منشیات فروشی ایک ناسور

عزت دار گھرانوں کے شاہین خاکبازی پر آمادہ

ایم شفیع میر، کشمیر

منشیات فروشی کی وبا ملک بھر میں نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہے، اور اب کشمیر کے علاقہ گول کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اچھے اور عزت دار گھرانوں کے شاہین بڑی تیزی سے خاکبازی پر آمادہ ہوتے نظر آرہے ہیں اور یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہونے کے ساتھ ساتھ نسل نو کے لیے خوفناک بھی ہے، کیونکہ اب تو باڑھ ہی فصل کو کھانے لگ گئی ہے۔
آئے دن نوجوانوں کا نشہ آور اشیاء سمیت پولیس کی گرفت میں آجانا اِس بات کا اشارہ ہے کہ سماج میں یہ زہر بڑی تیزی سے سرایت کر رہا ہے اور سماج کے ذمہ داران اِس سے مکمل طور پر یا تو بے خبر ہیں یا پھر مجرمانہ خاموشی اپنا کر دوسرں کے جلتے ہوئے گھروں سے اٹھتے ہوئے شعلوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ وقت اِس پیچیدہ مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے جان لیوا منشیات کے کاروبار سے ملک کو پاک کرنے کے لیے ایک سنجیدہ منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ پولیس کی وقتیہ کارروائیاں باعث اطمینان ہرگز نہیں ہیں بلکہ سخت توجہ کی طلب اور لمحہ فکریہ ہیں، بالخصوص سماج کے ان ذمہ داروں کے لیے آئینہ ہے جو سوشل میڈیا پر سماج سدھاری کا چورن آئے دن بیچتے نظر آتے ہیں۔
علاقہ گول میں منشیات فروشی کے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک کے کئی اہم پہلو ہیں۔ ایک طرف منشیات کی پھیلتی ہوئی وبا میں آئے دن خوفناک اضافہ اور دوسری طرف سماج سدھار تنظیموں کی نشہ خوری میں کمی کے دعوے اور تیسرا پہلو نشہ کے خلاف کام کرنے والے سماجی ذمہ داروں کی اپنی ہی دنیا بربادی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اِن حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا کرنا ہوگا اور کیسے کرنا ہوگا؟ ان سوالات پر غور وفکر کرنے کے لیے سماج کے باشعور افراد کو مل بیٹھ کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ سماج کے ہر فرد کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقہ کو منشیات سے پاک کرنے کے لیے اپنا بھرپور تعاون پیش کرے، کیونکہ یہ آگ لگی ہے تو جلائے گی ضرور اور ہر اس گھر کو بھی جلا دے گی جس گھر کے مکین آگ کے ان بھڑکتے ہوئے شعلوں کو دیکھ کر بھی یہ سوچ کر انجان ہیں کہ آگ تو دور کسی اور کے گھر میں لگی ہے لہٰذا مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ جن گھرانوں کے چشم و چراغ اِس بری صحبت میں گرفتار ہیں اُن کے والدین کا رول تو بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ متاثرہ والدین کی نصیحت میں جو اثر ہوگا وہ ایک عام انسان کی نصیحت میں نہیں ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اگر منشیات کے بڑھتے ہوئے اِس نیٹ ورک کا پردہ فاش کرنے کے لیے جنگ میں سپاہی کی طرح کا رول نبھانا ہے تو ایمان داری شرط ہے، محض دکھاوا اور نمود و نمائش سے ایک تو وقت کا زیاں ہوگا اور دوسرا ہمارا یہ پھسپھسا پن آنے والے وقتوں میں سماج کے لیے ایک معمول بن جائے گا اور آئندہ جب بھی کوئی نوجوان نشہ خوری یا نشہ فروشی کرتے ہوئے پکڑا جائے گا تو کسی کو کوئی فکر نہیں ہوگی، کوئی برائی برائی نظر نہیں آئے گی اور نسل تباہ و برباد ہو جائے گی اور جنت نُما علاقہ جہنم زار بن جائے گا۔ لہٰذا تمام ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ ایمان داری کے ساتھ منشیات فروشی کے اِس جن سے نوجوان نسل کو بچانے کے لیے کمربستہ ہو جائیں، وقت بہت کم بچا ہے۔ آج آپ کی عقل و شعور کا امتحان ہے کہ آپ کس طریقے سے اس وبا کے خاتمے کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024