
مسلمان ہندوستان میں حملہ آور نہیں بلکہ اس ملک کے وارث ہیں :سید سعادت اللہ حسینی
تاریخ کو نصاب سے خارج کرنے کی کوششوں پر ماہرین اور اسکالرز کی تشویش قابل غور
نئی دلی (دعوت نیوز بیورو)
عہد وسطیٰ کے مطالعہ کے بغیر بھارت کی تاریخ ادھوری اور نامکمل سمجھی جائے گی
عہد وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ میں دہلی سلطنت کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس سلطنت نے عہد وسطیٰ کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت تاریخ کے اس اہم دور کو مسخ کرنے اور اس کو نصاب کی کتابوں سے خارج کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔حکومت کی اس کوشش نے تاریخ دانوں اور ریسرچ اسکالروں کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ عہد وسطیٰ کی تاریخ سے نئی نسل کو روشناس کرانے اور اس کے پویشدہ پہلوؤں کو منظر عام پر لانے کے لیے جامعہ ہمدر اور جماعت اسلامی ہند کے ذیلی ادارے انسٹیٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی (ISRD) کے زیر اہتمام جامعہ ہمدرد میں ایک روزہ نیشنل ہسٹری کانفرس کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔
’’ قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں دہلی، ہند-اسلامی امتزاج کا مرکز ‘‘(Delhi: Crucible of Indo-Islamic Synthesis in Medieval India) کے عنوان سے منعقد ہونے والی نیشنل ہسٹری کانفرس کی صدارت جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر محمد افشار عالم نے کی۔اس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ ہسٹری کانفرنس میں خسرو فاؤنڈیشن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی کے علاوہ کئی معروف تعلیمی اداروں سے وابستہ تاریخ دانوں اور اسکالروں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں تیس سے زیادہ موضوعات پر پچاس کے قریب تحقیقی مقالے پیش کئے گئے۔افتتاحی خطبے میں وائس چانسلر پروفیسر افشار عالم نے تمام شرکاء کا خیر مقدم کیا۔انہوں نے کہا کہ عہد وسطیٰ کی تاریخ میں سید، لودھی اور خلجی سلطنت نے دہلی کو ایک مضبوط نظام حکومت اور ایک نئی تہذیب دی۔دہلی کا قطب مینار ہندوستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اسی طرح مسجد قوت الاسلام، علائی دروازہ اور تغلق کا بنوایا ہوا قلعہ ایسی تاریخی عمارتیں ہیں جس نے ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کی بنیاد رکھی۔پروفیسر افشار عالم نے کہا کہ عہد وسطیٰ کو نظر انداز کرکے ہندوستان کی تاریخ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے ہسٹری کانفرس کو خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ہسٹری کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کانفرنس جامعہ ہمدرد جیسے تاریخی ادارے میں منعقد ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی ہندوستان کے پہلے ایسے عالم دین ہیں جنہوں نے سائنٹیفک بنیاد پر تاریخ کی درجہ بندی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ تاریخ کا علمی فائدہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کو حقائق اور سائنٹیفک بنیادوں پر تحریر کیا جائے۔ جناب سعادت اللہ حسینی نے مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ سچائی کی قلم سے لکھی جاتی ہے نہ کہ تعصب کی تلوار سے؟ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان کوئی بیرونی عنصر نہیں ہیں بلکہ اسی ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ہندوستان میں مسلمان حملہ آور بن کر نہیں آئے بلکہ یہ اس ملک کے وارث بن کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے اس ملک میں صرف سیاسی وحدت نہیں قائم کی بلکہ انسانوں کے درمیان جذباتی وحدت بھی قائم کی ہے اور آج بھی ملک کے مسلمان اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہیں۔اس ملک میں جو صفیں خالی نظر آ رہی ہیں ان کو بھرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ہندوستان کو اگر عروج حاصل ہوگا تو صرف امتزاج کے ذریعے ہی اسے حاصل ہوگا۔
انسٹیٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی کے صدر سلیم اللہ خان نے تاریخ کے موضوع پر علامہ راشد الخیری کا ایک اقتباس پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک اور شہروں کی تاریخ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو قوم اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہے تاریخ بھی اسے بھلا دیتی ہے۔اس موقع پر خسرو فاؤنڈیشن کے کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمان نے امیر خسرو کی تاریخی اور ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امیر خسرو ہندوستان کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہاں کے ذرے ذرے سے لوگوں کو پیار کرنا سکھایا۔ انہوں نے عہد وسطیٰ میں صوفیائے کرام کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے اس دور میں تصوف کا اہم کردار رہا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کو تاریخ نویسی کا ایک نیا طریقہ سکھایا جو آج بھی تاریخی اصولوں میں درج ہے۔تاریخ کو زمانے سے ہم آہنگ کرنے میں اسلام کا جو رول رہا ہے اس کو کسی بھی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ابن خلدون تاریخ کی بہترین مثال ہیں۔ہسٹری کانفرنس کے اختتامی سیشن کی صدارت جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر کی نے۔اس موقع پر مقالہ نگاروں کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ سخت محنت اور بہترین ذہانت کے ساتھ تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے تعلیمی نصاب سے مسلمانوں کی تاریخ مٹانے کو ایک خطرے سے تعبیر کیا اور کہا کہ ہمارے ملک میں تاریخ کو خرد برد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تاریخ بنانے کے بجائے اس کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ہم نے اس خطرے کو محسوس کیا ہے، اسی لیے تاریخ دانوں اور اسکالروں کو مدعو کرکے اس مسئلے پر غور کرنے کی شروعات کی گئی ہے تاکہ حقائق لوگوں کے سامنے آ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے نام پر اس وقت جھوٹا پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے جو ملک کو پیچھے کی طرف لے جا رہا ہے کیونکہ تحقیق میں مبالغہ اور جانب داری نہیں ہونی چاہیے۔اکیڈمک ایمانداری کے بغیر ہم اپنی تحقیق میں وزن نہیں پیدا کر سکتے۔تاریخ کے اسکالروں کو اپنے اندر تنقیدی نظریہ کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔سلیم انجینئر نے کہا کہ تحقیق کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔اس لیے ریسرچ اسکالرز اپنے تحقیقی مقالوں پر محنت، ذہانت اور ایمانداری سے کام کریں۔ ایک روزہ ہسٹری کا نفرنس میں مولانا محی الدین غازی، ڈاکٹر شاداب موسیٰ، پروفیسر ارشد حسین اور ہسٹری کانفرنس کے کنوینر آصف اقبال نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔کانفرنس کے اختتام پر مقالہ نگاروں کو آئی ایس آر ڈی کی جانب سے اسناد پیش کئی گئیں۔ہسٹری کانفرس میں جن مقالہ نگاروں نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا ان میں محمد شاداں، سراقہ فہد، محمد ہارون رضا، ندیم اشرف،ڈاکٹر رخشندہ،سچن یادو، پیر منتظر حسین، ڈاکٹر محمد عبدالواحد، نبیلہ رحمان، ہلال تانترے، راشدہ خورشید، ظفر احمد، شاہد زماں اور کامران خان کے نام قابل ذکر ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025