الہ آباد یونیورسٹی کی وی سی کے ذریعے اذان کی شکایت کرنے کے بعد مسجد کی کمیٹی نے لاؤڈ اسپیکر کی آواز آدھی کی

اترپردیش، مارچ 18: ہندوستان ٹائمز کی اطلاع کے مطابق الہ آباد یونیورسٹی کے قریب واقع ایک مسجد نے اپنے لاؤڈ اسپیکروں کی آواز میں آدھی کمی کردی، جب یونیورسٹی کی وائس چانسلر سنگیتا سریواستو نے پریاگراج ضلع انتظامیہ سے ’’اذان کی بلند آواز‘‘ کے بارے شکایت کی، جس سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔

لال مسجد کے نگراں کلیم الرحمن نے اخبار کو بتایا کہ پولیس کے ذریعے اس شکایت کے بارے میں بتایا جانے کے بعد مسجد کمیٹی نے فوری اقدامات کیے۔ رحمان نے کہا ’’سسٹم کی آواز، جو پہلے ہی الہ آباد ہائی کورٹ کے طے کردہ معیار سے کم تھی، اسے اور کم کرکے آدھا کردیا گیا ہے۔‘‘

نگراں نے مزید کہا کہ ایک لاؤڈ اسپیکر کی سمت بھی تبدیل کردی گئی ہے، تاکہ وہ سریواستو کے گھر کی طرف نہ ہو۔

تاہم رحمان نے کہا کہ اگر سریواستو نے ضلع انتظامیہ تک جانے کے بجائے مسجد کے حکام سے رجوع کیا ہوتا، تو معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوسکتا تھا۔

نگران مسجد نے نیوز 18 کو بتایا کہ مسجد کمیٹی جلد ہی سریواستو سے اس معاملے کے بارے میں بات کرے گی اور انھیں کسی بھی حالت میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

سریواستو نے 3 مارچ کو پریاگراج ضلع مجسٹریٹ کو ایک خط لکھا تھا، جس میں مسجد کے ذریعہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی شکایت کی تھی۔ سریواستو نے لکھا تھا کہ اس سے ’’نیند اتنی خراب ہوجاتی ہے کہ بہت کوشش کرنے کے بعد بھی دوبارہ نہیں آتی۔ اس کے نتیجے میں دن بھر سر درد ہوتا ہے اور کام کے اوقات کا بھی نقصان ہوتا ہے۔‘‘

سریواستو نے دعویٰ کیا کہ وہ کسی مذہب یا ذات کے خلاف نہیں ہیں اور مشورہ دیا کہ بغیر کسی مائک کے نماز کے لیے اذان دی جائے تاکہ دوسرے لوگ پریشان نہ ہوں۔

سریواستو نے 2020 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اذان اسلام کا ایک لازمی حصہ ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اس کے لیے لازمی نہیں۔

وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن خالد رشید فرنگی محلی نے سریواستو کے خط پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں لوگ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔

سماج وادی پارٹی نے بھی اس خط پر تنقید کی۔ پارٹی نے ٹویٹ کیا ’’بی جے پی بے روزگاری، صحت کی ناقص خدمات، تعلیم کے نظام، بے لگام جرائم اور گرے ہوئے کاروبار سے توجہ ہٹانے کے لیے نفرتوں کو ہوا دیتی ہے۔ الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے ذریعے اذان کے خلاف لکھا ہوا خط اسی کا ایک حصہ ہے۔ سراسر قابل مذمت!‘‘