس کا مقصد دین اسلام کا فروغ ہوتا ہے وہ جنگ بھی کرتاہے تو اسی مقصد سے کرتا ہے اور صلح بھی کرتا ہے تو اسی مقصد سے۔ حضور نے کعبہ میں داخل ہوکر تمام بتوں کو گرایا اس وقت آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے و جاءالحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ہو اللہ احد کہتے تھے
   مکہ کافتح ہونا دنیا کے فتح ہونے کی تمہید تھی، لیظہرہ علی الدین کلہ اس آیت میں یہ بشارت موجود تھی کہ اس دین کاغلبہ ہوگا اور یہ دین تمام دینوں پر غالب ہوکر رہے گا۔چونکہ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس لیے یہاں ہرکام تدریجی رفتار کے ساتھ انجام پاتا ہے۔ یہ بشارت بھی پوری ہوئی لیکن حضور (ﷺ) کی وفات کے بعد۔ آپ کی دعوتی جدوجہد ۲۳ سال تھی لیکن اس دعوتی جدوجہد کے نتیجہ میں صرف سو سال کے اندرایران اور رومن امپائر زیر نگیں آگیا یعنی ساسانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت پر مسلمانوں کا پرچم لہرانے لگا۔ اس پرانے زمانہ میں ان حکومتوں کی حیثیت وہی تھی جو آج کے زمانہ میں روس امریکہ اور چین اور یورپ کی ہے۔عراق وایران شام وفلسطین اور شمالی افریقہ سب فتح ہوگئے پھر یہ سیلاب مغرب کی سمت بڑھا سسلی( صقلیہ) اسپین ( اندلس) اور پرتگال سب فتح ہوگئے۔ اس کے بعد اسلام کی اندرونی طاقت نے ترکوں اور مغلوں کو کھڑا کیا۔ ترکوں نے قسطنطنیہ ( استنبول)فتح کرلیا اور مشرقی یورپ میں یوگوسلاویا تک پہنچ گئے۔ سولہویں صدی میں مغلوں نے ہندوستان اور افغانستان کے علاقہ میں اپنا اقتدار قائم کیا ۔قرآن میں لیظہرہ علی الدین کلہ میں جو بشارت دی گئی تھی یہ ساری فتوحات اسی کی عملی تفسیر ہے اور اسی سے مسلمانوں کے لیے آئندہ کی راہ بھی متعین ہوتی ہے، یعنی اگر وہ دعوتی جدجہدکی جائے گی جو حضور اکرم (ﷺ) نے انجام دی اور دنیوی تدبیریں بھی اختیار کی جائیں اور اگر پیغمبرانہ مشن کو زندہ کیاجائے گا تو اللہ کی مدد نازل ہوگی۔ قرآن میں ہے ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقداکم یعنی تم اگر اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کوجما دے گا۔
   حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت مسیحؑ تک تاریخ میں جو کچھ پیش آیا اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی تعلیمات میں آمیزش کردی گئی اس لیے اس کا انتظام کیا گیا کہ آپ کی سیرت وفرمودات تا قیامت باقی رہیں ۔یہ خصوصیت کسی اورپیغمبر کو حاصل نہیں ہے۔حضور اکرم سے پہلے جو انبیاء آئے ان کی تعلیمات تاریخ کا حصہ نہیں بن سکیں لیکن آپ کی حیات مبارکہ مدون تاریخ کا حصہ ہے ۔سیکڑوں کتابیں آپ کی زندگی پرلکھی گئی ہیں اورہرزبان میں لکھی گئی ہیں قرآن کریم اور آپ کی تعلیمات کے محفوظ ہوجانے کے بعد یہ دین قیامت تک کے لیے محفوظ ہوگیا ہے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں مہارت پیدا کرکے اسلام کو پوری دنیا میں پھیلایا جاسکتاہے ۔
آپ نے بہترین انسانیت کا نمونہ پیش کیا اور ایسی تعلیمات عطا کیں جوانسانت کو بہترین اخلاق والا بنا سکتی ہیں۔ حضرت ابو ذرغفاریؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ(ﷺ) سے عر ض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے کچھ کلمات نصیحت فرمائیے، چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا: جس عیب کو تو اپنے اندر موجود پاتا ہے اور تجھے اس کا علم ہے تو تجھے اس کا علم ہونا دوسروں کے عیوب کے بیان سے روک دے، اور فرمایا جو کام خود کرتے ہو اس کام کے دوسروں کے کرنے پر اظہار ناراضگی نہ کرو ۔ عیب کے لیے یہی کافی ہے کہ تم اپنے عیب سے ناواقف ہو اور لوگون کے عیب سے واقف ہو۔ اپنے عیب پر خود غصہ نہ آئے اور دوسروں کے عیب پر غصہ آئے ۔ پھر آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینہ پر مارا اور فرمایا کہ تدبیر سے بڑھ کوئی پرہیزگاری نہیں اور حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں( کنزالعمال ۳۔۹۸۹) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسب تدبیر اختیار کرنابھی پرہیزگاری اور بزرگی ہے ۔
   یہ مناسب موقع ہے کہ ہم اسلامی تاریخ کی ابتدا میں مسلمانوں کی ترقی کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسلام جن لوگوں سے پہلے مرحلہ میں مخاطب ہوا یہ وہ لوگ تھے جو جنگ و جدال جانتے تھے معمولی باتوں پر لڑتے تھے اور یہ لڑائی برسوں تک جاری رہتی تھی۔ اخلاقی بگاڑمیں مبتلا تھے وسائل محدود تھے، موسم ناسازگار تھا، ان کے پاس مادی وسائل تھے نہ علمی فکری ترقی تھی۔ معیشت اور فوجی طاقت کے اعتبار سے ایرانی اور بازنطینی سلطنتیں بہت آگے تھیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ حضرت رسالتمآب کے ہاتھوں پر اسلام کے قبول کرنے کے بعد جزیرۃ العرب کا بدوی معاشرہ تھوڑے ہی دنوں میں تجارت صنعت اور سائنسی ترقی میں ان سلطنتوں سے آگے ہو گیا جو دنیا کی طاقتور سلطنتیں تھیں۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے اس بدوی معاشرہ کو ان صفات سے آراستہ کردیا اورمسلمان ترقی کرنے اور پوری دنیا کوزیر نگیں کرنے کی صلاحیت سے سر فراز ہوگئے۔ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ خلافت ارضی انہیں عطا کی گئی ہے تو خلافت ارضی کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے ۔انی جاعل فی الارض خلیفۃ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مسلمان صرف نمازپڑھتے رہیں اور مسجدوں میں عبادت میں مشغول رہیں۔ خلافت ارضی کے جو تقاضے تھے مسلمانوں نے انہیں بھی پورا کیا چنانچہ مسلمانوں نے ہر سطح پر ترقی کی ۔عدل وانصاف کا بہترین نظام قائم کرنے کے علاوہ ہر اس عامل کو اختیار کیا جو ترقی میں معاون ہوسکتاتھا۔ مادی استحکام کی طرف ملک کو گامزن کیا، خلافت ارضی کا جو انقلابی تصور تھا اس نے ان کی کوششوں کو مہمیز عطا کی۔آسمانی وحی میں علم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اس لیے علم کی ہر شاخ کو سرسبز کرنے کی کوشش کی گئی۔ علم کو دین اور دنیا میں تقسیم نہیں کیا گیا آفاق و انفس پر غور کرنے کا حکم تھا اس کے نتیجہ میں سائنس کی ترقی ہوئی۔عورت کی توقیر ہوئی، سب کی تعلیم کا انتظام کیا گیا ، کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کی گئی معاشی اور معاشرتی ترقی کے قوانیں بنائے گئے۔ زراعت کو ترقی دی گئی، آب پاشی کے لیے نہریں بنائی گئیں، بند Dam تعمیر کیے گئے، آب پاشی کے وسائل مہیا کیے گئے۔ صرف دریائے نیل پر جو بند باندھے گئے اور پل تعمیر ہوئے ان کی نگہداشت کے لیے روزانہ بیس ہزار افراد کام کرتے تھے۔ صنعت کو ترقی دی گئی۔ اسلحہ کے اور جہاز سازی کے کارخانے قائم کیے گئے۔ بازاروں کا قیام عمل میں آیا، تجارت نے ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرلی ،سمندروں کی سطح پرجہاز مال تجارت لے کر دنیا کے ملکوں میں آنے جانے لگے۔مسلمانوں کے زیر نگین پورا علاقہ ایک مشترک مارکٹ کی شکل اختیار کر گیا۔ کاشت کاروں اور صنعت کاروں کو کھپت کی پوری مارکٹ مل گئی، سب کا معیار زندگی بلند ہوا ،شہروں ہی میں نہیں بلکہ اس سے باہر بھی خوش حالی آئی، خوش حالی کے ساتھ ٹیکسوں کی شرح بہت کم تھی ،ایرانی اور رومی عہدمیں عوام پر اتنے ٹیکس لگائے جاتے تھے کہ لوگ ان کے زیر نگیں رہنے کے بجائے مسلمانوں کی حکومت میں رہنا پسند کرتے تھے۔ مسلمانوں کے عہدحکومت میں انصاف تھا اورجان ومال کاتحفظ مسلم اور غیر مسلم سب کو حاصل تھا۔ یہ خلافت ارضی کے حکم پرعمل تھا اور حضور (ﷺ) کی تعلیمات تھیں جس کے نتیجہ میں مسلمان دنیا کے ایک بڑے حصہ پرحکمراں رہے۔مسلمان نماز بھی پڑھتے تھے عبادت کرتے تھے اخلاقی طور پربھی ممتاز تھے ،اسی کے ساتھ وہ خلیفۃ اللہ فی الارض بھی تھے عدل وانصاف کے قیام کے لیے ہروقت فکرمند رہتے تھے ’’ان اللہ یحب المقسطین‘‘ پر عمل ان کا مقصد تھا۔
ہمیں سیرت کا اور اسلامی تاریخ کا ان پہلووں سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم رسول اللہ (ﷺ) کے ذریعہ لائے گئے انقلاب کو سمجھ سکیں اور یہ جان لیں کہ بعدکے دور میں انحطاط کے اسباب کیا ہیں ۔عہدجدید میں سیرت نبوی کا صحیح ڈھنگ سے مطالعہ درکار ہے، مسلمانوں میں فکرو دانش کا ارتقا درکار ہے ،علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کی ضرورت ہے ، فکری بیداری کی ضرورت ہے ۔ زاویہ نظر کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔عصر حاضر کے چیلنج کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمای کوششوں کو صحیح سمت مل سکے ۔ ہم نے اسلام کے تصورحیات کو نہیں سمجھا، ہم نے قرآن کا اور سیرت کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا ،جو کتابیں عام طور پر ہمارے مطالعہ میں رہتی ہیں اورہمیں پڑھائی جاتی ہیں ان سے اسلام کا تصورحیات واضح نہیں ہوتا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کے لائے ہوئے انقلاب کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ پیغمبرانہ مشن کو یعنی غیر مسلموں میں دعوت کے کام کی اہمیت کو ہم نے سمجھا ہے نہ اختیار کیا ہے۔ ہم تو سیرت کے جلسوں میں بھی غیر مسلموں کو نہیں بلاتے ہیں ۔ اس طرز زندگی سے تو حالات نہیں بدل سکتے ہیں۔
(ختم شد)
***

 

***

    یہ مناسب موقع ہے کہ ہم اسلامی تاریخ کی ابتدا میں مسلمانوں کی ترقی کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسلام جن لوگوں سے پہلے مرحلہ میں مخاطب ہوا یہ وہ لوگ تھے جو جنگ و جدال جانتے تھے معمولی باتوں پر لڑتے تھے اور یہ لڑائی برسوں تک جاری رہتی تھی۔ اخلاقی بگاڑمیں مبتلا تھے وسائل محدود تھے، موسم ناسازگار تھا، ان کے پاس مادی وسائل تھے نہ علمی فکری ترقی تھی۔ معیشت اور فوجی طاقت کے اعتبار سے ایرانی اور بازنطینی سلطنتیں بہت آگے تھیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ حضرت رسالتمآب کے ہاتھوں پر اسلام کے قبول کرنے کے بعد جزیرۃ العرب کا بدوی معاشرہ تھوڑے ہی دنوں میں تجارت صنعت اور سائنسی ترقی میں ان سلطنتوں سے آگے ہو گیا جو دنیا کی طاقتور سلطنتیں تھیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023