بلوغت کے بعد مسلم لڑکی والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کر سکتی ہے: دہلی ہائی کورٹ
نئی دہلی، اگست 23: بنچ نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو برقرار رکھا جس میں سر دنشاہ فردن جی ملا کی کتاب ‘پرنسپلز آف محمڈن لاء’ کا حوالہ دیا گیا تھا اور اسی کے مطابق فیصلہ سنایا گیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ بلوغت کو پہنچنے والی لڑکی شرعی قوانین کے تحت "اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کر سکتی ہے” اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے خواہ وہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو۔
گیارہ مارچ کو والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کے ایک مسلم جوڑے کے معاملے میں جسٹس جسمیت سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جب لڑکے کی عمر 25 سال ہے، لڑکی کے اہل خانہ اور پولیس کے مطابق مارچ میں جب کہ ان کی شادی ہوئی،لڑکی کی عمر 15 سال تھی۔ لڑکی کے وکیل کے ذریعہ عدالت میں پیش کیے گئے آدھار کارڈ کے مطابق، اس کی عمر فی الوقت 19 سال سے زیادہ ہے۔
"اس طرح یہ واضح ہے کہ شرعی قانون کے مطابق، جو لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہو، وہ اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کر سکتی ہے اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے یہاں تک کہ اس کی عمر 18 سال سے کم ہو اور اس طرح (بصورت دیگر) یہ ایک نابالغ لڑکی ہے،” جسٹس سنگھ نے 17 اگست کے ایک حکم میں یہ رائے ظاہر کی ۔ اس فیصلے کی مکمل کاپی پیر کی شام کو جاری کی گئی ہے۔
بنچ نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو برقرار رکھا جس میں سر دنشاہ فردن جی ملا کی کتاب ‘پرنسپلز آف محمڈن لاء’ کا حوالہ دیا گیا تھا اور اسی کے مطابق فیصلہ سنایا گیا تھا۔
جسٹس سنگھ نے مزید کہا کہ اگر لڑکی نے شادی کے لیےاپنی رضامندی ظاہر کی ہے اور وہ خوش ہے تو ریاست اس کی نجی زندگی میں دخل اندازی کرنے اور جوڑے کو الگ کرنے کے لیے کوئی کردار ادانہیں کرسکتی ۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا، ”ایسا کرنا ریاست کی طرف سے ذاتی زندگی پر قبضہ کرنے کے مترادف ہوگا”۔
واضح رہے کہ اس مسلم جوڑے نے اپریل میں عدالت سے رجوع کیا تھا اور پولیس سے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا تھا اور اس بات کو یقینی بنانے کی درخواست کی تھی کہ کوئی انہیں ایک دوسرے سے الگ نہ کرے۔ لڑکی کے والدین نے 5 مارچ کو دوارکا پولیس اسٹیشن میں ایک مقدمہ درج کرایا تھاجس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی نابالغ بچی کو اغوا کیا گیااور پھر بعد میں اس کے ساتھ شادی کر لی گئی۔ بعد میں اس کیس میں تعزیرات ہند کی دفعہ 376 (ریپ)اور پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل آفنسز (پاسکو) ایکٹ کی دفعہ 6 (جنسی زیادتی) کو شامل کیا گیا تھا۔
تاہم لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ اس کے والدین اس کے ساتھ متواتر زیادتی کر رہے تھے اور انہوں نے زبردستی اس کی شادی کسی دوسرے لڑکے سے کرنے کی کوشش کی تھی۔ پولیس نے 27 اپریل کو لڑکی کو اس شخص کی تحویل سے "برآمد” کیا اور اسے چائلڈ ویلفیئر کمیٹی (سی ڈبلیو سی)کے سامنے پیش کیا۔ سی ڈبلیو سی کی ہدایت پر اسے ہری نگر کے نرمل چھایا کمپلیکس میں رکھا گیا تھا۔ لڑکی کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ حاملہ ہے اور اپنی مرضی اور رضامندی سے اس شخص کے ساتھ چلی گئی تھی جسے وہ پسند کرتی تھی۔
مذکورہ کیس کے تعلق سے جسٹس سنگھ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ اس کیس کے حقائق پہلے کے فیصلے سے مختلف ہیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکسو 18سال سے کم عمر کے بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لیے ایک قانون ہے اور اس کا اطلاق شرعی قانون پربھی ہوگا۔ اس معاملے میں، عدالت نے کہا، متاثرہ اور ملزم کے درمیان کوئی شادی نہیں ہوئی تھی، اور شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کیے گئے تھے۔ عدالت نے دوسرے کیس کے بارے میں کہا کہ جسمانی تعلق قائم کرنے کے بعد ملزم نے متاثرہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
"دوسری طرف، موجودہ کیس میں استحصال کا کوئی معاملہ نظر نہیں آتا ہے بلکہ یہ ایک ایسا کیس ہے جہاں درخواست گزاروں نے محبت کی، شرعی قوانین کے مطابق شادی کی اور اس کے بعد جسمانی تعلقات بنائے،” عدالت نے مزید کہا۔ یہ جوڑا میاں بیوی کے طور پر ایک ساتھ رہ رہا تھا اور شادی سے پہلے ان پر جنسی تعلقات کا کوئی الزام نہیں تھا۔
عدالت نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں کو ایک دوسرے سے قانونی طور پر شادی کرنے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ "شادی کی اصل روح”ہے اور اگر وہ الگ ہوجاتے ہیں تو اس سے لڑکی اور اس کے پیدا ہونے والے بچے کو مزید صدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت نے اپنے تبصرے میں مزید کہا کہ ”یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ موجودہ کیس میں درخواست گزار نمبر ایک یعنی لڑکی کے گھر کا ماحول اس کے اور اس کے شوہر کے لیے مخالفانہ اور معاندانہ ہے۔وہ وہاں پرسکون ہوکر اپنی زندگی نہیں گزار سکتے اس لیے دونوں کو ساتھ رہنے کی پوری آزادی ملنی چاہیے۔