جمعیت علمائے ہند نے عدالتی حکم کے بغیر جائیدادوں کی بلڈوزنگ کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا
نئی دہلی، اپریل 19: مولانا سید ارشد مدنی کے زیرقیادت جمعیت علمائے ہند (جے یو ایچ) نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ریاستی حکومت کے حکام کو مکانات اور دیگر املاک کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے اس الزام میں مسمار کرنے سے روکا جائے کہ ایسے گھروں کے مالکان فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پتھراؤ میں ملوث تھے۔
جے یو ایچ ہندوستان کی بڑی مسلم تنظیموں میں سے ایک ہے۔
حکومت کے اس طرح کے اقدامات کے متاثرین میں سے 99 فیصد سے زیادہ مسلمان ہوتے ہیں۔
مدھیہ پردیش اور گجرات میں ریاستی حکومت کے حکام نے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو مسمار کیے جانے کے بعد مسلم ادارے نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ اس سے قبل اتر پردیش کے حکام نے اسی طرح مسلمانوں کے مکانات کو گرانے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا تھا۔
درخواست میں میں نشان دہی کی گئی کہ حکام قانون کے مناسب عمل کی پیروی کیے بغیر فوری فیصلے کر رہے ہیں۔
درخواست میں یہ بھی نشان دہی کی گئی کہ فوجداری انصاف کے نظام میں رہائشی اور تجارتی املاک کو سزا دینے کے لیے بلڈوز کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
درخواست میں یہ بھی نشان دہی کی گئی کہ لوگوں کو سنے بغیر سزائیں دی جارہی ہیں۔
مزید یہ کہ ’’حکام ملزمین کے منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘‘
درخواست میں کہا گیا کہ عدالت کی طرف سے بغیر تفتیش اور فیصلے کے لوگوں کو قصوروار ٹھہرانے سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ایسے افراد کی جائیدادوں کی مسماری زیادہ تشویش ناک ہے کیوں کہ قانون میں ایسی سزاؤں کا تعین نہیں کیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’حکام کی کارروائیاں ملزمین کو الزامات کے خلاف مناسب طریقے سے اپنا دفاع کرنے سے بھی روکتی ہیں۔‘‘
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزرا اور پولیس حکام کو ٹرائل کورٹ کی طرف سے اس طرح کی ذمہ داری کا تعین کرنے سے پہلے ملزمین پر مجرمانہ ذمہ داری کا تعین کرنے والے عوامی بیانات دینے سے روکا جائے۔ درخواست میں نشان دہی کی گئی ہے کہ حکومت کے ایسے اقدامات سے ملک کے فوجداری نظام انصاف اور عدالتوں کے اہم کردار کو نقصان پہنچتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی اور وزیر داخلہ سمیت متعدد وزراء اور قانون سازوں نے اس طرح کے اقدامات کی وکالت کرتے ہوئے بیانات دیے ہیں اور خاص طور پر اقلیتی گروہوں کو فسادات کی صورت میں ان کے گھروں اور تجارتی املاک کو تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایسے اقدامات/کارروائیوں کا سہارا لینا واضح طور پر ہمارے آئینی اخلاق اور فوجداری نظام انصاف کے ساتھ ساتھ ملزمین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ ریاست کی یہ کارروائیاں ’’قانونی عمل میں بھی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے ایسے واقعات کو دہرانے سے روکنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔‘‘