مولانا مناظر احسن گیلانی علمی و قومی ہم آہنگی کے امین
دینی اور دنیوی علوم کی تخصیص نے مسلمانوں کو حددرجہ نقصان پہونچایا ۔تفریق کا خاتمہ ضروری
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
مولانا مناظر احسن گیلانی (1892-1956) بھارت کے صوبہ بہار سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی پیدائش ضلع نالندہ میں ہوئی۔ آپ کے جد امجد محمد احسن جید عالم دین تھے۔ آپ نے تعلیم دار العلوم دیوبند سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں 1920ء میں شعبہ دینیات کے استاد کی حیثیت سے تقرر ہوا، پھر اس فیکلٹی کے ڈین اور شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ آپ کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد تقریباً ڈھائی درجن ہے جن میں تدوین قرآن، تدوین حدیث، تدوین فقہ، سوانح قاسمی، بھارت میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت (دو جلدیں) الدین القیم، اسلام اور ہندو دھرم کی بعض مشترک اقدار متداول ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر تالیفات تحقیقی و علمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔
مناظر احسن گیلانی بھارت کی ان نمایاں شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی علمی و فکری، نظریاتی و تحقیقی سرمایہ میں اپنی عالمانہ بصیرت سے اہل علم و فضل اور ارباب ذوق کو تدبر و تفکر کے لیے متوازن اور معتدل پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ مولانا گیلانی کی خدمات کا دائرہ وسیع اور متنوع ہے۔ قران و حدیث اور فقہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی معاشیات و اقتصادیات، سیر و سوانح، مطالعہ ادیان و مذاہب پر بھی توجہ مبذول کی ہے۔ اس تناظر میں اگر آپ کے علمی و فکری کارناموں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کی جدید صورت حال اور بھارت کے تکثیری سماج میں آپ کے افکار و نظریات اور علمی و ادبی شہ پاروں کی اہمیت و افادیت بڑھ جاتی ہے۔ سماجی اصلاح و فلاح اور معاشرتی و سماجی تشدد و تناؤ کے خاتمے نیز انسانی رشتوں اور قومی و بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں بھی مولانا گیلانی کی آراء بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ بھارت چونکہ متعدد افکار و خیالات اور ادیان و مذاہب کا مرکز ہے جو تکثیریت اور تعدد پسندی کے لیے عالمی سطح پر اپنی شناخت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے بھی آپ کی تحریریں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ گویا مولانا گیلانی کی تحریروں میں بھارتی تہذیب و تمدن اور یہاں کی مشترک اقدار کا کماحقہ خیال رکھا گیا ہے۔ قومی سلامتی اور معاشرتی امن و امان اور رواداری کے تصور کو فروغ دینے کے لیے جس چیز کی بنیادی طور پر ضرورت پڑتی ہے وہ ہے فکری و نظریاتی توازن اور ذہنی و فکری حریت اور سوچ وفکر کا توسع جو اہل علم و نظر ان متذکرہ صفات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں نہ صرف اہل علم کے حلقے میں بلکہ عوامی سطح اور مشترک معاشروں میں بھی ان کی اہمیت کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ مولانا گیلانی بھی اپنے فکری توسع کے لیے جانے جاتے ہیں اس لیے بھی ان کا گراں قدر سرمایہ جدید دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا گیلانی نے بھارتی معاشرے میں رہ کر جس نظریہ کی ترویج و اشاعت کی وہ بین مذہبی مذاکرات، افہام و تفہیم، بقائے باہم اور سماجی و معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بھی ضروری ہیں تو وہیں ان کے نظریات جدید صالح اور قدیم نافع کا سنگم ہیں۔
انہوں نے روایتی درس گاہ اور عصری دانش گاہ دونوں سے استفادہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں رواداری اور یکجتہی کے عناصر بخوبی جھلملاتے ہیں۔ رواداری اور یکجہتی کے اس تصور کی وضاحت مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنے ایک مضمون میں بھی کی ہے۔
انہوں نے مختلف انبیاء حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت لوط (علیہم السلام) کی قوم کے سلسلے میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن میں مذکور پیغمبروں اور ان کی قوم کے عقائد و اعمال اور خیالات و مسلمات قطعی مختلف تھے، اس کے باوجود ان کی اقوام کا انتساب ان پیغمبران حق کی طرف کیا گیا۔ انہیں قوم نوح، قوم ہود اور قوم لوط سے خطاب کیا گیا۔ اس بنیاد پر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قومی وحدت کے لیے نہ وطنی وحدت کی ضرورت ہے، نہ نسلی اتحاد کی، نہ زبان کی یکسانیت ضروری ہے بلکہ جس خطے میں بھی کسی پیغمبر وقت کو کسی نسلی اکائی کی اصلاح و ارشاد کے لیے بھیجا گیا ہے وہ سب ایک قوم ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’پھر قرآن نے کس بنیاد پر ان جماعتوں اور امتوں کو ان مختلف پیغمبروں کی قوم قرار دیا؟ اس کے سوا اور کیا تھا کہ جو پیغمبر انسانوں کی جس جماعت کی اصلاح و احیاء کے لیے کھڑا کیا جاتا تھا، وہی لوگ اس کی قوم قرار دیے جاتے تھے۔ اب اگر اسی بنیاد پر، بھارت کے مسلمان، بھارت کے ان تمام باشندوں کو جن کی ہدایت و ارشاد، ان کا دینی فریضہ ہے اور جن کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کے لیے مسلمانوں کی ایک جماعت، گنگا اور جمنا کے کنارے، کرشنا اور گوداوری کی وادیوں میں آباد کی گئی۔ ان کے اسلاف اسی غرض سے اس ملک میں آئے۔ اگر مسلمان ان ساری جماعتوں کو اپنی قوم قرار دیں تو قرآن کی اصطلاح سے کیا اس کی توثیق نہیں ہوتی؟ یقیناً اس بنیاد پر ہندی مسلمانوں کی قوم، بھارت کے قدیم قبائل دراوڑی، کول اور بھیل بھی ہیں، آریہ اور راجپوت بھی ہیں، کائستھ اور برہمن بھی ہیں، کہ ان ہی لوگوں کے لیے ان ہی کی اصلاح ودرستی کے لیے اس ملک میں وہ آئے اور بھارت میں قیام کیا۔یقیناً اسی اصلاح کی بنا پر چینی مسلمانوں کی قوم، چین ہی کے وہ باشندے ہیں جن کی طرف چین کے مسلمان مبعوث تھے اور قسطنطنیہ و تھیرس، بلقان، البانیہ، ہرزیگونیا و بوسنیا کے مسلمانوں کی قوم، یورپ کے وہ باشندے ہیں جو ان ملکوں میں ان کے ساتھ آئے ہیں۔ قازون و سرائے باغچہ کے مسلمانوں کی قوم روس کے وہ باشندے ہیں جن کے درمیان مسلمانوں کی یہ جماعت آباد ہوگئی ہے۔ مصری مسلمانوں کی قوم ان زمینوں کی رہنے والی ہے جو ارد گرد ممالک میں رہتے ہیں اور جن کو اسلام کی دعوت دینا ان کا قرآنی فریضہ ہے۔“
مولانا کے اس نظریہ اور فکر سے جو تصور ابھرتا ہے اس میں وسعت و پھیلاؤ اور توازن و اعتدال ہے۔ بھارتی تناظر میں مولانا گیلانی کے اس تصورِ قومیت کی بڑی افادیت ہے۔ دعوتی پہلو سے بھی اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مولانا گیلانی جس طرح قومی ومعاشرتی ہم آہنگی کے قائل و معترف نظر آتے ہیں اسی طرح عصری و دینی علوم و معارف میں بھی ہم آہنگی کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دینی اور عصری علوم کے نام پر جو تقسیم آج ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے اس کی پر زور انداز میں تردید کرتے ہیں۔ علوم کی دین و دنیا کے نام پر جو تقسیم ہے اس کی عدم اہمیت پر بڑے بے باک انداز میں لکھتے ہیں: ’’حکومت اور سوسائٹی دونوں میں صرف ان علوم و فنون کی وقعت ہے جن کا دین سے کوئی لینا دینا نہیں، ایسی حالت میں بآسانی بجائے اس علمی فتنے کے جس کا تماشا دور حاضر میں ہم کر رہے ہیں کہ تعلیم کے دو مستقل سلسلے ملک میں ایک ساتھ جاری ہیں۔ ایک طرف جوامع و کلیات یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تعلیم اور ان کے تعلیم یافتہ حضرات ہیں اور دوسری طرف دینی مدارس و مکاتب اور ان کے پڑھے ہوئے علماء و فضلاء ہیں، ہر ایک دوسرے کے علم اور نقطہ نظر سے ناواقف ہے اور ان کو ناواقف بنا کر رکھا گیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ علم کا دعویٰ دونوں کو ہے، عوام ان کے ہاتھوں میں فٹ بال کی گیند بنے ہوئے ہیں، ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے جو جاری ہے، گویا ایک طبقہ عوام کی گردنیں پکڑ کر آگے کی طرف دھکیل رہا ہے، دوسرا ان ہی بے چاروں کا دامن پکڑ کر پیچھے کی طرف گھسیٹ رہا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ علم کے دونوں نمائندے گھر کی اس منحوس لڑائی میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں، نہ ان کا اثر قائم ہوتا ہے نہ ان کی بات چلتی ہے۔ مسلمانوں کو نہ دین پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے نہ دنیا میں آگے بڑھنے کی توفیق میسر آتی ہے” ( بھارت میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، جلد اول، صفحہ 319-320)
مولانا کے اس نظریہ اور فکر سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ علوم کی تقسیم دین اور دنیا کے نام پر کرکے نوع انسانی کا بڑا نقصان کیا گیا ہے۔ اس سے معاشرے میں اجنبیت اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے حالانکہ معاشرے میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کی جائے، علوم کی تقسیم دین اور دنیا کے نام پر نہ کرکے نافع اور غیر نافع کے نام پر کی جاتی تو یقیناً اس کے نتائج معاشرے پر اچھے مرتب ہوں گے۔ مولانا گیلانی صرف اسی بات کے قائل نہیں کہ علومِ کی تقسیم دین اور دنیا کے نام پر نہ کی جائے بلکہ ان کا لٹریچر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک متحدہ نصاب چاہتے تھے تاکہ معاشرے میں علم و فضل اور تحقیق و ریسرچ کے نام پر انتشار و افتراق کی کیفیت جنم نہ لے سکے۔ اس تناظر میں اگر ہم موجودہ تعلیمی اداروں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے سماج میں دینی علوم اور دنیوی علوم کے نام پر ایک ایسی خلیج ہے جس کو پاٹنا آسان نہیں ہے۔ اس سے قومی ترقی اور سماجی بہبود میں لازمی طور پر رکاوٹ آتی ہے۔ اس کے مایوس کن نتائج صرف یہیں تک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ معاشرے میں بہت سارے فتنے اور اوہام و خرافات پیدا ہو جاتے ہیں جو انسانی حقوق اور قومی سلامتی کو بھی متاثر کرتےہیں۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ قومی افتخار اور سماجی و معاشرتی اعتدال و توازن قائم کرنے اور علمی و فکری ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ان خطوط پر عمل کیا جائے جو تکثیری سماج کے لیے مفید و معاون ثابت ہوسکیں۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کا امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے بھارتی تہذیب و تمدن اور یہاں کے مذہب و دھرم سے صرف واقفیت ہی حاصل نہیں کی بلکہ باہمی یگانگت و اتحاد، قومی و بین الاقوامی تعلقات کو خوش گوار بنانے کے لیے باقاعدہ ہندو دھرم اور دیگر ادیان پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ اسلام اور ہندو دھرم کی بعض مشترک اقدار اور ہزار برس پہلے کے عنوان سے کتابیں لکھ کر اپنی وسعت فکر کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ہندو متون میں جن مصادر کا کثرت سے مطالعہ کیا گیا ہے وہ مہا بھارت ہے۔ مولانا گیلانی کی کتب کو پڑھنے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سنسکرت، عبرانی، انگریزی اور دیگر زبانوں کے سیکھنے کے پر زور حامی رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب بھارت میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت میں اس بات کے شواہد بھی پیش کیے ہیں کہ ہمارے اکابر نے سنسکرت اور عبرانی زبانیں سیکھی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ہندی علماء میں مجھے ایسے متعدد افراد نظر آتے ہیں، جنہوں نے عربی کے تعلیمی مروجہ نصاب کو ختم کرکے بھارت کی خاص علمی زبان سنسکرت میں بھی کمال پیدا کیا ہے۔ مثلاً فاضل شیخ حیدری ان علماء میں ہیں جو باہر سے بھارت میں آئے، ہندو پنڈتوں کے گروہ سے انہوں نے اہل ہند کے علوم سیکھے، ان کی زبان سیکھی اور مدت تک انہی میں رہے۔ اسی طرح شیخ عنایت اللہ نے بھی سنسکرت زبا ن میں مہارت حاصل کی۔ (بھارت میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، جلد اول صفحہ 230)
ان تمام ثبوت و شواہد کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج ہمارے مدارس دینیہ کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ وہ بھارت میں بولی جانے والی زبان طلباء کو سکھائیں۔ مدارس کی بابت آج جو نفرتیں اور ان کے خلاف منظم سازشیں ہورہی ہیں اس کی ایک واحد وجہ یہ بھی ہے کہ مدارسِ دینیہ کا سماج سے رشتہ استوار نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے زیادہ تر علمی و تحقیقی کارنامے عربی، اردو یا پھر انگریزی میں ہیں۔ ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں میں بہت کم دینی سرمایہ ہے، اس لیے برابر دوری بنی ہوئی ہے جس سے معاشرے میں امن و امان اور یکجہتی و ہم آہنگی کے بجائے افتراق و تشدد کی راہ ہموار ہورہی ہے جو بھارت جیسے تکثیری سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔
***
***
آج ہمارے مدارس دینیہ بھی بھارت میں بولی جانے والی زبان طلباء کو سکھائیں۔ مدارس کی بابت جو نفرتیں اور ان کے خلاف منظم سازشیں ہورہی ہیں اس کی ایک واحد وجہ یہ بھی ہے کہ مدارسِ دینیہ کا سماج سے رشتہ استوار نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے زیادہ تر علمی و تحقیقی کارنامے عربی، اردو یا پھر انگریزی میں ہیں۔ ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں میں بہت کم دینی سرمایہ ہے، اس لیے برابر دوری بنی ہوئی ہے جس سے معاشرے میں امن و امان اور یکجہتی و ہم آہنگی کے بجائے افتراق و تشدد کی راہ ہموار ہورہی ہے جو بھارت جیسے تکثیری سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023