معاصر ملحدانہ نظریات اور اسلام کا نظام فکر
خوف خدا اور فکر آخرت کے بغیر ہزاروں قسم کے اخلاقی اصول و ضوابط بے مطلب
سید شعیب حسینی ندوی
موجودہ دنیا کا فکری انحطاط اور اخلاقی زوال صرف اسلامی تعلیمات ہی کے ذریعہ راہ راست پر لایا جاسکتا ہے
الحاد اور خالق کائنات کا انکار موجودہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ مغربی ملکوں کی اکثریت برائے نام عیسائی ہے ورنہ لا مذہبیت ہی ان کا اصل مذہب ہے، اگر مذہب کی کچھ قیمت ہے بھی تو مخصوص مناسبتوں میں رسم و رواج کی ادائیگی کی حد تک یا نفسی تسکین بہ روحانیت (Meditation) کے لیے۔ خدا کے انکار کی مختلف شکلیں ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی سال 2006 میں نئی اصطلاح کا رواج ہوا ہے جس کو نیا الحاد (New Atheism) کہتے ہیں، اس کا موجد گیری وولف (Gary Wolf) ہے۔ اس نے بڑی انوکھی تعبیر کا استعمال کرتے ہوئے کہا ہے: The church of the Non-believer یعنی ایمان نہ رکھنے والوں کا گرجا گھر۔ اسی طرح ایک برطانوی فلسفی رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins) نے خدا ایک وہم (The God Delusion) کے عنوان پر ایک کتاب لکھی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ کوئی بھی ایمان والا اس کو پڑھے گا تو کتاب مکمل کرتے کرتے وہ ملحد ضرور بن جائے گا۔
آج الحاد کا طوفان بلا خیز ہے، جدید دنیا میں مذہب کے انکار کا عام رجحان ہے، اگر کہا جائے کہ مغربی دنیا کی اکثریت ملحد ہے اگرچہ وہ عیسائی نام کے لیے کہلاتی ہو تو غلط نہیں ہوگا۔ الحاد کا تجزیہ کرتے ہوئے تین صورتوں میں اس کو رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے:
۱۔ مطلق انکار خدا (Atheism): اس تصور کے مطابق دنیا اور پوری کائنات کی تخلیق کسی پیدا کرنے والے رب نے نہیں کی ہے بلکہ یہ طبعی مراحل سے گزر کر خود بخود وجود پذیر ہوئی ہے۔
۲۔ لا علمی کا تصور (Agnosticism): اس میں یہ خیال پیش کیا جاتا ہے کہ کائنات کا موجد اور خالق ہو بھی سکتا ہے یا نہیں بھی ہو سکتا ہے، ہمارے پاس کوئی سائنسی یا مادی دلیل اس کی نہیں ہے، اس لیے ہم اس کا اقرار کرتے ہیں نہ ہی انکار، بلکہ اس کو اپنے دائرہ سے باہر مان کر چھوڑ دیتے ہیں اور نا قابل اعتنا سمجھتے ہیں۔
۳۔ انکار ربوبیت (Deism): یہ مانا جاتا ہے کہ ایک خالق نے کائنات کو وجود تو بخشا ہے لیکن اس کا ربط اس کائنات سے پھر برقرار نہیں رہا، اب یہ کائنات خود سے اپنے طبعی نظام اسباب و مسببات کے مطابق چل رہی ہے، اور پھر انسانوں کی رہنمائی کے لیے وحی کا نزول سب خام خیالی ہے، حقیقت سے کچھ اس کو سروکار نہیں۔
ایک اور اصطلاح ہے جسے نظری ہیومنزم کہا جاتا ہے جو ان تمام دیگر الحادی نظریات کی جڑ میں جا کر دیکھا جائے تو نظر آئے گا ان کے پیچھے حد سے بڑھی ہوئی مادیت پرستانہ سوچ اور بے لگام لذت اندوزی کی طبیعت اور ماورائے طبیعیات حقائق کا انکار اور عقل انسانی کو حتمی فیصل ماننے کی فکر کار فرما ہے۔ جیک گراسی اس کے حوالہ سے لکھتا ہے: ’ہیومنزم کے فالورز کی ابتدا ہی اس سے ہوتی ہے کہ یہاں نہ کوئی خدا ہے نہ روح اور نہ کوئی غیر مادی قوتیں جن تک رسائی کی ضرورت ہو، یہاں ایسی کوئی غیبی طاقت نہیں ہے جو ہماری رہنمائی کرسکے اور اپنی خبروں اور احکام سے ہمیں واقف کرائے، اور نہ ہی ایسی کوئی ہستی ہے جس سے ہمیں پر سکون زندگی یا اس کی حمایت و نصرت حاصل ہوسکتی ہے‘۔ ایک مغربی ناول نگار ڈین کونٹز اپنی مشہور کتاب Intensity novel میں اسی نظریہ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے: ’ہمارے وجود کا واحد مقصد خواہش نفس اور اپنی شہوانی کیفیت کی تسکین ہونا چاہیے، یہاں اخلاقی قدر کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی نیکی و بدی اور غلط و صحیح کے تخیل کی گنجائش رکھنی چاہیے۔ مارکس اور انگلس کے مینوفیسٹو میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ ’’قانون، اخلاق اور مذہب سب معاشی آسودگی کی دھوکہ بازی ہے، جس کی آڑ میں اسی کے بہت سے مفادات چھپے ہوئے ہیں‘‘۔
مغرب میں قرون وسطی کے تاریک دور کے بعد جو نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہوا وہ مذہب کے قبرستان پر ہوا، پہلے انہوں نے عیسائیت کا جنازہ اٹھایا پھر علم کے دوش پر سوار ہوئے، کیونکہ عیسائی مذہب نے علم و سائنس پر جو قدغن لگائی تھی اور نئے علمی تجربات کو مذہب مخالف مان کر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے اور تفتیشی محکموں (Inquisition) کے ذریعہ خون کی ندیاں بہائی تھیں اس نے آنے والی نسلوں کی نفسیات میں یہ رجحان بٹھا دیا کہ مذہب علم و سائنس کا دشمن ہے، مذہب کے رہتے ہوئے علمی ترقی نا ممکن ہے۔ انقلاب فرانس 1789 یورپ کی تاریخ کا سنگ میل کہا جاتا ہے، اس کے بعد گرجاؤوں اور مذہبی پیشواؤں کے خلاف جو مضبوط بغاوت اٹھی اور علمی ترقی میں مذہب کو سب سے بڑا روڑا مانا گیا اس نے نئی دنیا کو الحاد کے تیز و تند طوفان کی لپیٹ میں لینے کا موقع فراہم کیا۔ طبیعیاتی نظریات ہوں یا نفسیاتی تجزیے، تعلیمی تجربے ہوں یا تحقیقی میدان ہر جگہ مذہب بیزاری اور خدا ناشناسی کا عنصر ابھر کر سامنے آیا، اگر کچھ مصالحت کی صورت پیدا کی گئی تو مذہب کو اس قدر محدود دائرہ میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا کہ وہ معبود سے ذاتی روحانی تعلق کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن اس کے نظام سے اجتماعی زندگی یا قومی معاملات کو نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ گیلیلو کے ٹیلیسکوپ کی ایجاد ہو، آئن سٹائن کے فیزکس (طبیعیات) کے نظریات ہوں، نیوٹن کے کشش ارضی کے انکشافات ہوں، ڈارون کے حیوانیاتی و نباتاتی نظریات و مفروضات ہوں، جیمس واٹسن اور فرانسس کریک کے جینیاتی انکشافات ہوں یا اور دوسروں کی ایجادات و انکشافات جن سے انسانی زندگی میں بڑا انقلاب واقع ہوا ہے، نقل و حرکت ہو یا رابطہ عامہ کے وسائل، ٹیلی کمیونیکیشن ہو یا طبی مراعات ان سب میں انسانوں نے مختصر مدت میں غیر معمولی ترقی کی ہے اور صنعتی انقلاب کے دروازہ سے تمدنی انقلاب کا غیر معمولی راستہ عبور کیا ہے، اس کو کوئی بینا شخص جھٹلا نہیں سکتا ہے، اور مغربی دنیا نے عیسائیت کی چادر پھینک کر یہ اڑان بھری ہے۔
اسلام بحیثیت دین و شریعت اس حوالہ سے بہت مثبت رویہ رکھتا ہے اور اس تمدنی سفر میں کبھی روڑے نہیں اٹکاتا، بلکہ اسلامی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ مذہبی تعلیمات کے سایہ میں تمدنی علوم کی نئی نئی جہتیں کھولی گئی ہیں اور دینی علوم پر نگاہ رکھنے والوں نے سائنسی علوم میں نت نئے تجربات کر کے نئی راہیں وا کیے ہیں اور ایک حد تک انسانی تمدن و تہذیب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں،۔ ابن رشد، فارابی، خوارزمی، جابر بن حیان اور نہ جانے کتنے نام اس فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اسلام اس مادی و تمدنی جست کو لگانے میں کچھ اخلاقی اصولوں اور سماجی قدروں کی پابندی کا حکم دیتا ہے، تاکہ مادیت پرستی کا غلبہ انسان کو ترقی یافتہ جانور نہ بنادے۔ انہی اخلاقی قدروں کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ ساری ترقی یافتہ ٹکنالوجی انسانوں کی تباہی اور بربادی کا سامان بنتی جا رہی ہے، ملک کے ملک تاراج کیے جا رہے ہیں، لاکھوں بے گناہ انسانوں کا بے دریغ قتل عام کر دیا جاتا ہے، جدید معلوماتی وسائل کے ذریعہ دوسروں کی معلومات چرا کر اپنے مفادات میں استعمال کی جاتی ہیں، فارما انڈسٹری سب سے بڑی انسانیت سوز مارکیٹ بن رہی ہے، علاج و معالجہ کے ذرائع اندھیر نگری چوپٹ راج کا نمونہ ہیں، تعلیمی ادارے کمرشیل مارکیٹ بن چکے ہیں، جہاں سے کمانے کی مشینیں تیار ہو کر نکلتی ہیں۔ چاند پر کمندیں ہیں اور غریبوں کی گردنوں میں پھندے، غیر انسانی استحصالی سوچ تمام راستوں میں سرایت کر چکی ہے۔ مغرب میں پیدا ہونے والے سماجی و نفسیاتی تصورات نے انسان کے رشتہ کو خالق سے کاٹ کر باہمی تانے بانے جوڑنے کی جو ناکام کوشش کی ہے وہ اچھا سماج تیار کرنے میں کبھی سرفراز نہیں ہو سکے۔ یونانی کلاسکل عہد کے مرکز ایتھنز میں وجود پانے والے نظریات جو کہ جدید مغربی دنیا کے اصل مآخذ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان سے لے کر انیسویں اور بیسویں صدی تک پیش کیے گئے سماجی نظریات خوابوں کی جنت ہیں۔ مشہور زمانہ فرانسیسی مفکر ژان ژاک روسو نے اپنی معروف کتاب معاہدہ عمرانی میں حکومت و ریاست کے تحت انسانی حقوق اور آزادی فکر کی جو گفتگو کی ہے اس کو نئی دنیا میں بہت اہمیت حاصل ہے، لیکن دوسری طرف نکولو میکیاویلی کا نظریہ جو سیاست میں مسلمہ اصول عملا بن گیا ہے کہ اگر اہداف درست ہیں تو وسائل کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں ان کو جواز فراہم کرتے ہیں، عالمی سیاست نیشنلزم کی سوچ کے زیر اثر اور مادی وسائل کی لا متناہی بھوک کی وجہ سے ظلم و جور اور استحصال و دسیسہ کاری کا عنوان بن چکی ہے۔
دوسری طرف داخلی معاشرہ اپنی انتہائی گراوٹ میں ہے، رشتے ناطے، خاندانی تانے بانے، سماجی قدریں عنقا ہیں۔ موجودہ مغرب کے اخلاقیات عہد قدیم سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ مغربی فلسفہ اخلاق اور ان کی سماجی اخلاقیات کو اگر سمجھنا ہو تو ولیم ایڈورڈ ہارٹ پال لیکی کی مشہور کتاب تاریخ اخلاق یورپ (History of European Morals) جس کا اردو ترجمہ مولانا عبد الماجد دریابادی کے قلم کا شاہکار ہے وہ کافی ہے اور اس موضوع پر بہترین مواد فراہم کرتی ہے اور موجودہ یورپ کو تاریخ کے جھروکوں سے آج بھی آئینہ دکھاتی ہے۔ علم نفسیات میں جتنے بھی نظریات مغرب میں رائج ہیں وہ سب جزوی حقائق ہیں جن کے غلط نتائج نے موجودہ عقلیت کو مسموم کیا ہے اور سماج پر برے اثرات ڈالے ہیں۔ سیگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud) کا تحلیل نفسی (Psycho Analysis) کا نظریہ ہو، یا جون بی واٹسن (John B Watson) کا کرداریت (Behaviourism) والا نظریہ ہو، یا پھر میسلو (Maslow) کے انسان پسند نفسیات کے تصور کی بنا پر پیش کیا جانے والا درجہ بند ضروریات (Hierarchy Needs) کا مثلث خاکہ ہو، ان سے وقتی فائدے یا جزوی حل تو پائے جا سکتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ان کے مثبت ثمرات نہیں حاصل کیے جا سکتے بلکہ کسی قدر کڑوے پھل ہی ہاتھ لگتے ہیں۔ تجربات اس کے کھلے شاہد ہیں۔ اگر بغور تجزیہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ بنیادی غلطی جو ان تمام نظریات و تصورات میں ہو رہی ہے وہ انسان کو گوشت پوست اور مادی جذبات و خواہشات ہی کا بندہ ماننے کی فکر ہے اور سارا وبال اسی عدم توازن اور بے اعتدالی کا خمیازہ ہے جس کو دین اسلام نے کبھی روا نہیں رکھا۔ جب تک شخصی خواہشات پر حد بندیاں نہیں ہوں گی اور وسائل و ذرائع ترقی پر اخلاقی بندشیں نہیں ہوں گی انسان درندہ صفت بن کر رہ جائے گا اور انسانیت شرمسار ہوگی۔
یہ مذہب کی دیوار یا ایمانی تصور ہی ہے جو انسان کو تمام تر وسائل اور قوت وقدرت کے باوجود ظلم و زیادتی اور نا انصافی سے روکتا ہے، اس میں یہ احساس جگاتا ہے کہ معنوی زوال کے ساتھ مادی منفعتیں تیرا کچھ نہ بنا سکیں گی، اس کے اندر جواب دہی کا شعور بیدار کرتا ہے کہ تیرا عمل قادر مطلق کی نظر میں ہے تجھے اس کا حساب چکانا پڑے گا۔ دوسری طرف خدائے برتر کے تصور سے عاری لوگ ان احساسات سے خالی ہوتے ہیں اور بغیر کسی روحانی گرفت کے مادی بازار میں اپنے ضمیر کے سوداگر بن جاتے ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ قانون کی سختی کبھی سماجی اصلاح کا کام نہیں کرتی، کسی برائی کو ختم کرنے کے لیے کتنے مؤثر قوانین وضع کر لیے جائیں، مفاد پرستی کی دنیا میں چور دروازے بآسانی کھول لیے جاتے ہیں، از راہ مثال منشیات کی پابندی کا قانون لیجیے، امریکہ و یورپی ملکوں نے اس پر پابندی کے بہت قوانین بنا کر دیکھے لیکن پہلے سے زیادہ بری صورتحال کا شکار ہو گئے، جبکہ اسلام نے تدریجی مراحل سے اس کا جو خاتمہ سماج سے کیا تھا اس کی مثال پوری تاریخ انسانی میں پیش نہیں کی جا سکتی ہے۔ آج مالی بدعنوانی ایک بڑا جرم شمار ہوتا ہے اور اس پر بڑی بڑی سزائیں بھی طے ہیں لیکن ان بدعنوانیوں کا گراف روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخرت پر ایمان کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کردی جائیں، خوب یاد رہے کہ بشری وجود میں لا محدود خواہشات کا سمندر موجزن ہے، مال کی حرص و طمع، جنسی لذت کوشی کا ابال، جاہ و منصب کا لالچ اور عقل و خرد کا غرور وہ عناصر اربعہ ہیں جو آدمی کو ہر طرح کی اخلاقی پابندیوں سے (اگر وہ موجود ہیں) لڑاتے ہیں۔ در اصل ایمان و ضمیر کا دباؤ اور آخرت میں اپنے کیے پر بدلہ لینے کا یقین ہی اصل بنیاد ہے کیونکہ یہی ایمان ان عناصر کو کنٹرول میں رکھ کر کارگاہ حیات میں زندگی بسر کرنے واحد راستہ ہے جو آدمی کو اخلاقی توازن دے سکتا ہے اور راهِ اعتدال پر چلا سکتا ہے، ورنہ کتنے ہی اچھے اخلاقی اصول وضع کر لیے جائیں، اگر ان کا محرک بعد کی زندگی میں جزا و سزا کا یقین نہیں ہے تو دنیوی منفعت کا طوفان بلا خیز بآسانی ان کو پامال کرا دے گا۔ ایمان ذرا کمزور ہو جائے تو بندہ کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے اور اگر ایمان ہی نہ ہو تو بے لگام رہے گا۔ ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ منکرین آخرت بھی تجارتی اصولوں میں بڑی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن اگر تہہ میں جا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا وہ اپنی تجارتی ترقی کی خاطر ایسا کر رہے ہیں اور اگر کبھی بڑا ہاتھ مارنے کا موقع آ گیا تو اسے بھی اپنا حق سمجھ کر دھوکہ دینا عیب نہیں سمجھتے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سود کے کس قدر پھیلے ہوئے نقصانات ہیں اور پوری دنیا ان سے جوجھ رہی ہے، لیکن پھر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں کیونکہ ظاہری فائدہ اور حب مال اخلاقی تقاضوں پر غالب آ جاتا ہے۔
لہذا ایمان اور خوف خدا ہی مسائل کا حقیقی حل ہے ۔
***
***
مذہب کی دیوار اور ایمانی تصور انسان کو تمام تر وسائل اور قوت وقدرت کے باوجود ظلم و زیادتی اور نا انصافی سے روکتا ہے، اس میں یہ احساس جگاتا ہے کہ معنوی زوال کے ساتھ مادی منفعتیں تیرا کچھ نہ بنا سکیں گی، اس کے اندر جواب دہی کا شعور بیدار کرتا ہے کہ تیرا عمل قادر مطلق کی نظر میں ہے تجھے اس کا حساب چکانا پڑے گا۔ دوسری طرف خدائے برتر کے تصور سے عاری لوگ ان احساسات سے خالی ہوتے ہیں اور بغیر کسی روحانی گرفت کے مادی بازار میں اپنے ضمیر کے سوداگر بن جاتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023