مراکش کا زلزلہ

زلزلے کیوں آتے ہیں اور کیسے آتے ہیں ؟

مسعود ابدالی

پراسرار نیلی روشنی‘ نورِ زلزلہ ’ حقیقت ہے یا فسانہ ہے
8 ستمبرکو مراقش میں آنے والے زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ پانچ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔ مراقش کے جنوب میں صوبہ الحورز اور سوس ماسۃ کے کوہستانی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کاسابلانکا، ورزازات (Ouarzazate) اور شيشاوہ سے بھی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ امریکی مساحت ارضی (USG کے مطابق زلزلے کی شدت 6.8 اور اس کا مرکز یعنی epicenter مراقش سے 70 کلومیٹر جنوب میں ایغیل کے قریب 18.5کلومیٹر گہرائی پر تھا۔ مراقش کے مرکز برائے طبعی ارضیات (Geophysical Center of Morocco) کا کہنا ہے کہ زلزلے کی شدت 7.2 گہرائی 11 کلومیٹر اور تھرتھراہٹ کا دورانیہ 20 سیکنڈ تھا۔ حیات و اسبابِ حیات کے ساتھ دو تاریخی مساجد، جامع الفناء اور جامع الکتیبہ کو بھی زلزلے سے نقصان پہنچا۔ 1147ء میں تعمیر کی جانے والی جامع الکتیبہ کے چٹانوں کو تراش کر بنائے جانے والے مینار چٹخ گئے۔
آج ہم اس قدرتی آفت کے ارضیاتی پہلو کا جائزہ لیں گے۔ اس سے قبل ترکی و شام میں آنے والے زلزلے پر بھی ہم نے اسی نوعیت کی گفتگو کی تھی۔ زلزلے کیوں آتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے کرہ ارض کے سطحی پہلو کا جائزہ ضروری ہے۔
زمین کی بیرونی سطح جس پر ہم آباد ہیں وہ سِلوں یا slabs پر مشتمل ہے جنہیں ارضیات کی اصطلاح میں ساختمانی پرتیں یا Tectonic Plates کہا جاتا ہے۔ یہ سلیں یا پلیٹیں حرکت کرتی رہتی ہیں، تاہم متصل پلیٹیں اتنے مربوط انداز میں ہِلتی ہیں کہ ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا، جیسے زمین،  سوج کے گرد 1670 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہی ہے لیکن ہمیں اس حرکت کا احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ طلوع آفتاب، دوپہر ڈھلنے اور رات چھا جانے کی شکل میں ہم اجرام ہائے فلکی کی حرکت کا ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔
زمین کی پلیٹیں حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں اور پرتوں کی ناہموار ٹکّر سے ہمیں وقتاً فوقتاً ہلکے پھلکے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔ جو آبادیاں بڑی پلیٹوں کے وسط پر ہیں وہاں پلیٹوں کے ٹکراؤ سے لگنے والے جھٹکے محسوس نہیں ہوتے لیکن کنارے پر آباد لوگ ان جھٹکوں سے  کبھی کبھار لرز جاتے ہیں۔
بعض اوقات پلیٹیں آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کا راستہ روک لیتی ہیں یا یوں کہیے کہ جنگلی بھینسوں کی طرح سینگ پھنسا لیتی ہیں۔ شاید اسی بنیاد پر قدیم ہندووں کا خیال تھا کہ زمین کو بھینسا دیوتا نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے اور جب دیوتا تھک جاتے ہیں تو بوجھ دوسرے سینگ پر رکھ لیتے ہیں اور سینگ کی تبدیلی زلزلے کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ پلیٹوں کے ایک دوسرے کے سامنے آجانے سے حرکت رک جاتی ہے لیکن پشت سے آنے والا دھکا برقرار رہتا ہے۔ دباو بڑھ جانے پر چٹانوں کی شکست و ریخت شروع ہوتی ہے۔ اگر دباو دونوں جانب سے برقرار رہے تو بیچ کا حصہ اوپر اٹھ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک موٹے کاغذ کو ہموار سطح پر رکھ اپنے ہاتھ کاغذ کے دونوں کناروں پر رکھ کر اسے دونوں جانب سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو کاغذ بیچ سے اوپر (fold) ہوجائے گا۔ کوہِ ہمالیہ سمیت دنیا بھر کے پہاڑ وں کو ایسے ہی عوامل نے جنم دیا ہے۔
اگر دباو برداشت سے بڑھ جائے تو دونوں پلیٹیں  پھسل کر ایک دوسرے کے راستے سے ہٹنے لگتی ہیں۔ انشقاق کے اس عمل کو ارضیات کی اصطلاح  میں rupture کہتے ہیں۔ دونوں پلیٹیں جس مقام پر آمنے سامنے ملی ہوتی ہیں اسے ماہرین ارضیات نے خط دراڑ یا fault line کا نام دیا ہے۔ انشقاق کے نتیجے میں پلیٹیں اوپر نیچے یعنی عمودی اور دائیں بائیں دونوں سمت پھسل سکتی ہیں۔ اگر پرتیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بجائے ساتھ ساتھ ہم آہنگ ہوکر حرکت کریں تو چٹانیں آڑی ترچھی سمت میں بھی پھسل سکتی ہیں۔ مراقش کے زلزلے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ پلیٹوں کے پھسلنے سے سطح زمین پر ارتعاش محسوس ہوتا ہے جو درحقیقت زلزلے کا پہلا جھٹکا ہوتا ہے۔ ان پلیٹوں کی صرف ایک سینٹی میٹر حرکت خوفناک زلزلے کا سبب بن سکتی ہے۔
پلیٹوں کے کھسکنے سے جھٹکے کے ساتھ وہ  توانائی بھی خارج ہوتی ہے جو دونوں پلیٹوں  کی حرکت رک جانے کے باوجود پیچھے سے آنے والے دھکے کے نتیجے میں جمع ہو رہی تھی۔ اسے یوں سمجھیے کہ اگر آپ نے گاڑی کو بریک پر سختی سے پیر رکھا ہوا ہو، پیچھے سے کئی تنو مند نوجوان گاڑی کو دھکا لگا رہے ہوں اور اگر آپ اچانک بریک سے پاؤں ہٹالیں تو کیا ہوگا؟ کچھ ایسا ہی انشقاق کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اس توانائی سے پیدا ہونے والی  تھرتھراہٹ Vibrations زلزلے کے مقام سے سیکڑوں میل دور تک کی زمین کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ پہلے جھٹکے کے بعد یہ توانائی رفتہ رفتہ خارج ہوتی رہتی ہے جو رادفات یاafter shocks کا سبب ہے۔ اس ’رادفہ‘ کی اصطلاح ہم نے قرآن سے لی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: تتبعھا الرادفۃ (سورہ النازعات آیت 7)
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ انشقاق کے نتیجے میں پلیٹوں کے سرکنے سے جہاں جھٹکا محسوس ہوتا ہے وہیں زبردست  Seismic توانائی بھی خارج ہوتی ہے، توانائی کی لہریں نقطہ آغاز یا Hypocenter  سے چہار جانب ارتعاش پیدا کر دیتی ہیں۔
زلزلے کے حوالے سے ترکی اور شام کے مقابلے میں لیبیا پرسکون و بے ضرر علاقہ ہے کہ ملک کا چھوٹا سا حصہ یعنی شمال مغربی مراقش افریقی اور یوریشیائی (Eurasian) پلیٹ کے سنگم پر ہے۔ افریقی پرت کو نوبین (Nubian) پلیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین ارضیات کاخیال ہے کہ چھ کروڑ سال پہلے یوریشیائی اور افریقی پیلٹوں کے درمیان تصادم سے سارا کرہ ارض خوفناک زلزے کا شکار ہوا۔ کرہ ارض پر عظیم الشان عالمگیر سمندر جسے  سائنسدانوں نے بحر Tethys کا نام دیا تھا کئی سمندروں میں تقسیم ہوگیا۔ پلیٹوں کے ٹکراو سے یورپ میں الپس Alps ایران و عراق کے قریب کوہ زاغرس Zagros اور ہمارے علاقے میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے۔ افریقی اور یوریشین پرتوں کی دھینگا مشتی نے مراقش، تیونس اور الجزائر تک پھیلے 2500 کلومیٹر طویل کوہِ اطلس کو جنم دیا ہے۔ ارضیات کے علما کا خیال ہے کہ گزشتہ کئی ہزار سال سے افریقی  پرت کی حرکت بہت خفیف یعنی ایک ملی میٹر سالانہ ہے۔ تاہم کوہِ اطلس کی ایک انوکھی ارضیاتی خصوصیت  یہ ہے کہ اس کی بیرونی سخت پرت یا lithosphere معمول سے زیادہ پتلی ہے اور نیچے کی سخت غلافی چٹانوں (mantle rocks) کے اوپر کی سمت مسلسل حرکت کی وجہ سے کوہ اطلس کی  ارضیاتی ساخت بہت زیادہ مستحکم نہیں۔ غلاف (Mental) کا قصہ یہ ہے کہ کرہ ارض کا اندرونی مرکز یا کور (core) ایک دہکتی ہوئی گیند ہے جس کی ماہیت انسان کو اب تک ٹھیک سے نہیں معلوم لیکن Seismic تجزئے کے مطابق  لوہے اور نکل Nickel کے دھاتی مرکب سے بنی اس تہہ کا درجہ حرارت 9800F سے زیادہ ہے۔ قدرت نے بہ کمال مہربانی ہماری زمین کے دہکتے مرکز کو سلیکیٹ (Silicate) کی 2900 کلومیٹر موٹی غیر مسامدار سخت چٹانوں سے گھیر دیا ہے جو غلاف یا مینٹل کہلاتا ہے۔
یوریشین اور افریقی پرتوں کی حرکت اگرچہ کہ خفیف ہے لیکن کوہ اطلس کی اوپری نرم اور نیچے کی غلافی سخت چٹانوں کے مابین رگڑ یا Faulting کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ارضیاتی ساخت کی یہ خرابیاں اس زلزلے کی ممکنہ وجہ ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ نقائص ایک طویل عرصے سے فعال ہیں۔ پچھلے دنوں آنے والے زلزلے کے بارے میں ماہرین طبعیائی ارضیات (Geophysicists)  اور زیر زمین تھرتھراہٹ پر نظر رکھنے والے  اہل علم (Seismologists) کا کہنا ہے کہ  افریقی پرت اور یوریشیائی پرت کی حرکت ایک سمت کو تھی اور اس ‘ہم آہنگی’ یا   Convergence کی وجہ سے 500 کلومیٹر دور کوہ اطلس کی گہرائی میں کمزور اور متغیر چٹانیں ایک دوسرے سے آگے نکل گئیں۔دونوں پرتوں کی حرکت ایک ہی سمت میں تھی اس لیے ٹوٹ پھوٹ و انشقاق یا Rupture کے نتیجے میں چٹانیں اوپر نیچے  اور دائیں بائیں کے بجائے آڑی ترچھی  پھسلیں  یا ارضیات کی اصطلاح میں Oblique Thrust Faulting کا حادثہ پیش آیا اور 6.8 شدت کے جھٹکے سے خارج ہونے والی 9 درجے کی خوفناک بھونچالی یا  Seismic لہروں نے قیامت برپا کردی۔
یہ تو تھا اس حادثے کا تیکنیکی تجزیہ، لیکن اس بار ہلاکت خیز جھٹکے سے چند لمحہ پہلے  افق پر کوند جانے والی نیلی روشنی کا بھی خاصا شورہے۔ اس پر اسرار چمک کی کوئی حتمی سائنسی منطق سامنے نہیں آئی اور ابتدا میں ماہرین نے اسے تخیلاتی نظر بندی قرار دیا یعنی یہ چودہ طبق روشن ہوجانے والی بات تھی۔ لیکن کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن پر محفوظ کیے جانے والے مناظر میں نیلی روشنی کی پراسرار چمک بہت واضح ہے۔ یہ مناظر متاثرہ علاقے کے کئی مقامات پر ریکارڈ کیے گئے جس کی وجہ سے اسے خواب و خیال کہہ کر نظر انداز کر دینا ممکن نہیں ہے اور اس چمک کو نورِ زلزلہ Earthquake) Light) یا EQL کا نام دیا جا رہا ہے۔
امریکی مساحت ارضی کے ایک ریٹائرڈ ماہر ِطبعیاتی ارضیات جان ڈر John Derr کا کہنا ہے کہ نورِ زلزلہ محض تخیل نہیں تاہم  اس کا مشاہدہ وقت، مقام اور وہاں چھائی ہوئی تاریکی سے مشروط ہے۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے سے پہلے بھی افق پر یہ روشنی دیکھی گئی حالانکہ وہاں یہ قیامت دوپہر ڈیڑھ بجے ٹوٹی تھی۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مورخین نے نورِ زلزلہ کا ذکر 89 قبل مسیح  آنے والے زلزلوں کی روداد بیان کرتے ہوئے بھی کیا ہے۔ دورِ جدید میں نورِ زلزلہ 1965 کے بھونچالِ جاپان سے پہلے بھی دیکھا گیا۔ اس کے علاوہ 2008ء میں چین 2009 میں اٹلی اور آخری بار  2017 میں زلزلہِ میکسیکو سے پہلے بھی روشنیاں نظر آئیں۔
جناب جان ڈر کا کہنا ہے کہ نورِ زلزلہ پانچ یا اس سے زائد شدت کے زلزلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور یہ زلزلے کے مقام (Epicenter) سے 600 کلومیٹر تک کے علاقے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ روشنی کس نوعیت کی ہے اس کے بارے میں بھی کوئی بات حتمی نہیں ہے۔ چند ماہرین کے خیال میں یہ روشنیاں عام طور پر تیرتے ہوئے آسمانی اجسام کی شکل میں ہوتی ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں  یہ بادل جیسی لکیریں ہیں، جن میں سے اکثر کا رنگ سبز ہے۔بعض علمائے ارضیات کے کا کہنا ہے کہ یہ نور زلزلہ آسمانی بجلی کی شکل میں کوندتا ہے۔امریکی ادارے NASA کے ایک ماہر فریڈمن فرنڈ Friedemann Freund کے مطابق جب ساختماتی پرتوں یا Tectonic Plates کے ٹکراو اور رگڑ سے چٹانیں ٹوٹتی ہیں تو ذرات میں ملفوف آکسیجن روشنی کی صورت فضا میں بکھر جاتی ہے۔
ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زلزلے کے مرکز کے قریب شدید ٹیکٹونک دباؤ کی وجہ سے چٹانوں میں موجود Radon کا اخراج روشنی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تاہم  اس نظریے کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی کہ ریڈان ایک تابکاری مادہ ہے اور اگر ریڈان اس روشنی کا ماخذ ہے تو اس سے محض چمک نہیں بلکہ شعلہ جوالہ جنم لینا چاہیے۔
سائنسدانوں کی اکثریت کے لیے نورِ زلزلہ اب تک ایک تخلیاتی مشاہدہ ہے لیکن اس پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز ہوچکا ہے۔ کیا عجب کہ یہ روشنی اس قدرتی آفت کی پیشن گوئی  کا روشن سنگ میل  بن جائے۔
حوالہ:
امریکی مساحت ارضی USGS
مراقشی مرکز برائے طبعی ارضیات (Geophysical Center of Morocco)
مڈل ایست آئی Middle East Eye
ڈاکٹر سلوین باربٹ Sylvain Barbot جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC)
پروفیسر ہوزے پیلیز (José A. Peláez) ، مراقش
العربیہ ٹیلی ویژن سعودی عرب
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023