!مرغِ بسمل کے تڑپنے اور نوحہ گری پر بھی پابندی

آتش و آہن کی موسلا دھار بارش میں لہو لہان غزہ کے مسلمان

مسعود ابدالی

دنیا بھر میں آزادی اظہارِ رائے کے زبردست مظاہرے۔ اہل مغرب کا دوغلاپن واضح
حماس نے ایک اسرائیلی ماں اور بیٹی کو محض انسانیت کی بنیاد پر قید سے رہا کر دیا
جس وقت یہ مضمون ضبط تحریر میں لایا جارہا ہے غزہ پر آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ ہسپتال، پناہ گزینوں کی خیمہ بستیاں، مساجد اور اسکول اس ابرِ ستم کا خاص نشانہ ہیں۔ 14؍ اکتوبر کو مرکزی غزہ میں المستشفی الاھلی العربي کے اسرائیلی بمباروں نے پر خچے اڑادیے۔ اس حملے میں جاں بلب مریضوں، مسیحاوں، طبی عملے اور لواحقین سمیت 800افراد مارے گئے۔ المستشفی المعمداني Hospital (Baptistکے نام سے مشہور یہ بیمارستان  1882میں گرجائے انگلستان کے ذیلی ادارے چرچ مشن سوسائٹی نے قائم کیا تھا جس کا انتظام مسیحی NGO کے ہاتھ میں تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق تادم تحریر سات ہسپتالیں اور 24 شفا خانے پیوند خاک کیے جا چکےہیں۔
جس وقت اسرائیلی طیارے مذکورہ ہسپتال کی مریضوں سمیت اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے امریکی صدر کا طیارہ اسرائیل کی طرف محو پرواز تھا۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کے دورے کا ایک نکاتی ایجنڈا اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے غیر مشروط حمایت و پشت پناہی کی یقین دہانی کرانا ہے۔ اسرائیل میں وزیر اعظم نتن یاہو سے ملاقات کے بعد صدر بائیڈن نے کہا کہ ’’غزہ ہسپتال پر بمباری کا ذمہ دار اسرائیل نہیں، یہ دوسری ’ٹیم‘ کی کاروائی ہے۔ سیاسی و اخلاقی اقدار کے اعتبار سے اسرائیل، امریکہ اور دوسری جمہوریتوں کا معیار ایک ہے‘‘ جہاں تک امریکی صدر کے اخلاقی معیار کا تعلق ہے تو اس کا اظہار الفاظ کے انتخاب سے ہی ظاہر ہوگیا جب انہوں نے اسرائیلی حملے کا دفاع کرنے والوں کو ’دوسری ٹیم‘ کہا۔ گویا یہ دو ٹیموں کے درمیان کھیل ہے۔ قدیم یونانی میلوں میں ایسے ہی کھیل ہوتے تھے جب چُھروں سے مسلح ایک ٹیم کے مقابلے میں نہتوں کو اتارا جاتا تھا۔
صدر بائیڈن کی اس انسانیت سوز رویے پر اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) کے امیر ڈاکٹر محسن انصاری نے اپنے ایک بصری پیغام میں کہا ’’بائیڈن صاحب! تاریخ میں آپ کو امریکہ کے صدر اور آزاد دنیا کے اس قائد کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے ایک ملک کا ٹھیک اس روز دورہ کیا جس دن اس نے ایک ہسپتال پر بمباری کرکے 800 شہریوں کو قتل کر دیا اور آپ نے اس وحشی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ یہ بات تاریخ کے صفحات سے محو ہونے والی نہیں ہے۔
اس کے پانچ دن بعد 19؍ اکتوہر کو 1600 سال قدیم یونانی قدامت پسندSaint Porphyrios گرجے کو نشانہ بنایا گیا جہاں بمباری سے بے گھرہونے والے پناہ گزین تھے۔
جنگی جنون میں اسرائیلی حکومت تلمود (یہودی فقہ) کو بھی نظر انداز کر رہی ہے جس کے تحت ہفتہ یوم سبت ہے۔
اس روز کھانا پکانے سمیت کوئی کام نہیں کیا جاتا حتی کہ گھر کی گھنٹی اور کمپیوٹر پر کی بورڈ دبانا بھی حرام سمجھا جاتاہے۔ جمعہ کو غروب آفتاب سے ہفتے کو رات چھا جانے تک پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ اسرائیلی ایرلائین کی اندرون ملک پروازیں تک معطل رہتی ہیں اور بندرگاہوں پر بھی کام نہیں ہوتا۔ گزشتہ ہفتے ایک حکم کے تحت سپاہی ڈھونے کی غرض سے اسرائیلی ایرلائین نے ہفتے کو سبت کی پابندیاں معطل کر دیں۔ 
بحر روم کے ساحل پر اس 8 سے 12 کلومیٹر چوڑی پٹی کے باسیوں کو اب ایک نئی آزمائش کا سامنا ہے۔ یہ بے کس دوا اور غذا کو تو ترس ہی رہے تھے اب ان کے پاس اپنے مُردوں کے لیے کفن بھی نہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو پرانے کپڑوں سے تراشے گئے کفن میں سپرد خاک کر رہے ہیں۔ یہ سن کر ہمیں ان پریشاں حالوں کو  مبارکباد دینے کا دل چاہا کہ حضرت صدیق اکبرؓ بھی پرانے کپڑوں میں دفن کیے گئے تھے۔آئسکریم کے ٹرک لاشیں محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور اب رضاکاروں نے کفن کے لیے پرانے کپڑے جمع کرنے شروع کردیے ہیں۔ فاسفورس بموں سے جھلسی ہوئی بہت سی لاشیں عملا راکھ کا ڈھیر بلکہ مشتِ غبار بن گئی ہیں اور انہیں کفن اور قبر کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ ہمارے بے نیاز رب نے اپنے بندوں کو بھی تجہیرو تکفین اور دوش عزیزاں کی زحمت سے بے نیاز کر دیا ہے۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
سفید فاسفورس کے استعمال کی بات فلسطینیوں نے نہیں بلکہ انسانی حقوق کی تنظیم برائے یورپ و بحر رومEuro-Med Monitor نے اٹھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں سفید فاسفورس استعمال کر رہا ہے جس کا استعمال اقوام متحدہ نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔
غزہ میں بے گناہوں کے خون سے کھیلی جانے والی شیطانی ہولی پر امریکی صدر سمیت مغربی دنیا کی قیادت جس تکبرانہ انداز میں تالیاں بجاکر وحشیوں کو شاباش دے رہی ہے اس کی وجہ سے دنیا بھر میں نفرت اور عدم برداشت کی لہر امڈ آئی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے دفاع میں جاری ہونے والے بے رحمانہ بیانات سے پھوٹنے والی چنگاری امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران دو زندگیاں بھسم کرگئی۔ 14؍ اکتوبر کو شکاگو میں ایک چھ سالہ مسلمان بچہ نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا جب معصوم ودیع الفیوم کو 26 بار چھرا گھونپ کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس کی ماں شدید زخمی ہے۔
اس وحشت کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 21؍ اکتوبر کو ڈیٹرائٹ کے مضافاتی علاقے Lafayette پارک میں ایک یہودی معبد (Synagogue) کی سربراہ سمنتھا وول (Samantha Woll) بے دردی سے قتل کردی گئی۔ چالیس سالہ سمنتھا کی لاش ان کے گھر کے باہر پڑی تھی اور خون کے نشان گھر کے اندر تک تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ حملہ آور نے گھر کے اندر انہیں چھرا گھونپا اور یہ خاتون جان بچانے کے لیے گھر سے باہر بھاگی جہاں اس  نے دم توڑ دیا۔ ڈیٹرائٹ میں عرب مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ فلسطینی نژاد رکن کانگریس رشیدہ طلیب کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔ سمنتھا وول ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک مقبول مذہبی رہنما تھیں۔ اعلیٰ ظرفی و برداشت اور رکھ رکھاو کی بنا پر ان کے مسلمانوں سے بھی اچھے تعلقات تھے۔مسلمانوں سے ہم آہنگی کے لیے انہوں نے Greater Detroit Muslim Jewish Solidarity Council تشکیل دی تھی۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں مساجد و مدارس کے ساتھ یہودی معبدوں کو بھی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جو اسرائیلی و مغربی رہنماوں کے نفرت و حقارت پر مبنی آتشیں بیانات بلکہ بیانیے کا شاخسانہ ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ہفتے پولیس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی ادارہ برائے تحقیقات FBI کے سربراہ کرسٹوفر رے Christ Wrey نے امریکی عوام کو متنبہ کیا کہ فلسطینی انتہا پسندوں سے متاثر عناصر حماس جیسی کارروائی امریکہ میں بھی کرسکتے ہیں۔ داخلی سلامتی کے کلیدی سربراہ کی جانب سے اس قسم کی گفتگو نے مسلمانوں اور خاص طور سے فلسطین نژاد امریکیوں کو معاشرے میں مشکوک بنا دیا ہے۔
جہاں طرف اہل غزہ فاسفورس بموں سے جھلسائے جا رہے ہیں، وہیں دوسری جانب مرغ بسمل کو تڑپنے کی بھی اجازت نہیں۔ ابلاغ عامہ کے روایتی ذرائع فلسطینی مزاحمت کاروں کو وحشی اور خونی ثابت کر رہے ہیں تو سماجی رابطوں کے ذرائع بدترین سینسر کا شکار ہیں۔ فیس بک، X (ٹویٹر)، انسٹا گرام اور یوٹیوب وغیرہ پر اسرائیلی مظالم سے متعلق مواد شائع کرنا ممنوع ہے۔ اکاونٹ کی بندش کے ساتھ reach محدود کرنے کی حکمت عملی استعمال ہو رہی ہے۔
ممتاز کالم نگار ومصنفہ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پابندی لگادی گئی۔ فاطمہ بھٹو جارحیت کے خلاف سوشل میڈیا پر تسلسل سے لکھ رہی ہیں۔ جواں سال فاطمہ پابندیوں کے بعد بھی پرعزم ہیں۔ انہوں نے ایک بصری پیغام میں کہا کہ ’’وہ پابندیوں کے باوجود اپنی توجہ غزہ پر مرکوز رکھیں گی‘‘
غزہ میں قلم کے مزدوروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمنCommittee to Protect Journalists یا CPJ کے مطابق بمباری سے اب تک 17 صحافی مارے گئے جن میں 13 فلسطینی، تین اسرائیلی اور ایک لبنانی تھا۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل وزیر اطلاعات سلام کرہی نے بہت فخر سے بتایا کہ ہنگامی حالت کے تحت الجزیرہ سمیت غیر ملکی خبر رساں اداروں پر ’وقتی‘ پابندی کا قانون منظور کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل حالت جنگ میں ہے۔ اسے زمین، فضا اور سمندر کے ساتھ سفارت و صحافتی محاذ پر بھی جارحیت کا سامنا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں پر بھی کہیں علانیہ پابندی تو کہیں ‘انتظامی رخنہ اندازی جاری ہے۔ واشنگٹن میں بمباری کے خلاف مظاہرہ کرنے والے یہودیوں پر پولیس ٹوٹ پڑی۔ 18؍ اکتوبر کو ہونے والے اس مظاہرے کا اہتمامJewish Voice for Peace نے کیاتھا۔ مظاہرین نے جن میں سینیٹر برنی سینڈرز بھی شامل تھےJews say ceasefire now اورNot in our name کی ٹی شرٹ زیب تن کر رکھی تھی۔ پکڑ دھکڑ کے دوران نوجوان خواتین سمیت  300 افراد کو گرفتار کرکے ان کی مشکیں کس دی گئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین امریکی کانگریس کی عمارت میں گھس گئے اور انہوں نے تنبیہ نظر انداز کرتے ہوئے سڑک پر ٹریفک میں خلل ڈالا تھا۔
ہالینڈ، جرمنی اور فرانس نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی ہے۔ فرانسیسی وزیر داخلہ نے کہا کہ ان مظاہروں سے امن عامہ کی صورتحال متاثر ہو سکتی ہے۔ گویا تحفظ آزادیِ اظہار کے نام پر قرآن جلانے اور خاکے اڑانے کی کھلی اجازت لیکن پرامن مظاہرے ممنوع! مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے حق میں مظاہروں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس حوالے سے دہرے معیار کی ایک اور مثال قارئین کی دلچسپی کے لیے۔
فرانس میں حالیہ تعلیمی سال کے آغاز سے کلاس کے دوران اسکارف پر پابندی لگادی گئی ہے۔ جب مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تو صدر ایمیونل میکراں نے موقف اختیار کیا کہ ’’معاملہ ہماری سیکولر اقدار کا ہے جس کے تحت سرکاری اسکولوں سمیت پبلک مقامات پر کسی بھی مذہبی شناخت کی نمائش مناسب نہیں‘‘ وہاں کی اقلیت نے یہ کڑوی گولی نگل لی۔ لیکن حالیہ دنوں جہاں ایفل ٹاورکو ہم آہنگی کے اظہار کے لیے اسرائیلی پرچم کی نیلی اور سفید روشنیوں سے منور کیا گیا وہیں کھمبوں پر ستارہ داؤد بھی ٹانک دیے گئے ہیں۔ یورپ بھر میں ہلال مسلمانوں،  صلیب مسیحیوں اور ستارہ داؤد یہودیوں کی شناخت ہے۔
فٹ بال کے مشہور ڈچ کھلاڑی انور الغازی کو ان کے Mains 5 فٹ بال کلب نے اسرائیل کے بارے میں’ناپسندیدہ‘ فیس بک پوسٹ لکھنے پر معطل کر دیا ہے۔
چند روز قبل امریکہ کی مشہور درسگاہ جامعہ اسٹینفورڈ Stanford University کے ایک استاد کو معطل کر دیا گیا۔ ان پر الزام ہے  کہ ایک لیکچر میں انہوں نے اسرائیل کو توسیع پسندانہ ریاست قرار دیا تھا۔ اسٹینفورڈ کے علاوہ تمام جامعات میں یہود مخالف رویے یا Antisemitism کے نام پر سیاسی و نظریاتی نشان دہی اور بوقتِ ضرورت تطہیر کا عمل جاری ہے۔ غزہ میں جاری جارحیت سے اہل غزہ پر جو بیت رہی ہے وہ اپنی جگہ لیکن مغرب کا چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا ہے، یعنی آزادی اظہار اور جمہوریت کی حقیقت ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
گفتگو کا اختتام ایک اچھے نوٹ پر کہ گزشتہ جمعہ اہل غزہ نے زیر حراست ماں اور بیٹی کو رہا کر دیا۔ امریکی ریاست الی نوائے Illinois کی 59 سالہ جوڈی رنان اور ان کی 18سالہ صاحبزادی نتالی رونان 7؍ اکتوبر کو اسرائیلی فوج پر حملے میں گرفتار ہوئی تھیں۔ غزہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا  کہ ’’ماں اور بیٹی کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا گیا ہے۔‘‘ اس اقدام سے یہ ثابت ہوگیا کہ بائیڈن اور ان کی فاشسٹ انتظامیہ کے دعوے جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔
کاش ایسی ہی خیر سگالی کا اظہار دوسری جانب سے بھی ہو۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 اہل غزہ نے زیر حراست ماں اور بیٹی کو رہا کر دیا۔ امریکی ریاست الی نوائے Illinois کی 59 سالہ جوڈی رنان اور ان کی 18سالہ صاحبزادی نتالی رونان 7؍ اکتوبر کو اسرائیلی فوج پر حملے میں گرفتار ہوئی تھیں۔ غزہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا  کہ ’’ماں اور بیٹی کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا گیا ہے۔‘‘ اس اقدام سے یہ ثابت ہوگیا کہ بائیڈن اور ان کی فاشسٹ انتظامیہ کے دعوے جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔کاش ایسی ہی خیر سگالی کا اظہار دوسری جانب سے بھی ہو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023