موبائیل فون اور ہمارا معاشرہ
ٹکنالوجی کے غلط استعمال سے ذاتی ،ازدواجی اور سماجی زندگیاں بری طرح متاثر
عمر فاروق ،کشمیر
سماجی برائیوں کے سدباب کے لیے گھرکی اصلاح پر توجہ دیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائیل فون کی آمد سے ہماری زندگیوں کی بے شمار مشکلات آسان ہوئیں ۔اگر کسی دس سالہ بچے سے بھی موبائیل فون کے فائدے بتانے کو کہا جائے تو وہ بھی اس کے بہت سارے فائدے گنوائے گا۔مگر اس کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔اس کے جسمانی نقصانات سے عام لوگ کچھ سرسری واقفیت تو رکھتے ہیں مگر اس کے سماجی اور معاشرتی نقصانات پر کم ہی لکھا اور بولا گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ موبائیل فون کے بے تحاشہ استعمال سے آج کل لوگوں کی ذاتی ،ازدواجی ،عائلی ،تعلیمی ،دینی اور سماجی زندگیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔
ایک طالب علم جب موبائیل فون پر گھنٹوں صرف کرے گا تو پھر اس کی تعلیمی زندگی کا جنازہ نکلنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔جہاں موبائیل اور انٹرنیٹ نے بے شمار علمی مصادر و مآخذ اور کتابوں تک ہماری رسائی کو آسان کردیا ہے وہیں ہماری ذہانت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔سیرتِ نبوی ﷺ کا مطالعہ کرنے والا ہر طالب علم عربوں کی ذہانت کے قصے پڑھ چکا ہوگا کہ وہ اپنے اونٹوں کے اشجارِ نسب تک زبانی یاد رکھتے تھے مگر آج ان کی علمی حالت ہم سب کے سامنے ہے۔غالباً ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحبؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یوروپ میں عربوں کے متعلق ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’اگر کوئی چیز عربوں سے مخفی رکھنی ہو تو اسے کسی کتاب میں رکھ دو‘‘۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کبھی کتاب کو کھولنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔
صبح جلدی اٹھنا انسان کی بہت بڑی خوبی ہے۔ایک تو اس عادتِ مبارکہ سے جسمانی صحت ٹھیک رہتی ہے تو وہیں انسان روحانی اور نفسیاتی طور پر بھی مضبوط رہتا ہے۔مگر چوں کہ موبائیل اور انٹرنیٹ کے بے تحاشا استعمال سے نیند کا سائیکل بری طرح متاثر ہوتا ہے تو پھر صبح جلدی اٹھنا نفس پر گِراں گزرتا ہے اور صبح نہ وقت پہ نماز ،نہ تلاوت اور نہ ہی کوئی علمی کام انسان صحیح طریقے سے انجام دے پاتا ہے۔پھر وقت اس طرح گزر جاتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ دن گزرا یا چند لمحے تھے جو ضائع ہوگئے۔
ماں کی آغوش بچے کی پہلی درسگاہ ہے جس کے اثرات بچے کے تحت الشعور پر مرتب ہوتے ہیں اور پھر انسان کی پوری زندگی کے عادات و خصائل اس سے متعین ہوتے ہیں۔مگر آج موبائیل کی وجہ سے بچوں کے حقوق والدین کی طرف سے کس طرح غصب کئے جاتے ہیں اس سے سب لوگ واقف ہیں۔بچہ ذرا سا کیا روتا ہے تو اسے چُپ کرانے کیلئے اس کے ہاتھ میں موبائیل تھما دیا جاتا ہے مگر اس ننھی سی جان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس سے ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر غفلت برتتے ہیں۔اگر بچہ لاکھ مرتبہ بھی روئے تو ہم اس کے ہاتھ میں چاقو نہیں دیتے حالاں کہ چاقو بھی ایک مفید چیز ہے ۔وہ اس لئے کیوں کہ ہمیں پتا ہے کہ اس کو چاقو کا صحیح استعمال کرنا نہیں آتا ،یہ خود کو کیا کسی اور کو اس سے گزند پہنچائے گا ۔تو پھر ایک ایسا آلہ جو اس کو زندگی کے اس مرحلے پر جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے خراب کرکے رکھے گا ،اس کے ہاتھ میں تھما دینا چہ معنی دارد ؟ اسی طرح جب بچوں کی والدین کی جانب سے صحیح طریقے پر تربیت نہیں ہوگی تو پھر وہ کارٹونوں ،فلموں اور ڈراموں سے تربیت حاصل کریں گے ، جس کا عملی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوگا۔نتیجتاً ایک پوری نسل ’’جنت الحمقاء ‘‘ کی مکین بن کر رہ جائے گی۔
جو لوگ دینی اعتبار سے بہت اعلی منازل پر متمکن تھے وہ اس موبائیل کی وجہ سے کچھ نہ کچھ منزلیں نیچے گِرے تو ضرور ہیں۔اگر کسی کو یہ بات عجیب لگے تو اپنے ہی دل سے پوچھ کر دیکھ لے۔آج کل بہت سارے علماء بھی وقت کا بیشتر حصہ اسی موبائیل کی نذر کرتے ہیں جس سے ان کا مطالعہ بری طرح سے متاثر ہوتا ہے۔کہاں وہ علماء کا دن بھر سینکڑوں صفحات کا مطالعہ کرنا اور کہاں یہ دو چار صفحات پڑھ کر ہی طبیعت اُکتا جانا۔کہاں وہ علم میں گہرائی و گیرائی اور کہاں یہ سطحیت پہ مبنی چند بول !
سنتِ نبوی کو چند ظاہری اعمال میں قید کرنے سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ ہم دین کے اصل مغز سے بے پروا ہو کر چھلکوں پر ہی قناعت کرنے لگے یا حضرت عیسیؑ کے الفاظ میں مچھروں کو چھاننے اور اونٹوں کو نگلنے لگے۔حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ایک مبارک سنت یہ بھی تھی کہ وہ جب کسی سے ملتے تو پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوجاتے۔آج گھروں ،سکولوں ،کالجوں،مدرسوں اور دفتروں میں لوگوں نے دوسرے انسانوں کو اہمیت دینا عملاً بند کیا ہے۔بچے ماں باپ سے بات کرنا چاہتے ہیں مگر والدین ہیں کہ ان کی سنتے ہی نہیں ۔شاگرد استاد سے استفادہ کرنا چاہتا ہے مگر استاد صاحب موبائیل کے اسیر ہوچکے ہیں۔کسی جگہ دعوت پہ جائیں یا رشتہ داروں کے ہاں چلے جائیں تو سارے لوگ ایک دوسرے کی خیرو عافیت معلوم کرنے کے بجائے ’’مراقبے‘‘ کی شکل بنا کر’’فنا فی الموبائیل‘‘ ہوئے ہوتے ہیں۔کسی دوست کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ دوسرے مخلص دوست کا دُکھڑا سنے ۔حالاں کہ ملاقاتوں میں دوسروں کی باتوں کو نہ سننا اور موبائیل کے ساتھ لگے رہنا دوسرے انسان کو یہ تاثر دینے کے مترادف ہے کہ میرے سامنے تمہاری حیثیت موبائیل کی سی بھی نہیں ہے۔اگر ہوتی تو میں تمہاری طرف متوجہ ہوتا ! اس پہ مستزاد یہ ’’ولقد کرمنا بنی آدم ۔۔۔‘‘ والی آیت کی صریح خلاف ورزی ہے کہ ہم تکریمِ موبائیل میں تکریمِ خلیفة اللہ فی الارض یعنی انسان کی تکریم کرنا ہی بھول جائیں۔
موبائیل فون پہ بہت سارے دوست و احباب ایک دوسرے کا بہت زیادہ وقت بھی بے سود کال اور چیٹنگ سے ضائع کرتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب کبھی فون کرنے کی ضرورت پیش آتی تو دوسروں کا وقت ضائع کئے بغیر ہی چند منٹوں کے اندر اندر گفتگو ختم کرتے ۔مگر کچھ لوگوں کا پیٹ اس سے نہیں بھرتا بلکہ وہ غیر منطقی اور عجیب و غریب محبت کا حوالہ دے کر گھنٹوں ضائع کرتے ہیں،جس کا دور دور تک بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔معلوم ہونا چاہیے کہ وقت سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے ۔اس لئے اس کو بے سود کاموں میں ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔یہاں چند شریف النفس لوگوں کا مفید وقت لوگ دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور وہ فطری حیاء کی وجہ سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتے ہیں تاکہ کسی کا دل نہ دُکھے ۔مگر اس کا مطلب ہرگز یہ بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی فطری شرافت کی وجہ سے ہر ایرے غیرے کےلیے اپنا قیمتی وقت برباد کریں۔لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کسی کے ساتھ اصل محبت یہ نہیں ہے کہ آپ اس کا قیمتی وقت برباد کریں بلکہ محبوب کی خوشی ہی ایک محب کی خوشی ہونی چاہیے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ :
خیال اپنا، مزاج اپنا،پسند اپنی کمال کیا ہے
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
موبائیل فون اور انٹرنیٹ کی وجہ سے اب سماجی برائیوں کی جس سطح پر تشہیر ہوتی ہے وہ ہمارے معاشرے کے لئے قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں ہے۔ذرا سا کوئی کسی برائی میں مبتلا ہوا تو فوراً ہی وہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے اور پھر لوگ نیچے کمنٹ کرکے عجیب و غریب جملے لکھتے ہیں کہ جیسے ہماری قوم کا ہر فرد اس برائی میں مبتلا ہوا ہو۔اس پہ مستزاد یہ کہ اب گناہ گویا زندگی کے معمولات میں شامل ہوچکے ہیں۔اب دینی قدروں کے تئیں وہ حسّاسیت برقرار نہیں رہی ہے۔ برائی اب دن بہ دن اتنی عام ہورہی ہے کہ اب کوئی برائی برائی لگتی ہی نہیں ہے۔اب بے پردگی ’’ٹیلنٹ‘‘ کے نام پر اور فحش گفتگو ’’میمز‘‘ کے نام پر بہت سارے دین دار لوگ بھی اچھی طرح ہضم کرنے لگے ہیں۔
جس طرح بیسوی صدی میں مختلف علوم و فنون کے ساتھ وابستہ ایک سے بڑھ کر ایک مشاہیر علماء موجود تھے وہیں آج کا زمانہ قحط الجال کا زمانہ دکھتا ہے یا موبائیل کی جادوگری اور ہماری کوتاہ نظری سے ہمیں وہ گوہرِ نایاب نظر ہی نہیں آتے جو علم و ادب اور سلوک و ارشاد کی تُراث کے حقیقی وارث ہیں۔کہاں وہ پچھلی صدی کہ جہاں اقبال اور مولانا مودودی جیسے متکلمینِ اسلام موجود تھے اور کہاں آج کے دور کے’مسلکی شدت پسند‘ کہ جنہوں نے کبھی اسلام کا مقدمہ لڑا ہی نہیں مگر پھر بھی اپنے اندھے مقلدوں کی غلو سے پُر عقیدت کی بدولت ’متکلم اسلام‘ کی کرسی پر براجمان ہیں ۔یہ بھی موبائیل اور انٹرنیٹ کی ہی’’ دین‘‘ ہے کہ زاغ عندلیب ہوگئے اور مسخرے ادیب ہوگئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کی صنف کا بھی نئے ’’اَن پڑھ ‘‘ شعراء نے عجیب تماشا بنا کر رکھا ہے۔اس موقع پر معراج فیض آبادی کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
شاعری میں میرؔ و غالب ؔ کے زمانے اب کہاں
شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ،ادب دیکھے گا کون
اسی طرح آج کل بے شمار علماء و صلحاء کی تقاریر سننے کے باوجود بھی دل میں سوز و گداز اور رِفق پیدا نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جہاں ہم موبائیل پہ ایک تقریر سنتے ہیں تو ساتھ ہی کوئی فحش ویڈیو یا تصویر موجود ہوتی ہے جو نورانی اثرات کو وہیں پر زائل کرتی ہے جسکی وجہ سے پھر اعمال میں سستی پیدا ہوتی ہے۔ گناہوں کے جو مواقع آج کی نسلِ انسانی کے پاس ہے شاید ہمارے اسلاف نے اس کا تصور بھی نہ کیا ہوگا۔
موبائیل کے ہمارے معاشرے پر اثرات لکھنے بیٹھیں تو یہ فہرست مزید طویل ہوگی۔اختصار کے ساتھ عرض یوں ہے کہ ہمیں موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے حوالے اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔یہ ہم پہ کس نے فرض کیا ہے کہ دن بھر کا سارا انٹرنیٹ پیک(Internet Pack) ختم کرکے ہی سونا ہے ؟ جس طرح ہوٹل میں ہم کھانا بقدرِ ضرورت کھاتے ہیں اگر چہ زائد بھی موجود ہوتا ہے اور اس کے لئے ہم نے پیسے بھی ادا کئے ہوتے ہیں ،اسی طرح انٹرنیٹ کا بھی بقدرِ ضرورت ہی استعمال کرنا چاہیے۔اللہ سے اچھے کاموں کی ایسی مصروفیت مانگنی چاہیے کہ جس میں وقت ضائع کرنے کے کم سے کم مواقع موجود ہوں۔بہت سے لوگ سماج سدھار کی باتیں کرتے ہیں ۔ سماجی اصلاح کا کام اسی وقت نتیجہ خیز ہوگا جب لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا ہوگا کہ گھر معاشرے کی اہم اکائی ہے اور سماجی اصلاح کے لیے سب سے پہلے اپنے گھروں سے سماجی برائیوں کوختم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اور اس کے لیے موبائیل اور انٹرنیٹ پر کنٹرول بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ چیزیں بڑوں اور بچوں سبھی کو گناہوں اور سماجی برائیوں کے دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023