مسلم خواتین اقامت دین کی خاطر مسابقت کریں

تنظیم اوقات کے ذریعہ گھریلو اورتحریکی زندگی میں توازن پیدا کیا جاسکتاہے

راحیلہ سلام

خدمت خلق سے لے کراصلاح ودعوت تک کام کے وسیع مواقع موجود
جماعت اسلامی ہندنےخواتین کو بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا۔محترمہ ناصرہ خانم سے انٹرویو
محترمہ ناصرہ خانم کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی قدیم رکن اور شعبہ خواتین کی قومی اسسٹنٹ سکریٹری ہیں۔ وہ مرکز اور ریاست میں زائد از چار دہوں سے جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین کی قیادت کرتی آئی ہیں۔ قیام جماعت کے پچھتر برسوں کی تکمیل کے موقع پر تنظیم میں خواتین کی شرکت اور سرگرمیوں کے متعلق ان سے ایک انٹرویو لیا گیا ہے جو قارئین دعوت کی خدمت میں پیش ہے۔
سوال: جماعت اسلامی ہند کے تاسیس کے پچھتر سال مکمل ہو رہے ہیں اور آپ ایک زمانے سے اس تحریک سے وابستہ ہیں۔ بہت سی مسلم تنظیموں میں یہ بات عام نہیں ہے کہ خواتین سماجی و ثقافتی سرگرمیوں حتیٰ کہ تنظیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوتی ہوں۔ آپ نے جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے اس سلسلے میں کیا فرق محسوس کیا ہے اور کس وجہ سے آپ نے اپنی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے جماعت اسلامی ہند کا پلیٹ فارم منتخب کیا؟
جواب:دوسری مسلم تنظیمیں اس بات کا شعور کم رکھتی ہیں کہ اشاعت دین کی سرگرمیوں میں خواتین کی ذمہ داریاں بھی ویسی ہی ہیں جیسی کی ذمہ داریاں مردوں پر عائد ہیں۔ ان دونوں صنفوں کے لیے یکساں اجر کا وعدہ بھی ہے۔ بعض تنظیموں کے نزدیک تو خواتین کی آواز کا بھی پردہ ہے۔ ان کی اس رائے نے خواتین کو دعوتی سرگرمیوں سے دور رکھا ہے جس کی وجہ سے اشاعت دین کی کوششوں کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی نے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے خواتین میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ اشاعت دین میں ان کی حصہ داری ویسی ہی ہے جیسی کہ مردوں کی۔ جماعت اسلامی ہند مسلمانوں کی بہت ہی فعال، منظم نظریاتی خالص دینی اُصولوں کی علمبردار جماعت ہے جس کا نصب العین بہت اعلی و ارفع ہے اور وہ ہے اقامت دین اور یہ دین زندگی کے انفرادی اور اجتماعی گوشوں کو محیط کیے ہوئے ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اس کے دائرہ سے خارج ہو۔ ہر طرف سے یکسو ہوکر اس دین کی پیروی کی جانی چاہیے اور اس طرح اسے نافذ کیاجانا چاہیے کہ فرد کا ارتقا معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی کے مطابق ہو۔ جماعت اسلامی کی خاص خوبی یہ کہ اول روز سے ہی اس نے خواتین کو ان کا مستحقہ مقام دیا ہے۔ ان کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا اور ہر میدان میں انہیں کام کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ یہی وہ نمایاں فرق ہے جس کے مدنظر میں نے جماعت اسلامی ہند سے جڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مومن مرد مومن عورتیں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ بحیثیت خیر امت خواتین کو اس تحریک سے جڑ کر اس کے اجتماعی تقاضوں کو خدا ترسی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے اور یہ سب کام محض اللہ کی رضا فلاح آخرت کے لیے انجام دنیا چاہیے۔ اس سے میرے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ خواتین کا یہی پلیٹ فارم میرا مطلوب و مقصود ہے۔ اپنے آپ کو اسی جماعت و تحریک کی اجتماعیت کے حوالے کرنے میں ہی مجھے اپنی عافیت نظر آئی۔
سوال: بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کا دستور، اس کی پالیسی اور پروگرام، اس کی قیادت اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ آپ کے لیے اور دیگر خواتین کے لیے کس قدر حوصلہ افزا اور مددگار ثابت ہوا؟ خاص طور پر اس وقت جب قرآن سیکھنے یا اس کا ترجمہ پڑھنے کے معاملہ میں خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ جماعت میں وہ معاون نظام کیا تھا جس نے آپ کو جماعت کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی سہولت فراہم کی؟
جواب :جماعت اسلامی ہند کا دستور، پالیسی و پروگرام اس کا تنظیمی ڈھانچہ اور قیادت میرے لیے اور ہماری دیگر خواتین کے لیے بہت ہی حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ جماعت کا نظم اس کا تنظیمی ڈھانچہ اور پالیسی و پروگرام جماعت کو سمجھنے میں بڑے معاون و مددگار ثابت ہوئے۔ ہر موڑ پر جماعت کی موثر قیادت نے ہماری رہنمائی کی۔ کاموں کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار کو سمجھانے میں بھرپور معاونت کی۔ ہمیں ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی، اعلیٰ سطح پر خواتین کی تربیت کا اجتماعی نظم قائم کیا۔ ہماری صلاحیتوں کو ابھارا اور ان کو جلا بخشی۔ درس و تدریس کے مواقع فراہم کیے۔ بعض افراد جن کا یہ تصور تھا کہ قرآن پاک پڑھنا عام افراد کے بس کی بات نہیں ہے اور بعضوں نے یہ کہا کہ اگر قرآن پڑھ سکتے ہو تو صرف ناظرہ قرآن پڑھو لیکن ترجمہ و تفسیر نہ پڑھو۔ ایسے وقت میں جماعت اسلامی نے قرآن فہمی کا اہتمام کیا۔ مطالعہ قرآن اور تجوید کی کلاسس کا انعقاد کیا گیا۔ خواتین کے اجتماعات کا آغاز کیا گیا۔ یہ کام اسی طرح بڑھتا گیا۔ خواتین دلچسپی لینے لگیں۔ بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ خواتین کی پہلی درس گاہ رامپور میں جامعہ الصالحات اور اعظم گڑھ میں جامعۃ الفلاح کے نام سے اور حیدرآباد میں جامعہ ریاض الصالحات کی دو شاخیں قائم کی گئیں جہاں اعلیٰ پیمانے پر خواتین و طالبات میں درس و تدریس کی خدمات انجام دی جارہی ہیں اور خواتین و طالبات بھی پڑھنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ یہی وہ نظام ہے جس نے ہمیں جماعت کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع عطا کیے۔
سوال: جماعت اسلامی ہند کی تاسیس کے پچھتر سال مکمل ہوگئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب عام طور پر خواتین معاشرتی میدان میں زیادہ کام نہیں کرتی تھیں۔ تمام قسم کے اجتماعی کاموں کو مردوں کا کام سمجھا جاتا تھا۔ ایسے زمانے میں آپ کو خواتین میں جماعت کا کام کرنے کے لیے کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب: اس زمانہ میں عام طور پر معاشرتی میدان میں اجتماعی کام کرنا صرف مردوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ خیر امت ہونے کا شعور ہی نہیں تھا۔ قرآنی تعلیمات سے لا علمی و دوری تھی۔ لوگ تنگ نظری کا شکار تھے۔ اس سلسلے میں خواتین کی ذہن سازی کرنے اور ان کے اندر خیرامت ہونے کا شعور پیدا کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑی۔ مختلف مثالوں، قرآنی دلائل کے ساتھ ان پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ ذمہ داری بحیثیت امت مرد اور خواتین دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر ان ذمہ داریاں کو ادا کرنا ہے۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس دلایا جاتا۔ جو لوگ اس کام سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں یا غفلت برتتے ہیں ان کا انجام بتاتے ہوئے وعیدیں سنائی جاتیں۔ انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں کو یقینی بنایا جاتا۔ ان کی ذہن سازی کی جاتی۔ بعض ایسی خواتین سے بھی سابقہ پیش آتا جو بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتیں اور بعض ایسی تھیں جو ہماری نشستوں میں شریک ہونا ہی نہیں چاہتی تھیں۔ بڑی حکمت و مصلحت کے ساتھ انہیں آمادہ کیا جاتا۔ یہ ایک دو دن میں ہونے والا کام نہیں تھا بلکہ یہ وقت طلب کام تھا۔ ہم اپنے پروگرامس کو کسی نہ کسی طریقے سے موثر بنانے کی کوشش کرتیں۔ بعض لوگوں نے خواتین کو یہ تک کہہ کر روک دیا کہ ہمارے دیے ہوئے ترجمہ قرآن کے نسخوں کو ہرگز نہ لیں۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیں۔ ہم لوگوں کی ہر بات اور اعتراض کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے استقامت و استقلال کی روش اختیار کرلیتں۔ ان کی چرب زبانی اور ترش گفتگو کا جواب شیریں کلامی، عاجزی و انکساری سے دینے کوشش کرتیں۔ ہمیں اس راہ میں بہت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کروں گی۔
ہم نے اللہ کا نام لے کر شہر حیدرآباد کے معزز، باوقار، مہذب اور سرمایہ دار اور نوابی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بڑے طبقہ کو جماعت سے قریب کرنے کی کوشش کی۔ اللہ نے بھی ہماری مدد فرمائی۔ پہلے تو بڑی مشکلات و آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ گھرانے جہاں ہر ہفتہ گیٹ ٹو گیدر پارٹی کی جاتی اور شوقیہ پتے (Rummy) کھیلے جاتے وہاں بڑی کوششوں کے بعد اجتماع کا آغاز کیا گیا جہاں پینتالیس خواتین نے شرکت کی۔ اجتماع کے اختتام پر دعا کے فوری بعد ان خواتین نے کہا کہ آج سے نہ صرف پتے کھیلنا بند ہوگا بلکہ ہر ہفتہ پابندی کے ساتھ درس قرآن ہوا کرے گا۔ چنانچہ خواتین نے کارڈز اٹھا کر پھینک دیے اور تفہیم القرآن دینے کی خواہش کی۔ جواب میں ہم نے تفہیم کے پندرہ سیٹس لا کر دیے جو انہوں نے بڑی عقیدت سے خرید لیے۔ اس طرح ہفتہ واری اجتماع کا نظم قائم ہوا۔ انہی میں سے ایک خاتون کو ہم نے اجتماع کی ذمہ داری سونپ دی اور اب باقاعدہ تسلسل کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔
سوال: خواتین میں آپ کو تحریک اسلامی کا کام کرتے ہوئے کن بڑی مشکلات یا چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو کس طرح آپ نے حل کیا؟
جواب: سب سے پہلی مشکلات تو اپنے گھر اور افراد خاندان سے شروع ہوئیں۔ کئی رکاوٹیں درپیش رہیں۔ دیگر تنظیموں کی ذمہ دار خواتین بھی طرح طرح سے اس راہ میں روڑے اٹکاتی رہیں۔ جب خواتین کا کام بڑھنے لگا تو چھوٹے بڑے شہروں و بستیوں کی خواتین جوق درجوق اس میں داخل ہونے لگیں۔ ہمارے ساتھ رہ کر کام کرنے والی بعض خواتین بھی آستین کی سانپ نکلیں۔ ہمارے پروگرام کو کنڈم کرنے، لوگوں کے درمیان جماعت کی مخالفت کرنے اور مولانا مودودیؒ اور تفہیم القرآن کے بارے میں بے بنیاد اور غلط باتیں پھیلا کر خواتین کاذہن خراب کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ بعض خواتین نے منافقانہ روش بھی اختیار کی۔ لیکن ہم نے ادع الی سبیل ربک بالحکمہ کو سامنے رکھتے ہوئے پروگرامس چلانے میں کبھی اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ ان کے اعتراضات کا جواب بہت ٹھنڈے مزاج کے ساتھ بہت ہی صبر و تحمل کے ساتھ دیتی رہیں۔ گھر گھر پہنچ کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی۔ ہمارے طریقہ کار کو جو قرآن کے سنت کے مطابق ہے دلائل کے ساتھ بتایا۔ جماعت کا مفصل تعارف کروایا، لوگوں سے کبھی الجھا ہوا برتاو نہیں رہا۔ اللہ کی مدد ایسی شامل ہوتی کہ اگر تین مخالف خواتین مشکلات کھڑی کرنا چاہیں تو دو ایسی خواتین ہوتیں جو ہماری بات کو سمجھ لیتیں اور ہمارے ساتھ ہوجاتیں۔ مختلف چیالنجس بھی آتے رہے۔ اللہ کی مدد سے ان چیالنجس کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یہ یقین ہوتا گیا کہ یہ مشکلات و چیلنجس ہمارے لیے دعوت کے لیے نئی نئی راہیں کھول رہے ہیں۔ ہمیں ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا وإن الله لمع المحسنين
ان مشکلات کا بہترین حل اللہ کا کلام اور سیرت پاکؐ ہے۔
سوال : خواتین کے معاشرتی زندگی میں مصروف ہونے کی وجہ سے درپیش مثبت اور منفی پہلو کیا ہیں؟
جواب: معاشرتی زندگی میں مصروف رہتے ہوئے خواتین اگر اللہ کی مرضی کی پابند رہیں تو اس کے صرف مثبت پہلو ہی سامنے آئیں گے۔ ہم شریعت کے دائرے میں اپنے آپ کو لاتے ہوئے معاشرہ میں اسلامی زندگی کی چلتی پھرتی تصویر پیش کرسکتی ہیں نیز خواتین سے روابط معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس کے برعکس معاشرے میں اللہ کو ناراض کرنے والی زندگی گزاریں تو اس کے منفی پہلو ہی سامنے آئیں اور زندگی سکون کا گہوارہ بننے کے بجائے اجیرن بن جائے گی۔
سوال: موجودہ زمانہ، جماعت کی تاسیس کا زمانہ اور درمیانی زمانے میں کافی فرق ہے۔ معاشرے کی سوچ میں، لوگوں کے مزاج میں اور عورتوں کی صورت حال میں بہت تفاوت ہے۔ آپ کس طرح اس کا موازنہ کریں گی؟
جواب : جماعت کی تاسیس کا زمانہ وہ تھا جب دینی معلومات کم تھیں ۔ دینی شعور کم تھا دین کا صحیح فہم بھی حاصل نہیں تھا۔ رسوم ورواج اور آبائی طور وطریق کا عمل دخل معاشرتی زندگی میں بہت زیادہ تھا اور یہ سب نیک کاموں میں شمار ہوتے تھے۔ جماعت کی تاسیس کے بعد حالات بدلنے شروع ہوئے۔ دینی تعلیم عام ہوئی۔ دین سے واقفیت کا جذبہ پیدا ہوا۔ فہم دین حاصل ہوا صحیح وغلط کی پہچان ہوئی اور رجوع ال اللہ کی کیفیت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ خواتین کے عقائد درست ہوئے تو گھر اور خاندان درست ہوئے اور پھر سماج پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونے لگے۔ یہ تبدیلی یکا یک نہیں آئی۔ برسوں کی محنت اس پر صرف ہوئی۔ مطالعہ کا اہتمام، نیک افراد کی صحبتیں، اجتماعی نظم کی پابندی سوچ میں تبدیلی ، اخلاق میں نکھار انسانی خدمات کی جانب میلان نے جیسے زندگی کو ایک نئی زندگی عطا کی۔
جماعت کی تاسیس کے زمانہ میں لوگ جماعت کو ایک فرقہ سمجھتے تھے اوہام پرستی، قبر پرستی، غیر شرعی رسومات، شرک و بدعات کا ماحول، عقائد میں جھول، دین سے دوری، پیری مریدی کا چکر، اسراف و فضول خرچی، قرآن پاک اور سیرت پاکؐ سے دوری اور قول و عمل میں زبردست تضاد پایا جاتا تھا۔ درمیانی اور موجودہ زمانہ سے موازنہ کرنے سے صحیح دینی تعلیم کو عام کرنے اور دین کا واضح تصور دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا افراد سازی کے ذریعہ خواتین کو قریب لانے کی ضرورت ہے۔ ان کی سوچ و فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ بہت ہی حکمت کے ساتھ ان سے نرمی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے افہام و تفہیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر زمانہ میں کام کو آگے بڑھانے کی ہی فکر لاحق تھی۔ اس لیے اپنے کردار، عمل، تعلقات ومعاملات کے ذریعہ صالح کردار ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کیا گیا۔ سختی سے پرہیز کرتے ہوئے اپنائیت و محبت اور خلوص کا رویہ اختیار کیا گیا۔ دین میں تنگی اور سختی کی بجائے آسانی پیدا کرتے ہوئے خواتین کی سوچ و فکر کو صحیح رخ پر لانے کی کوشش کی گئی۔ الحمدللہ لوگ تاخیر ہی سے سہی دین کی سمجھ بوجھ اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے عمل کی طرف راغب ہونے لگے۔ دین کو سیکھنے اور جاننے کا جذبہ ان کے اندر پروان چڑھا جس کے نتیجہ میں نہ صرف حیدرآباد بلکہ اے پی و تلنگانہ کے قریہ قریہ میں اور ہندوستان کے مختلف مقامات پر اللہ کے دین کا یہ پیغام خواتین کے ذریعہ بہت دور دور تک پھیلتا گیا۔
سوال: آج خواتین میں مختلف قسم کے جماعتی کام اور ہر طرح کے رسوخ آپ دیکھ سکتی ہیں تو اس کے مثبت و منفی پہلو کیا ہیں ؟
جواب: آج خواتین مختلف قسم کے جماعتی کاموں کو انجام دے رہی ہیں اور بہت دور دور تک مختلف طبقات کی مختلف تنظیموں کی ذمہ دار خواتین کے مابین انہیں رسوخ بھی حاصل ہے۔ الحمدللہ! اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے اور نوجوان خواتین کے دلوں میں دین کی تڑپ و فکر پیدا ہوتی جارہی ہے۔ یہ طبقہ جماعت کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ مطالعہ کا شوق بڑھ رہا۔ خواتین کی جانب سے چلائی جانے والی مہمات میں آگے بڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور مائل بہ اصلاح ہیں سوچ و فکر میں بھی تبدیلی واقع ہورہی ہے خیر امت ہونے کا شعور بھی جاگ رہا ہے۔ جب کبھی ہماری مہمات کا آغاز ہوتا ہے خواتین انہیں کامیاب بنانے کے لیے بہت تگ دو کرتی ہیں۔ ’اے بنت حرم جاگ ذرا‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں ساٹھ ہزار خواتین نے شرکت کی تھی جس کی تشہیر سے لے کر پروگرامنگ تک سارے امور خواتین نے ہی انجام دیے تھے۔ یہ سب مثبت پہلو ہی ہیں۔ منفی پہلو اسی وقت سامنے آتے ہیں جب خواتین تساہل و تغافل کا شکار ہو جائیں اور دین سے دوری اختیار کرلیں۔ اپنے آپ کو مغربی تہذیب کے حوالے کردیں اور ان کے کام اخلاص سے خالی ہوجائیں۔ میرے خیال میں مرد و خواتین کی ملی جلی نشستیں بھی ایک منفی پہلو ہے۔
سوال:موجودہ زمانے میں لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل کرتی ہیں پروفیشنلس بن جاتی ہیں اور عام طور پر پڑھنے کے بعد وہ ملازمت کے بارے میں سوچتی ہیں۔یہ ایک نمایاں فرق ہے جو پچھلے زمانے کے مقابلے میں ہمیں نظر آتا ہے۔ آج معاشرے میں ان تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے ایسے میں ان کے درمیان بھی کام کرنے کی ضرورت ہے، تو کس طرح ان میں کام کو آگے بڑھائیں؟
جواب :موجودہ دور میں خواتین اور لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ذوق بڑھتا جارہا ہے۔ وہ مختلف زبانوں پر عبور بھی حاصل کر رہی ہیں۔ ان میں سے بعض پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملازمت اختیار کرلیتی ہیں۔ ہمیں ان کے درمیان میں بھی دعوت دین کا کام انجام دینا ضروری ہے۔ ان خواتین سے سب سے پہلے انفرادی ملاقاتیں کریں ان کا ذہن بنانے کی کوشش کریں۔ ان کے اندر دین کا صحیح فہم پیدا کریں۔ ان سے افہام و تفہیم ہو، ان کے لیے ان کی صلاحیت و قابلیت کے مطابق ان کے اوقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختصر و موثر پروگرامس ترتیب دیں۔ ان خواتین کو ان کی تعلیمی صلاحیت و استعداد کے مطابق پروگرام میں مخاطبت کا بھی موقع دیں۔ اسٹڈی سرکلس کا اہتمام کریں، ان کا زیادہ وقت نہ لیں، پروگرام ایسے ہوں جن سے ان کو اکتاہٹ نہ ہو۔ پروگرام دلچسپ ہوں اور ان میں نیا پن ہو۔ ان کے درمیان نظم و ضبط کو ملحوظ رکھیں۔ کبھی ان کے ہمراہ تفریحی پروگرام بھی بنائیں یا ان کے ساتھ چائے نوشی پر ہلکا پھلکا پروگرام رکھیں۔ اس طبقہ کو زیادہ سے زیادہ قریب کرنے کی کوشش کریں۔ کبھی تازہ عنوانات پر سمپوزیم و سیمینار کا اہتمام بھی کریں۔ بعض خواتین جو ادب سے دلچسپی رکھتی ہیں ان کے لیے ادبی اجلاس کا اہتمام بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ جلسہ سیرت النبیؐ یا سیرت ابراہیمؑ کے جلسوں میں بھی انہیں مدعو کریں۔ انہیں بھی مخاطبت کا موقع دیا جائے۔ ان کے ذوق کے لحاظ سے مطالعہ کے لیے کتابوں کا انتخاب کریں، کسی بھی اہم عنوان پر مباحثہ کا اہتمام کریں۔
سوال: موجودہ زمانے میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان میں ایک تبدیلی یہ ہے کہ لوگوں میں سوشل میڈیا کا رجحان پیدا ہوا ہے اور اسی طرح اسمارٹ فون کا استعمال اور ابلاغ کے مختلف ذرائع میں بھی وسعت پیدا ہوئی ہے۔ اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ خاندانی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ بچوں کی پرورش میں بھی مسائل درپیش ہوئے ہیں اور بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تحریکی گھرانے بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں خاص طور پر خواتین کو آپ کا کیا مشورہ دیں گی؟
جواب : موبائل کا صحیح استعمال خواتین کی اختیار تمیزی پر ہے۔ اس کی مثال تلوار سے دی جاسکتی ہے کہ اگر سپاہی کے ہاتھ میں ہو تو بہتر ۔ اگر اناڑی کے ہاتھ میں ہو تو بدتر ۔ اس کے جتنے فائدے ہیں اتنے ہی نقصانات بھی ہیں۔ فائدے حاصل کئے جائیں اور نقصانات سے احتراز کیا جائے۔ یہ وہ اہم ٹکنالوجی ہے جس کے ذریعہ گھر گھر تک اور دور دور تک دعوت دین کا کام انجام دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے اس کا استعمال کرنا ایک مثبت پہلو ہے۔ جبکہ اس کا غلط یا لا یعنی مقاصد کے لیے استعمال اس کا منفی پہلو ہے۔ آج اس کے ذریعہ سے طرح طرح کی خرابیاں و برائیاں عام ہو رہی ہیں۔کئی خواتین و طالبات غلط بینی و غلط گوئی کا شکار ہورہی ہیں۔ اس کا بگاڑ خاندانوں، گھرانوں اور سماج کو بگاڑ کی طرف لے جا رہا ہے۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ معصوم ذہنوں کو اس کے ذریعہ سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ غرض اس کے تمام منفی پہلووں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے بچوں کے لیے بھی اس کا صحیح استعمال کارآمد و مفید بنائیں اور زیادہ سے زیادہ اس کے مثبت پہلووں کو پیش نظر رکھیں اور اس کو اعلائے کلمۃ اللہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا موثر ذریعہ بنائیں۔
سوال: اسلامی معاشرے میں اور برادران وطن کے درمیان خدمت خلق کے کاموں کو کیسے انجام دیں، پہلے ان کاموں کی کیا کیفیت تھی اور آج کی صورتحال کیا ہے؟
جواب : اسلامی معاشرے اور برادران وطن کے درمیان محبت و الفت اور ہمدردی کا برتاو ہو۔ برادران وطن کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ وسیع کریں۔ ان کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کا حکمت کے ساتھ ازالہ کریں۔ ان کے ذہنوں کو پاک کریں۔ گنجلک ذہنیت کو دور کریں۔ ان سے قریبی روابط بڑھائیں۔ اپنے رویہ میں نرمی ہو، شیریں کلامی سے گفتگو کریں۔ ان کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ خوشی کے موقع پر تحفہ تحائف دیں۔ کسی چیز کی انہیں حاجت ہو تو اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اسلامی تعلیمات ان تک پہنچانے کی حکیمانہ و مخلصانہ کوشش کریں۔ بلا لحاظ مذہب و ملت بہت ہی عمدگی کے ساتھ خدمت خلق کے جذبہ کو پروان چڑھائیں۔ عالمی وبا، یا آسمانی آفات یا سیلاب وطوفان سے تباہی کے موقعوں پر ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا تعاون کریں اور ان کے دکھی دلوں کو تسلی دیں۔ پہلے خواتین اتنا بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیتی تھیں۔ برادران وطن میں اتنا کام بھی نہیں تھا لیکن آج بہت ہی نظم و ضبط کے ساتھ ان کا تعاون کیا جارہا ہے۔ ان کے بچوں کے لیے تعلیمی امداد بھی دی جارہی ہے۔
بیمار ہونے پر علاج بھی کروایا جا رہا ہے۔ چھوٹے پیمانے کے روزگار کے ذریعہ انہیں خود مکتفی بنانے کی بھی کوشش ہو رہی ہے۔ آگے بھی ان کے درمیان کام کرنے اور ان کے قریب ہونے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ ان کے لیے اولڈ ایج ہوم، معذوروں کے لیے ببیت المعذورین، اداروں کا سروے، یتیم خانوں میں جاکر ان سے تبادلہ خیال۔ حکمت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کے درمیان ضرورت کے لحاظ سے جس چیز کی ضرورت ہو مہیا کی جا رہی ہے۔ تلگو، ہندی اور انگریزی میں انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا جارہا ہے۔
سوال: سماجی میل ملاپ کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ذاتی اور خاندانی زندگی کے بعد تحریک زندگی اور معاشرتی زندگی میں توازن کے ساتھ چلنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ توازن ٹوٹ جائے تو زندگی کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور متاثر ہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت نہ ملنا جیسے عذر ہمارے سامنے آتے ہیں تو خواتین اس توازن کو کیسے برقرار رکھیں؟
جواب :گھریلو کاموں اور تحریکی کاموں میں بیشتر خواتین توازن برقرار نہیں رکھتیں ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ توازن برقرار نہ رکھا جائے تو تلخیاں بڑھتی ہیں اور جماعت کے بارے میں بدگمانیاں جنم لینے لگتی ہیں۔Working Women میں کاموں کو منصوبہ بند طریقہ سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ تحریکی کام کرتے ہوئے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی زندگی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے Time Manage کرنا ہوگا۔ اپنا ٹائم ٹیبل بنالیں۔ اس کے مطابق زندگی کے کاموں کو انجام دیں۔ تب ہی توازن قائم ہوسکتا ہے۔ کس وقت ہمیں کیا کام کرنا چاہیے یہ طے کرلیں۔ اس طرح وقت بھی ضائع نہیں ہوگا اور سارے کام بڑی عمدگی سے نمٹائے جاسکتے ہیں۔ وقت کی تنظیم نہ کرنے ہی سے ہمارے سارے کاموں کا نظام درہم برہم ہوتا ہے اور توازن باقی نہیں رہتا۔ ہم بچوں کی اور گھر کی جانب خصوصی توجہ نہیں دے سکتیں۔ ہمیشہ میرے ذہن میں یہ بات رہتی کہ حضورؐ نے فرمایا بچے جنت کے پھول ہیں۔ اس بیش بہا نعمت کی قدر کرتے ہوئے ان کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کریں۔ انہیں جہنم سے بچانے کی فکر کریں ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ صحیح معنوں میں جنت کے پھول بن جائیں اور ہمارے لیے ثواب جاریہ اور صدقہ جاریہ بن جائیں۔ الحمدللہ شروع سے جو شیڈول ہم نے بتایا۔ وقت کا صحیح استعمال کرنے کی جو عادت رہی ہے میں آج بھی اس پر کاربند ہوں۔
سوال : آئندہ کے لیے ہماری امیدیں نئی نسل سے وابستہ ہیں اور نئی نسل میں بہت بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ماشاء اللہ وہ تعلیم یافتہ بھی ہیں ان کے اندر کافی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ان کے لیے آپ کے کیا پیغام دیں گی۔ بہت سارا تحریکی لٹریچر اردو میں ہے اور نئی نسل اردو سے نابلد ہے ایسی صورت حال میں ہم کیسے ان کی تربیت کریں؟
جواب: یہ ماوؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اردو زبان سیکھنے، پڑھنے اور بولنے سے محروم نہ رکھیں یہ صحیح ہے کہ دین کا بڑا اثاثہ اردو زبان میں محفوظ ہے لیکن دوسری زبانوں میں بھی اہم کتابوں کے تراجم موجود ہیں۔ ان سے استفادہ کی جانب رہنمائی کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔

 

***

 آج خواتین مختلف قسم کے جماعتی کاموں کو انجام دے رہی ہیں اور بہت دور دور تک مختلف طبقات کی مختلف تنظیموں کی ذمہ دار خواتین کے مابین انہیں رسوخ بھی حاصل ہے۔ الحمدللہ! اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے اور نوجوان خواتین کے دلوں میں دین کی تڑپ و فکر پیدا ہوتی جارہی ہے۔ یہ طبقہ جماعت کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ مطالعہ کا شوق بڑھ رہا۔ خواتین کی جانب سے چلائی جانے والی مہمات میں آگے بڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور مائل بہ اصلاح ہیں سوچ و فکر میں بھی تبدیلی واقع ہورہی ہے خیر امت ہونے کا شعور بھی جاگ رہا ہے۔ جب کبھی ہماری مہمات کا آغاز ہوتا ہے خواتین انہیں کامیاب بنانے
کے لیے بہت تگ دو کرتی ہیں۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023