کی پیداوارمیں اضافہ کا رجحان(Millets)موٹے اناج

تغذیہ بخش غذا تک عام رسائی ممکن لیکن اناج کی کاروباری اقسام سے غذائیت پر سمجھوتے کا اندیشہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

گزشتہ صدی کے نوبیل انعام یافتہ زرعی سائنس داں نارمن بورلاگ نے جنہیں بابائے سبز انقلاب کہا جاتا ہے، گیہوں کی حیرت انگیز بونی نسل کا بیج تیار کیا اور چاول کی اضافی پیداوار کی قسمیں اور دیگر فصلوں کو بھی پروان چڑھایا۔ آج حال یہ ہے کہ ہم دنیا کی ضرورت سے دوگنا اناج مہیا کر رہے ہیں۔ اب موٹے اناج کی اضافی پیداوار والی فصلوں کو ترقی دینے اور اس کے بایو فورٹیفکیشن کے سلسلے میں جوش دکھایا جارہا ہے ۔ درحقیقت گلوٹین سے آزاد موٹے اناج کی فصل نہ صرف قحط اور سوکھا جھیل سکتی ہے بلکہ یہ ڈائٹری فائبر، پروٹین، مائیکرو نیوٹرینٹس اور اینٹی اکسڈینٹس جیسی خصوصیات سے پُر ہوتی ہے۔ زرعی ٹکنالوجی کے استعمال سے اب خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں موٹے اناج سے مذکورہ اوصاف نا پید نہ ہو جائیں۔ فی الحال روایتی طور پر چلنے والا طریقہ جس پر زراعت کا انحصار ہے، خیرآباد کہہ کر زراعت میں نئی ٹکنالوجی کے استعمال سے پیداوار اتنی نہ بڑھائی جائے کہ موٹا اناج کار آمد ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ہو جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پالیسی ساز سیاست دانوں کے ایما پر پیداوار بڑھانے سے پہلے اس کے سبھی پہلووں پر غور کرلیا جائے۔ اس لیے کہ دنیا بھر کے زرعی سائنس دانوں میں فطری رجحان ہے کہ کم پیداوار والے موٹے اناج کی جگہ زیادہ پیداوار والی فصل کی نسلوں کو پروان چڑھایا جائے۔ ادارے، خواہ انٹرنیشنل کراپ ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار دی سیمی ایریڈ ٹراپکس (ICRISAT) یا انڈین انسٹیٹیوٹ آف میلیٹ ریسرچ ہو، محققین خواہ کسی یونیورسٹی کے یا کسی تحقیقی ادارے کے ہوں، ان کے نزدیک اضافی پیداوار کی قسمیں پروان چڑھانے کا راست تعلق غیر معیاری غذائیت والے موٹے اناج سے رہ جائے گا۔ واضح رہے کہ جس فصل میں جتنا جھاڑ ہوگا اتنی ہی غذائیت ہوگی۔ مگر لوگ پیداوار بڑھانے کی دوڑ میں اس سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ان میں غذائیت کی کمی 20 تا 40 فیصد تک دیکھی گئی ہے اور بعض معاملات میں اس سے بھی زائد جب کہ گیہوں کے کاشت میں کوبالٹ جیسے منرلس (معدنیات) کی کمی کی وجہ سے غذائیت میں 80 فیصد تک کمی درج کی گئی ہے۔ گیہوں میں کوبالٹ جیسے منرلس کی کمی کا تعلق انسانوں میں کولیسٹرول کے اضافے سے ہے جس کی وجہ سے امراض قلب کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکساس یونیورسٹی کے ایک مطالعہ سے واضح ہوا ہے کہ عالمی جنگ دوم کے بعد فصلوں میں چھ اقسام کی غذائیت کی کمی درج کی گئی ہے۔ مثلاً فاسفورس پروٹین، آئرن، کیلشیم، اسکاربک ایسڈ اور رائبو فلیووین کی کمی سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جس طرح کی غذا ہم لے رہے ہیں وہ دیکھنے میں خوراک تو ہے مگر غذائیت سے محروم۔ ایسے حالات میں لوگ شکم سیر ہوکر کھائیں گے ضرور مگر ان کو توانائی نہیں ملے گی اور نہ جسم کی تعمیر میں اس غذا کا کوئی کردار ہوگا۔ ایسی صورت میں موٹے اناج کی نسلوں کو پروان چڑھانے کا کیا فائدہ؟ یاد رہے کہ گیہوں اور چاول کے برعکس موٹے اناج میں غذائیت 30 تا 300 فیصد ہونی چاہیے۔ باجرہ کا معاملہ ہی لیں تو اس کی بایو فورٹیفائیڈ نسلوں میں، پیداوار میں اضافہ کے ساتھ زنک اور آئرن خاصی مقدار میں ہوں گے۔ عموماً باجرے میں آئرن 30 تا 140 ملی گرام فی کلو گرام ہوتا ہے مگر آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کاروباری اقسام میں یہ مقدار بہت کم رہتی ہے۔ ایک کلو گرام باجرے میں آئرن 42 ملی گرام اور زنک 31 ملی گرام تک ہی ہوتا ہے۔ اس کے پروان شدہ موٹے اناج کی نسلوں میں زیادہ پیداوار اور غدائیت کے بارے میں مزید مطالعہ کی ضرورت ہے تاکہ غدائیت کی تصویر لوگوں کے سامنے واضح ہو کر آئے۔ اس طرح کی کوششوں کی آہٹ دی تمل ناڈو ویمن کلکٹیو (ٹی این ڈبلیو سی) کی نمائندہ شیلو فرانسس کے ایک حالیہ انٹرویو میں سنائی دی جس میں انہوں نے کہا کہ فی الواقع تمام زرعی یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیقات کا رخ موٹے اناج کی طرف ہی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے اقسام آنے کے بعد اس کا برا اثر بیجوں پر ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لمبے بالیوں والے یہ روایتی موٹے اناج کے اقسام ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں۔ دکن ڈیولپمنٹ سوسائٹی کی معاونت سے ٹی این ڈبلیو سی ملک بھر میں میلیٹ نیٹ ورک آف انڈیا جیسی تنظیم کے ساتھ مل کر غذائیت کی نگرانی کر رہی ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں قدیم اناج کے بیج کو ازسر نو پروان چڑھانے والی مہم کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ اگر موٹے اناج کی پیداوار بڑھانی ہو تو میلیٹ نٹ ورک آف انڈیا کے ضابطہ کے تحت ہی ہو۔ اس کے حصول کے لیے موٹے اناج کی زراعت والے جو علاقے ہیں انہی میں ان کی کاشت کی جائے۔ ساتھ ہی کسانوں کو پیداوار کی مناسب قیمت بھی ملے جو کہ موٹے اناج سے دستیاب غذائیت کے معاشی تخمینہ کی بنیاد پر منحصر ہوگی۔ یہ بڑی راحت کی بات ہے کہ موٹے اناج کی پیداوار میں توانائی، کیمیکلس، فرٹیلائزر، جراثیم کش مادے، پانی اور بجلی کا خرچ تقریباً صفرہوتا ہے اور یہ صحت کے لیے مفید اور ماحولیات کے لیے بھی بے ضرر ہے۔ اگر مستقبل میں موٹے اناج کو خوراک کے طور پر استعمال میں لانا ہے تو زرعی تحقیق اسی ڈگر پر ہو اور اس کی قدرتی غذائیت میں چھیڑ چھاڑ نہ ہو، ساتھ ہی اس کی ذخیرہ کاری پر نئے زوایہ سے ریسرچ ہو۔ اس لیے ضرورت ہے کہ موٹی خوراک کو موٹے اناج کی خصوصیات کا حامل ہی رہنے دیا جائے۔
موٹے اناج یا میلیٹ کی اہمیت و افادیت اور ان کی ملکی اور عالمی سطح پر مرکز گفتگو بننا یوں ہی نہیں ہے۔ بھارت اور دنیا کے طبی ماہرین ڈاکٹرس، ڈائٹیشن ایسے اناجوں کو سپر فوڈ بھی کہہ رہے ہیں۔ دراصل بھارتی حکومت کے ایما پر اقوام متحدہ کی اسمبلی کے ذریعہ 2023 کو متفقہ طور پر بین الاقوامی موٹے اناج سال کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہمارا ملک موٹے اناجوں کی پیداوار والا اول درجہ کا ملک ہے۔ میلیٹ بلڈ پریشر اور امراض قلب جیسے موذی امراض کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اکثر لوگ موٹے اناجوں کو غریبوں کا اناج کہتے تھے کیونکہ یہ غریب اور آدیواسیوں کی خوراک ہوا کرتی تھی۔ اب تو اس کی طبی افادیت سامنے آنے کے بعد امیر لوگوں کا رجحان بھی اس طرف بڑھ رہا ہے۔ مختلف امراض میں مفید پائے گئے موٹے اناج مثلاً باجرہ میں آئرن بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ آئرن کی کمی کی وجہ سے انیمیا ہوجاتا ہے، اسے کنٹرول کرنے کے لیے باجرہ پر مشتمل خوراک کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ورلڈ اوبیسیٹی فیڈریشن کے مطالعہ کے مطابق موٹاپا، امراض قلب، شوگر، ارتھرایٹس وغیرہ مسائل کو خاص وجہ سے موٹے اناجوں جیسے راگی، باجرہ اور جو (اوٹس) وغیرہ میں فائبر بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اور اس میں چربی کی مقدار صفر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے موٹے اناجوں کے استعمال سے موٹاپے کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح انٹرنیشنل ڈیبٹیز فیڈریشن کے ایک مطالعہ کے مطابق جس خوراک کا گلائسیمک انڈیکس کم ہوتا ہے وہ شوگر کے مریض کے لیے کافی فائدہ مند ہوتا ہے۔ راگی، جو، باجرہ، گلائسیمک انڈیکس کافی کم ہوتا ہے اسی لیے موٹا اناج خون میں شوگر کے بڑھنے کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہیلتھ اکسپرٹس اور ڈائٹیشنس کے مطابق موٹے اناجوں میں بڑی مقدار میں فائبر کے علاوہ اومیگا تھری فیٹی ایسیڈ، پوٹاشیم، میگنشیم پائے جاتے ہیں اور یہ سب عناصر بلڈ پریشر کو قابو میں کرتے ہیں۔
آسان زبان میں گیہوں اور چاول کو چھوڑ کر جیسے جوار، باجرہ، جو، کنگنی، کٹکیا کودو اور مکاو وغیرہ کو موٹے اناج (میلیٹس) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ موٹا اس لیے کہتے ہیں کہ یہ اناج کھردرے اور موٹے ہوتے ہیں۔ ان کی کاشت بھارت میں بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ ادویات کے طور پر بھی موٹا اناج ہڈیوں کے امراض اور کف کو متوازن رکھنے میں مددگار ہیں۔ اس لیے اسے گٹھیا ہڈیوں اور جوڑوں سے متعلق تکالیف اور کف سے متعلق مسائل مثلاً زکام، کھانسی، دمہ وغیرہ میں موٹے اناج کا استعمال کافی فائدہ مند ہے۔ یہ جسم میں قوت مدافعت بڑھانے میں بھی مددگار ہے۔ جیسے باجرہ راگی ہو یا جو تمام موٹے اناجوں میں تغذیہ سے پر عناصر میں کم و بیش توانائی 100 گرام اناج میں 350 کیلو کیلوری 5 تا 10 گرام پروٹین، آئرن وکیلشیم بالترتیب 10 تا 20 ملی گرام اور فائبر 4 تا 10 ملی گرام تک پائے جاتے ہیں۔ اب ضروری ہے کہ ریسرچ کے دوران میلیٹس کی قدرتی غدائیت سے چھیڑ چھاڑ ہرگز نہ ہو۔
***

 

***

 یہ بڑی راحت کی بات ہے کہ موٹے اناج کی پیداوار میں توانائی، کیمیکلس، فرٹیلائزر، جراثیم کش مادے، پانی اور بجلی کا خرچ تقریباً صفر ہوتا ہے اور یہ صحت کے لیے مفید اور ماحولیات کے لیے بھی بے ضرر ہے۔ اگر مستقبل میں موٹے اناج کو خوراک کے طور پر استعمال میں لانا ہے تو زرعی تحقیق اسی ڈگر پر ہو اور اس کی قدرتی غذائیت میں چھیڑ چھاڑ نہ ہو، ساتھ ہی اس کے ذخیرہ اندوزی پر نئے زوایہ سے ریسرچ ہو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023