
محاصرہ در محاصرہ؛ صہیونی سازش میں سیرت نبوی سے سبق
غزہ کی حالت اور شعبِ ابی طالب: ظلم کی دو تاریخیں، صبر کی ایک داستان
ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی
غزہ بیس مہینے سے خشکی، سمندر اور فضا ہر طرف سے محصور ہے اور وہاں کے مکین کسی استثنا کے بغیر بھوکے اور پیاسے ہیں، دودھ پیتے بچے دودھ سے محروم ہیں۔ یہ بھوک کسی قحط کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ لوگ صہیونی ظالموں کی طرف سے بھوکے رکھے گئے ہیں، وہ سرحدی راستوں سے ان کے لیے اتنا بھی داخل نہیں ہونے دیتے جو ان کی ایک وقت کی ہی سہی بھوک مٹا دے۔ بچے بھوک سے مر رہے ہیں، غذا کی کمی کی وجہ سے نوجوان کمزور ہوکر گر رہے ہیں اور بے ہوش ہو رہے ہیں۔ ان کے پاس بیماروں اور زخمیوں کے لیے دوا بھی نہیں ہے جو دشمنوں کی ظالمانہ اور جارحانہ بمباری سے زخمی ہوتے ہیں۔ یہ بم بے گناہوں پر فضائی جنگی جہازوں، سمندری بحری جنگی جہازوں اور خشکی سے ٹینکوں کے ذریعے گرائے جارہے ہیں۔
دشمن نے ایک بڑی خبیث نئی چال چلی ہے، یہ چال انسانی امداد کے نام پر چلی گئی ہے تاکہ فلسطینیوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے تاکہ ہول سیل میں غزہ کے مسلمانوں کا قتل کیا جائے، صہیونی دشمن نے امریکہ کے اشتراک سے امداد کے مراکز قائم کیے ہیں جو آبادی سے بہت دور ہیں جہاں پہنچنے کے لیے کئی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، یہ لوگ وہاں تھکے ہارے پہنچتے ہیں، لمبی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن دشمن تھوڑا سا کھانا تقسیم کرتا ہے جو ان کی بھوک بھی نہیں مٹا پاتا، پھر ان معصوموں پر اسرائیلی درندے گولیاں برساتے ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگ شہید ہوجاتے ہیں اور بہت سے زخمی۔ ایسے مناظر بھی سامنے آئے کہ زخمی لوگ خون آلود بوریوں کو اپنے سر پر اٹھائے کراہتے ہوئے واپس دسیوں کلومیٹر طے کر رہے ہیں اور جو لوگ امداد کے انتظار میں آتے ہیں کہ بھوک اور پیاس سے بچ سکیں وہ دشمنوں کی گولیوں سے مارے جاتے ہیں۔
قحط کی وجہ سے غزہ میں دو ملین سے زائد انسانوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ یہ مصنوعی قحط ہمیں مکہ کے ایک ہولناک منظر کی یاد دلاتا ہے، وہ منظر جو نبی ﷺ صحابہ کرام اور آپ کے رشتے داروں کے ساتھ پیش آیا، انہیں کفارِ قریش نے تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا، ان پر کھانے پینے کی پابندی لگا دی، یہاں تک کہ قحط کی شکل پیدا ہوگئی۔
ابن القیمؒ نے زاد المعاد میں لکھا ہے: جب قریش نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا دین ترقی کر رہا ہے اور حالات ترقی کر رہے ہیں تو سب نے اتفاق کیا کہ بنی ہاشم، بنی مطلب اور بنی عبد مناف سے معاہدہ کریں کہ نہ ان سے خرید و فروخت کریں گے، نہ شادی بیاہ اور نہ ان سے بات چیت، نہ ان کے ساتھ بیٹھیں گے، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے حوالے کر دیں اور اس پر ایک تحریری صحیفہ لکھ کر کعبہ کی چھت پر لٹکا دیا۔جس کے بعد بنی ہاشم اور بنی مطلب، ان میں سے مومن اور کافر سب الگ ہو گئے، سوائے ابو لہب کے، جس نے نبی ﷺ اور بنی ہاشم و مطلب کے خلاف قریش کا ساتھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھی محرم کے چاند کی رات، بعثت کے ساتویں سال شعب ابی طالب میں قید کر دیے گئے اور بہت سختی سے محصور رہے۔ ان پر سامان اور خوراک بند کر دی گئی۔ تقریباً تین سال تک یہی حال رہا، یہاں تک کہ ان پر سختی بڑھ گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو صحیفے کی خبر دی کہ اس پر دیمک بھیجی گئی ہے، جس نے اس کو چاٹ لیا ہے، آپ نے اپنے چچا کو خبر دی، وہ قریش کے پاس گئے اور کہا: میرے بھتیجے نے ایسا کہا ہے، اگر وہ جھوٹا ہوا تو ہم اسے تمہارے حوالے کر دیں گے اور اگر وہ سچا ہوا تو تم ظلم سے باز آجاؤ۔ انہوں نے کہا: تم نے انصاف کی بات کی ہے، چنانچہ صحیفہ لایا گیا، جب انہوں نے دیکھا کہ معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے خبر دی تھی تو وہ اور زیادہ کفر اور ضد پر اڑ گئے، پھر نبی ﷺ اور ان کے ساتھی شعب ابی طالب سے باہر آ گئے۔
یہ بعثت کے دسویں سال کا واقعہ ہے جیسا کہ سیرت نگاروں نے ذکر کیا ہے کہ اس واقعے کے بعد قریش کے چند عقل مند افراد نے صحیفے کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، یہاں تک کہ وہ صحیفہ ختم ہو گیا، ان میں ہشام بن عمرو بنی عامر بن لؤی سے، زہیر بن ابی امیہ المخزومی، ابو البختری بن ہشام، زمعة بن الاسود، اور مطعم بن عدی شامل تھے۔
قریش نے کوشش کی کہ مکہ آنے والے زائرین بنی ہاشم کو کچھ بھی نہ بیچیں، وہ ان سے جو چیز بیچنا چاہتے وہ اتنی مہنگی قیمت پر خرید لیتے کہ وہ خواب میں بھی نہ سوچ سکیں بلکہ انہوں نے شعب کے ارد گرد نگرانی کے لیے افراد مقرر کیے تاکہ کوئی ان کے پاس کچھ نہ لے جائے، بس چھپ چھپا کر جو پہنچتا وہی میسر آتا۔
مسلمان اس مدت میں ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کا مال خرچ کرتے رہے، یہاں تک کہ سب ختم ہو گیا، پھر وہ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے بچے بھوک سے بلکتے تھے اور قریشیوں کے سامنے تڑپتے تھے لیکن ان کی آنکھ نہ نم ہوتی اور نہ ان کے دل میں کوئی حرکت ہوتی۔
جب شعب ابی طالب میں محصورین کا بھوک سے مرنا یقینی ہو گیا اور جب بچوں کی کراہیں، عورتوں کی آہیں اور کمزور مردوں کی سسکیاں مکہ کی فضاؤں میں گونجنے لگیں تو مشرک زہیر بن ابی امیہ صبر نہ کر سکا، وہ کعبہ کے پاس آیا اور ایک غیرت بھرا جملہ کہا، جو آج بھی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا ہوا ہے، اس نے کہا:
’ہم کھانا کھائیں، کپڑے پہنیں اور بنی ہاشم ہلاک ہو رہے ہوں، نہ ان سے خرید و فروخت ہو؟ خدا کی قسم! میں نہیں بیٹھوں گا جب تک یہ ظالمانہ صحیفہ پھاڑ نہ دیا جائے۔۔۔‘
ابو جہل نے مخالفت کی کوشش کی لیکن قریش کے دوسرے سردار جیسے کہ زمعة بن الاسود، مطعم بن عدی، ابو البختری اور ہشام بن عمرو اس ظلم کے خلاف کھڑے ہو گئے اور کہا: ہم اس سے بری ہیں۔
یہ منظر اہل مکہ کے لیے ایک جھٹکا تھا جس کے نتیجے میں وہ تین سالہ محاصرہ ختم ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس لمحے ابو جہل کا دل بھی نرم پڑ گیا اور وہ بائیکاٹ ختم ہوا جس نے اہل ایمان کو درختوں کے پتے کھانے پر مجبور کر دیا تھا۔
آج جب ہمیں غزہ کی خبریں ملتی ہیں، جب بیمار بچوں کی سانسیں رک جاتی ہیں، جب مائیں ایک لقمہ آٹے کو ترستی ہیں، جب ہر صبح درجنوں جانیں بھوک کا شکار ہوتی ہیں تو دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے: کاش آج کے عربوں میں بھی کوئی زہیر ہوتا! تاکہ اس کی رگِ غیرت پھڑک اٹھے، ضمیر میں کچھ خلش پیدا ہو اور عربی غیرت بیدار ہو تاکہ غزہ کے لوگ بھوک سے نہ مریں۔
آج غزہ کی ماؤں کی چیخیں پکار رہی ہیں: "کیا تم کھانا کھاتے ہو، کپڑے پہنتے ہو، جب کہ غزہ والے ہلاک ہو رہے ہوں؟”
نبی ﷺ اور ان کے صحابہ ایک پیغام کے حامل تھے، وہ اپنے پیغام سے بال برابر بھی منہ نہیں موڑتے تھے، اس لیے وہ اپنی زندگی میں کامیاب ہوئے۔
اور غزہ کے لوگ بھی ایک پیغام کے حامل ہیں، ان کے سامنے ایک واضح مقصد ہے، وہ مقصد ہے اپنی سرزمین اور آزادی کو صہیونی غاصبوں سے واپس لینا، یقیناً اللہ ان کی مدد کرے گا چاہے ان کے دینی بھائی یا عرب بھائی ان کا ساتھ چھوڑ دیں، جیسا کہ اللہ نے اپنے نبی کی سخت وقت میں مدد فرمائی اور اپنی مہربانی اور لطف سے انہیں تنگی سے نکالا۔
آئیے! ہم غزہ کے محاصرہ کا موازنہ شعب ابی طالب کے محاصرہ سے کرتے ہیں تاکہ ہمیں یقین ہو کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کی آزمائش کرتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جس کو ہم شر سمجھتے ہیں وہ خیر کا باعث بنتا ہے اور اس کے بہترین نتائج سامنے آتے ہیں۔
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب قریش کا محاصرہ ختم ہوا تو بہت سے لوگ مسلمان ہوئے، آج ہمیں غزہ کے محاصرہ میں بھی یہی بات نظر آ رہی ہے، غزہ کے مسلمانوں کے صبر واستقلال سے متاثر ہوکر بہت سے لوگ مسلمان ہوچکے ہیں اور بہت سے لوگ اسلام کی طرف راغب ہو رہے ہیں جب کہ پوری دنیا میں فلسطین والوں کے ساتھ ہمدردی میں اضافہ ہوا ہے اور اسرائیل کے ساتھ ہمدردی میں ناقابل یقین گراوٹ آئی ہے۔
سیرت نبوی میں قریش کے محاصرے کو "شعبِ ابی طالب کا محاصرہ” کہا گیا جو بعثت نبوی کے ساتویں سال (مطابق 618 عیسوی) مکہ میں پیش آیا۔ اس موقع پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ سیرت نبوی اپنی تحریری حیثیت کے اعتبار سے قدیم و جدید بہت سے علوم سے بڑھ کر ہے۔ یہ صرف تاریخی واقعات نہیں بلکہ عبرت آموز اور نصیحت سے بھرپور سوانح ہے، جس سے ہم موجودہ حالات میں رہنمائی لے سکتے ہیں اور جو معاشی بائیکاٹ اور محاصرہ آج غزہ پٹی پر جاری ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیرت نبوی کے واقعات کو موجودہ حالات پر زبردستی منطبق کیا جائے کہ اس میں مبالغہ، تقابل اور مکمل مشابہت اختیار کی جائے۔ اگرچہ حق اور باطل، خیر و شر، ظلم و عدل کے درمیان کشمکش ایک ازلی حقیقت اور اللہ کی سنت ہے جو قیامت تک زمین پر جاری رہے گی اور یہ بھی طے ہے کہ اپنے اصولوں اور موقف پر جمے رہنے والوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے مگر ہر تاریخی مرحلہ اپنی خاصیت رکھتا ہے اور حالات و اسباب دیگر ادوار سے مختلف ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر مقام کے لحاظ سے شعبِ ابی طالب کا محاصرہ چند سو مربع میٹر پر مشتمل تھا، جب کہ غزہ کا محاصرہ 300 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر ہے۔ وقت کے لحاظ سے، بنی ہاشم کا محاصرہ تین سال جاری رہا جب کہ غزہ کا محاصرہ 18 سال سے مسلسل جاری ہے۔ شعبِ ابی طالب میں محصورین کی تعداد سو یا دو سو سے زیادہ نہیں تھی، جب کہ غزہ میں 25 لاکھ سے زیادہ انسان محصور ہیں۔ سیرت کے زمانے کا محاصرہ صرف اقتصادی و سماجی نوعیت کا تھا جب کہ غزہ کا محاصرہ ان حدود سے تجاوز کر کے عسکری محاصرہ بھی بن چکاہے جس میں اسرائیل کی طرف سے وقتاً فوقتاً زمینی و فضائی حملے کیے گئے اور پچھلے بیس مہینوں سے جاری جنگ میں گولہ بارود کی بارش ہورہی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد شہید، زخمی اور معذور ہوئے۔
دونوں محاصروں اور بائیکاٹ کے نمایاں نکات؛ اصولوں پر ثابت قدمی، ظلم و استبداد کے سامنے جھکنے سے انکار اور غلامی کو قبول کرنے اور سرنگوں ہونے کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی جدوجہد ہیں۔ جب کہ بائیکاٹ اور محاصرے کے طریقے اور وسائل میں اجتماعی بھوک مسلط کرنا اور اقتصادی طور پر کمزور اور نڈھال بنانا اور سماجی طور پر تن تنہا بنانا شامل ہیں۔
سیرت کی کتابیں بیان کرتی ہیں کہ بعثت نبوی کے زمانے میں محاصرہ کا فیصلہ قریش کے سرداروں کی باہمی مشاورت کے بعد کیا گیا۔ چند نے رسول اللہ ﷺ کے قتل کی تجویز دی لیکن سب کا اتفاق نہ ہو سکا کیوں کہ اس کا نتیجہ خانہ جنگی ہوتا اور قریش اس سے ہر حال میں بچنا چاہتے تھے۔ چنانچہ محاصرہ کا فیصلہ ہوا اور بنی ہاشم کا بائیکاٹ کیا گیا: نہ خرید و فروخت، نہ نکاح، نہ صلح، اور نہ رحم، جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کے لیے حوالے نہ کر دیں۔ اس پر ایک تحریری معاہدہ تیار کیا گیا اور اسے کعبہ میں آویزاں کر دیا گیا۔
ڈاکٹر علی الصلابی اپنی کتاب (السيرة النبوية؛ عرض وقائع وتحليل أحداث) میں لکھتے ہیں: ’’محصورین کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہو گئی کہ عورتوں اور بچوں کی چیخیں بھوک کی شدت سے سنائی دیتی تھیں، یہاں تک کہ وہ درختوں کے پتے اور سوکھے ہوئے چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ یہ صورتحال تین سال تک جاری رہی، تین سال ظلم، جبر اور اجتماعی بربادی کے رہے۔ اگرچہ یہ قریش کی جہالت کا ایک مظہر تھا، افسوس کہ یہ بعد میں بھی کئی بار دہرایا گیا اور افسوس کہ ہر بار مسلمانوں کے خلاف ہی رہا‘‘۔
بعثت نبوی کے دور میں بائیکاٹ کا فیصلہ مکہ میں رائج قبائلی بقائے باہمی کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی تھا اور قریشی سماج کے سب سے اہم ستون کو گرانا تھا، جو داخلی بحرانوں کو سنبھالنے پر مبنی تھا۔ جیسا کہ وضاح خنفر اپنی کتاب الربيع الأول میں لکھتے ہیں: "قریش سب سے پہلے ایک سماجی اکائی تھی، سیاسی بعد میں”۔ اسی طرح غزہ کا محاصرہ بین الاقوامی انسانی قوانین کے مطابق نسل کشی کا جرم ہے۔ لیکن عالمی پالیسی سازوں کی دوہری پالیسیوں کی وجہ سے ظالم صہیونیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے، صرف قراردادیں منظور ہو رہی ہیں اور مذمتی بیانات جاری کیے جا رہے ہیں، جس میں اپنے بھی ہیں اور دوسرے بھی۔
البتہ پوری دنیا کے عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں جس کے شواہد ہمیں یورپی، امریکی اور باقی دنیا کے ممالک میں نکلنے والے احتجاجی مظاہروں میں نظر آ رہے ہیں۔
بعض اسباب ایسے تھے جن کی وجہ سے یہ تین سالہ محاصرہ ختم ہوا۔
سوال یہ ہے کہ غزہ کے مظلوموں سے متعلق اتنی زیادہ رپورٹیں آ رہی ہیں، تصاویر گردش کر رہی ہیں، ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں، جب کہ ان میں سے ایک ویڈیو اور ایک تصویر بھی انسانی ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ بچوں کی ایسی تصویریں آ رہی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ کیا کوئی انسان دوسرے انسان پر اس قدر ظلم وستم ڈھا سکتا ہے کہ معصوم بچے دودھ کو ترس رہے ہیں، لیکن ان کا دودھ روکا جا رہا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ایک لقمہ کے لیے تڑپ رہے ہیں، لیکن ان سے غذا روکی جا رہی ہے، مگر دنیا کے حکم رانوں پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، ان سب کے باوجود غیرت نہیں جاگی، کتنی فریادیں اور بچوں کی بھوک سے بلکنے کی صدائیں سنی گئیں، مگر کسی کی حمیت جاگ نہ سکی، نہ ہی کوئی معتصم کے جذبے سے اٹھا۔
اے اللہ! مدد صرف تیری طرف سے ہی آتی ہے، اے اللہ! اپنے ثابت قدم بندوں کی مدد فرما، ان کے اور تیرے دشمنوں کے خلاف ان کو فتح عطا فرما۔
***
سوال یہ ہے کہ غزہ کے مظلوموں سے متعلق اتنی زیادہ رپورٹیں آ رہی ہیں، تصاویر گردش کر رہی ہیں، ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں، جب کہ ان میں سے ایک ویڈیو اور ایک تصویر بھی انسانی ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ بچوں کی ایسی تصویریں آ رہی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ کیا کوئی انسان دوسرے انسان پر اس قدر ظلم وستم ڈھا سکتا ہے کہ معصوم بچے دودھ کو ترس رہے ہیں، لیکن ان کا دودھ روکا جا رہا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ایک لقمہ کے لیے تڑپ رہے ہیں، لیکن ان سے غذا روکی جا رہی ہے، مگر دنیا کے حکم رانوں پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، ان سب کے باوجود غیرت نہیں جاگی، کتنی فریادیں اور بچوں کی بھوک سے بلکنے کی صدائیں سنی گئیں، مگر کسی کی حمیت جاگ نہ سکی، نہ ہی کوئی معتصم کے جذبے سے اٹھا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025