مسلمان مجرم کی پوری تفصیلات اور غیر مسلم مجرموں کا نام بھی مخفی

صحافتی منافقت کی ایک اور شرمناک تصویر

سمیع احمد

نئی دلی۔پچھلے چند سالوں سے بعض صحافتی اداروں کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ کسی بھی معاملے میں اگر مجرمین کا تعلق مسلمانوں سے ہو تو خبروں میں بیان کا زاویہ ہی بدل جاتا ہے۔ جرم اور اس کی شناعت سے زیادہ اس کے مذہب اور قوم کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے مجرموں کی شناخت بھی چھپائی جاتی ہے یا جلد نہیں کی جاتی۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں دیکھنے میں آئی جب 28نومبر کو نئی دلی میں ایک بہیمانہ قتل اور مُثلہ کی واردات پیش آئی جس کے بعد اس خبر کو خبر رساں ادارہ اے این آئی نے جس انداز سے پیش کیا وہ ملاحظہ ہو:
’’دلی کے پانڈے نگر میں ایک خاتون اور اسکے بیٹے کو اپنے خاوند کا قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ماں نے بیٹے کے ساتھ مل کر اپنے ہی شوہر کو قتل کر دیا اور اسکی نعش کے متعدد ٹکڑے کرکے فریج میں رکھا اور ان ٹکڑوں کو وقتاً فوقتاً قریبی میدان میں ٹھکانے لگا دیا۔ دلی پولیس کرائم برانچ‘‘
یہ جرم واقعی قابلِ مذمت ہے لیکن اس کی جس طریقے سے اس کی رپورٹنگ کی گئی ہے وہ اس سے بھی زیادہ قابل مذمت ہے جس میں یہ گھناؤنی چال چلی گئی کہ مجرموں کا نام، مذہب اور دیگر تمام تفصیلات کو خفیہ رکھا گیا اور خبر اس طرح پیش کی گئی کہ دلی پولیس کرائم برانچ نے جو اطلاع دی ہمیں دی تھی اسی کے مطابق یہ خبر آپ تک پہنچائی گئی ہے۔ اور جب بعد میں مجرموں کی شناخت خفیہ رکھنے پر اے این آئی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو ایک اپڈیٹ یوں سامنے آئی:
’’دلی کے پانڈے نگر میں ملزم خاتون پونم اور اس کے بیٹے دیپک کو اپنے خاوند کا قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ماں نے بیٹے کے ساتھ مل کر اپنے شوہر انجن داس کو قتل کر دیا اور اس کی نعش کے متعدد ٹکڑے کرکے فریج میں رکھا اور ان ٹکڑوں کو وقتاً فوقتاً قریبی میدان میں ٹھکانے لگا دیا۔ دلی پولیس کرائم برانچ‘‘
مشہور صحافی محمد زبیر نے جب مسلمانوں کے معاملے میں انہیں بے نقاب کرنے اور ہندو مجرموں کے ناموں کو چھپانے کی اس دانستہ حرکت کی طرف اشارہ کیا تو اس پر تلخ بحث شروع ہو گئی۔ محمد زبیر نے سوال کیا کہ ’’کال آنے کے بعد اپ ڈیٹ؟‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر کہیں جرم ہوتا ہے تو کیا مجرم کا مذہب بتانے میں جلدی کرنی چاہیے؟
کوئی اس سے متفق ہو یا نہ ہو لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ مسلمانوں کو، اگر وہ کہیں جرم کرتے ہوں تو انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بے نقاب کرنے کا ایک گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے جو ہر صورت میں قابل مذمت ہے۔
اس معاملے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کے رد عمل سامنے آئے جن میں سے بعض یہ ہیں:
ایک ٹویٹر صارف ارحم صدیقی نے لکھا کہ ’’یہ جرائم افسوسناک ہیں، آخر انسان اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ زیادہ المناک اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس طرح کی خبریں دیکھتے ہی ہم نام یا اس کا مذہب تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ کچھ سال پہلے تک ایسا نہیں ہوتا تھا۔ میں حیران ہوں کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟”
ایک اور صارف نے لکھا کہ: ’’آسام کے وزیر اعلی! اسے بھی اگلی انتخابی ریلی کے لیے استعمال کریں‘‘
یہ وہ مقام ہے جہاں ہمارے بعض حکمرانوں کا ردِ عمل سوالات کے دائرے میں آتا ہے۔ یاد رہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمانتا بسوا سرما نے گجرات میں اپنی انتخابی ریلی کے دوران شردھا واکر قتل کے ملزم آفتاب امین پونا والا کے بارے میں کیا کہا تھا؟ انڈیا ٹومارو میں کی گئی بحث کا اقتباسی جملہ یہ تھا: ’’اگر آپ کو آفتاب کے لیے مودی کی ضرورت ہے تو نتیش اور شیام علی کو روکنے کے لیے کس کی ضرورت ہے؟‘‘
مجرم کے یہ نام کیوں رکھے گئے اس کا اندازہ درج ذیل دو ٹویٹس سے بآسانی ہو سکتا ہے:
1) ’’یہ جان کر اچھا لگا کہ ان کے کچھ نام ہیں، جیسے پونم اور دیپک۔‘‘
2) ’’تصور کریں کہ اگر یہ کوئی خان جوڑی ہوتی تو پورا میڈیا انصاف انصاف چیخ رہا ہوتا‘‘
مجرم کا نام لینے اور مجرموں کے مذہب کی بنیاد پر اس جرم کے متعلق ردِعمل ظاہر کرنے میں کھلا تعصب پایا جاتا ہے جس میں دائیں بازو کے ہندوتوا سیاست داں اور میڈیا دونوں برابر کے ملوث ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں میں قتل اور مُثلے کے کئی واقعات ہوئے، لیکن اگر کوئی تلاش کرے تو ہر کسی کو صرف آفتاب امین پونا کے بارے میں ہی تفصیلات ملیں گی کہ اس نے شردھا واکر کو کب قتل کیا کیسے قتل کیا اور اس کے بعد اس کی نعش کے ساتھ کیا کیا وغیرہ۔
ٹیلی ویژن اور پرنٹ میڈیا، خاص طور پر ہندی میڈیا نے ان دیگر جرائم کو پیش ہی نہیں کیا جن کا ارتکاب کرنے والے مسلمان نہیں تھے۔
دو دیگر ٹویٹس اے این آئی کے مسئلے کی مزید وضاحت کرتے ہیں:
انتخاب عالم نے لکھا، ’’ہیلو اے این آئی! اب آپ غلط ہیں، جبکہ پہلے آپ صحیح تھے۔ سرخی میں نام بتانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ خبر کے مواد میں ہونا چاہیے‘‘
نیز errOrnab نے اس پر رد عمل ظاہر کیا کہ اے این آئی پہلے ہی کافی عرصے سے گڑبڑ کر رہا ہے۔ ان خبر رساں ایجنسیوں نے صرف کچھ توجہ کے لیے ملزم کا نام پہلی جگہ نہ رکھنے کا صحیح طریقہ بدل دیا ہے۔ اب یہ طریقہ ناقابل واپسی بن چکا ہے خواہ وہ کتنا ہی کیوں نہ چاہیں”
واضح رہے کہ یہی ادارہ سرخیوں میں نام کی وضاحت کرنے سے منع کرتا ہے تاکہ مذہب ظاہر نہ ہو جبکہ یہ خود مختلف مذاہب کے سلسلے میں مختلف سلوک روا رکھتا ہے۔ جب بھی کوئی منفی خبر آتی ہے تو اے این آئی ’’مسلم شخص‘‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال کرنا مشکل ہی سے بھولتا ہے۔
ہندوتوا کے دائیں بازو کی پروپیگنڈا ویب سائٹ اوپ انڈیا کی سرخی اس کی مزید وضاحت کرتی ہے:
دلی: ماں بیٹے کی جوڑی گرفتار جس نے باپ کو قتل کر دیا اور جسم کے اعضاء فریج میں دیے ‏(opindia.com)۔
لیکن نام نہاد لبرل ٹیلی ویژن چینل NDTV کی طرف سے مجرم کے مذہب کا نام بتانے اور خفیہ رکھنے کا یہ گھناؤنا ڈرامہ جلد ہی دنیا کے امیر ترین ہندوستانی آدمیوں میں سے ایک کی گرفت میں آنے والا ہے۔ پروفیسر اشوک سوین نے 24 نومبر کو لکھا ’’بھارتی میڈیا کے لیے اگر قاتل ہندو ہے تو وہ آدمی بن جاتا ہے لیکن اگر وہ مسلمان ہے تو آفتاب بن جاتا ہے‘‘
این ڈی ٹی وی نے خبر یوں دی ہے:
یو پی کے آدمی نے بیوی کو بے وفائی کے شبہ میں قتل کر دیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے : پولیس (ndtv.com)۔
اس نیوز آئٹم میں مجرموں کے نام آسکتے تھے لیکن اس سرخی میں ایک کا بھی نام نہیں آیا جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ محض لفظ مجرم کا استعمال مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے اور اگر وہ مسلمان ہوتا تو پھر اس کا پورا شجرہ شائع کیا جاتا۔
(بشکریہ :انڈیا ٹومارو)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022