محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی۔۲
آمد 17جولائی 1932 – رخصت28جون 2023
معروف مترجم قرآن (اردو، ہندی) ہندی زبان کے اسکالر، دانشور، ادیب اور شاعر (اردو، ہندی) علامہ محمد فاروق خاں 28 جون 2023 (مطابق 9 ذی الحجہ، 1444 ہجری) کو لکھنؤ میں مختصر علالت کے سبب انتقال کر گئے۔ وہ 28 جون کی صبح ہی عیدالاضحی کے موقع پر مرکز جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی سے اپنے بیٹے طارق انور ندوی اور ان کی فیملی کے ساتھ عید منانے لکھنؤ پہنچے تھے۔ پس ماندگان میں ان کے اکلوتے بیٹے طارق انور ندوی، دو پوتے اور چھ پوتیاں ہیں۔ نماز جنازہ دوسرے دن نماز عید کے بعد لکھنؤ کے راجہ جی پورم کی مسجد میں ہوئی اور تدفین اسی دن مرحوم کے آبائی وطن سلطان پور میں ہوئی۔ ان کی عمر تقریباً 90 سال تھی۔
مولانا محمد فاروق خاں کی پیدائش 17 جولائی 1932 کو سلطان پور (یوپی) کے ایک موضع مصورن میں ہوئی۔ ماں کا سایہ بچپن ہی میں اٹھ گیا تھا۔ انہوں نے ہندی زبان میں ایم اے کے بعد صاحب علم دینی علما کی صحبت میں عربی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں اصلاحی علما بھی تھے اور قاسمی بھی۔ وہ باضابطہ کسی دینی درس گاہ سے فارغ نہیں تھے لیکن ان کو اعزازی عالمیت اور فضیلت کی اسناد حاصل تھیں۔ علامہ محمد فاروق خاں نے اپنی زندگی کا نصب العین ’دعوت الی اللہ بنایا تھا۔ میری قربت مرحوم سے تقریباً 35 برسوں کی تھی۔ 37 سال قبل ان سے پہلی ملاقات پٹنہ کے شکر ڈیہہ کی مسجد میں ہوئی تھی جہاں طلبا تنظیم کا پانچ روزہ تربیتی کیمپ منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں علامہ فاروق خاں صاحب نے کئی سیشن میں قرآن اور اس کے اسلوب اور دعوتی پہلو پر بڑے علمی لیکچرز دیے تھے۔ اس کے دو سال بعد ہی میں دہلی آگیا اور پھر ان سے ملاقات اور استفادہ کا تسلسل برقرار رہا۔ آخری چند برسوں میں ملاقات کا سلسلہ کم ہوگیا تھا کیونکہ وہ پرانی دہلی (1353 بازار چتلی قبر) سے ابوالفضل انکلیو منتقل ہوگئے تھے۔ وہ صحیح معنی میں دعوتی کام کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا تعلق جماعت اسلامی ہند سے 1956 سے قبل ہی ہوا تھا۔ جماعت اسلامی میں ان کی صوفی منش شخصیت منفرد تھی جن کے عملی طور پر کھلے ذہن کے ساتھ غیر مسلموں سے روابط تھے۔ جماعت اسلامی ہند میں اگرچہ چند اور شخصیات تھیں جن کو ’دعوت اسلامی‘ کا حقیقی ادراک تھا۔ ان میں مولانا سید حامد علی بھی شامل تھے۔ لیکن علامہ فاروق خاں کی شخصیت قائدانہ اٹھان سے زیادہ داعیانہ تھی۔ وہ مدعو قوم سے اپنی مخصوص بصیرت اور حکمت کے ذریعے تعلقات استوار کرتے تھے۔ ان کی دعوت پر درجنوں غیرمسلم مشرف بہ اسلام ہوئے۔ لیکن کچھ اسکالر قسم کے حضرات کا علامہ فاروق خاں سے مسلسل رابطہ ہونے کے باوجود اسلام کے نور سے ان کا قلب منور نہ ہوسکا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے ایک قریبی دوست جیون داس جی ہفتے میں ایک بار ضرور علامہ سے ملاقات کرتے اور گھنٹوں دونوں میں فکری گفتگو ہوا کرتی۔ انہوں نے ہندوستان کے تقریباً ہر مذہب کے ’سرداروں‘ سے ملاقات کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہندی زبان کی چاشنی کے ساتھ نہ صرف اپنی پُرکشش تقریر کے ذریعے ان کو متاثر کیا بلکہ ہندی زبان میں غیر مسلموں کے لیے بےشمار کتابیں لکھیں۔ ان کی ایک کتاب ’ہندو دھرم کی چند جدید شخصیتیں‘ بہت مشہور ہوئیں۔ وہ جین مندر بھی گئے اور پونے میں آچاریہ رجنیش کے آشرم میں رجنیش سے بھی ملاقات کی۔ مجھے یاد ہے کہ نئی دہلی کے آصف علی روڈ پر ایک کمپنی KAPSON کے نام سے قائم تھی جس کے مالک پال صاحب ہوا کرتے تھے۔ وہ ہر ہفتہ علامہ فاروق خاں صاحب کے ’پروچن‘ (وعظ) کا انعقاد کرتے تھے جس میں ہر دھرم کے لوگ شرکت کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہاں (مولانا) وحیدالدین خاں (مرحوم) بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ خاکسار کو بھی علامہ کے ساتھ پال صاحب کی مجلس میں جانے کا موقع ملا تھا۔ وہاں میں نے تمام لوگوں کی آنکھوں میں (بیشتر غیر مسلم) علامہ کے لیے ادب، احترام اور عقیدت کے جذبات محسوس کیے۔ علامہ فاروق خاں اپنے ’پروچن‘ میں ایک اللہ اور آخرت پر خاص درس دیتے تھے۔ اسی طرح وہ مختلف باباوں کے آشرموں میں بھی جاتے تھے تاکہ ان کو سمجھ سکیں اور اپنی بات کھلے دل سے ان کے سامنے رکھ سکیں۔ وہ اپنے اس ’دعوتی مشن‘ میں نہ صرف ہمیشہ بے باک رہے بلکہ اپنی حد تک صد فی صد کامیاب بھی تھے۔ اور ہدایت تو اللہ رب العزت کی طرف سے ہی ملتی ہے۔
چھوٹی بڑی ایک سو سے زائد کتابوں کے مصنف و مؤلف علامہ محمد فاروق خاں کو ابتدا سے جماعت اسلامی ہند نے تصنیفی شعبہ ہندی کی ذمہ داری دی تھی جسے وہ تاحیات نبھاتے رہے۔ ان کے قلم سے دیومالائی مذہب سے متعلق متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ تاہم ان کی بیشتر کتابیں دیومالائی مذہب اور اسلام کے تقابلی مطالعے پر مبنی ہیں جن میں توحید، رسالت اور آخرت کا پہلو ابھرا ہوا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ کیا جبکہ وہ رامپور میں تھے۔ اس زمانے میں جماعت کا مرکز رامپور ہی میں تھا۔ اس وقت اس ترجمہ کو عملی طور پر مولانا صدرالدین اصلاحی نے دیکھنے کے بعد اس ترجمے کی صحت کی تصدیق کی تھی۔ اس کے بعد قرآن مجید کا اردو ترجمہ (مع حواشی) بھی شائع ہوا۔ ہندی ترجمے کی اس وقت بےحد پذیرائی ہوئی تھی۔ ہندی زبان سے مرحوم کو گہرا تعلق تھا۔ ہندی میں ان کا شعری مجموعہ ’چھتج کے پار‘ بھی شائع ہوا۔ اردو میں ان کا شعری مجموعہ ’حرف و صدا‘ بہت بعد میں شائع ہوا۔ شاعری میں ان کا تخلص فراز سلطانپوری تھا۔ بلاشبہ مرحوم نے ہندی میں اسلام کے بنیادی لٹریچر میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہندی زبان کے لٹریچر کو خالصتاً ہندی زبان کی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تیار کرتے تھے تاکہ ہندی داں غیر مسلم حضرات کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو، تاہم بعد میں انہوں نے بعض ریاستوں میں اردو زبان کے زوال کو محسوس کرتے ہوئے چند دینی و اخلاقی کتابیں مسلمانوں کی رعایت سے بھی لکھیں۔
علامہ فاروق خاں کی چند اردو کتابوں کے نام اس طرح ہیں۔ کلام نبوت (سات جلدوں میں)، مطالعہ حدیث، قرآن کے تدریسی مسائل، کائنات میں اللہ کی نشانیاں، فطری نظام معیشت، عرفان حقیقت، رِگ وید، ایک تجزیاتی مطالعہ، رمضان تبدیلی اور انقلاب کا مہینہ، دعوتِ دین اور اس کے کارکن، دعائیہ چہل حدیث، خدا کا تصور ہندو دھرم کی کتابوں میں، خواتین اسلام کی علمی خدمات، حقیقی تصوف، حکمت نبویؐ، احادیث کی روشنی میں، تربیت کے فکری اور عملی پہلو، تزکیہ نفس اور ہم، آخرت کے سائے میں۔
ہندی میں چند کتابوں کے نام اس طرح ہیں۔
دھرم کیا ہے کیا نہیں ہے، پرلوک کی چھایا میں، پرلوک واد اور بھارتیہ دھرم گرنتھ، مکتی کی دھارنا اور اسلام، بھکتی کی دھارنا اور اسلام، سپھلتا اور مکتی کا ایک ہی راستہ، سفلتا کے مَولِک سوتر، حدیث سوربھ (پانچ جلدوں میں)، اسلام درپن، پوتر قرآن (عربی متن کے ساتھ)، ستیہ کیا ہے، اسلام کیا ہے، اسلام درشن، ایک ایشور کی دھارنا، قرآن سب کے لیے وغیرہ۔
علامہ فاروق خاں اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے شعلہ بیان مقرر تھے۔ وہ فکر انگیز باتیں بھی بڑے سادہ انداز میں کہہ دیتے تھے۔ ان کی باتیں دانشوروں کے ساتھ عام آدمی کے دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ اپنے ’دعوتی مشن‘ کے لیے انہوں نے ملک کے تقریباً ہر گوشے کا سفر کیا تھا۔ ان کے چاہنے والے ہزاروں کی تعداد میں ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ علامہ کے انتقال سے تقریباً دو ماہ قبل ہفت روزہ دعوت (4 تا 10 جون 2023) میں رضوان احمد اصلاحی صاحب نے ان سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ آخر میں جب علامہ سے مرکز جماعت کی نئی امارت کے حوالے سے نصیحت کرنے کی گزارش کی تو انہوں نے کچھ یوں فرمایا۔
’’بھارت میں بہت ساری جماعتیں ہیں البتہ جماعت اسلامی کا امتیاز دعوت الی اللہ ہے، آپ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں غیر مسلموں کے لیے بھی سوچیں، کہیں جائیں تو صرف رفقا ہی سے مل کر واپس نہ جائیں بلکہ وہاں غیر مسلموں سے بھی ملاقاتیں کریں، کوئی بات مانے یا نہ مانے ہمارا پیغام سب کے لیے ہے۔ دودھ سب کے لیے مفید ہے چاہے کوئی پیے یا نہ پیے۔‘‘
علامہ محمد فاروق خاں کی شخصیت اور افکار و خیالات کو سمجھنے کے لیے 48 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ 2017 میں القلم پبلیکیشنز، بارہمولہ، کشمیر نے شائع کیا تھا۔ ابوالاعلیٰ سبحانی نے علامہ سے انٹرویو لیا تھا۔ ’مطالعات، مشاہدات اور تجربات‘ کے نام سے اس کتابچہ کا مطالعہ بھی علامہ کو سمجھنے میں بےحد معاون ہوسکتا ہے۔ فاروق خاں صاحب کے مطالعہ کا میدان بڑا ہی وسیع تھا۔ شاعری، افسانہ، مذہب، فلسفہ اور روحانیت ان کے پسندیدہ موضوعات تھے لیکن ہر اس کتاب کے مطالعہ کی عادت تھی جس میں کچھ اہم مواد ملنے کی توقع ہو۔ فاروق خاں صاحب جماعت اسلامی ہند کے لیے دعوتی لٹریچر تیار کرنے کے ساتھ ’اردو بک ریویو‘ کے لیے لکھنا پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ’اردو بک ریویو‘ کے لیے انہوں نے ابتدا سے مختلف موضوعات پر کتابوں پر تبصرے کیے۔ ان کے درجنوں تبصرے ’اردو بک ریویو‘ کی 28 جلدوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان سے ’اردو بک ریویو‘ نے 2008 میں ایک مختصر انٹرویو لیا تھا۔ یہ انٹرویو ان کے مختصر تعارف کے ساتھ اپریل، مئی، جون 2008 کے شمارے میں شائع ہوا۔ ان سے جب ایک سوال کیا گیا کہ’ ’اس وقت کون سی کتاب آپ کے زیر مطالعہ ہے؟‘‘ تو علامہ کا جواب تھا’’اردو میں نفسیاتی تنقید، مرتب غلام نبی مومن‘‘۔
علامہ فاروق خاں صاحب کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ ’جلالی قسم کے‘ صوفی بزرگ تھے۔ لیکن جمالیاتی حس ان کی سرشت میں تھی۔ وہ قدرتی و فطری مناظر سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ ایک بار 14 کی چاند رات کو اچانک اپنے کمرے سے باہر نکلے اور مجھے پکار کر کہا کہ دیکھیے چاند کتنا خوبصورت ہے۔ اسے دیکھ کر خدائی مظہر کو محسوس کیجیے۔ اس زمانے میں مَیں اپنی فیملی کے ساتھ ان کے کمرے سے اوپر والے کوارٹر میں مقیم تھا اور اشاعت اسلام ٹرسٹ (رجسٹرڈ) کے تحت مرکزی مکتبہ اسلامی میں مجھ پر پروڈکشن مینجر کی ذمہ داری تھی۔ اس ادارے میں تقریباً دس برس میں نے اپنی ذمہ داری بہ حسن و خوبی ادا کی۔ جس بات کو وہ درست سمجھتے تھے اس پر سمجھوتے کے عادی نہ تھے۔ بعض اوقات بحث و تکرار کے دوران کسی بزرگ عالم سے بھی ان کی بحث ہوتی اور وہ بزرگ اپنی بات کی صداقت پر اڑے رہتے تو علامہ کو جلال آجاتا۔ اس کا مشاہدہ میرے علاوہ شاید ان کے قریب رہنے والے چند افراد نے بھی ضرور کیا ہوگا۔ لیکن ان کا ’جلال‘ ہمیشہ ان کی دل کی نمائندگی کرتا اور ’جلال‘ پر ’جمال‘ اکثر غالب رہتا تھا۔ اپنے دل میں کبھی بھی کسی کے لیے منفی خیال کو جگہ نہیں دیتے، شفاف ذہن کے حامل انسان تھے۔ اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے حسنات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور اعلیٰ درجات مرحمت فرمائے۔ آمین!
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023