دور جدید میں شادی کے متبادلات
اس ضمن میں رائج ٹرینڈس کے سماجی، معاشرتی اور ثقافتی اثرات و نقصانات کا جائزہ
ایس امین الحسن
َشادی اور خاندان مختلف شعبہ ہائے علوم کے لیے دلچسپی کا موضوع ہے۔ علم بشریات کی دلچسپی اس بات سے رہی ہے کہ روز اول سے انسان جس زمانے میں غاروں میں رہتا تھا ، شکار کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا کیا اس زمانے میں بھی شادی اور خاندان کا کوئی تصور موجود تھا تھا ؟ علم سماجیات کی دلچسپی اس بات سے ہے کہ سماج کی بنیادی یونٹ کیا ہے ؟ وہ کب وجود میں آتی ہے ؟ اور سماج اس یونٹ کے بنانے میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔ علم نفسیات میں شادی اور خاندان کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے کہ انسان کے بہت سے محرکات ہیں ان میں سے بقاءنوع کا محرک اسے صنف مخالف میں کشش پیدا کرتا ہے ، دونوں میں پیار اور انسیت پیدا ہوتی ہے اور شادی کے ذریعہ سے دونوں اصناف ایک دوسرے کے لئے لیے کمنٹمنٹ دیتے ہیں اور خاندان کے ادارے کو مضبوط اور مستحکم کرتے ہیں۔ علم سماجی نفسیات کی بھی دلچسپی اس موضوع سے متعلق ہے جس میں محبت دو صنفوں کے درمیان، جاذبیت، دوستی، شادی کا موضوع زیر مطالعہ آتا ہے ۔ علم معاشیات میں خاندان بنیادی طور پر ایک معاشی انسٹیٹیوشن ہے جہاں سے مارکیٹ کو درکار مزدور کی قوت دستیاب ہوتی ہے ،مارکیٹ میں آئے ہوئے مال کی کھپت اور خریداری میں خاندانوں کا بڑا اہم رول ہوتا ہے اور خاندان اگر معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں تو اس کا راست اثر ملک کی معیشت پر بھی پڑتا ہے۔ اس بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے ہے کہ سماج میں خاندان کے انسٹی ٹیوشن کو جو عظمت، مرکزیت اور مقام حاصل ہے شاید ہی کسی اور ادارے کو یہ رتبہ حاصل ہو۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ روئے زمین پر پیدا ہونے والے انسانوں کے درمیان روز اول سے شادی اور خاندان کا تصور پایا جاتا تھا۔ شادی اس لیے کہ ایک لڑکی کسی ایک مرد کے لئے مختص ہوگی اور سماج بھی جان جائے کہ کون لڑکی کس مرد کے ساتھ زوجیت کے رشتے میں بندھی ہے۔ اسی مسئلے پر تو دنیا کی پہلی لڑائی ہوئی تھی اور روئے زمین پر پہلا قتل اور پہلی موت واقع ہوئی تھی۔ ایک مرد اپنی پسند کی لڑکی کو اپنی زوجیت میں لینے کے لئے کبھی کسی بھی انتہا پر جا سکتا ہے اور کوئی غلط اقدام بھی اٹھا سکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی فطرت اور مزاج میں میں شادی کی کتنی اہمیت ہے اور خاندان بسانے کا جذبہ کتنا شدید ہے۔ خاندان بسانے کا یہ تصور انسانوں میں اس وقت سے موجود ہے جب کہ انہیں تہذیب نام کی چیز کی ہوا تک نہ لگی تھی۔ آج بھی انڈومان نکوبار جزیروں میں مقیم قبائل بالخصوص جھاروا قبیلہ، جن تک آج بھی تہذیب نہیں پہنچی ہے، نہ وہ کپڑے پہنتے ہیں، نہ ان کے پاس برتن موجودہیں ، نہ پکوان، نہ مارکیٹ نہ پیسے۔ ان کا تفصیلی مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا اور لڑکی اپنے جنسی جذبہ کی تسکین کے لیے ایک دوسرے سے قریب آنے اور لطف اندوز ہونے کا واحد ذریعہ شادی ہے۔ فریقین ان کے رشتے کی بات چیت ویسے ہی کرتے ہیں جیسے مہذب سماج میں ہوتا ہے اور شادی جشن کے ساتھ منائی جاتی ہے جیسا کہ ہمارے سماج میں ہے، حالانکہ انہیں مہذب سماج سے کبھی کوئی واسطہ نہیں پڑا، دس ہزار سال سے وہ انڈمان نکوبار کے جنگلوں ہی میں مقیم ہیں۔
انسان اس دنیا میں اکیلا نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ وہ سماجی تعلقات کے بندھن میں بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اور ہر تعلق باہمی انحصار پر ہوتا ہے۔ خواہ وہ ماں باپ اور بچوں کا رشتہ ہو یا میاں اور بیوی کا رشتہ۔ فکر و خیال اور جذبہ و احساس کے ساتھ مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ کارگاہ حیات میں مشترک مشغلوں میں منہمک ہونا پڑتا ہے۔اس لیے ہر رشتے میں ایک کمنٹمنٹ کا عنصر ہوتا ہے۔ خوشگوار اور کارآمد زندگی کیلئے رشتوں کے بندھن میں بندھ جانا آفاقی طور پر تسلیم شدہ ایک حقیقت ہے۔اس میں نفسیاتی، معاشی اور حیاتیاتی زاویے شامل ہیں۔
شادی ایک نفسیاتی ضرورت
گوناگوں مصلحتوں اور ہمہ جہت ضرورتوں کے تحت ایک دوسرے کی طلب انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ Abraham Maslow ابرہم ماسلو ایک ماہر نفسیات گزرا ہے اس نے بتایا ہے کہ انسان کی بہت سی ضرورتیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک ضرورت ایک دوسرے سے وابستگی ہے، جسے need fulfillment کہا جاتا ہے۔ رشتے شادیاں ، بچے ، سماجی تعلقات سب انسان کی وابستگی کی ضروریات کے تقاضے کے تحت سرانجام پاتے ہیں۔
شادی ایک سماجی اور معاشی ضرورت
اسی طرح Jordan Peterson جارڈن پیٹرسن کینیڈا کا ایک مشہور ماہر نفسیات ہے۔ اس نے انسانوں کی psychopathological study نفسیاتی بیماریوں کے مطالعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ مرد کے جسم کی ساخت بتاتی ہے کہ وہ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ جبکہ عورت motherhood امومت یعنی ماں بننے اور حمل کا بوجھ اٹھانے کے لیے اس کے جسم کی ساخت بنائی گئی ہے۔ شادی کی بنیادی مقاصد میں سے اہم ترین مقصد جنسی تسکین اور تولید و تناسل ہے، اس لیے ایک معاشی بوجھ اٹھاتا ہے تو دوسرے کو بقائے نسل کا بوجھ اٹھانا ہے اور یہ امومت کا فریضہ انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ ماں اپنے بچے کے لیے کم سے کم دو سال تک ہمہ وقت حاضر رہے اور اس کی جسمانی اور نفسیاتی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرتی رہے، اگر ایک سے زائد بچے ہو جائیں تو عورت انسانیت اور سماج کی عظیم خدمت میں لگ جانے کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اس سے تسکین پانے والے مرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشی تحفظ عورت کو اس طرح سے فراہم کرے کہ وہ کسی پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ ایک بڑے مقصد کے لیے ذمہ داریوں کی تقسیم میں جو کام اس کے حصے میں آیا ہے وہ بخوشی اسے انجام دیتا ہے جس طرح سے ایک عورت ماں بننے اور اس سے وابستہ درد اور تکالیف کو جھیل کر خوشی محسوس کرتی ہے۔
شادی ایک حیاتیاتی ضرورت
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا بلکہ وہ تعلقات اور رشتوں کے بندھن میں بندھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے اس کی تخلیق میں اور اس کے حیاتیاتی تشکیل میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ماں اور بچے کا رشتہ ہے ۔ اس رشتے کی خوشگواری کا حیاتیاتی پہلو یہ ہے کہ ماں کے جسم سے مخصوص ہارمون اور کچھ کمیکل ذمہ دار ہوتے ہیں جس سے پیار امڈ آتاہے اور ماں اپنے بچے کو اپنی چھاتی سے لگا لیتی ہے۔ اسی طرح تحقیقات بتاتی ہیں کہ میاں اور بیوی کے درمیان ، جنسی جاذبیت، بوس و کنار ، لمس اور سماجی بندش کا انحصار neurochemical system یعنی جسم کے اندر کےکیمیائی نظام پر منحصر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کی رغبت ،ضرورت اور آمادگی ایک ایسا ہی جسمانی تقاضہ ہے جس طرح سے بھوک لگنے پر کھانے کی تلاش اور پیاس لگنے پر پانی کی تلاش ہوتی ہے۔
خاندان کے ادارے کا زوال
شادی اور خانہ آبادی کا یہ تصور انسانی تاریخ کے روز اول سے لے کر یوروپ میں کارخانوں کے انقلاب سےپہلے تک محفوظ رہا۔ غذا کی پیداوار، زمینوں کا انتظام، سماجی زندگی ، تعلیم وغیرہ میں خاندان کا اہم رول ہوا کرتا تھا۔ خاندانوں کی بنیاد پر افراد کا سماجی مقام بھی طے ہوتا تھا۔ حکومت کی سہولیات کی عدم دستیابی میں علاج معالجے اور اور بوڑھوں اور بڑوں کے سہارے کا انتظام بھی خاندانوں ہی میں ہوتا تھا۔کارخانوں کے بننے اور شہروں کے آباد ہونے کے بعد لوگ گاؤں چھوڑ کر شہروں میں آ کر بسنے لگے۔ فیکٹریوں میں کام کرنا ایک نیا مشغلہ بنا اور بڑے خاندان سکڑ کر چھوٹے ہوتے چلے گئے۔ مرد کی آمدنی نا کافی ہوئی تو عورت بھی ملازمت کے لیے کارخانے جانے لگی۔ بچوں کی تعلیم جو خاندان اور محلے کے بزرگوں کے پاس ہوتی تھی اب اس کے بجائے اس کے لئے مخصوص انسٹیٹیوشن قائم ہونے لگے۔ علاج معالجہ کے لئے شہروں میں ہسپتال وجود میں آنے لگے۔ گھر میں کھانا پکانے کی فرصت نہیں تو ہوٹل وجود میں آنے لگے۔ اس طرح صنعت کاری اور شہریاری نے کل خاندانی نظام پر گہرے اثرات ڈالے اور زندگی کے طور طریقے بدل گئے۔
علوم کی نشاۃ ثانیہ کے دوران سائنس اور مذہب کے درمیان شدید کشمکش پیدا ہوئی۔ مذہبی ادارے سائنس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ یہ انکشاف کہ زمین چٹیل نہیں بلکہ گول ہے اور زمین سورج کے اطراف گھومتی ہے، بدعقیدگی پر محمول تھا۔ بعض سائنسدانوں کو سزائے موت تک دے دی گئی۔ اس کشمکش کے نتیجے میں آخر ہوا یہ کہ یورپ کی ایک بڑی اکثریت مذہب بیزار ہو گئی۔ مذہبی تعلیمات انہیں پیروں کی بیڑی لگنے لگی۔ وہ مذہب کی بندشوں سے آزادی چاہتے تھے۔ مذہب میں خدا کی ہستی کو مرکزی مقام حاصل ہوتا ہے۔ مذہب سے بیزاری کے بعد ہیومنزم نے اس کی جگہ لے لی۔ انسان کائنات کا محور ہے، اس کی آزادی، اس کی خوشی اس کی لذات حسی و جسمانی اور اس کے حقوق سب سے مقدم ٹہرے۔ انسانوں کی تہذیب نفس کے لیے نہ اب بڑا خاندان موجود تھا اور نہ مذہبی تعلیمات کارگر تھیں۔نتیجتاً یہ ہوا کہ انسان خود اپنی فطرت سے بغاوت کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ خاندان کی اہمیت گھٹنے لگی، کارخانوں حکومتوں اور اداروں کی قوت بڑھنے لگی۔ ان سب کے نتیجے میں گزشتہ پچاس سالوں میں خاندانی نظام میں بڑی تیزی سے زوال آیا۔ خاندان اور سماج کی ہیت بدلنے لگی۔ خدوخال، اقدار اور روایات پر بھی کاری ضرب لگنے لگی۔ گھر، خاندان، ماں، بڑوں کا احترام جیسے مقدس اصطلاحات اور تصورات بھی انکار کے دائرے میں آ گئے۔ گھر میں تقسیم کار کہ عورت گھر سنبھالے گی، بچوں کی دیکھ بھال کرے گی اور شوہر کے سکون کا سامان کرے گی دوسری طرف شوہر بیرون کی دنیا میں محنت و مشقت کر کے کمائی کرے گا، خاندان کو تحفظ فراہم کرے گا اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں اس کا اہم کردار ہوگا، ان سب پر سوالیہ نشان لگ گیا۔
یورپ سے اٹھنے والی فیمنزم کی تحریک نے عورتوں کے اندر جذبہ بغاوت پیدا کیا۔ ان کی اصل جو حیثیت امومت کی ہے اس قبا کو انہوں نے چاک کر دیا۔ عورتوں کی آزادی کا نعرہ دراصل خاندانی بندش سے آزادی کا نعرہ تھا۔شادی کا تقدس ٹوٹ گیا۔ خاندان کی حیثیت بدل گئی۔ چار اہم ترین عوامل نے خاندان کی چولیں ہلادیں۔
1-شرح پیدائش میں کمی
2-عورتوں کا طبقہ مزدور میں شامل ہو جانا
3-جنسی بے راہ روی
4-طلاق کی بڑھتی شرح
آج ہمارے سماج میں عورتوں کا لاولد رہنے کو ترجیح دینا ایک آپشن ہو گیا ہے جب کہ کسی زمانے میں لاولد ہونا ایک محرومی مانا جاتا تھا۔ ماہرین آبادیات کا کہنا یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں پچیس فیصد عورتیں بچوں کو جنم نہیں دیں گی اور پچاس فیصد عورتیں یا تو بچوں کو جنم نہیں دیں گی یا صرف ایک بچے پر اکتفا کریں گی اور اس کا اثر ظاہر ہونے کے لئے چالیس پچاس سال لگیں گے جبکہ بوڑھوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہوگا اور معاش پیدا کرنے والے نوجوانوں کی کمی ہو جائے گی۔
جنسی لطف اندوزی اور اور تولید و تناسل کی ذمہ داری آپس میں مربوط تھیں۔ مگر جنسی انقلاب نے جنسی عمل کو محض لطف اندوزی تک محدود کر دیا۔اور وہ جنسی عمل اجناس کے خریدوفروخت کی طرح ہوگیا۔ انسان آج جو کچھ ہے اس کے اس مقام تک پہنچنے میں ماں باپ اور خاندان کا رول رہا اور اب جب اسے ماں اور باپ کا کردار ادا کرنا ہو تو اپنی ذمہ داری سے فرار کی راہ اختیار کر رہا ہے اس لیے آج کا انسان خود مرکزیت کا شکار ہے جس کے نتیجے میں وہ سیکس کو صرف جنسی لطف اندوزی تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ کسی زمانے میں صرف غیر شادی شدہ لڑکا یا لڑکی کارخانوں فیکٹریوں اور آفسوں میں اجرت پر مامور ہوتے تھے اور شادی شدہ عورت، جس کے بچے بھی ہوں، وہ طبقہ مزدور میں بہت کم ہی شامل ہوا کرتی تھی۔ امریکا میں 1960 میں صرف 19 فیصد بچے والی خواتین نوکری پیشہ تھیں جبکہ 1986 میں یہ شرح بڑھ کر 54 فیصد ہوگئی۔
امریکہ میں خاندانی نظام کے زوال کی صورتحال کا مطالعہ بتاتا ہے کہ طلاق کی شرح میں گزشتہ پچیس سالوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ہزار شادیوں میں 30 شادیاں طلاق پر ختم ہوتی تھیں اور آج 25 سال بعد وہ بڑھ کر 135 ہوگئی ہے۔ آگے یہ پیشین گوئی کی جاتی ہے کہ 44 فیصد شادیاں طلاق پر جا کر ختم ہو جائیں گی۔
اس صورتحال نے شادی کے متبادلات کو جنم دیا ہے جو انسانی سماج کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔
جب شادی سے وابستہ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے لڑکا اور لڑکی تیار نہیں ہیں تو لے دے کر صرف ایک جنسی تسکین ہے جس کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس کے لیے لوگوں نے کئی چور دروازے کھول رکھے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کریں گے۔
شادی کے متبادلات
1-زنا: پرانے زمانے میں بھی اس کا رواج تھا لیکن آج کی’’مہذب‘‘ حکومتوں نے اسے قانونی جواز فراہم کر کے اس کی راہوں کو آسان کر دیا ہے۔ رفع حاجت کے لئے جس طرح سے انسان پبلک ٹائلٹ کا استعمال چند سکوں کی عوض کر لیتا ہے بالکل اسی طرح اپنے جنسی دباؤ کی فراغت کے لیے ہر طبقے اور سطح کے لوگوں کے لئے اڈے موجود ہیں جہاں پیشہ ور عورتیں اس کام کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔ پچھلے زمانے میں یہ ایک حقیر پیشہ تھا اور اور بہت سی عورتیں اپنے جسم و جان کا رشتہ باقی رکھنے اور پیٹ پالنے کے لیے اپنی عزت کو بیچا کرتی تھیں مگر آج بار، پب اور اسٹار ہوٹل میں کوئی ان پڑھ اور غریب نہیں بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں اس پیشہ سے سے منسلک ہیں۔
سورہ نور میں اسلام نے سماج میں پائی جانے والی جنسی بے راہ رویوں کی اصلاحات سے متعلق تعلیمات دیں۔ قرآن نے اسے جرم قرار دیا اور اس فحش کام پر حد جاری کرنے کا حکم دیا:
(ترجمہ)’’زانیہ عورت اور زانی مرد ‘ دونوں میں سے ہر ایک کو سوکوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کردیا گیا ہے اہل ایمان پر۔‘‘( النور:3-2)
اس زمانے میں مدینے میں موجود فحاشی کے ان اڈوں کو جنہیں چکلا کہا جاتا تھا پر پابندی لگانے کا حکم آگیا۔ اور یہ بات بھی اسلام نے واضح کر دی کہ شادی کرنے کی مقدرت نہ ہونا زنا کے لیے لیے کوئی جواز نہیں ہے۔
(ترجمہ)’’اور جو لوگ نکاح کرنے کی مقدرت نہیں پا رہے وہ اپنے کو ضبط میں رکھیں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے اور جو مکاتب ہونے کے طالب ہوں تمہارے مملوکوں میں سے تو ان کو مکاتب بنا دو اگر تم ان میں صلاحیت پائو اور ان کو اس مال میں سے دو جو خدا نے تم کو دیا ہے اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہیں، محض اس لئے کہ کچھ متاع دنیا تمہیں حاصل ہوجائے اور جو ان کو مجبور کرے گا تو اس اکراہ کے بعد اللہ ان کے لئے غفور رحیم ہے۔‘‘ (النور:33)
2۔ لیو ان ریلیشن شپ: یعنی بغیر شادی کے صحبت ایک ایسا انتظام ہے جہاں دو افراد ساتھ رہتے ہیں۔ وہ اکثر طویل مدتی یا مستقل بنیاد پر رومانس یا جنسی طور پر مباشرت کے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ 20 ویں صدی کے آخر سے مغربی ممالک میں اس طرح کے انتظامات بہت زیادہ عام ہونے لگے ۔ شادی ، صنف کے کردار اور مذہب کے حوالے سے معاشرتی نظریات میں تبدیلیاں بڑی تیزی سے جو آئی ہیں ان کے نتیجے میں لوگ اس طرح کے انتظامات میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں معاش کے نئے میدان وجود میں آئے اور خواتین کے لیے بھی اس میں مواقع میسر آنے لگے جس کے نتیجے میں لڑکیوں کی بڑی تعداد برسرروزگار ہونے لگی۔ آزادانہ ماحول اور میل ملاپ کے بہت سے مواقع میسر آنے لگے۔ مانع حمل تدابیر کی بآسانی فراہمی نے بعض عورتوں کے اس تصور کو تقویت دی کہ بچوں کو جنم دئے بغیر صرف جنسی لطف اندوزی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ شادی میں تقسیم کار کے نتیجے میں مرد معاشی ذمہ داری سنبھالتا تھا اور عورت معاشی طور پر مرد پر منحصر ہوتی تھی، جب عورت خود برسرروزگار ہونے لگی تو اسے یہ وہم ہو گیا کہ اب اسے خاندان چلانے اور بچوں کو جنم دینے کی ضرورت نہیں اس لیے باقاعدہ شوہر کی ضرورت بھی نہیں، البتہ جسمانی تقاضوں کی تکمیل کیلئے ایک مرد کی ضرورت ہے۔ مرد میں بھی جب دین بیزاری اور خدا بیزاری کے نتیجے میں خود مرکزیت کا مزاج پیدا ہو گیا تو وہ بیوی اور بچوں اور خاندان کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی جسمانی خواہشات کی تکمیل کیلئے آسان راہوں کو تلاش کرنے لگا۔ اسی مزاج کی عورت میسر آنے پر ایک مرد اور عورت طے کر لیتے ہیں کہ وہ بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے لگیں گے۔ کبھی دونوں اپنی روزی روٹی کا سامان خود کریں گے، اور کبھی بچے پیدا ہو جانے کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے عورت گھر میں نسوانی کردار ادا کرے گی اور مرد اپنا روایتی رول ادا کرے گا۔
یہ ہیں وہ حالات جنہوں نے لڑکے اور لڑکیوں کو شادی کے متبادلات دریافت کرنے کرنے پر ابھارا۔
عورتوں کا اعلی اور پروفیشنل تعلیم پانا، اس کے بعد برسرروزگار ہونا، جس کے نتیجے میں عمریں بیت جاتی ہیں،بڑی عمر میں شادی کرنا، بچوں کا دیر سے جنم لینا یا لاولد ہی رہنے کے آپشن کو پسند کرنا، مذہب بیزاری کا عام ماحول، بے حیا کلچر، جنسی معاملے میں میں سماج کے اندر جنسی نقطہ نظر کی تبدیلی کہ آپسی رضامندی سے جسمانی تعلقات قائم کرنا زنا نہیں مانا جاتا یہاں تک کہ شادی شدہ عورت اپنی مرضی سے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بھی بستر شیئر کرے تو اب عدالتوں نے اسے جائز قرار دے دیا ہے۔ یعنی اس کی مرضی کے ساتھ تعلقات رکھنا جرم نہیں رہا۔ الٹا یہ ہوا کہ خود اپنی بیوی کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا شادی شدہ زنا قرار دیا جانے لگا۔ یہ وہ تبدیلیاں اور وہ عناصر ہیں جس کے نتیجے میں شادی کا متبادل لوگ ڈھونڈنے لگے بلکہ شادی کے تصور کو دقیانوسی قرار دینے لگے۔ یورپ کا ایک سروے بتاتا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ لوگ شادی کو اب ایک قصہ پارینہ سمجھتے ہیں۔
اس متبادل کو بھی شادی سے قریب تر مانا جاتا ہے، سوائے اس کے کہ اس میں باقاعدگی کے ساتھ نکاح نہیں ہوا ہوتا ہے اس لیے جدائی بھی آسان ہے۔ اس رشتہ میں مرد اور عورت اپنی صنفی رجحانات کے مطابق زندگی میں اپنا رول نبھاتے ہیں۔ عورت نوکری پیشہ بھی ہو تو گھر یلو امور اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور مرد بیرون کی دنیا کا کام سنبھالتا ہے اور گھر کا محافظ بھی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کی بھی تولید ہوتی ہے اور ان کی ویسی ہی معاشی ذمہ داری مرد اپنے سر لیتا ہے جیسے شادی شدہ زندگی میں ہوتا ہے۔ اس طریق رشتہ ازدواج میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اس رشتے سے باہر جنسی تعلق کو ویسے ہی ناپسند کیا جاتا ہے اور برا مانا جاتا ہے جیسے شادی شدہ جوڑوں کے درمیان ہوتا ہے۔ مرد عورت اور بچے سب ایک سائے تلے جیتے ہیں۔
3. بندش سے آزاد جنسی رشتہ NSA : یہ نمبر 2 سے قریب ہے مگر اس میں ذمہ داریاں کچھ ہلکی ہو گئی ہیں۔
این ایس اے کا مطلب ہے No strings attached یعنی یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس میں نکاح کی بندش نہیں ہے اس لیے جب چاہیں ایک دوسرے سے رخصت لی جا سکتی ہے۔ ورنہ شادی شدہ ہونے کے نتیجے میں طلاق پر مغرب کی دنیا میں قانونی کاروائی اور جدائی کے نتیجے میں مرد پر کافی مالی بوجھ آتا ہے۔ اس متبادل کو شادی سے قریب تر مانا جاتا ہے سوائے ایک پہلو کے اس رشتے میں کمٹمنٹ موجود نہیں ہیں اور نہ ہی دونوں طرف سے اس کا مطالبہ ہے کہ زندگی بھر کا کمٹمنٹ دو۔ اس میں بھی لیوان ریلیشن شپ کی طرح لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے لئے مختص ہوتے ہیں مگر اس رشتے سے باہر بھی جنسی تعلق قائم کرنے پر ایک دوسرے کو اعتراض بھی نہیں ہوتا۔ اس رشتہ میں یہ بھی لازم نہیں ہے کہ دونوں ایک ہی جگہ سکونت اختیار کریں۔ دونوں کا اپنا الگ الگ گھر ہو سکتا ہے، الگ الگ کمائی ہو سکتی ہے، مگر صرف ضرورت کے تحت ایک دوسرے کے لئے قریب آتے ہیں۔ اس رشتے میں ایک دوسرے کے لئے محبت ہمدردی اور تعاون کے جذبات بھی کار فرما ہوتے ہیں۔
4. دوستی اور فائدے کا تعلق : اس متبادل کو FWB – friends with benefit کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ نمبر تین سے قریب ہے مگر اس میں ذمہ داریاں بالکل نہیں ہیں۔ اس ناجائز رشتہ ازدواج میں یہ انڈرسٹینڈنگ ہوتی ہے کہ جب بھی ایک دوسرے کو جسمانی ضرورت ہو وہ قریب آئیں گے پھر دور ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ان دونوں کے درمیان کسی طرح کا تعلق اور رشتہ نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ محبت کے جذبات بھی نہیں ہوں گے۔ فوٹوز کھینچیں گے نہ ڈنر ایک ساتھ کریں گے اور نہ ایک دوسرے کا شکریہ ادا کریں گے۔ نئی نسل کے درمیان ان کی سب سے زیادہ پسندیدہ متبادل کے طور پر ابھر رہا ہے۔
5. ایک رات کی مہمان نوازی: اس کو انگریزی میں ONS – One Night Stands کہا جاتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی ایک شام ڈیٹنگ پر نکلے، گھومنے پھرنے سینما دیکھنے شاپنگ کرنے ، ساتھ میں کھانا کھانے اور ایک رات کے قیام کرنے کا تعلق ہے۔ اگلی صبح دونوں اپنی راہ لیتے ہیں۔
6. ہم جنسیت : اس متبادل میں میں مرد کی مرد کے ساتھ یا عورت کی عورت کے ساتھ سول یا مذہبی شادی ہوتی ہے۔ ایک زمانے تک نفسیات کی کتابوں میں اسے غیر فطری عمل قرار دیا جاتا تھا مگر مغربی دنیا میں ایک صدی سے بعض تنظیمیں پورے شدومد کے ساتھ اس خیال کے حق میں دنیا کی بہت سی حکومتوں، عدالتوں،اور سائنسی تحقیقات کرنے والوں کی رائے ہموار کرلی کہ ہم جنسیت بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس کے حق میں جو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے قدیم ترین ابواب میں بھی اس طرح کی شادیوں کا تصور ملتا ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جانوروں میں بھی ایسے عمل کا رجحان پایا جاتا ہے۔ باقی سب معاملات میں تو کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مالک ہے۔ عورتیں کہتی ہیں میرا جسم میری مرضی۔ لیکن لواطت پسند لوگ کہتے ہیں کہ یہ جنسی رجحان ان کا کوئی اختیاری عمل نہیں ہے بلکہ وہ جسم کی ساخت اور اس میں جنسی خیال کے ساتھ بہنے والے کمیکل کا قصور ہے اور وہ اس کے ہاتھوں مجبور ہیں، اس میں ان بیچاروں کا کوئی دوش نہیں۔ وہ ایسے ہی بنائے گئے ہیں۔
انگریزی میں لفظ gay کا عربی مفہوم ہے سعيد یعنی خوش بخت۔ جس کے مزاج میں یہ بگاڑ ہو کہ عورتوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں اور مردوں کی طرف جنسی عمل کے لیے رغبت رکھتا ہو خوش بخت انسان ہے۔
اس کے حق میں رائے بنانے کے لئے کچھ تحقیقات کے حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح کی شادی میں بندھا ہوا جوڑا جسمانی معاشی اور نفسیاتی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ اگر ایسا جوڑا کسی کے بچے کو گود لے کر پالتا ہے تو اس بچے کی تعلیم و تربیت بھی ایک میاں بیوی کے درمیان پلنے والے بچے سے کم نہیں تو برابر ہے بلکہ بعض مرتبہ ان بچوں سے بہتر ان کی پرورش ہوتی ہے۔ دنیا کے 21 ممالک میں اب اس کے حق میں قانون بن گیا ہے۔ نہ صرف شادی کے جواز والے قوانین بلکہ اس سے متعلق اور بھی بہت سے قوانین میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ ٹیکس میں بچت، میراث کی تقسیم، آفس میں اپنے زوج کے بیمار ہونے پر چھٹی وغیرہ۔ حکومت و حکومتی اداروں، این جی اوز اور بہت سی سماجی تنظیموں اور حقوق انسانی کے پاسبان تنظیموں کی زبردست حمایت انہیں حاصل ہے۔
یہ فکر کیوں پیدا ہوئی
دور جدید کی ملحدانہ تہذیب و تعلیم کے نتیجے میں جب انسان نے اس کائنات کے مرکز و محور کا انکار کردیا تو وہ خود اپنی ذات کے مرکز سے دور ہو گیا اور اپنی اعلی حیثیت کو بھول گیا کہ وہ رب کائنات کا پرتو ہے اور اسی نے اس کی تخلیق بڑے اہتمام سے کی ہے۔ انسان کا المیہ یہ ہے کہ جب وہ خدا فراموش ہوتا ہے تو خود فراموشی کا بھی شکار ہو جاتا ہے اور اسے اپنی حیثیت کا پتہ نہیں چلتا۔اس کا اصل جوہر یہ ہے کہ وہ خدا کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے اور اس کی تخلیق راست ہوئی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے عظیم شرف و تکریم سے نوازا مگر انسان نے اپنے اس جوہر کو جہالت اور جاہلیت کے تحت تہہ در تہہ ظلمتوں کے عمیق غار میں دفن کر دیا۔ جب وہ اپنے محور کو بھول جاتا ہے تو اس کی زندگی کی گاڑی غلط راستوں پر چل پڑتی ہے اور اسے جانور کی سطح پر اترنے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ عصر حاضر کے فلسفیوں نے جب خدا کا انکار کر دیا تو انسان کسی کی مخلوق نہیں رہا بلکہ حادثاتی طور پر حیات نمودار ہوئی پھر جانور بنتے چلے گئے اور ارتقاء کے مراحل طے کرتا ہوا جانور انسان میں بدل گیا۔ انسان بننے کے بعد بھی اسے بار بار یہ باور کرایا جاتا رہا کہ تو جانور ہی ہے۔ جانور کو کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے کوئی ضابطہ اخلاق کی پابندی لازم نہیں ہے۔اس کا کوئی نگراں نہیں ہے۔ اس سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے لہٰذا دنیا میں وہ ایسے جیتا ہے جیسے کہ اسے اپنے رب کی طرف لوٹنا نہیں ہے۔محاسبہ کے دن، جس دن اپنے اعمال کی جانچ پڑتال ہوگی، کا انکار کرنے کے نتیجے میں وہ پستی میں جا گرا۔
مغرب نے جن مفکرین و دانشوروں اور فلسفیوں کو جنم دیا ان میں کچھ ایسے بڑے ے فلسفی گزرے ہیں جن کی تعلیمات کی چھاپ آج کی نئی نسل پر بڑی گہری ہے۔ ان کا تصور حیات اور انسان کے بارے میں وہ تصور کہ وہ ایک ترقی یافتہ جانور ہے اس نے ایک بڑے طبقے کو اپنا ہمنوا بنا لیا جس کے نتیجے میں انسان خواہشات کا بندہ بن کر رہ گیا۔ ان بڑے فلسفیوں میں سگمنڈ فرائڈ ایک بڑا نام ہے۔ انسانی سماج سے اخلاقی حس کو کھرچ کر نکالنے میں اس نے کسی حد تک کامیابی حاصل کی۔ اس نے انسان کی ساری زندگی کو سیکس کی آنکھ سے دیکھا اور لکھا کہ ساری انسانی تاریخ سیکس ہی کی ایک داستان ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی محبت نظر آئے وہ اس کی تعبیر جنسی عینک لگا کر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ باپ اور بیٹی کے رشتے میں، ماں اور بیٹے کے رشتے میں بھی اسے وہی سفلہ پن نظر آتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جھولے میں پلنے والے بچوں کی بہت سے حرکات کے بارے اس کا نفسیاتی تجزیہ یہ ہے کہ وہ شیرخوار جنسی لطف اندوزی کے اولین مراحل سے گذر رہا ہے۔ خوابوں کے بارے میں بھی اس کا یہ خیال ہے کہ جاگتے میں جن جنسی تصورات و خواہشات کی تکمیل نہیں ہو پاتی وہی رات میں روموز بن کر خواب میں نظر آنے لگتے ہیں۔ خواب کی ہر تعبیر جنسی فعل ، جنسی خواہش اور جنسی تصور کی تعبیر ہے۔ انسان کی بہت سی نفسیاتی بیماریوں کی بنیاد میں بھی وہ جنسی واقعات ہی کو تلاش کرتا ہے اور اس کی تعبیر و تشریح کرتا ہے۔ اس نے اپنی خاص ایجاد نفسیاتی تحلیل کے ذریعے اخلاق کی جڑ بنیاد کھودنے کا کام کیا۔ وہ اس بات کا بھی مبلغ تھا کہ جنسی امور پر بات کرنے کی پردہ داری نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کی آزادی ہونی چاہئے ۔ یہاں تک کہ بچوں کے سامنے بھی کھل کر ان موضوعات پر گفتگو کرنی چاہیے جب کہ وہ ان معاملات کو سمجھنے لگیں۔
خدا کو دریافت کرنے کے تین مقامات تھے مگر مغربی فلسفہ اور تعلیم میں تینوں جگہوں سے خدا کو نکال دیا۔ کائنات کی تخلیق وہ پہلی جگہ ہے جس پر انسان غور کرے تو خالق کا اور ایک دانشمند ڈیزائنر کا پتہ لگتا ہے۔ مگر بگ بینگ تھیوری اور اس جیسی اور بہت سے تھیوریز نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کائنات کی تخلیق خود بخود اچانک ہوگئی۔ خدا کو پہچان نے کا دوسرا مقام انسان کی پیدائش تھی۔ مگر ڈارون اور اس جیسے دیگر سائنسدانوں نے وہاں سے بھی خدا کو نکال دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسان خدا کا تخلیق شدہ ایک وجود نہیں بلکہ جانوروں کے ارتقاء کا ایک تکمیلی مرحلہ ہے ۔ خدا کو اور پہچاننے کا تیسرا مقام ضمیر تھا جسے اندرون میں خدا کی آواز بھی کہا جاتا ہے۔ مگر سگمنڈ فرائڈ اور اس جیسے ماہرین نفسیات اور فلسفیوں نے ضمیر اور اس کی رہنمائی کو بھی سماج کی پیدا شدہ قرار دیا، جس سے بچوں کو صحیح اور غلط سمجھایا جاتا ہے تاکہ انہیں کنٹرول میں رکھا جا سکے۔ اچھا کام کرنے پر انہیں شاباشی اور برا کام کرنے پر انہیں جو سزا دی جاتی ہے اسی سے آخرت میں جزا و سزا کا تصور بھی کچے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا۔ سگمنڈ فرائڈ کا کہنا ہے کہ بچپن میں بچوں کو کنٹرول میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں باپ سے ڈرایا جاتا ہے۔ جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو اس کا تصوراتی باپ بھی بڑا ہو جاتا ہے اور اس کو خدا کے روپ میں تصور کرنے لگتا ہے۔ اب وہ دوسروں کو اس خدا سے ڈرانے لگتا ہے جیسے بچپن میں اس کی ماں اس کے باپ سے ڈر آیا کرتی تھی۔ اخلاقیات کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ انسانوں نے اسے ایک ضرورت کے طور پر ایجاد کیا اور اپنے تجربے سے مرتب کیا ورنہ فطرت کے اندر اس کی کوئی جڑ بنیاد نہیں۔
شادی کے متبادلات کا اثر سماج اور خاندان پر
ان سب تعلیمات کے شاخسانے ہیں جو آج ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ان نظریات نے سماج کو کڑوے کسیلے پھل دیئے، جس سے خاندانی نظام انتشار کے کگار پر پہنچ چکا ہے۔ جنسی بے راہ روی اور آزادی کا خمیازہ اب مغرب بھگت رہا ہے۔ وہاں کے باشندے جنسی آزادی و لذت چاہتے ہیں مگر اس سے وابستہ ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے ہاں شادیوں کا رواج کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ بچوں کی پیدائش بھی اس حد تک کم ہو گئی ہے کہ اب بہت سے ممالک میں وہاں کی معیشت کو باقی رکھنے کے لیے باہر سے لوگوں کو درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ بہت سے ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آئندہ چالیس سال کے بعد وہ اپنے ہی ملک میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے اور جو باہر سے آئے ہوئے ہیں اور جو وہاں کے باشندے ہو چکے ہوں گے ان کی غالب اکثریت ہوگی۔ اس دردناک صورت حال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود لوگ حقیقت تسلیم کرنے کے بجائے اس کا انکار کرنے پر مصر ہیں۔
اسلام کا نقطہ نظر
اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالی نے جوڑے کی شکل میں پیدا کیا۔ اگر کسی کا جوڑا نہیں ہے تو صرف خدائے وحدہ لاشریک کی ذات عالی ہے۔ ورنہ کائنات کی ہر شے میں زوج کا اصول کارفرما ہے۔
(ترجمہ):’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ۔‘‘ (یٰسین:36)
کائنات کی ہر چیز کی طرح انسانوں میں بھی اللہ تعالی نے جوڑے کے قانون کو جاری و ساری رکھا۔ جوڑے میں ایک دوسرے سے مختلف ہونے اور ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود آپس میں مل کر کائنات کی ہستی کو چلانے اور اس کائنات کا رنگ و بو ان ہی جوڑوں کے دم سے ہے۔
(ترجمہ):’’لوگو ، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
(الحجرات:13)
انسانی جوڑے کو بنانے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی بقا اور تسلسل ہو۔ قرآن کہتا ہے:
(ترجمہ):’’لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ، اسی خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘ (النساء:1)
دو صنفوں کو پیدا کرنے کا ایک عظیم مقصد ہے اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب آنے اور لطف اندوز ہونے کا واحد اور جائز راستہ صرف شادی ہے ۔ اس کے علاوہ جتنے اور متبادل انسانوں نے ایجاد کر رکھے ہیں اسلام کی نگاہ میں وہ سب حرام ہیں۔ اور اس عمل کو زنا سے تعبیر کرتا ہے جس میں ایک مرد اور عورت بغیر نکاح کے کے ساتھ رہنے اور مباشرت کرنے لگیں۔ نمبر 1 سے لے کر نمبر 5 تک کے متبادلات سب زنا کے زمرے میں آتے ہیں اور وہ ایسا جرم ہے جس پر حد جاری کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اگر اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست کا نظام چل رہا ہو۔ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے تجویز کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے خاندان اور سماج کو بچایا جا سکے اور عورتوں کی عفت و عصمت کا تحفظ ہو سکے ورنہ معاشرے کی بنیاد اکھڑ جائے گی جیسا کہ آج مشاہدہ میں آ رہا ہے۔
ان میں سے آخری متبادل ہم جنس پرستی ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے حوالے سے قرآن میں کئی مقامات پر گفتگو آئی ہے جس سے اس شنیع فعل کی مذمت سامنے آتی ہے۔ اسلام کے نزدیک وہ ایک انتہائی بدکاری کا فعل ہے۔رسول کا انکار اور اس بدفعلی کے سبب اللہ تعالی کا غضب قوم لوط پر ٹوٹ پڑا اور فرشتے نے اس بستی کو اٹھا کر پلٹ دیا ۔ لواطت اسلام میں ایک قابل تعزیر جرم ہے۔
ll
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021