مسلم نوجوان ، صحافت میں اپنی صلاحیت کالوہا منوائیں
مشہور صحافی پنکج پچوری سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت
بی بی سی، این ڈی ٹی وی اور گو نیوز کے منیجنگ ڈائریکٹر پنکج پچوری نے جو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر تھے ’’بھارتی میڈیا کے موجودہ کردار، صحافت کے معیار میں گراوٹ‘‘ کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھارتی میڈیا بالخصوص نیوز چینلوں سے متعلق جو تاثرات قائم ہو رہے ہیں وہ کچھ بے بنیاد بھی نہیں ہے۔ میں بھی تین دہائیوں سے زائد برسوں سے مین اسٹریم میڈیا سے وابستہ رہا ہوں، اس وقت جو صورت حال ہے اس سے قبل نہیں تھی مگر ہمیں اس تبدیلی کے عوامل اور اس باب پر بھی غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح بھارت میں بھی میڈیا اپنے سماج کا عکاس ہے۔ چونکہ بھارتی سماج اس وقت ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا شکار ہے لہٰذا میڈیا بھی اسی دور سے گزر رہا ہے۔میڈیا میں عدم توازن سے متعلق جو رپورٹیں وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں وہ اس وقت تک لاحاصل ہیں جب تک سماجی سطح پر عدم توازن اور سماجی ناانصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ میڈیا اداروں میں ریزرویشن کی پالیسی کے نفاذ سے میڈیا رومز کا ماحول مزید خراب ہو سکتا ہے۔ یہ تبدیلی مسلسل کوشش اور تعلیم کے فروغ کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد میں نے لکھنو پریس کلب کے ممبروں کا سروے کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ صرف تین مسلم صحافی ممبر ہیں۔ لکھنو جیسے شہر میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ممکن ہے نمائندگی کی کمی کی دیگر وجوہات بھی ہوں مگر خود مسلمانوں کا اپنا اپروچ کیا ہے۔ مسلم صحافی پریس کلب کی ممبری شپ حاصل کرنے کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں؟ یہ سب اس پر منحصر ہے۔
اس وقت بھارتی میڈیا جو مسلم فوبیا کا شکار ہے وہ کوئی اچانک نہیں ہے۔ ہمارے ابتدائی دور میں بھی اگرچہ مسلمانوں کے متعلق مثبت خبروں کا فقدان ہوتا تھا مگر من گھڑت اور مکمل جھوٹی خبروں سے بھی گریز کیا جاتا تھا۔ اس دور میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا جاتا تھا مگر آج سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے سیاست دانوں نے ملک کے ماحول کو فرقہ واریت پر مبنی ثقافت زدہ کر دیا ہے۔ سی این این نے خلیجی جنگ اور 9/11 کے بعد مسلمانوں کے خلاف جو بیانیہ تشکیل دیا تھا وہی بیانیہ بھارتی میڈیا نے بھی تشکیل دے لیا ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
اس سوال پر کہ اس کا حل کیا ہے؟ جدید ٹکنالوجی کے اس دور نے ہمارے لیے مواقع بھی پیدا کیے ہیں، چھوٹے بجٹ میں معتبر میڈیا گروپس کو کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اس سمت میں چند ادارے قائم ہوئے ہیں، ان کی غیر جانب دار اور معروضیت پر مبنی رپورٹوں نے حکومت کو جواب دہ بننے پر مجبور کیا ہے۔ آج اگر نیوز رومز میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں کمی آئی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ نیوز رومز میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر مسلم صحافیوں کو نیوز رومز میں طعنہ زنی اور نفرت کا سامنا ہے تو اس کے لیے مسلم نوجوانوں کو صحافت سے زیادہ سے زیادہ جڑنے اور صحافت کے معیار کو بلند کرنے میں اپنی صلاحیت و قوت کا لوہا منوانے کی ضرورت ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022