مفت خوری معیشت پر ضرب کاری

وشوگرو بننے کے لیے عوام کو فری اسکیمیں نہیں روزگار کے وسائل مہیا کیے جائیں

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بھارت کو کثیر نوجوان آبادی جیسی قدرتی قوت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت 
ہمارے ملک میں تقریباً ڈیڑھ دہائی سے مفت اسکیموں کا چلن بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جو ملک کی معاشی صحت کے لیے نہایت تشویش ناک ہے اور ایسی اسکیمیں ملک کو کافی مہنگی بھی پڑ رہی ہیں۔ ان اسکیموں میں کسانوں، خواتین اور وقتاً فوقتاً اقلیتوں و دیگر کمزور طبقات کو نقد کی فراہمی، سبھوں کو مفت پانی اور بجلی اور سفر کے علاوہ مفت خوری کی اسکیموں کا اعلان اب تو معمول بنتا جارہا ہے۔ مثلاً کانگریس نے کسانوں کے قرض کی معافی کی۔ پانچ سو روپے میں گیس سلنڈر کی فراہمی، مفت بجلی، خواتین کو ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ اور بے روزگار نوجوانوں کو تین ہزار روپے بے روزگاری بھتہ دینے جیسے وعدے کیے۔ اسی طرح مفت کی ریوڑی کا اعلان دیگر پارٹیوں نے بھی کیا ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں کا حال تو بے حال ہے۔ ایک سیاسی پارٹی بارہ ہزار کی بولی لگاتی ہے اور ہوا میں آواز گونجنے لگتی ہے اور دوسری سیاسی پارٹی چیخ چیخ کر پندرہ ہزار پکارنے لگتی ہے۔ اس میں بھی کسی طرح کیے شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ملک کے صنعتی گھرانوں کا لاکھوں کروڑ روپے کا قرض معاف کردیا جاتا ہے جبکہ کسی طرح زندہ رہنے والے ملک کے کسان مزدور اور غریب عوام کے لیے قرض کی معافی ان کی پیداوار کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم دینے اور ان کی مالی حالت کو بہتر کرنے کے لیے فوری راحت دینے والے اقدامات تو کیے ہی جانے چاہئیں۔ مگر اب جمہوریت کے سب سے بڑے پروگرام کا سارا زور محض فوری راحت پر ٹک کر رہ جائے تو  مستقبل بہت ڈراؤنا  نظر آتا ہے۔ اب ہمارے ملک کی سیاسی قلاشی کا حال یہ ہے کہ آدیواسی حاشیے پر پڑا محروم طبقہ زراعت، سینچائی، صنعت، حمل و نقل، بنیادی سہولیات، بنیادی ڈھانچہ، جنگل اور ماحولیات اور کان کنی جیسے مسائل ہماری ترجیحات سے سرے سے غائب ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ مفت، مفت اور محض مفت خوری نے لے لی ہے۔ غور کیجیے کہ مفت خوری کی وجہ سے ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت پر قرض کا بوجھ نہیں بڑھے گا؟ کئی ملکوں میں مفت خوری نے سرکاری قرضوں کو بڑھا دیا ہے۔ نتیجتاً وہ ممالک قرض کے گرداب (Debt Trap) میں پھنس گئے۔ مثلاً سری لنکا۔ ونیزویلا وغیرہ ممالک مفت خوری کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے غریب ممالک سے بھی بری حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ ویسے کبھی رفاہی حکومت کے نام پر مفت کی اسکیموں کی وجہ سے بھاری قرض میں ڈوبے ہوئے امیر ممالک کی لمبی فہرست بھی ہے۔ مفت خوری کا یہ مرض اب ملک کی ریاستوں میں بھی پھیلتا جا رہا ہے۔ حالیہ انتخابات کے دوران تو سیاسی پارٹیوں نے مفت خوری کی اسکیموں کے اعلانات کی باڑھ لگا دی ہے۔ چند دنوں قبل ہی آر بی آئی اور کنٹرولر اکاونٹ جنرل (CAG) نے اپنی اپنی رپورٹوں میں مفت خوری کی وجہ سے ریاستوں پر بڑھتے ہوئے قرض کے بوجھ کے بارے میں ڈیٹا شائع کیا اور تشویش ظاہر کی کہ مفت خوری والی اسکیموں سے ریاستوں کا قرض بڑھتا جارہا ہے۔ کیگ کے اندازہ کے مطابق ان ریاستوں پر قرض کا بوجھ زیادہ ہے جہاں مفت کی اسکیموں پر زیادہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ مثلاً پنجاب، آندھراپردیش اور تمل ناڈو   جیسی ریاستیں ضرورت سے زیادہ مفت کی اسکیموں پر خرچ کرتی ہیں۔ اگر کوئی بھی ریاست مفت کی اسکیموں پر بے تحاشا خرچ کرتی ہے تو پھر اسے ضروری انفراسٹرکچر اور خدمات پر ضرورت سے کم اخراجات پر ہی اکتفا کرنا ہوتا ہے۔
ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ساتھ ہی ہماری بڑی آبادی غربت کی مار جھیل رہی ہے کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ بے روزگاری پچھلے  پینتالیس سالوں میں سب سے اونچائی پر ہے۔ اس بڑی آبادی میں پینسٹھ فیصد تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ قدرت کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے جسے ہم ڈیموگرافک ڈیوڈینڈ کہتے ہیں۔ ملک میں جتنے کام کاج ہوتے ہیں اتنی ہی پیداوار بڑھتی ہے اور خدمات کا دائرہ بڑھتا ہے۔ نتیجتاً ملک کی جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے ارباب حل و عقد بڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت سے کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ کبھی تو وہ ملک کی نوجوان آبادی کے تعلق سے فخریہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سرمایہ اور بڑا اثاثہ بھی ہے۔ وہی لوگ اپنی زبان سے تجدید آبادی کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ جب تک آبادی کو رحمت کے بجائے زحمت سمجھا جائے گا تب تک بڑی آبادی سے فائدہ اٹھانے کی سمت میں کوئی بڑا قدم اٹھانا اور منصوبہ بندی کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج تک ہمارا ملک ڈیموگرافک ڈیویڈینڈ سے فائدہ اٹھانے میں ناکام ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہمیشہ الیکشن موڈ میں رہتے ہیں تاکہ کل، جل اور چھل سے اقتدار پر قبضہ کر سکیں۔ جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لینے سے بھی نہیں چوکتے اور آخری ہتھیار کے طور پر فرقہ وارانہ زہر کو پھیلا دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایسی حالت میں ملک میں غریب مزید غریب ہو رہے ہیں اور امیر حکومت کی طرف سے مراعات پاکر مزید امیر بنتے جا رہے ہیں۔ یہی ہے ہماری معیشت کا وہ ’مودانی ماڈل‘ جس کے ذریعہ غریب کو مزید غریب بنائے رکھنے میں راحت ملتی ہے۔
چند دنوں قبل وزیر اعظم نے چھتیس گڑھ میں اسّی کروڑ لوگوں کو مفت راشن فراہم کرنے کی اسکیم کو پانچ سالوں کے لیے بڑھا دیا ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ ہمیشہ محنت مزدوری کرکے اپنے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ محنت کی کمائی سے ان کو جو کچھ میسر ہوتا ہے اس میں فرحاں و شاداں رہتے ہیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی اور پھر کورونا وبا نے غیر منظم شعبوں کو تہس نہس کردیا۔ وبا کے وقت مفت راشن کی فراہمی ضروری تھی۔ مگر اب اسّی کروڑ لوگوں کو مفت راشن کی فراہمی کو قابل ستائش نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ تو مودی کا ووٹ بٹورنے کا سیاسی ہتھکنڈہ ہے۔ اس اسکیم کا تسلسل واضح کرتا ہے کہ ملک میں شدید غربت ہے اور حکومت مہنگائی کم کرنے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ حکومت کو لوگوں کی غیرت کا سودا کر کے ووٹ بٹورنے کی ہی فکر ہے۔
امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ چند سالوں میں معاشی سرگرمیاں اب چین سے منتقل ہوکر جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کی جانب بڑھنے لگیں گی۔ ایجنسی نےslouching Dragon Roaring Tigers کے عنوان سے چین اور بھارت کی معاشی حالات کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جس طرح معاشی سرگرمیاں آخری چند سالوں میں جاپان سے چین کی طرف منتقل ہوگئی تھیں اسی طرح معاشی سرگرمیاں چین سے بھارت و دیگر ممالک کی طرف منتقل ہونے جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کی شعبہ خدمت کی حصہ داری ملک کی معاشی ترقی کی نصف سے زائد ہے۔ زراعت اور دیگر پیداوار میں اس کی حصہ داری میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ جس طرح چین نے نوجوانوں کی قوت سے سستے مزدوروں کے بھروسے اپنے آپ کو دنیا کا کارخانہ بناکر خوب نفع کمایا۔ اب بھارت نوجوانوں کی بڑی آبادی سے اپنی معاشی رفتار کو بڑھا سکتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے اور غربا کی تعداد کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسّی کروڑ لوگوں کو مفت اناج فراہم کرنے کی اسکیم میں مسلسل توسیع کی جارہی ہے۔ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ بازار میں بنگلے، عالی شان فلیٹس، مہنگی گاڑیاں اور امیروں کے عیش و عشرت کے ضروری سامان خوب فروخت ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف موٹر سائیکلس، اسکوٹی، سستی کاریں، چھوٹے مکانات اور روز مرہ کی ضروریات کی چیزیں ویسی فروخت نہیں ہو رہی ہیں کیونکہ متوسط اور غریب طبقے کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
ملک کی غذائی سلامتی نظام میں زبردست تبدیلی کی ضرورت ہے۔ دراصل اس اسکیم کی شروعات کورونا وبا کے دوران لوگوں کی غذائی سلامتی کے مد نظر مصیبت زدہ خاندانوں کو ایمرجنسی راحت پہنچانے کے لیے ہوئی تھی۔ اسے 2013 کے قومی غذائی سلامتی ایکٹ کے تسلسل کے طور پر دیکھا گیا جس کے دائرے میں دیہی علاقوں کی دو تہائی آبادی اور شہری علاقوں کی آدھی آبادی آتی ہے۔ قومی غذائی سلامتی ایکٹ، غذائی سلامتی کے جہدکاروں کی ایک دہائی سے ہونے والی مہمات کے بعد پاس کیا گیا تھا جو سرکاری گوداموں میں اناج کے بڑے ذخیرہ اور بھکمری کے ساتھ ساتھ چلنے سے متفکر تھے۔ کورونا وبا کے دوران راحت یافتگان کی تعداد دگنی کردی گئی اور اسے پوری طرح مفت بھی بنا دیا گیا۔ پہلے چاول، گیہوں اور موٹا اناج بالترتیب تین روپے، دو روپے اور ایک روپے رکھا گیا تھا۔ اب پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا سے حکومت پر مالی بوجھ میں ایک بڑا اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک میں نیتی آیوگ کے ڈیٹا کے مطابق غریبی میں پندرہ فیصد کی کمی آئی ہے پھر اٹھاون فیصد لوگوں کو مفت غذا کیوں فراہم کی جارہی ہے؟ یہاں بھوک کے علاوہ تغذیہ کی کمی (Malnutrition ) بھی مسئلہ ہے۔ اس کے لیے دودھ، گوشت  اور انڈوں کی وساطت سے مقوی غذا اور پروٹین بھی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی نقد رقم بھی منتقل کی جانی چاہیے تاکہ لوگوں کی قوت خرید بھی بڑھے اور صحت بھی اچھی ہو۔ اس کے علاوہ ملک میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کو بھی چست اور درست کیا جانا چاہیے تاکہ دیگر لوگوں کو بھی فائدہ ہو۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023