مولانا علی میاں ندویؒ جن کا قلم اور قدم خدمتِ اسلام کے لیے وقف تھا
یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے - کہ جاں مرتی نہیں مرگ بدن سے
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
31دسمبر مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے یوم وفات کے موقع پر خاص مضمون
اسلامی تاریخ میں علماء کی کمی نہیں رہی، بیسویں صدی میں بھی آسمان کے ستاروں کی طرح علماء بے شمار ہوئے اور ان سے یہ زمیں روکش کہکشاں بن گئی ۔ کوئی عالم دین روحانیت اور ربانیت میں آفتاب و ماہتاب تھا، کوئی عالم دین تفسیری خدمات میں یا حدیث میں یگانہ تھا، کسی نے فقہ کے میدان میں بیش بہا خدمات انجام دی تھی، کسی نے تنہا سیرت نبوی کے موضوع پر انسائیکلوپیڈیا مرتب کر ڈالی تھی، کسی نے اسلامی تاریخ لکھنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا تھا، کسی نے اسلامی علوم کی کوئی شاخ اپنے لیے منتخب کی اور اسے شاداب اور بہار آشنا کیا ،کسی نے جدید علم کلام کو اپنا موضوع بنایا اور اسلام پر اعتراضات کے مدلل اور تشفی بخش جواب دیے اور مغرب کے سحر سامری کو توڑ ڈالا۔ ایسے علماء بھی پیدا ہوئے جنہوں نے غیر ملکی اقتدار کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھیکنے میں جان ومال کی قربانیاں دیں ۔ ایسے علماء بھی سامنے آئے جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اسلام کے نظام حیات کو بر سر عمل لانے کی کوشش کی، کسی نے کلمہ کو درست کرنے اور مسلمانوں کو نماز اور سنت کے اعمال سے قریب کرنے کی کوشش کی۔ یہ تمام علماء قابل قدر اور لائق فخر ہیں اور امت اسلام کو ان سب کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔
مولانا علی میاں کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے علماء کی گوناگوں خصوصیات کو اپنے اندر جمع کرلیا تھا، ان کی شخصیت عطر مجموعہ کے مانند تھی، قرآن کا مطالعہ ان کا خصوصی میدان تھا ،ان کی شخصیت قرآن کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی اور سیرت نبوی کی خوشبو میں بسی ہوئی تھی ، وہ مفکر بھی تھے مؤرخ بھی تھے۔ ان کا تاریخ دعوت وعزیمت کا پورا سلسلہ ان کو مورخ کا مرتبہ عطا کرنے کے لیے کافی ہے، وہ ادیب بھی تھے اور عربی اور اردو کے بلند پایہ مصنف اور نثر گار بھی تھے ، مذہبی قائد بھی تھے ، ملت کے لیے دردمندا ور اسلام کے لیے فکر مند تھے، تصوف اور روحانیت میں بڑے مقام کے حامل تھے ،’’ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی ‘‘ کی عملی تقسیر تھے ۔تمام اہل دل کے نور نظر تھے ،علامہ اقبال اہل دل کے بہت قائل اور معترف رہے تھے ۔ وہ کہتے ہیں
نمی روید تخم دل از آب وگل
بے نگاہے از خداوندان دل
مولانا علی میاں بہت بڑے سوانح نگار تھے انہوں نے بہت سی بزرگ شخصیتوں کی اور اہل دل کی سوانح لکھی ہے۔ مولانا الیاس کی سوانح، شیخ الحدیث مولانا زکریا کی سوانح، مولانا عبد القادر رائے پوری کی سوانح جن سے مولانا کا ارادت کا تعلق تھا۔ مولانا فضل رحمان گنج مرادابادی کی سوانح وغیرہ ۔ یہاں سوال یہ اٹھتاہے کہ آخر مولانا کارول ماڈل کون تھا، رول ماڈل کا مطلب ہے کامل نمونہ ،مطالعہ اور واقفیت پر مبنی راقم سطور کی رائے یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی مولانا کے نزدیک رول ماڈل نہیں تھا ، اگرچہ ان میں سے ہر ایک سے مولانا نے پورااستفادہ کیا ہے، اکتساب نور کیا ہے،روحانیت کا فیضان حاصل کیا ہے۔ یہاں ضروری سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے کیسی شخصیت کو رول ماڈل کہا جاسکتا ہے یہ بہت اہم اور نظریاتی سوال ہے ۔ میرے نزدیک سیکڑوں شخصیات میں رول ماڈل کا انتخاب کرنے کے لیے درست اور صحیح اور متوازن تصور دین کا پایا جاناضروری ہے اور صحیح متوازن تصور دین تک پہنچنے کے لیے قرآن وحدیث کا اور خاص طور پر سیرت نبوی کا اور خلافت راشدہ کے دور کا گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔فرمان رسول ہے علیکم بسنتی وسنۃالخلفاء الراشدین المہدیین عضوا علیہا بالنواجز۔ مولانا علی میاں نے اپنی کتابوں میں خاص طور پر اپنی مشہور کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی روشنی میں مولانا کے تحریر کردہ سوانحی خاکوں میں امام احمد بن حنبل، صلاح الدین ایوبی اورآخر دور میں سید احمد شہید زیادہ بڑے اور بہتر رول ماڈل نظر آتے ہیں۔ سلطان ٹیپو کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے اگرچہ سلطان ٹیپوکی سوانح مولانا نے خودنہیں لکھی بلکہ لکھوائی ہے اور مجلس تحقیقات اسلام ندوۃ العلماء سے شائع کی ہے ۔
اس دور کی اسلام کی عظیم شخصیات پر ایک نظر ڈالیں، آپ کو ان شخصیات میں بہت بڑے مصنفین اور علماء مل جائیں گے آپ کو صوفی باصفا بھی مل جائیں گے یعنی عظیم روحانی شخصیتیں مل جائیں گی۔ آپ کومیدان کار کے سیاسی قائدین اور دینی کا موں کے مصلحین مل جائیں گے ادیب اور مصنفین بھی مل جائیں گے لیکن ان خصوصیات کا اجتماع ایک شخصیت میں مشکل سے نظر آئے گا۔ پھر اگرآپ ان خصوصیات کے اجتماع کے ساتھ ایسی شخصیت تلاش کریں جس کا دائرہ کار ہندوستان کے باہر عرب دنیا اور عالم اسلام تک پھیلا ہوا ہو،جس کی عربی زبان میں کتابیں اہل علم اور اہل ادب کے درمیان ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہوں تو پھر آپ کو علی میاں کے سواکوئی شخصیت نظر نہیں آئے گی۔ اس لیے کہنا غلط نہیں ہوگا کہ علی میاں جیسی شخصیت کی مثال ہندوستان کی پوری تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔ان کی شخصیت کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ عالم اسلام کے محتسب اور نگراں بھی تھے ۔اقبال کی طرح ان کابھی نظریہ تھا’’ ہے حقیقت جس کے دین کی احتساب کائنات ‘‘ مسلم ملکوں میں کوئی کام خلاف اسلام ہوتا ،کوئی غلط گمراہ کن نظریہ پھیلا یا جاتا مغربی تہذیب کا جھنڈا بلند کیا جاتا یا فرعون کا مجسمہ نصب کیا جاتا،عرب قومیت کا نعرہ لگایا جاتا،مولانا کی غیرت وحمیت اسے برداشت نہیں کرتی ،مولانا اس موضوع پر لکھتے اور تقریریں کرتے عربوں کو طاقتور انداز میں خطاب کرتے ، مولانا کی عربی زبان عام حالات میں گوہر بارہوتی تھی لیکن جہاں دین کو کوئی نقصان پہنچتا ہو چاہے وہ عرب ملک ہی میں یہ فتنہ کیوں نہ پیدا ہوا ہو تو پھر ان کا قلم شرربار اورتیغ جوہر دار بن جاتا تھا ۔ ترکی کے کمال اتاترک کا ذکر آئے یا مصر کے جمال عبدالناصر کاتذکرہ ہو مولانا کے قلم کو آتش بار دیکھا گیا اور ان دونوں نے عالم اسلام کو جو نقصان پہنچایاہے مولانا اس سے شدید نالاں تھے۔ مولانا اس وقت اگر بقید حیات ہوتے ان کی غیرت کی زبان اورحمیت کے قلم کی تنقید کے تیروں کا رخ عبد الفتاح السیسی کی طرف ضرور ہوتا جس نے جمال عبد الناصر کے ظلم کی یاد تازہ کردی بلکہ اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا اور مولانا کے غیض وغضب کا نشانہ وہ عقال پوش اور عبا بدوش اور بادہ نوش اور ایمان فروش اور محروم عقل وہوش خاقان بن خاقان محمد بن سلمان جیسے عرب حکمراں بھی ہوتے جو عبدالفتاح السیسی کے خاص مددگار اور اسرائیل کے یار رہے تھے اورابھی ہیں اور جو نتن یاہو سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرتے ہیں ۔ان کی شرربار تحریر وتقریر کا نشانہ وہ خلیجی ملک بھی ہوتے جہاں علانیہ دین داری اور اسلام پسندی کو جرم اور دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے،اور اسلام کا اور اسلامی نظام کا نام لینے والوں کوظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جو لوگ حالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عرب دنیا میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اورجو ظلم ڈھایا جارہا ہے وہ مذہبی ذہن رکھنے والوں کے لیے آشوب قیامت سے کم نہیں۔حرمین کی سرزمین میں کئی سو سینماگھر کھولے جارہے ہیں مغربی ثقافت کو درآمد کرنے کا انتظام ہورہا ہے اور اس کانام معتدل اسلام رکھا گیا ہے۔ بعض عرب ملکوں میں اخبارات کی رپورٹ کے مطابق حفظ قرآن اور مسجدوں میں دینی بات کرنا بھی جرم ہوگیا ہے اور اس کی سزا ۵ ہزار درہم مقررہے ( روزنامہ انقلاب ۱۷ نومبر ۲۰۱۷) ہر جگہ دینی قیادت کو سخت سزا اور عقوبتوں کا سامنا ہے۔ قرآن کی وہ آیتیں جن میں یہودیوں برا کہا گیا ہے نصاب سے خارج کی جارہی ہیں۔ عرب امارات میں قحبہ خانے موجود ہیں ،اسرائیل سے دوستی اور یارانہ ، اور بیت المقدس سے انداز بیگانہ ،جمال خاشقجی کا قتل اور محمدبن سلمان کی رسوائی اور نتن یا ہو کے ساتھ سمندر کے ساحل پر اس کی چوری چھپے آشنائی ۔ عرب ملکوں میں اور ارض حرم پر جوکچھ ہو رہا ہے وہ عصر حاضر کا سانحہ کربلا ہے،آج بھی اہل دین کے لیے وہی آبلہ پائی ہے، وہی دشت نوردی ہے، وہی صحرا ہے اور آج بھی وہی کوئے نفاق موجود ہے وہی یزید کا طمطراق ہے وہی ملوکیت ہے اور سیم وزر کا معبدہے اس کے اوپر قصر سلطانی کا گنبد ہے لیکن ہمارے علماء دین کے لب اظہار پر تالے اور زبان قلم پر چھالے پڑے ہوئے ہیں ۔یہ تنقید کسی خاص شخصیت پر نہیں ہے بلکہ ان تمام چھوٹی اور بڑی دینی قیادتوں پر ہے جو بر صغیر میں سرگرم عمل رہتی ہیں اور اتنی خطرناک باتوں کا نوٹس نہیں لیتی ہیں اور جنہیں ’’لسانا وشفتین ‘‘ کی نعمت ملی تھی لیکن انہوں نے ان سے کام نہیں لیا ۔
علماء اور اچھے خاصے دیندار لوگوں کا کہنا ہے کہ دینی اداروں کا بڑا نقصان ہو جائے گا اگر ان اداروں کے ذمہ دار عرب حکمرانوں کی ان غلطیوں پر نکتہ چین ہوں گے ۔ ہم یہاں کشکول گدائی رکھنے والے علماء کو اور دینی اداروں کے ذمہ داروں کو مولانا علی میاں کا ایک قول یاد دلانا چا ہیں گے ، مولانا نے ایک موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اللہ تعالی اس دن سے پہلے ہمیں دنیا سے اٹھا لے جس دن ہم ان خلیجی بادشاہوں اور حکمرانوں کو اپنا رزاق سمجھنے لگیں گے ‘‘۔ اب مولانا کی غیرت اور حمیت کا ہندوستان میں کوئی وارث نہیں رہ گیا ہے اور نہ کوئی ان کے استغناء اور توکل کا نمونہ پیش کرنے والا ہے ۔ہر ایک کے ہاتھ میں کاسہ گدائی ہے اور اب کوئی عرب دنیا میں پیدا ہونے والے ’’الفتنۃ الکبری ‘‘اور فساد انگیزی پر نکیر کرنے والا باقی نہیں رہا ہے۔
مولاناعلی میاں کی شخصیت ہمہ جہت اور ہمہ پہلو تھی وہ ہشت پہلو ہیرے کے مانندتھے۔ مولانا نے اپنے قلم سے تاریخ دعوت وعزیمت لکھی اور اپنے قدم سے ایک دوسری تاریخ دعوت وعزیمت رقم کی،وہ اسلام کا پیغام لے کر دشت ودر اور بحر وبر میں گھومتے رہے ۔ان کا قلم اور ان کا قدم اسلام کی خدمت کے لیے وقف تھا، مولانا نے مصلحین امت اور
صوفیاء کرام اور مجددین کا تذکرہ لکھا ہے اس اعتبار سے وہ مؤرخ تھے ،مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی پر ان کی کتابوں میں انہوں نے ان کے عہد کے سیاسی حالات کا تذکر ہ جس اسلوب اور انداز سے کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کا قلم ان کے ہاتھ آگیا ہے ۔ وہ مدارس میں اصلاح نصاب اور مسلم ملکوں میں اصلاح فکر وذہن کے بڑے وکیل اور ترجمان تھے،اس اعتبار سے وہ مفکر اسلام تھے اسی کے ساتھ وہ ایک صوفی باصفا اور شیخ طریقت بھی تھے اور روحانیت میں ان کا پایہ بہت بلند تھا ان کی زبان اللہ کے ذکر سے ہر وقت تر رہتی تھی، سیرت نبوی کی روشنی میں یہ قابل رشک مقام فضیلت ہے ،اور ان کی اس کیفیت کی گواہی اہل صدق وصفا نے دی ہے،ان سب کے ساتھ وہ احیائے اسلام کے بہت بڑے داعی تھے ۔مسلم ملکوں میں اسلامی نظام کو برسرعمل دیکھنا چاہتے تھے، ایسی جامع اور ہمہ جہت شخصیت مشکل سے پیدا ہوتی ہے ۔ لیکن مولانا کی شخصیت کی امتیازی صفت ان کی غیرت وحمیت ہے مولانا کا عرب وعجم میں احترام تو بہت کیا گیا لیکن اس کے باوجودہندوستان کے علماء نے اور دینی مدارس کے ذمہ داروں نے اور دینی جماعتوں کے رہنماوں نے ان کو اپنا رول ماڈل نہیں بنایا ۔بڑے بڑے علماء ان کے دست گرفتہ ہوئے اہل سلوک نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن مولانا کے افکار وخیالات کو انہوں نے جذب نہیں کیا، انہیں مولانا کے ذریعہ مقامات سلوک طے کرنے کی فکر لاحق رہی لیکن ملت اسلامیہ کے لیے مولانا کی بصیرت مندی اور دردمندی اور فکر کی ارجمندی اور مزاج کی غیرت مندی اور جرأت مندی کی انہوں بالکل اقتداء نہیں کی ۔ مدارس کے علماء مولانا کا احترام بہت کرتے تھے لیکن اصلاح نصاب اور اصلاح ذہن وفکر سے متعلق ان کے خیالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، مولانا کی آواز صدا بصحرا رہی ۔ایک دور افتادہ صدا جسے گوش حق نیوش بڑے پیمانہ پر نصیب نہ ہوسکا ۔نہ دینی جماعتوں کے بارے میں مولانا کی اعتدال پسندی قابل تقلید ٹھیری ،وہی عصبیت اوروہی مسلکی شدت اپنے حلقہ سے باہر دوسری تنظیموں سے منافرت اور بے احترامی مولانا کے بعد بھی باقی رہی ۔
گفتگو نا مکمل رہ جائے گی اگر مولانا کی ایک بہت اہم خصوصیت کا تذکرہ نہ کیا جائے اور وہ ہے شرافت زبان اور شرافت قلم اور شرافت تنقید ۔اردوزبان وادب اور ثقافت میں ایسی شرافت قلم کی مثال مشکل سے ملے گی۔مولانا نے المرتضی لکھی ، کتاب کے ہیرو حضرت علی مرتضی ہیں لیکن کیا مجال کہ پوری کتاب پڑھ کوئی حضرت معاویہ کے خلاف کوی بال بھی دل میں پڑ گیا ہو ۔یہ ان صحابہ کا زمانہ ہے جن کے بارے میں زبان رسالت نے اصحابی کلہم عدول اور اصحابی کالنجوم کہا ہے۔ یہ خیر القرون ہے، قلم کی تھوڑی سی بے احتیاطی سے ایمان کے سلب ہوجانے کا اندیشہ ہے۔مولانا نے سوانح مولانا عبد الحی لکھی یہ مولانا علی میاں کے والد ہیں ،نزہۃ الخواطر کے مصنف،ندوۃ العلماء کے سلسلہ میں علامہ شبلی سے ان کے اختلافات رہے ہیں کتاب میں ان اختلافات سے متعلق پورا باب موجود ہے کتاب کا پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ مصنف کسی پل صراط پر سے گزر رہا ہے۔ مولانا نے قادیانیت کی تردید اور تنقید میں کتاب لکھی لیکن اس شریفانہ اسلوب کی مثال مشکل سے پیش کی جاسکتی ہے ۔ہمارے مدارس کے علماء جو مناظرہ اور مخاصمت کے عادی رہے ہیں ان کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے زبان کی نرمی اور شیرینی کی خصوصیت مولانا سے سیکھنی چاہیے ۔ نصیب مدرسہ یا رب یہ آب آتشناک۔ مولانا کی یہ وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے ان کو اپنا آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے نئی نسل کو ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔
پھر مولانا کی شخصیت کے ایک اور بہت اہم پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے ، مولانا اپنی طبیعت کے اعتبار سے ایک زاہد مرتاض اور ایک عابد شب زندہ دار شخص تھے یا وہ ایک ادیب اورعربی اور اردو زبان کے عظیم مصنف تھے ان دونوں مزاج اوراس افتادطبع کاتقاضا یہ ہوتاہے کہ انسان تنہائی پسند ہواپنے خلوت کدہ سے باہر نہ آئے اور پڑھنے لکھنے میں مصروف رہے، لیکن ملک کے حالات کا اور دین اسلام کاتقاضا تھا کہ برادران وطن کو خطاب کیا جائے اورملک میں وہ کام کیا جائے جس کے لیے اللہ نے زمین پر بے شمار پیغمبر بھیجے ،اس عظیم کام کے لیے ضروری تھا کہ پہلے زمین کو ہموار کیاجائے اورپہلے مرحلہ میں ملک کے باشندوں کو اسلام سے مانوس کیا جائے۔ یہ وہ کام تھا جو صدیوں سے اس ملک میں کیا ہی نہیں گیا،مولانا کی پیام انسانیت کی تحریک کو لوگوں نے سمجھا ہی نہیں، اور سمجھا تو یہ سمجھا کہ اس تحریک کا مقصد صرف میل ملاپ اور بھائی چارہ ہے۔ مولانا کے جذبہ دعوت اسلام کوسمجھنے کے لیے صرف ایک واقعہ کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہو تا ہے کہ ایک بار رمضان کے زمانہ میں رائے بریلی میں أخری عشرہ میں جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد مولانا نے رمضان اور روزے کی اہمیت پر تقریر فرمائی اور تقریر کے بعد اپنی دعا میں یہ بھی کہا کہ اے اللہ توکلیم صدیقی کے مشن کوکامیاب کردے تین بار بلند الفاظ میں انہوں نے یہ بات کہی ۔ لوگ جانتے ہیں مولانا کلیم صدیقی کا مشن کیا ہے ۔ان کا مشن دعوت اسلام ہے۔
الغرض مولانا نے پورے ملک میں پیام انسانیت کی تحریک شروع کردی۔ شہر بشہر برادران وطن کو، غیر مسلموں کو جمع کرکے خطاب کرنا شروع کیا۔ مولانا کا یہ وہ مجتہدانہ کام ہے جس کی نظیر ہندوستان میں پچھلی کئی صدیوں میں نہیں ملتی ۔
بہت سی باتیں مجبوری میں وضاحت کے لیے لکھنی پڑتی ہیں ۔ بہت سے خام ذہنوں میں یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر تو براہ راست دعوت دیتے ہیں اور مانوس کرنے کی کوئی تحریک نہیں چلاتے ہیں۔بجا ارشاد لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پیغمبر اور اس کی مدعو قوم سب ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ اور ان کی قوم کے درمیان روابط موجود تھے تعلقات تھے رشتہ داریاں تھیں لسان قوم بھی ایک ہی تھی ، دعوت کا پلیٹ فارم موجود تھا۔ہندوستان میں دعوت کا پلیٹ فارم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس لیے یہاں اسلام اور مسلمانوں سے دعوتی مقصد کے لیے پہلے مانوس کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اس ضرورت کومولانا علی میاں نے محسوس کیا۔ دینی اور دعوتی شعورکی یہ مثال کسی اور شخصیت کے یہاں نظر نہیں آتی ہے نہ حال میں نہ ماضی قریب کی تاریخ میں ۔اب اس پیغمبرانہ مشن کی ضرورت کا احساس تک ختم ہوگیا ہے ۔ کچھ لوگ مسلمانوں کو کلمہ سکھانے اور نماز پڑھوانے کے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کام کی افادیت سے کسے انکار ہے لیکن یہ پیغمبرانہ مشن سے فروتر کام ہے ۔ کچھ لوگ اسلامی نظام کی برتری ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی زبانوں میں دعوتی مقصد سے اسلامی لٹریچر بھی تیار کرلیا ہے یقیناً یہ مفید کام ہے اور دعوتی شعور کا ثبوت ہے افسوس ہے قدیم طرز کے علماء نے اور قدیم مدارس کے اساتذہ نے اس کام کی قدر نہیں کی اور کام کرنے والوں کی قدردانی نہیں کی۔ لیکن دعوت کایہ پودا بھی اس وقت برگ وبار لائے گا جب ہندوستان کی آبادی کو مانوس کرلیا جائے گا اور ان کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی اور نفرتوں کی دیوار گرادی جائے گی۔کچھ لوگوں نے مسلمانوں کے حقوق کی قانونی لڑائی لڑنے کویا پرسنل لا کی حفاظت کو سب سے اہم کام سمجھ لیا ہے کام یقیناً اچھا ہے اوراسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے ہے پھر بھی یہ وہ مشن ہرگز نہیں ہے جسے پیغمبرانہ مشن کہا جا سکتا ہے ۔مسلمانوں کے لیے بہت سے مفیدکام کیے جارہے ہیں ان کی دینی تعلیم کے لیے ان کی عصری تعلیم کے لیے ان کی اقتصادیات کی بہتری کے لیے لیکن یہ سارے کام اصل پیغمرانہ کام سے فروتر کام ہیں۔مولانا علی میاں کے کاموں کا دائرہ جتنا وسیع ہے اس کی نظیر نہیں ملتی ہے اس دائرہ میں مدرسہ بھی ہے اور تبلیغ بھی ہے مسلمانوں کی تمام تنظیمیں بھی ہیں علمی اور تحقیقی اور تصنیفی کام بھی ہیں ،سیاسی رہنماوں سے بات چیت بھی ہے ہندو عوام سے ، برادران وطن سے خطاب بھی ہے ،عالم عرب سے اور عالم اسلام کے ساتھ خیر خواہی کے تعلقات بھی ہیں ۔مولانا علی میاں نے تنہا یہ سارے کام انجام دیے۔ قطب مینارسے زیادہ بلند حوصلے کے ساتھ روح جہاد کے ساتھ،کوہ کنی کے عزم فرہاد کے ساتھ ۔
پھر آج کے حالات کے پس منظر میں مولانا کا یہ جہاد تھا کہ مسلمانوں میں ایمان کی حرارت پیدا کرنے کے لیے مولانا نے آسمان وزمین کے قلابے ملا دیے اور دشت ودریا سب عبور کر ڈالے اور ملکوں ملکوں کا سفر کیا اور وہ بھی صحت کی خرابی اور علالت کے ساتھ ۔ اپنی تمام معذوریوں کے باوجود مولانا بہت فعال اور متحرک شخصیت کے مالک تھے اور روح جہاد ان کے اندر حلول کر گئی تھی ۔اپنی تمام علمی اور دینی مصروفیات اور عالم اسلام کے قائدین سے گہرے تعلقات کے باوجود مولانا عوام سے ملتے تھے ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے اور اخلاق نبوی سے متصف تھے ۔پورے عالم اسلام کی نگرانی اور نگہبانی کا فریضہ انجام دیتے تھے اور وہاں اہل دین کے ہاتھ میں سیاست کی زمام دیکھنے کی خواہش نے اور اہل حکومت کودین کی طرف راغب کرنے کے جذبہ نے مولانا سے طاقتور عربی میں کتابیں لکھوائیں، سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں کروائیں مولانا کی سوز وگداز سے لبریز عربی اور اردو میں بہت سی تحریریں ہیں اورکتابیں ہیں جن میں مولانا نے اپنا دل نکال کر رکھدیا ہے۔
بیسوس صدی شروع ہوئی تو عالم اسلام مغربی تہذیب کی یلغار کو اسلامی تہذیب کی ڈھال پر روکنے کی کوشش کرہا تھا۔ عرب دنیا میں جمال الدین افغانی کے شاگرد شیخ محمد عبدہ اور رشید رضا تھے اور کچھ دوسرے اصحاب قلم تھے جن کی اسلامیات پر ادب آمیز اور فکر انگیز تحریروں کے دلنشین تیر دل میں ترازو ہورہے تھے۔ پھر اخوان المسلمون کی تحریک کے مصنفین تھے جنہوں نے قلم کے میدان میں شہسواری اور پختہ کاری کا ثبوت دیا اور مغربی افکار کا کامیاب مقابلہ کیا برصغیر میں مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے میں علامہ اقبال کے کلام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہندوستان میں شبلی سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الاعلی مودودی اور مولانا ابو الکلام آزاد تھے جنہوں نے بیداری پیدا کی اور اسلام پر نئے سرے سے اعتماد پیدا کیا۔ مولانا مودودی نے مسلمانوں کو ان کے اصل فرض منصبی کی طرف لوٹنے کی دعوت دی۔ اسی کاروان علم وقلم میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے تقریر وتحریر کے ذریعہ تصوف وتزکیہ نفس کو جدید علم کلام سے اور عہد حاضر کے مسائل سے بہم کرنے اور نئی نسل کی شاخوں کو دین اسلام کے شجر سے وابستہ رکھنے کی پوری کوشش کی ان کا دائرہ کار ہندوستان سے لے کر عرب ملکوں تک پھیلا ہوا تھا۔ مصر میں جب فرعونیت کے احیاء کی کوشش ہوئی اور عرب قومیت کا نعرہ بلند کیا گیا تو مولانا کی تحریریں صور اسرافیل بن گئیں ان کا قلم تیغ اصیل بن گیا اور ان کی تحریریں بر صغیر اور ہندستان سے لے کر تمام عرب ملکوں میں پڑھی گئیں، کیونکہ مولانا کی عربی نثر اردو سے زیادہ طاقتور تھی پھر مولانا کی کتابوں کے دنیا کی زبانوں میں ترجمے ہوئے مولانا نے پورے عالم اسلام کو خطاب کیا ،ان کی وہ یہ خصوصیت ہے جس میں برصغیر کا کوئی عالم ان کا شریک نہیں اور اسی وجہ سے وہ پورے عالم اسلام میں مشہور ومقبول ہوئے ۔ انہوں نے مسلم حکمرانوں کو بھی نصیحتیں کیں ،کئی عرب حکمرانوں کے نام خطوط آج بھی محفوظ ہیں لیکن مسلم حکمرانوں نے بحیثت مجموعی مولانا کی بات نہیں مانی لیکن اب حکمرانوں کو نصیحت کرنے والا بھی کوئی باقی نہیں رہا ۔رہے نام اللہ کا ۔
آخر میں یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مولانا علی میاں کا پیغام کیا تھا ۔آج ہندوستان ہندوتوانتہاپسند ی کے غارمیں گرنے کے قریب ہے ہیڈگیوار، ساورکر اور گولوالکر نے تقریباً سو سال پہلے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا جو خواب دیکھا تھاوہ خواب اب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔ اس کے مقابلہ میں پاکستان بنانے والوں نے اسلامی مملکت کا جو خواب دیکھا تھا وہ خواب نہ تو شرمندہ تعبیر ہوسکا ہے نہ مستقبل قریب میں اس کی کوئی امید ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو مولانا علی میاں کے پیغام ’’پیام انسانیت‘‘ کی روح کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس تحریک کی روح یہ ہے کہ برادران وطن کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کیے جائیں اوران کے ساتھ ’’دل بدست آوری ‘‘ کے کام کیے جائیں اوران کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کیا جائے اور یہ بتایا جائے اورسمجھایاجائے کہ اسلام عدل وانصاف کا دین ہے اور ظلم ونا انصافی سے اسے بیر ہے۔ مسلمان اپنے دین کا ایسا تعارف پیش کرنے میں ابھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ اسلام کا تعارف عمومی دعوت اسلام کی جانب پہلا قدم ہے، خدمت خلق کا یہ کام ابتدائی اور بنیادی کام ہے اور یہ ہر شہر اور ہر محلہ میں شروع کیا جاسکتا ہے اس کے لیے ضروری نہیں کہ بڑا اجتماع کیا جائے اور لکھنو سے کسی قائد کو بلایا جائے۔خوب یاد رکھیے کہ ملت اسلامیہ اس وقت ونٹیلیٹر پر ہے اور اب تھوڑی سی تاخیر بھی مہلک ہوسکتی ہے ۔یہ وقت گیا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے محلہ اور علاقہ میں متحرک ہوجائے، غیر مسلموں سے حسن اخلاق سے پیش آئے خدمت خلق کے ذریعہ جو اسلام کا حکم ہے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرے ۔‘‘اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھرکبھی‘‘مسلمانوں کے سنگین مسئلہ کو اس ملک میں حل کرنا ہے تو اس کے سوااور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔مسلمانوں کے لیے اس ملک میں اختصار کے ساتھ پروگرام یہ ہے اپنی پسماندگی دور کرنے کی کوشش اور غیر مسلم سماج کے ساتھ خیرخواہانہ تعلقات اور اسلام کا تعارف اور توحید کی دعوت۔توحید کی دعوت کاذکر خاص طور پر اس لیے کیاگیا ہے کہ تمام انبیاء کرام کی دنیا میں مشترکہ دعوت یہی ہے ۔لیکن دنیا میں یہ کام غیر مسلم سماج سے گہرے تعلقات کے بغیر انجام نہیں پاسکتاہے۔صرف اپنے بقاء اور تحفظ کی کوشش انبیائی طریق نہیں ہے ۔ اگر مسلمانوں نے تحریک پیام انسانیت کی روح کوسمجھ لیا ہے توانہیں اس کام کو فورا شروع کردینا چاہیے۔ ہر شہر میں ہر محلہ میں۔’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘۔
ہندوستان کی تاریخ میں چند صوفیا کو چھوڑ کر دعوت کا پیغمبرانہ کام کسی نے انجام نہیں دیا ،کسی عالم دین نے نہیں،کسی مصلح نے نہیں کسی مجددنے نہیں انجام دیا۔سب نے صرف مسلمانوں کی اصلاح کا کام انجام دیا،سب دائرہ مسلمانوں تک محدود رہا اس میں مشکل سے کوئی استثنا ملتا ہے جیسے سید احمد شہید جن کے ہاتھ پر چالیس ہزار ہندووں نے اسلام قبول کیا تھا ۔مولانا علی میاں کی عظمت اس میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے دوسرے تمام دینی علمی اصلاحی کاموں کے ساتھ،ندوۃ العلماء جیسے ادارہ کی نظامت اور عالم اسلام کے قائدین کے ساتھ قریبی تعلقات اورہندوستانی مسلمانوں کی اصلاح کے کاموں کے ساتھ برادران وطن کے درمیان دعوت اسلام کی راہ ہموارکرنے کی کوشش کی اور راہ کے کانٹوں کو ہٹانے کی کوشش کی، انہوں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا کہ وہ اس مقصد کے لیے پیام انسانیت کی تحریک چلارہے ہیں اور نہ یہ ا ظہار کسی بھی درجہ میں مناسب تھا۔ لیکن افسوس کسی نے بھی پیام انسانیت کی تحریک کو از خود نہیں سمجھا۔اور لوگوں نے کچھ سمجھا تو یہ سمجھا کہ یہ بس میل ملاپ اور’’ سدھ بھاونا ‘‘ کی تحریک ہے۔
***
مولانا کی عربی زبان عام حالات میں گوہر بارہوتی تھی لیکن جہاں دین کو کوئی نقصان پہنچتا ہو چاہے وہ عرب ملک ہی میں یہ فتنہ کیوں نہ پیدا ہوا ہو تو پھر ان کا قلم شرربار اورتیغ جوہر دار بن جاتا تھا ۔ ترکی کے کمال اتاترک کا ذکر آئے یا مصر کے جمال عبدالناصر کاتذکرہ ہو مولانا کے قلم کو آتش بار دیکھا گیا اور ان دونوں نے عالم اسلام کو جو نقصان پہنچایاہے مولانا اس سے شدید نالاں تھے ،مولانا اس وقت اگر بقید حیات ہوتے ان کی غیرت کی زبان اورحمیت کے قلم کی تنقید کے تیروں کا رخ عبد الفتاح السیسی کی طرف ضرور ہوتا جس نے جمال عبد الناصر کے ظلم کی یاد تازہ کردی بلکہ اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا اور مولانا کے غیض وغضب کا نشانہ وہ عقال پوش اور عبا بدوش اور بادہ نوش اور ایمان فروش اور محروم عقل وہوش خاقان بن خاقان محمد بن سلمان جیسے عرب حکمراں بھی ہوتے جو عبدالفتاح السیسی کے خاص مددگار اور اسرائیل کے یار رہے تھے اورابھی ہیںاور جو نتن یاہو سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرتے ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022