افروز عالم ساحل
سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کی زد میں آنے والی تاریخی مساجد کے بارے میں طویل خاموشی کے بعد اب حکومت ہند نے عدالت میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اس پروجیکٹ کے تحت آنے والے مذہبی مقامات کو اب تک کسی طرح کا نقصان پہنچنے نہیں دیا گیا ہے۔ وہیں ہفت روزہ دعوت کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کی زد میں آنے والی پانچ تاریخی مساجد میں سے ایک مسجد کو پہلے ہی کافی حد تک نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔ لوگوں میں یہ بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ یہ مسجد اب اپنے مقام پر موجود نہیں ہے۔ حالانکہ ابھی اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے میں حکومت نے اب تک پوری طرح خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ یہ خاموشی اس قدر گہری تھی کہ حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت بھی اس کے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہی تھیں۔ اب جبکہ اس معاملے پر دہلی وقف بورڈ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے تو حکومت ہند کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دہلی ہائی کورٹ کو یقین دلایا ہے کہ جاری ’سنٹرل وسٹا ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ‘ کے آس پاس دہلی وقف بورڈ کی جائیدادوں کے ساتھ کچھ نہیں ہو رہا ہے۔‘ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’طویل منصوبہ‘‘ ہونے کی وجہ سے ری ڈیولپمنٹ پروجکٹ ابھی ان جائیدادوں تک نہیں پہنچا ہے۔‘
آر ٹی آئی کا جواب دینے سے بچ رہی ہے حکومت
گزشتہ چار جون کو ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے آر ٹی آئی کے تحت وائس پریسیڈنٹ سکریٹریٹ سے یہ جاننا چاہا کہ ’کیا یہ صحیح ہے کہ نائب صدر کی رہائش گاہ کو سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے تحت منہدم کیا جا رہا ہے اور کیا یہ بھی صحیح ہے کہ نائب صدر کی رہائش گاہ کے اندر مذہبی تعمیرات موجود ہیں اور اگر ہیں تو ان کی موجودہ حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ مذہبی عمارتیں بھی سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے تحت گرائی جانے والی ہیں یا گرائی جا چکی ہیں؟ لیکن وائس پریسیڈنٹ سکریٹریٹ نے آرٹی آئی کے ان سوالوں کا جواب دینے کے بجائے راقم الحروف کے اس آرٹی آئی کو منسٹری آف ہاؤسنگ اینڈ اربن افیئرس کو بھیج دیا، لیکن اس وزارت نے بھی اس معاملے میں کوئی معلومات دینا مناسب نہیں سمجھا۔ راقم الحروف نے دوبارہ 27 ستمبر 2021 کو منسٹری آف ہاؤسنگ اینڈ اربن افیئرس سے آر ٹی آئی سے ان سوالوں پر معلومات طلب کیں لیکن اس مرتبہ بھی وزارت نے خاموشی اختیار کر لی۔
ہفت روزہ دعوت نے اس سے قبل دو جون 2021 کو حکومت ہند کے سنٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے وسٹا پروجیکٹ ڈویژن سے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ ’سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے تحت کتنی مذہبی عمارتیں آ رہی ہیں جنہیں منہدم کیا جانا ہے‘ ساتھ ہی نمائندے نے آر ٹی آئی کے تحت ان عمارتوں کی فہرست اور اس سے متعلق پالیسی کے اظہار کا بھی مطالبہ کیا تھا جو سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے تحت گرائی جائیں گی، اور یہ بھی پوچھا تھا کہ ’کیا حکومت کے پاس مذہبی عمارتوں کو تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ ہے اور کیا نیشنل آرکائیوز کی عمارت کو بھی گرا دیا جائے گا؟‘ اس سے متعلق تمام دستاویز کی کاپیاں فراہم کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں سات جولائی کو سنٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے وسٹا پروجیکٹ ڈویژن نے بتایا کہ ’اس دفتر کے دائرہ اختیار میں تین مشترکہ مرکزی سکریٹریٹ کی عمارتوں کی تعمیر کے لیے پلاٹ نمبر 137 پر موجود IGNCA کی عمارت کو منہدم کرنے کی تجویز ہے۔ دیگر عمارتوں کو گرانے کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔‘ باقی سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اس کی جانکاری ہمارے دفتر میں موجود نہیں ہے‘ سات جون کے ایک دیگر آر ٹی آئی کے جواب میں بھی ان کا یہی کہنا تھا کہ ’اس کی جانکاری ہمارے دفتر میں موجود نہیں ہے۔‘
اس کے بعد ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے 27 ستمبر 2021 کو دوبارہ منسٹری آف ہاؤسنگ اینڈ اربن افیئرس اور سنٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے وسٹا پروجیکٹ ڈویژن سے آر ٹی آئی کے تحت ان سوالوں کے بارے میں معلومات طلب کی تھیں لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی بات معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ اس خاموشی کے درمیان ہفت روزہ دعوت کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ نائب صدر ہاؤس میں واقع مسجد کو پہلے ہی نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔
غور طلب بات ہے کہ اس وسٹا پروجیکٹ میں نائب صدر جمہوریہ ہاؤس کو بھی توڑا جانا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت نائب صدر کی رہائشی اور دیگر عمارتوں کی مجوزہ تعمیر کے لیے زمین کے استعمال کے لیے ضروری قانونی تبدیلیوں کو چیلنج کرتے ہوئے راجیو سوری نامی شخص کے ذریعے ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی۔ جسے 23 نومبر 2021 کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔
آپ کو بتا دیں کہ جسٹس ایم کھانولکر، جسٹس دنیش مہیشوری اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی ڈویژن بنچ نے مرکزی حکومت کی اس دلیل سے اتفاق کیا کہ پروجیکٹ کے تحت زمین کے اس حصے کو نائب صدر کے رہائشی علاقے کے طور پر بنانے کی تجویز حکومت کا پالیسی فیصلہ ہے۔ عدالت نے درخواست گزار سے ہی پوچھا، "وہاں کوئی نجی جائیداد نہیں بنائی جا رہی ہے۔ یہ نائب صدر کے بنگلے کی تعمیر کے لیے ہے… نائب صدر کی رہائش گاہ کہاں ہونی چاہیے کیا اس پر عوام کی رائے لی جائے گی؟ “ بتادیں کہ مولانا آزاد روڈ پر موجودہ نائب صدر کی رہائش گاہ کو مسمار کیا جانا ہے تاکہ نئے کامن سیکرٹریٹ کی عمارتوں کے لیے راستہ بنایا جا سکے۔
دہلی کی وراثت ہیں یہ مساجد، تحفظ کی ذمہ داری حکومت کی
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سینئر جرنلسٹ ضیاءالسلام اس پورے معاملے پر کہتے ہیں کہ ’یہ مساجد دلی کی وراثت کا حصہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مساجد تو نئی دلی بننے کے پہلے سے بھی موجود تھیں۔ اس لیے ’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کے مطابق آزادی سے پہلے کی یہ عبادت گاہیں جس حالت میں تھیں پندرہ اگست 1947ء کے بعد بھی انہیں اسی حالت میں رکھا جانا ہے۔ یہ تمام مساجد آزادی کے قبل کی ہیں اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے۔‘
آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ ان مساجد کے تحفظ کو لے کر ضیاءالسلام بھی حکومت ہند کے وزیر برائے رہائش و شہری ترقیاتی امور، ہردیب سنگھ پوری کو خط لکھ چکے ہیں جس کا انہیں اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔ وہیں ان کے بعد جون کے مہینے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے بھی ان مساجد پر اپنی فکر مندی کا اظہار کیا تھا اور اس سلسلے میں وزیر ہردیب سنگھ پوری کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ان مساجد کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا منفی رویہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی متبادل کی گنجائش ہے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کی زد میں آنے والی عمارتوں کی ایک فہرست جب میڈیا میں آئی تو راقم الحروف نے تین تاریخی مساجد کا ذکر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا، جس میں تصویر کے ساتھ لکھا کہ ’کریشی بھون کمپاؤنڈ کے اندر موجود اس مسجد کو مرکزی حکومت کے ‘گرانڈ وسٹا’ پروجیکٹ کے تحت جلد ہی گرا دیا جائے گا۔ ساتھ ہی مان سنگھ روڈ پر واقع مسجد ضابطہ گنج پر بھی خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔‘
راقم الحروف نے دوبارہ دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان کو ٹویٹر پر ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بھائی! کریشی بھون میں سو سال سے زیادہ پرانی مسجد منہدم ہونے جا رہی ہے۔ مان سنگھ روڈ پر واقع ضابطہ گنج مسجد بھی خطرے میں ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دہلی وقف بورڈ اس بارے میں کیا کر رہا ہے؟ بتا دوں کہ ضابطہ گنج مسجد سن 1740ء کی بنی ہوئی ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کو جب انگریزوں نے حاصل کر کے لوگوں کو اتر پردیش کے بجنور کے گاوں میں بسایا تب بھی انہوں نے اس مسجد کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔‘
ساتھ ہی راقم الحروف نے نائب صدر کی رہائش گاہ میں واقع مسجد کی ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مرکزی حکومت کے’مہان‘ وسٹا پروجیکٹ میں مولانا آزاد روڈ پر واقع نائب صدر کی رہائش گاہ بھی اب ٹوٹنے والی ہے۔ اسی کمپاؤنڈ میں ایک مسجد بھی ہے وہ اس پروجیکٹ کا شکار بنے گی۔ یہ بھی ایک پرانی اور تاریخی مسجد ہے۔ سابق نائب صدر حامد انصاری کے پوتے عبدالرحمن انصاری کے مطابق 2007ء سے پہلے یہ مسجد خستہ حالت میں تھی۔ 2007ء میں جب حامد انصاری نائب صدر کے طور پر اس رہائش گاہ میں منتقل ہوئے تو ان کی اہلیہ سلمیٰ انصاری نے اس کی تزئین و آرائش کروائی اور ایک امام بھی مقرر کروایا۔ ساتھ ہی ایک مندر بھی بنوایا، جہاں اسٹاف پوجا پاٹ کرتا تھا۔ 2010ء اور 2017ء میں عبدالرحمن انصاری صاحب نے خود نماز پڑھی ہے۔ یہ تصویر اسی وقت کی ہے۔
راقم الحروف کے یہ تمام ٹویٹ کافی وائرل ہوئے اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے اس پورے معاملے کو لے کر ایک خط وزیراعظم نریندر مودی اور ایک خط وزیر شہری ترقیات ہردیپ سنگھ پوری کو لکھا جن میں ان مساجد کے متعلق سوالات کیے گئے تھے اور حکومت کو اپنا موقف واضح کرنے کی گزارش کی گئی تھی لیکن حکومت نے جب ان خطوط کا کوئی جواب نہیں دیا تو دہلی وقف بورڈ نے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
یکم دسمبر 2021 کو سنوائی کے درمیان حکومت ہند کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دہلی ہائی کورٹ کو یقین دلاتے ہوئے کہا ’یہ ایک طویل منصوبہ ہے اور جاری پروجیکٹ میں دہلی وقف بورڈ کی جائیدادوں کے ساتھ ’کچھ نہیں ہو رہا ہے۔‘ ہم دہلی وقف بورڈ کی جائیدادوں کے قریب نہیں پہنچے ہیں۔‘ تاہم، وقف بورڈ کے وکیل کی یہ درخواست کہ سالیسٹر جنرل کی اس بات کو ریکارڈ پر لیا جا سکتا ہے؟ عدالت نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اسے سالیسٹر جنرل پر ’’مکمل اعتماد‘‘ ہے۔ عدالت میں اب اس معاملے کی سماعت 20 جنوری 2022 کو ہو گی۔
واضح ہو کہ دہلی وقف بورڈ نے اپنی پیٹیشن میں عدالت کو بتایا ہے کہ حکومت ہند کے اس ’ڈریم پروجیکٹ‘ میں چھ مذہبی مقامات آرہے ہیں جو دہلی وقف بورڈ کے تحت ہیں۔ یہ مذہبی مقامات سو سال سے زیادہ قدیم اور انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جن میں انڈیا گیٹ کے نزدیک واقع مسجد ضابطہ گنج، کریشی بھون کمپاؤنڈ میں موجود مسجد، ادیوگ بھون کے قریب سنہری باغ روڈ کے چوراہے پر واقع سنہری مسجد، ریڈ کراس روڈ پر واقع جامع مسجد و مزار اور نائب صدر جمہوریہ کی رہائش گاہ کی مسجد شامل ہیں، جن کے تعلق سے عوام میں خاص کر مسلمانوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے ابھی تک اس تعلق سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔ دہلی وقف بورڈ نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا ہے کہ یہ عبادت گاہیں لوگوں کے مذہبی جذبات سے متعلق ہیں اس لیے ضروری ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔
اس سے قبل اس معاملے کی سماعت 26 اکتوبر 2021 کو ہونی تھی جو یکم دسمبر سے بدل دی گئی۔ آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ 12 اکتوبر کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اس کی سماعت میں حکومت نے وقت مانگا تھا، تب عدالت نے 26 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔
21 ستمبر 2021 کی سماعت میں جسٹس سنجیو سچدیو نے کہا کہ سنٹرل وسٹا پروجیکٹ پر روک لگانا ممکن نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اس کو روکنے سے انکار کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’اس پروجیکٹ کا وقت مقرر ہے، تعمیراتی پروجیکٹ اپنی جگہ پر ہے، یہ پرانی تعمیرات ہیں جسے سب جانتے ہیں، یقیناً اس کے لیے کوئی نہ کوئی انتظام ضرور ہو گا۔‘ تب دہلی وقف بورڈ کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ سنجے گھوش نے کہا تھا کہ وہ اس پروجیکٹ کو روکنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ اس سے قبل دہلی وقف بورڈ نے ایک درخواست جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ مذہبی اور تاریخی اہمیت کی عمارتوں کا خیال رکھا جائے، ان کی حفاظت کی جائے۔ وقف بورڈ کو عدالت میں اس لیے آنا پڑا کیونکہ کئی بار نمائندگی کے باوجود اسے کوئی یقین دہانی نہیں ملی۔
اس اہم معاملے کی سماعت کے دوران عدالت نے اپنے مشاہدہ میں پایا کہ سنٹرل وسٹا پروجیکٹ میں آنے والی یہ تمام عبادت گاہیں کافی قدیم ہیں اور حکومت کو ان عبادت گاہوں کے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے۔ اس تعلق سے مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے ایک ہفتہ کا وقت مانگا، جس کے لیے اگلی تاریخ 29 ستمبر مقرر کردی گئی۔ لیکن 29 ستمبر کی سماعت میں حکومت ہند کے سالیسٹر جنرل نے عدالت سے مزید وقت کا مطالبہ کیا جس کے بعد 12 اکتوبر کا دن سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔
کیا ہے ان مساجد کی تاریخ؟
مسجد ضابطہ گنج : انڈیا گیٹ کے نزدیک مان سنگھ روڈ پر واقع مسجد ضابطہ گنج کو 1740ء میں نجیب الدولہ کے بیٹے روہیلہ سردار ضابطہ خان نے بنوایا تھا اس وقت یہ پورا علاقہ ’ضابطہ گنج‘ سے نام مشہور تھا اور یہاں پورے طور پر مسلم آباد تھے۔ لیکن انگریزوں نے راشٹرپتی بھون اور دوسری سرکاری عمارتوں، خاص طور پر انڈیا گیٹ کے خوبصورت وحسین میدان کو سنوارنے اور سجانے کے نام پر اس پوری مسلم آبادی کو اجاڑ کر یہاں کے لوگوں کو اتر پردیش کے بجنور کے گاؤں میں بسایا لیکن پھر بھی انہوں نے اس مسجد کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ یہ مسجد پوری شان سے کھڑی رہی اور اب تک کھڑی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد یہ مسجد ویران ہوگئی تھی۔ 1960 تک یہ مسجد کافی خستہ حال ہوچکی تھی، لیکن جب ڈاکٹر ذاکر حسین صدر جمہوریہ بنے تو انہوں نے اس مسجد کی صفائی اور مرمت کروائی نتیجہ میں یہ مسجد دوبارہ آباد ہوئی۔ یہ مسجد دلی وقف بورڈ کی زیر نگرانی ہے۔ بورڈ کی جانب سے امام بھی مقرر ہے۔ اس کے باوجود مسجد کی حالت بہتر نہیں کہی جا سکتی۔ غور طلب ہے کہ یہ مسجد دلی کی ان 42 مساجد اور قبرستانوں کی فہرست میں شامل ہے جنہیں مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ معاہدے 1942ء اور 1945ء کے درمیان کیے گئے تھے۔ ان معاہدوں پر سنی مجلس اوقاف کے اس وقت کے صدر لیاقت علی خاں اور گورنر جنرل کے نمائندہ کی حیثیت سے چیف کمشنر اے وی اسکویتھ کے دستخط ہیں۔ واضح رہے کہ لیاقت علی خاں بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔
جامع مسجد : ریڈ کراس روڈ پر واقع جامع مسجد آزادی کے بعد پارلیمنٹ مسجد کے نام سے مشہور ہوئی اور اب بھی اسی نام سے جانی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اسی مسجد میں باقاعدگی سے نماز ادا کرتے تھے۔ وہیں سابق صدر ذاکر حسین، فخر الدین علی احمد اور نائب صدر حامد انصاری بھی اسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ ساتھ ہی یہ مسجد دنیا بھر کی اسلامی ریاستوں کے ساتھ ملک کے سفارتی تعلقات کا مرکز رہی ہے۔ جب بھی کسی اسلامی ملک کا سربراہ ہندوستان آتا ہے تو عام طور پر اس مسجد میں ہی نماز ادا کرتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسجد تین سو سال پرانی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اس مسجد کی تاریخ معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ رپورٹ لکھے جانے تک یہ جانکاری نہیں مل سکی۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسجد کی تزئین وآرائش پہلی بار کلکتہ کے بھارت کیمیکل ورکس نے 1946 میں کی تھی۔
مسجد سنہری باغ : ادیوگ بھون کے قریب سنہری باغ روڈ کے چوراہے پر واقع یہ سنہری باغ مسجد بھی ایک تاریخی مسجد ہے۔ تاریخ کے واقف کار بتاتے ہیں کہ یہ مسجد فیروز شاہ تغلق کے دور کی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اس مسجد کی تاریخ معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ رپورٹ لکھے جانے تک بھی یہ جانکاری نہیں مل سکی۔ خیال رہے کہ یہ مسجد بھی دلی وقف بورڈ کے زیر انتظام ہے، اس کے باوجود اس کی حالت کافی خستہ ہے۔ مسجد کے زیادہ تر حصوں پر قبضے ہو چکے ہیں۔ اس مسجد کے ساتھ لگا ہوا جو پارک ہے، وہ بھی اس مسجد کی زمین پر ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ مسجد بھی دہلی کی ان 42 مساجد اور قبرستانوں کی فہرست میں شامل ہے جنہیں مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔
کریشی بھون مسجد : کریشی بھون کمپاؤنڈ میں واقع یہ مسجد بھی کافی تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ دہلی دقف بورڈ کے دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد 150 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ یاد رہے کہ یہ مسجد دہلی وقف بورڈ کی نگرانی میں ہے اور گزشتہ کچھ سالوں سے فرقہ پرست اس مسجد کو ’قبضہ‘ بتاتے ہوئے اس کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
مسجد وائس پریسیڈنٹ ہاؤس : مولانا آزاد روڈ پر واقع نائب صدر کی رہائش گاہ کی مسجد بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ نائب صدر کی یہ رہائش گاہ آزادی کے پہلے رفیع احمد قدوائی صاحب کا گھر ہوا کرتا تھا تب یہ مسجد قدوائی صاحب کے بنگلے کا حصہ نہیں تھی بلکہ اس سے ملحق تھی اور وہ نماز پڑھنے کے لیے اس میں باقاعدگی سے آتے تھے۔ بعد میں اس گھر کو نائب صدر کی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا اور یہ مسجد نائب صدر کی رہائش گاہ کے احاطے کے اندر آگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ان کے اہل خانہ باقاعدگی سے اسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ سال 1979ء میں جب محمد ہدایت اللہ نے نائب صدر کا عہدہ سنبھالا تو اس دور میں بھی اس مسجد میں نماز ادا ہوتی تھی۔ جب حامد انصاری نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سال 2007ء میں اس رہائش گاہ میں منتقل ہوئے تو یہ مسجد خستہ حالت میں تھی۔ ان کی اہلیہ سلمیٰ انصاری نے اس مسجد کی تزئین وآرائش کروائی اور ایک مستقل امام بھی مقرر کروایا۔ اس مسجد کا ذکر حامد انصاری صاحب نے گزشتہ سال شائع ہوئی اپنی سوانح حیات By Many a Happy Accident: Recollections of a Life میں بھی کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں سینئر جرنلسٹ ضیاءالسلام نے کہا کہ یہ مسجد ملک کی آزادی کے پہلے بھی موجود تھی۔ 1947ء میں جو لوگ ہماچل پردیش سے اپنی جان بچا کر بھاگے تھے وہ اسی مسجد میں آکر رکے تھے۔ یعنی یہ مسجد 1947ء میں پناہ گزینوں کے لیے پناہ گاہ بنی تھی۔
اس بات کی تصدیق سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری صاحب بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ’’محمد علی جناح نے ذاتی حیثیت میں میرے والد کو پاکستان ہجرت کرنے کے بارے میں کہا تھا لیکن والد نے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جانے سے انکار کر دیا۔۔۔ ہم نے فسادات کے زمانے میں شملہ سے ہجرت کرکے نئی دہلی میں ابو الکلام آزاد روڈ پر واقع رفیع احمد قدوائی صاحب کے وسیع سرکاری گھر میں بطورِ مہاجر پناہ لی تھی۔ اُن کے گھر کے اندر ہی ہم نمازِ تراویح پڑھا کرتے تھے اور یہ عجب اتفاق ہے کہ کئی برس گزرنے کے بعد جب میں بھارت کا نائب صدر بنا تو اِنہی قدوائی صاحب کے سرکاری گھر کو میری رہائش گاہ بنایا گیا۔ اس فیصلے نے بچپن کی یادوں کو پھر سے تازہ کر دیا۔‘‘ لیکن افسوس! حامد انصاری کے بچپن کی اس یاد کو موجودہ حکومت نے دفن کردیا ہے۔
مساجد کے ساتھ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی عمارت کو بھی ہے خطرہ
سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کی زد میں نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی انیکسی بلڈنگ بھی ہے۔ اس بلڈنگ کو بھی اس ’مہان پروجیکٹ‘ کی زد میں لایا جائے گا، کیونکہ سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے لیے تیار کیے گئے نقشے میں آرکائیوز کا یہ حصہ بھی متاثر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اسے بچانے کےلیے گزشتہ سال دنیا بھر کے سو سے زیادہ مورخین نے نیشنل آرکائیوز کے سربراہ کو خط لکھا جس میں اس بات کی وضاحت طلب کی گئی ہے کہ کس طرح محکمے کے ملحقہ حصے میں رکھے ہوئے دستاویزات کو محفوظ رکھا جائے گا۔ خط لکھنے والوں میں امریکی اور ہندوستانی یونیورسٹیوں کے کئی پروفیسرز شامل ہیں۔ لیکن اس خط کے جواب میں صرف اتنا کہا گیا کہ ’ نیشنل آرکائیوز کی مرکزی عمارت کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔‘ لیکن اس کے انیکسی بلڈنگ کی کوئی بات کسی نے نہیں کی۔ جبکہ اس کے ٹوٹنے کی خبر واضح طور پر میڈیا میں آچکی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تاریخی تحقیق سے متعلق سب سے اہم دستاویزات اسی بلڈنگ میں موجود ہیں۔ یہ بلڈنگ پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ سمیٹی ہوئی ہے۔ خلجی، تغلق، پٹھان، مغل اور برطانوی دور حکومت کے تمام تر دستاویزات اور فرامین یہاں محفوظ ہیں۔ اس انیکسی بلڈنگ میں موجود ان دستاویزات کا نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہاں موجود دستاویزات کو ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے مورخین آکر دیکھتے ہیں اور ان کو اپنی تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مورخین نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ کیا نیشنل آرکائیوز نے اس بلڈنگ میں موجود ریکارڈس کو بچانے کے لیے آرکائیوسٹ یا دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کیا؟ انہوں نے نیشنل آرکائیوز انیکسی کی از سر نو تعمیر کی تکمیل اور وہاں پر محفوظ ریکارڈ تک رسائی کے لیے ٹائم لائن پر بھی وضاحت طلب کی تھی، تاکہ اسکالرز اس کے مطابق اپنے تحقیقی کاموں کی منصوبہ بندی کر سکیں لیکن حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی جانکاری فراہم نہیں کی گئی۔
نام نہ شائع کرنے کی شرط پر نیشنل آرکائیوز سے وابستہ ایک عہدیدار نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نیشنل آرکائیوز کی یہ انیکسی بلڈنگ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ سارے پرانے ریکارڈس اور دستاویز اسی بلڈنگ میں رکھے ہوئے ہیں۔ اسی بلڈنگ میں سارے اورئینٹل ریکارڈس ہیں۔ عربی وفارسی زبان میں زیادہ تر دستاویز اسی بلڈنگ میں ہیں۔ گاندھی جی سے متعلق اہم دستاویزی ذخیرہ جسے تقریباً چھ کروڑ میں خریدا گیا تھا، وہ بھی اسی بلڈنگ میں رکھا ہوا ہے۔ بھگت سنگھ سے متعلق سارے دستاویز اسی بلڈنگ میں ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اہم شخصیتوں کے پرائیویٹ پیپرس بھی اسی بلڈنگ میں ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر دستاویزوں کا ڈیجیٹائزیشن بھی نہیں ہوا ہے، اگر منتقلی کے دوران یہ دستاویز خراب یا غائب ہو گئے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ان اہم دستاویز کو منتقل کرنے کی کیا پالیسی ہے، اسے کہاں منتقل کیا جائے گا اور کس طرح منتقل کیا جائے گا اس پر حکومت کا موقف واضح نہیں ہے۔ اس کام میں کہیں بھی شفافیت نظر نہیں آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کلکتہ سے نیشنل آرکائیوز کو دہلی منتقل کیا گیا تھا تب پورے دس سال لگے تھے اس کے باوجود بہت سارے اہم دستاویز برباد ہو گئے جبکہ اس وقت دستاویزات بہتر حالت میں تھے۔ آج دستاویزوں کی بوسیدگی کا عالم یہ ہے کہ محض چھونے سے ختم ہو جائیں گے۔
راقم الحروف بھی نیشنل آرکائیوز کا ممبر رہا ہے اور قوم کے کئی رہنماؤں اور تنظیموں کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس میں موجود مسلمانوں کی تاریخ اور خاص طور پر یہاں رکھے ہوئے عربی و فارسی کے دستاویزوں کو بچانے کی کوشش ہم سب کو مل کر کرنی چاہیے لیکن افسوس کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یاد رہے کہ کوئی بھی قوم یا معاشرہ جو اپنے دستاویزات، تاریخی چیزوں، ثقافت اور فنون کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، اس کی خودمختاری، آزادی یا وقار کی کوئی قدر باقی نہیں رہ جاتی۔ کسی بھی قوم کے لیے آرکائیوز کا وجود اس کی تاریخی اور تحقیقی بنیاد کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی معاشرے کی ذہانت کا اندازہ محققین کی سرگرمی اور تحقیق کے معیار سے لگایا جاتا ہے۔ محققین کو اصل ریکارڈ فراہم کرنے کی ذمہ داری ضلعی سطح سے ملکی سطح تک آرکائیوز پر عائد ہوتی ہے اس لیے ان تمام آرکائیوز کو بچانے کی سخت ضرورت ہے۔
اس معاملے میں ہم آسٹریلیا سے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہاں سے جون 2021 میں یہ خبر آئی کہ آسٹریلیا کے نیشنل آرکائیوز کا ایک اہم حصہ جو لفظی طور پر ناقابل تلافی تاریخی ریکارڈوں کا ذخیرہ ہے، برباد ہو رہا ہے۔ یہ خبر آنی تھی کہ یہاں کے 150 سے زیادہ مصنفین، ماہرین تعلیم اور ممتاز آسٹریلوی شہریوں نے وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط لکھا اور قومی سطح پر ایک مہم بھی شروع کی جس میں آرکائیوز میں موجود دستاویز کو نظر انداز کرنے کے خلاف احتجاج کیا گیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ محکمہ کے سابق سکریٹری کی طرف سے تجویز کردہ معمولی فنڈنگ میں اضافے پرعمل درآمد کرے۔ اس مہم میں آسٹریلیا کے دو نوبل انعام یافتہ اور تین آسٹریلین آف دی ایئر افراد شامل ہیں۔ جبکہ کہا جاتا کہ آسٹریلیا کے اس آرکائیوز کے تمام دستاویز ڈیجیٹائز ہیں۔
خیال رہے کہ کلکتہ میں امپیریل ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ کے طور پر قائم کیا گیا یہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا نایاب ریکارڈوں کا نگہبان ہے، جو جنوب مشرقی ایشیاء کا سب سے بڑا آرکائیوز ہے۔ سرکاری دستاویزات، مشرقی ریکارڈ، نقشے اور معززین کے ذاتی ریکارڈ بھی یہاں محفوظ ہیں۔ یہ آرکائیو محققین، منتظمین اور دیگر صارفین کو انمول معلومات فراہم کرتا ہے۔ نیشنل آرکائیوز اس وقت حکومت ہند کے وزارت ثقافت کے ماتحت ہے۔ مارچ 2021ء میں اس نیشنل آرکائیوز کا 125 واں یوم تاسیس منایا گیا ہے۔
***
’یہ مساجد دلی کی وراثت کا حصہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مساجد تو نئی دلی بننے کے پہلے سے بھی موجود تھیں۔ اس لیے ’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کے مطابق آزادی سے پہلے کی یہ عبادت گاہیں جس حالت میں تھیں پندرہ اگست 1947ء کے بعد بھی انہیں اسی حالت میں رکھا جانا ہے۔ یہ تمام مساجد آزادی کے قبل کی ہیں اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے۔‘
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2022