مسلمان رہنماؤں نے گیان واپی مسجد سے متعلق وارانسی عدالت کے حکم پر تشویش کا اظہار کیا
نئی دہلی، اپریل 10: ممتاز مسلم رہنماؤں نے 8 اپریل کو وارانسی کی فاسٹ ٹریک عدالت کے حکم پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، جس نے ہندوستان کے آثار قدیمہ کے محکمے کو گیان واپی مسجد کا سروے کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ مسجد کو کسی مندر کے انہدام کے بعد تعمیر کیا گیا تھا یا نہیں۔
یہ بیان کرتے ہوئے کہ عدالتی حکم عبادت کے مقامات (خصوصی فراہمی) ایکٹ 1991 کی براہ راست خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو موجود مقامات کی حیثیت برقرار رہے گی۔
مسلم رہنماؤں نے کہا کہ اس حکم سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے اور ملک میں نفرت کی سیاست کو فروغ دینے والوں کو تقویت ملتی ہے۔
مسلم رہنماؤں نے کہا کہ 1991 کے ایکٹ کو نظرانداز کرنے کی کسی بھی سازش کو قوم اور قومی مفادات کے خلاف سمجھا جائے گا۔ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ ’’اس قانون کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کے خلاف عدلیہ اور حکومت کے تمام اداروں کو سختی سے نمٹنا چاہیے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’ہم اس ملک کے تمام امن پسند شہریوں اور جمہوریت کی قدر کرنے والے افراد سے، جو آئین ہند کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، ان رجحانات کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں‘‘
انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ان قوانین کا دفاع کریں جو عبادت کے مقامات کی حفاظت کرتے ہیں۔ انھوں نے گیان واپی مسجد کمیٹی کے ذریعے فاسٹ ٹریک عدالت کے حکم کو چیلنج کرنے کے فیصلے کی بھی حمایت کی۔
مسلم رہنماؤں نے مسلم برادری سے اس معاملے کے متعلق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کے مشورے اور ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے برادری کے ممبروں کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے اور غیرسماجی عناصر کو اس کا فائدہ نہ اٹھانے دینے کی اپیل کی۔
اس اپیل پر دستخط کرنے والوں میں نوید حامد، صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، سید سعادت اللہ حسینی، امیر جماعت اسلامی ہند، ڈاکٹر منظور عالم، سکریٹری جنرل آل انڈیا ملی کونسل، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، امیر جمعیت اہل حدیث ہند، اتحاد ملت کونسل کے چیئرمین مولانا توقیر رضا خان، ایڈووکیٹ فیروز احمد، صدر آل انڈیا مومن کانفرنس اور ضیاءالدین نیئر، صدر آل انڈیا تعمیر ملت حیدرآباد شامل تھے۔