مو ت العالِم موت العالَم

وہ جاوداں رہیں گے ابد کی مثال میں

نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)

مولانا رابع حسنی ندوی کے انتقال پر امیر جماعت اسلامی ہند اور مختلف تنظیموں کا اظہار تعزیت
یہ دنیا ایک سرائے فانی ہے یہاں ہر کوئی جانے کے لیے ہی آتا ہے اور ہر روز کسی نہ کسی کی خبرِ وفات سن کر دل غمگین ہوتا رہتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک ایسی شخصیت نے اہل زمین کو الوداع کہا جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھی۔ جن کی وفات سے نہ صرف ان کے اہل خانہ اور اعزہ و اقارب کو صدمہ پہنچا بلکہ سارے عالم اسلام میں غم و اندوہ کا ماحول ہے۔ مولانا رابع حسنی ندویؒ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر تھے اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم بھی تھے اور پھر ناظم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ان کے علاوہ وہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سرپرست، رابطہ ادب اسلامی ریاض کے نائب صدر اور رابطہ عالم اسلامی کے رکن تاسیسی بھی تھے۔ ان کا شمار دنیا کے 500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات میں ہوتا تھا۔
مولانا کی وفات پر ملک و بیرون ملک کی کئی اہم شخصیات، اداروں اور تنظیموں نے اظہار تعزیت پیش کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’مولانا رابع حسنی ندویؒ کے انتقال کی غم ناک اطلاع ہم سب کے لیے اور خاص طور پر میرے لیے از حد رنج و غم کا باعث ہے۔ مولانا کچھ عرصے سے علیل تھے، ان کی صحت کے لیے دعائیں بھی ہو رہی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے فیصلوں کے آگے ہم سب بے بس ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’مولانا رابع حسنی ندوی پوری امت کا قیمتی اثاثہ تھے۔ علم و ادب، تعلیم و تعلم، رشد و ہدایت، دعوت و تبلیغ، اور ملی قیادت و رہبری ان سب متنوع میدانوں میں مولانا کی گراں قدر خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔ پیرانہ سالی اور متعدد جسمانی عوارض کے باوجود دینی و ملی کاموں میں مرحوم کی سرگرمیاں قابل رشک تھیں۔ بلاشبہ مولانا موصوف کی وفات امت مسلمہ ہند کا بہت بڑا نقصان ہے اور اس نازک موقع پر جبکہ ملت اسلامیہ ہند چو طرفہ مسائل اور چیلنجوں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے، مولانا کی جدائی ایک بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے نعم البدل عطا فرمائے‘‘۔ امیر جماعت نے ذاتی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’مولانا موصوف سے متعدد دفعہ مختصر و طویل ملاقاتیں رہیں لیکن اس وقت وہ ملاقات شدت سے یاد آرہی ہے جو چار سال پہلے جماعت اسلامی ہند کی امارت کے لیے میرے انتخاب کے فوری بعد ندوۃ العلماء میں مولانا کی رہائش گاہ میں ہوئی تھی۔ مولانا نے بڑی شفقت سے اپنے قریب بٹھا کر بہت دیر تک گفتگو کی تھی اور بہت قیمتی نصیحتوں سے نوازا تھا۔ میں مرحوم کے ورثا، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ذمہ داران اور مرحوم کے تمام لواحقین سے تعزیت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور جو خلا مرحوم کی وفات سے پیدا ہوگیا ہے اسے پُر فرمائے۔ آمین‘‘
اسی طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا پوری امت کے لیے نقطہ اتفاق تھے، ہر حلقہ میں ان کو محبت وعظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، وہ اس وقت مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مرجع تھے، ان کو عالم اسلام خاص کر عرب دنیا میں بھی بہت قدر واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، ان کے عہد صدارت میں پرسنل لا بورڈ نے بہت حکمت کے ساتھ اہم اور مشکل مسائل کا سامنا کیا۔ وہ بلند پایہ مصنف، ماہر تعلیم، عربی کے مایہ ناز ادیب، بافیض استاذ ومربی تھے۔ پوری ملت اسلامیہ اس وقت تعزیت کی مستحق ہے۔ بورڈ تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ان کے لیے دعا کا اہتمام کریں اور اتحاد واتفاق کو قائم رکھیں۔
جماعت اسلامی ہند یو پی مشرق کے امیر ڈاکٹر ملک محمد فیصل فلاحی نے بھی گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت پیش کی اور صبر جمیل کی دعا کی ہے۔ ملک فیصل فلاحی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا رابع حسنی ندوی کے رخصت ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔ مرحوم کی سربراہی میں مسلم پرسنل لاز کے تحفظ کے لیے جو کام ہو رہے تھے، وہ انتہائی اہم تھے۔ مولانا شفقت و محبت، عاجزی و انکساری، اتحاد و اتفاق اور تحمل و بردباری کا اعلی نمونہ تھے۔ ملک کی موجودہ صورتحال میں مولانا کا ہم سے رخصت ہو جانا ایک عظیم خسارہ ہے۔
چیرمین کرناٹک اردو چلڈرنس اکادمی، حافظؔ کرناٹکی نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کے انتقال کی خبر گہرے نشتر کی طرح دل کو چھید گئی۔ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت امت مسلمہ کے سر پر دعا کے شجر جیسی تھی۔ ان کا علمی اور روحانی مرتبہ جس پایہ کا تھا اس کی مثال آج کے دور میں مشکل سے ملے گی، ان کا مقام و مرتبہ صرف اہل فکر و دانش، اہل علم و عمل اور اہل قال ہی کے دلوں میںنہیں تھا بلکہ اہل حال بھی انہیں اپنا مربی سمجھتے تھے۔ ایسی جامع کمالات شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ان کی وفات جہاں امت مسلمہ اور بنی نوع انسانی کا زبردست خسارہ ہے وہیں اس صدی کا سب سے جانکاہ صدمہ بھی ہے۔ وہ اپنی بلند ترین شخصیت اور حد درجہ مصروفیت کے باوجود بے حد شفیق تھے۔ سہ روزہ سیمینار 26 جنوری 2023 کے موقع سے طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے شکاری پور تشریف نہ لاسکے تو کمال لطف سے اپنا پیغام لکھ کر بھیج دیا جسے ان کے شاگرد رشید مولانا محمد الیاس ندوی نے پڑھ کر سنایا۔ یقینا ان کی رہبری میں کئی اداروں نے ترقی کی مثالیں قائم کی۔ یہ عظیم سانحہ ہے میں ان کے پسماندگان، شاگردوں، دوستوں، بہی خواہوں، چاہنے والوں اور عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہوئے صبر جمیل کی دعا کرتا ہوں ۔
ان کے علاوہ مزید کئی اداروں اور تنظیموں نے مولانا کے محاسن کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی کہ اللہ تعالی مولانا مرحوم کے درجات بلند کرے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023