’مسلم سیاست‘ کو کچلنے کی غیر معلنہ پالیسی پر مسلسل عمل
نو آبادیاتی دور کے خاتمہ کے بعد سے ہی مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیا گیا
نور اللہ جاوید، کولکاتا
’پسماندہ مسلمانوں‘ سے ہمدردی کے پس پردہ مسلم رائے دہندوں کو غیر موثر کرنے کا منصوبہ!
مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کو مسلم قیادتکے طور پر پیش کرنا میڈیا کا وطیرہ
صاف ستھری شبیہ والے مسلم سیاست دانوں کو نظر انداز کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں ہی اصل ذمہ دار
سیاست کو جرائم پیشہ افراد سے پاک بنانے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت
حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے لیکچرر پرتینو انیل کی نئی کتاب Another India: The Making of the World’s Largest Muslim Minority, 1947-77 شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب اس لیے اہم ہے کہ اس میں آزادی کے بعد ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ ریاست کے سلوک کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ 432 صفحات پر مشتمل یہ کتاب سیکولرازم کے علمبرداروں کی قلعی کھولتی ہے۔ عظمت و رفعت کے مقام پر فائز سیکولر سیاست دانوں سے متعلق یہ انکشاف کرتی ہے کہ یہ لوگ مسلم دشمنی میں آر ایس ایس کے قائدین سے کسی بھی درجے میں کم نہیں ہیں۔ تاہم اس کتاب میں مسلم لیڈرشپ کے متعلق جو دعوے کیے گئے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ گاندھی جیسی شخصیت بھی پنڈت نہرو کی پہلی کابینہ میں مولانا آزاد کی شمولیت کے خلاف تھی۔ وہ مسلم وزرا کے طور پر غیر معروف و غیر فعال لیڈروں کی شمولیت کے حق میں تھے۔ اس کے لیے گاندھی نے نہرو کو خط بھی لکھا تھا۔ انیل لکھتے ہیں کہ کانگریسی دور حکومت میں بھی ریاست مسلمانوں کے ساتھ ’’ایک اسلاموفوبک ایجنسی‘‘ کی طرح برتاؤ کرتی تھی۔ مسلمانوں کو بیوروکریسی سے دور رکھنے کی شعوری طور پر کوشش کی گئی اور بعض اوقات ’’پاکستانی پانچویں کالم نگار‘‘ ہونے کے شبہ میں مسلمانوں کو عوامی عہدوں سے بھی ہٹایا گیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے آئین ساز اسمبلی میں بحث کے دوران مسلمانوں کے لیے بھی ریزرویشن کی تجویز پیش کی تو پٹیل نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ پٹیل اور دیگر سخت گیر ہندو کانگریسی لیڈروں کے رویے سے تنگ آکر مولانا آزاد ’’آئین ساز اسمبلی کو قید خانہ اور گھٹن کی جگہ سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے‘‘۔ اس کتاب میں ایک اور چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ سردار پٹیل نے گاندھی جی سے کہا کہ ملک میں مسلمانوں کی اکثریت بھارت کی وفادار نہیں ہے لہذا ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ سب پاکستان چلے جائیں اور جو بھارت میں رہ گئے ہیں انہیں اکثریتی طبقے کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ انیل لکھتے ہیں کہ آزاد بھارت میں مسلم کانگریسی لیڈروں کی توہین ہندو کانگریسیوں کا معمول بن گیا تھا۔ مسلمانوں کی وفاداری پر شک کیا جاتا تھا۔ غیر اعلانیہ طور پر کئی اہم وزارتوں اور عہدوں کے دروازے مسلمانوں کے لیے بند کردیے گئے تھے‘‘۔ بھارت کی آزادی کے بعد مسلم لیڈرشپ کے متعلق پرتینو انیل نے جو دعوے کیے ہیں کم وبیش یہی باتیں مشہور دانشور اور مصنف عمر خالدی نے اپنی کتاب ‘‘Muslims in Indian Economy’’ میں کی ہیں۔ عمر خالدی کی اس کتاب کے متعلق ہفت روزہ دعوت کے گزشتہ شماروں میں بات ہوچکی ہے۔
مذکورہ دونوں کتابوں کے تناظر میں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ آزاد بھارت میں مضبوط اور موثر مسلم لیڈرشپ کیوں نہیں ابھر پائی؟ مولانا آزاد جو نوآبادیاتی دور میں کانگریس کے قائدین کے صف اول کے لیڈر کے طور پر شمار ہوتے تھے اور انہوں نے دو دو مرتبہ کانگریس کی قیادت بھی کی تھی لیکن آزاد بھارت میں وہ مختلف موقعوں پر بے بس نظر آئے اور اکثر اوقات تعصب اور نفرت کا گھونٹ خاموشی سے پی گئے۔ چنانچہ ملک میں مسلم لیڈرشپ کو دیوار سے لگانے کا جو سلسلہ آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ماضی کا ہی تسلسل ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ماضی کی سیاسی قیادت معاملہ فہم اور سیاسی رکھ رکھاو والی تھی اس لیے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران کئی نامور مسلم سیاست داں منظر عام پر نظر آئے، اس سوال سے قطع نظر کہ وہ سیاست مسلم کمیونیٹی کے تئیں کس قدر دیانت دار تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیڈرشپ کو ابھرنے نہ دینے کی غیر اعلانیہ پالیسی کے باوجود ہر سیاسی جماعت میں علامتی طور پر ہی سہی کچھ اچھے سیاست داں تھے۔ اس کے مقابلے میں آج کی سیاسی قیادت بصیرت اور وسعت قلبی کے معاملے میں انتہا درجے کی تنگ نظر واقع ہوئی ہے۔ وہ مسلم دشمنی میں اس قدر اندھی ہے کہ وہ کسی بھی درجے میں مسلم لیڈرشپ کو ابھرنے دینا نہیں چاہتی ہے۔ اس کے لیے قانون اور آئین کی بھی پروا نہیں کی جاتی ہے۔
طلبا سیاست سے ابھر کر سیاسی افق پر چھا جانے والے نوجوان محمد عمر خالد کی اسیری کو ہزار دن مکمل ہوچکے ہیں۔ انہیں گزشتہ تین سالوں میں محض آٹھ دنوں کی پیرول ملی ہے۔ ان تین سالوں میں عمر خالد کے خلاف ایک بھی شکایت کو ثابت کرنے میں دہلی میں پولیس ناکام ہوچکی ہے۔ گواہ کے طور ایسے ایسے لوگوں کے نام درج کیے گئے ہیں جن کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔خالد عمر کے ساتھ ہی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سیاست میں ابھرنے والے کنہیا کمار آج سیاست میں کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ کنہیا کمار آج ملک کی سیاست کا اہم چہرہ بن چکے ہیں مگر عمر خالد اپنی تمام تر ذہنی وسعت اور نظریاتی طوپر پختہ ہونے کے باوجود پس زندان ہیں اور انصاف کے لیے در در بھٹک رہے ہیں۔ کنہیا کمار اور عمر خالد آزاد بھارت کی اصل حقیقت ہیں۔ آج عمر خالد کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قانون کے دہرے رویے کی اصلی تصویر ہے۔ دونوں کو ابتدا میں ایک ہی طرح کے مقدمات کا سامنا تھا مگر کنہیا کمار جیل سے نکل کر ملک کی سیاست کا مشہور چہرہ بن گئے جبکہ عمر خالد کے مصائب کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔پولیس کے پاس عمر خالد کی مبینہ نفرت انگیز تقریر کا کوئی ویڈیو ہے اور نہ ہی سازش رچنے کا کوئی ثبوت، اس کے باوجود عدالتیں انہیں ضمانت نہیں دے رہی ہیں، جبکہ دہلی فسادات سے قبل مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا نفرت انگیز بیانات کے ذریعہ ماحول کو کشیدہ کرنے والے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے والی بھیڑ کی قیادت کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں طلبا سیاست میں سرگرم مسلم طلبا کو مختلف طریقوں سے کچلا گیا، چاہے وہ عمر خالد ہو یا شرجیل امام۔
شرجیل امام انتہائی ہونہار اور باصلاحیت طالب علم ہیں مگر ان کے ایک بیان کو بنیاد بنا کر انہیں چار سالوں سے جیل میں ڈالا ہوا ہے جبکہ رہائی کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
اتر پردیش کے مشہور سیاسی لیڈر اعظم خان کے خلاف اس وقت 99 فوجداری مقدمات چل رہے ہیں جن میں سے 87 مقدمات 2017 کے بعد یوگی کے اقتدار میں آنے کے بعد درج کیے گئے ہیں۔ان ہی میں سے ایک مقدمہ بعنوان ’’نفرت انگیز تقریر‘‘ میں اعظم خان کو تین سال کی سزا دی گئی اور اس بنیاد پر ان کی اسمبلی کی رکنیت پر ختم ہوگئی اور اب اعلیٰ عدلیہ نے نہ صرف اس کیس میں اعظم خان کو بری کردیا ہے بلکہ کیس درج کرانے والے شخص نے اعتراف جرم کرلیا کہ اس نے یہ کیس حکومت کے اشارے پر درج کرایا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جس کیس کی بنیاد پر اسمبلی کی رکنیت منسوخ کی گئی اور انتخاب ہوا، جب وہ کیس ہی ختم ہوگیا تو کیا انصاف کا تقاضا نہیں تھا کہ اعظم خان کی رکنیت کو بحال کیا جاتا؟ مودی کے دور اقتدار میں مسلم قیادت کو سفاکانہ طریقے سے کچلنے کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا گیا ہے۔ اس ملک میں نفرت انگریز تقریر کرنے والوں کی طویل فہرست ہے اور اس فہرست میں خود وزیر اعظم مودی، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی شامل ہیں مگر عدالتیں ان معاملات میں خاموش ہیں۔گزشتہ دو سالوں میں چار مسلم عوامی نمائندوں کی رکنیت منسوخ ہوئی ہے جس میں لکشدیپ کے ممبر پارلیمنٹ فضل حسن، اعظم خان، ان کے فرزند عبد اللہ اور غازی پور سے ممبر پارلیمنٹ افضال انصاری شامل ہیں ۔راہل گاندھی کے علاوہ رکنیت کی منسوخی کا سامنے کرنے والوں میں سب کا تعلق مسلم طبقے سے ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طلبا لیڈر و سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے مسلم قیادت کو کچلنے کے سوال پر ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ بھارت کی آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنے پر شعوری طور پر عمل کیا جا رہا ہے، جبکہ انہیں نظر انداز اور مختلف طبقات میں تقسیم کرنے کی باضابطہ کوشش سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ مسلمانوں کو اشراف او ر پسماندہ طبقے میں تقسیم کرنے کا واحد مقصد مسلمانوں کی موثر سیاسی قیادت کو ختم کرنا تھا۔ مگر اس وقت کی مسلم لیڈرشپ اندرا گاندھی کے عزائم اور ان کے منصوبوں کا ادراک کرنے میں ناکام رہی۔ مسلم لیڈرشپ کے مجرمانہ پس منظر کے سوال پر محمد ادیب کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاسی قیادت کی فہرست طویل ہے۔ کانگریس نے ایسے لیڈروں کو مواقع بھی دیے۔ مہاراشٹر، بہار اور آسام جیسی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی مسلمان رہ چکے ہیں مگر کیا آج اس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ کسی ریاست کے اقتدار کی باگ ڈور کسی مسلم لیڈر کے سپرد کردی جائے؟ محمد ادیب کہتے ہیں کہ مسلم لیڈرشپ کے غیر موثر ہونے کی ایک بڑی وجہ ایمرجنسی کے بعد مسلمانوں کا علاقائی جماعتوں کی طرف رخ کرنا ہے۔علاقائی جماعتوں نے کانگریس سے کہیں زیادہ مسلم کمیونیٹی اور مسلم ووٹ بینک کا بے رحمانہ انداز میں استعمال کیا ہے۔ سماج وادی پارٹی اپنی تاسیس کے ابتدائی کئی دہائیوں تک انتخابات کے موقع پر اعظم خان کے انتخابی جلسوں کے لیے ہیلی کاپٹر فراہم کرتی تھی مگر اب ہیلی کاپٹر تو کیا سائیکل بھی فراہم نہیں کرتی۔ اعظم خان ایک سال سے زائد عرصے تک جیل میں رہے لیکن اکھلیش یادو ان سے ملاقات تک کے لیے نہیں گئے۔ اعظم خان کی وجہ سے ہی سماج وادی پارٹی اتر پردیش میں مضبوط ہوئی اور حال یہ ہے خود آج اعظم خان اور ان کے اہل خانہ سیاست سے باہر ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال پر مسلمانوں کو غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنی سیاسی قیادت کو کس طرح مضبوط اور مستحکم کرسکتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو انتخابی سیاست کا ایندھن بننے کے بجائے بادشاہ گر بننے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
بھارت میں سیاست اور جرائم کا گٹھ جوڑ
بھارت میں جرائم اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگ سیاست میں اپنی جگہ مضبوط کرتے رہے ہیں، اس معاملے میں کوئی بھی سیاسی جماعت دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ہے۔ کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینئر فیلو اور ماہر سیاسیاست ڈاکٹر میلان ویشنو کئی سالوں سے ہندوستان میں جرائم اور جمہوریت کے درمیان روابط کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی آنے والی کتاب میں بھارت کی جمہوری سیاست کے متضاد تصاویر پیش کی ہیں ۔2019 میں منتخب ہونے والے 543 ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک تہائی (34فیصد) ممبرز مجرمانہ پس منظر کے حامل ہیں۔ یہ تعداد 2009 میں 30 فیصد اور 2004 میں 24 فیصد تھی۔ ڈاکٹر وشنو سنگین مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں کو سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ٹکٹ دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لیڈروں کا علاقے میں دبدبہ اور دولت کی فراوانی ہوتی ہے۔ انتخابات میں بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے سیاسی جماعتیں خود کفیل امیدواروں کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ پارٹی کے خزانے پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ سیلف فائنانسنگ امیدوار نہ صرف پارٹیوں کے لیے پرکشش ہوتے ہیں بلکہ ان کی انتخابی حکمت عملی کے اعتبار سے بھی کارآمد ہوتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں الیکشن لڑنا آج مہنگا ترین کام ہے۔امیدوار کی دولت اس کی انتخابی قوت کے لیے بہترین معاون ہے۔ ڈاکٹر وشنو کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مجرمانہ پس منظر کے حامل امیدواروں کو الیکشن میں اس لیے نامزد کرتی ہیں کیونکہ سادہ الفاظ میں، وہ جیت جاتے ہیں۔ اپنی تحقیق کے دوران ڈاکٹر وشنو نے ان تمام امیدواروں کا مطالعہ کیا جنہوں نے گزشتہ تین عام انتخابات میں کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے صاف ستھری شبیہ کا ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں اور مجرمانہ ریکارڈ والے امیدواروں کا الگ الگ تجزیہ کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ مؤخر الذکر کے اگلے انتخابات میں جیتنے کے 81 فیصد امکان ہوتے ہیں جبکہ صاف شبیہ رکھنے والے امیدواروں کے لیے انتخاب جیتنے کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔ 2003 اور 2009 کے درمیان ریاستی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کا تجزیہ کرنے کے بعد ڈاکٹر وشنو نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جن امیدواروں کے خلاف مقدمات زیر التوا تھے ان کی کامیابی کی شرح زیادہ ہے۔ڈاکٹر وشنو کہتے ہیں کہ جہاں ذات پات اور مذہبی تقسیم ہوتی ہے وہاں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے امیدواروں کے انتخابات میں کامیابی کے زیادہ امکان ہوتے ہیں ۔
یہ اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ یہ تاثر انتہائی غلط ہے کہ مسلم معاشرہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے مسلم سیاست دانوں کو ترجیح دیتا ہے۔ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے مسلمانوں سے کہیں زیادہ دوسرے طبقات سے ہوتے ہیں۔ اتر پردیش جہاں عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف احمد کے سرکاری سرپرستی میں قتل اور مختار انصاری اور ان کے بھائی افضال انصاری کے خلاف سزا کے فیصلہ کی وجہ سے یوگی حکومت خوب واہ واہی لوٹ رہی ہے۔ یہ واقعات دراصل ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی خراب صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ راجہ بھیا جس پر مسلم ڈی ایس پی کے قتل سمیت درجنوں مقدمات ہیں اس کے خلاف مقدمات تاخیر کا شکار کیوں ہیں؟ مظفر نگر فسادات میں قتل و غارتگری، لوٹ مار اور عصمت دری کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل ہی ختم کر دیا گیا۔ خود اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آتیہ ناتھ کے خلاف مقدمات کی طویل فہرست تھی مگر ان تمام مقدمات کو یکسر ختم کر دیا گیا۔ بہار میں محمد شہاب الدین کے خلاف سپریم کورٹ سخت ہوگئی مگر کلکٹر کے قتل میں ملوث آنند موہن کی رہائی کے لیے بہار حکومت قانون میں تبدیلی کر رہی ہے۔ جرم و سزا کے یہ دہرے معیارات کیوں ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ مجرمانہ ذہنیت کا پس منظر رکھنے والے مسلم سیاست دانوں کو مسلم لیڈرشپ کے طور پر کون پیش کرتا ہے اور اس کا فائدہ کس کو ملتا ہے؟ جب کوئی مجرمانہ پس منظر رکھنے والا ہندو لیڈر منتخب ہوتا ہے تو وہ صرف سیاسی لیڈر ہوتا ہے مگر اسی طرح کی شبیہ رکھنے والا کوئی مسلم لیڈر انتخاب جیت کر آتا ہے تو اس کو مسلم کمیونیٹی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ میڈیا کوریج اور ٹی وی اسٹوڈیو میں ہونے والے مباحث کے ذریعہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلمان مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لیڈروں کو فالو کرتے ہیں اور ایک طرح سے کمیونٹی کا برا امیج بناتے ہیں۔
یہ بیانیہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ کو وسیع کرتا ہے، قومی اتحاد کو خطرے میں ڈالتا ہے، نتیجے میں مسلمان مزید پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ میڈیا، سیاسی جماعتوں اور نام نہاد سیاسی مبصرین کی طرف سے پیدا کردہ تاثر سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر کوئی مجرمانہ پس منظر رکھنے والا مسلمان الیکشن جیتتا ہے تو اسے کمیونٹی لیڈر کہا جاتا ہے جبکہ ایک مسلم دانشور، سماجی کارکن یا مفکر کئی انتخابات جیتنے کے بعد بھی میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا؟ سیاسی جماعتیں ان صاف ستھرا ریکارڈ رکھنے والے رہنماؤں کو مسلم لیڈر کے طور پر پیش نہیں کریں گی، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف مجرمانہ پس منظر رکھنے والے ہی سیاست میں کامیاب ہوتے ہیں اور انہیں کمیونٹی لیڈر تسلیم کرتے ہوئے ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ عتیق احمد کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے والوں کو مرادآباد سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر ہی انتخاب جیتنے والے ڈاکٹر ایس ٹی حسن نظر کیوں نہیں آتے۔ ایس ٹی حسن مراد آباد کے ایک پریکٹسنگ سرجن ہیں اور تین دہائیوں سے زائد عرصے سے سماجی اور سیاسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ مرادآباد کے میئر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور 2019 میں مودی لہر کے باوجود لوک سبھا کا انتخاب جیت چکے ہیں۔ کنور دانش علی، امروہہ سے بی ایس پی کے لوک سبھا رکن ہیں۔ میڈیا اور سیاسی پارٹیاں آخر کنور دانش علی کو کیوں پراجیکٹ نہیں کرتیں؟ وہ ایک پڑھے لکھے شخص ہیں جو برسوں سے سماجی کاموں میں سرگرم ہیں۔ بہار کے شہاب الدین کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے مگر کشن گنج لوک سبھا حلقے سے انتخاب جیتنے والے ڈاکٹر محمد جاوید کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔ ڈاکٹر محمد جاوید نے 2019 میں کشن گنج سے انڈین نیشنل کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن جیتا تھا۔ اس سے پہلے وہ چار بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور سماجی خدمات میں سرگرم ہیں۔ لیکن چونکہ وہ مجرمانہ ریکارڈ نہیں رکھتے اس لیے سیاسی جماعتیں اور میڈیا انہیں ایک مسلم لیڈر کے طور پر پیش نہیں کرتے ہیں۔ شہاب الدین، مختار انصاری، اور عتیق احمد کو مسلم قیادت کا چہرہ بنا کر پیش کرنے والے پروفیسر جابر حسین کو کیوں فراموش کردیتے ہیں جو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ تھے اور جنہوں نے کرپوری ٹھاکر کابینہ میں وزیر صحت کے طور پر خدمات انجام دیں؟ وہ تقریباً ایک دہائی تک بہار قانون ساز کونسل کے چیئرمین، راجیہ سبھا کے رکن اور کئی دیگر سیاسی عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔
ویلفیئر پارٹی کے سربراہ قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ پہلے اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ جن مسلم لیڈروں کو مجرمانہ پس منظر رکھنے والا بتایا جا رہا ہے ان کے خلاف مقدمات کی نوعیت کیا ہے؟ وہ عمر خالد اور اعظم خان کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمر خالد کو نوجوان مسلم سیاست داں کے طور پر دیکھا جارہا تھا مگر دہلی فسادات 2020 کے بعد اس کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے۔ یو اے پی اے لگا دیا گیا، چارج شیٹ میں جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگائے گئے اور ایسے گواہ لائے گئے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ مقدمات کی سماعت میں غیر معمولی تاخیر کی جا رہی ہے۔ مقصد واضح ہے کہ اگر جرم ثابت نہ ہو تب بھی جیل میں اتنے دنوں کے لیے ڈال دیا جائے کہ اس کا مستقبل ختم ہو جائے۔ اعظم خان کے معاملے میں بھی یہی کیا جا رہا ہے، ان کے خلاف بیشتر مقدمات فرضی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں اس لیے صرف مقدمات کی بنیاد پر کسی بھی لیڈر کو مجرمانہ پس منظر والا سیاست داں نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے مقدمات کی نوعیت بھی دیکھنی ہوگی۔جہاں تک اتر پردیش کا معاملہ ہے وہاں صرف چنندہ کارروائیاں ہورہی ہیں اور صرف مسلمان نشانے پر ہیں۔
آخر مسئلے کا حل کیا ہے؟
رہا یہ سوال کہ مسلم لیڈرشپ کو کچلنے کی پالیسی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ اس کے دو راستے ہیں، پہلا راستہ عدالت پر اعتماد اور انصاف کے لیے جدو جہد۔ ظاہر ہے کہ یہ طویل راستہ ہے اور آسانی سے انصاف ملنا اس وقت ممکن نہیں ہے۔ دوسرا راستہ سیاسی بیداری اور رابطہ عامہ ہے۔ اس صورت حال سے عوام کو آگاہ کیا جائے اور انصاف کے قیام کے لیے ان کی تربیت کی جائے۔ لوگوں میں شعور بیدار کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور اسی شعور کے ذریعہ ہم سیاست اور جرائم کے گٹھ جوڑ کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اگر ووٹرس، مجرمانہ پس منظر رکھنے والے سیاست دانوں کے خلاف سامنے آجائیں گے تو کوئی بھی سیاسی پارٹی مجرمانہ ذہنیت کے حامل لیڈروں کو ٹکٹ نہیں دے گی۔ سیاست کو مجرموں سے پاک کرنے میں اگر کوئی بڑا کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ عوام ہیں اور عوامی شعور کے لیے جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ صاف ستھری شبیہ والے مسلم لیڈر ابھر کیوں نہیں رہے ہیں تو اس کے لیے صرف مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے فائدوں کے لیے کم تعلیم یافتہ اور مجرمانہ ذہنیت کے لیڈروں کا استعمال کرتی ہیں۔ سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب مسلم پرسنل لا بورڈ کے حالیہ میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بورڈ نے اتفاق رائے سے صدر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کیا۔ یہ بہت ہی اچھی روایت ہے۔مگر اس انتخاب کے بعد کچھ حلقوں سے یہ آواز اٹھنے لگی کہ پسماندہ مسلمانوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ نریندر مودی اور بی جے پی نے مسلم لیڈرشپ اور ووٹرس کو غیر موثر بنانے کے لیے مسلمانوں کے پسماندہ اور اشراف کا شوشہ چھوڑا ہے۔اتر پردیش کے بلدیاتی اور پنچایت انتخابات میں بی جے پی نے اس کا تجربہ بھی کیا ہے۔ اگر مسلمانوں کی مذہبی قیادت بالخصوص مسلم پرسنل لا بور، جماعت اسلامی ہند اور جمعیۃ علمائے ہند جیسی مذہبی تنظیمیں مسلمانوں میں شعور پید ا کرنے کے لیے اقدامات نہ کریں تو اشراف اور پسماندہ مسلمانوں کی سیاست، مسلمانوں کی رہی سہی طاقت کو بھی ختم کردے گی جس انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023