مینو نگ میں گرواٹ پھر بھی جی ڈی پی کا نمو 6.3فیصد
بے روزگاری ، مہنگائی ، تجارتی خسارہ اور اقتصادی بد انتظامی سے نکلنے کے لیے معیشت کو کافی وقت درکار
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
نیشنل اسٹیٹسٹیکل آفس (این ایس او) نے گزشتہ دنوں ڈیٹا شائع کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی معیشت نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں 6.3 فیصد کی رفتار سے ترقی کی ہے۔ آر بی آئی نے بھی گزشتہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ میں معاشی نمو کا عین یہی اندازہ پیش کیا ہے۔ پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 13.5 فیصد رفتار سے ترقی ہوئی تھی۔ اس لیے ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہماری معیشت تنزلی کے منفی اثرات کے زیر اثر آئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ گزشتہ سال اس مدت میں سامنے آئی 8.4 فیصد کی ترقی سے کم ہے۔ ہماری سب سے زیادہ تشویش مینوفیکچرنگ شعبہ اور کان کنی میں آنے والی تنزلی سے ہے، ان شعبوں میں بالترتیب 4.3 فیصد اور کان کنی میں 2.8 فیصد کی تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔ مینوفیکچرنگ دراصل وہ شعبہ ہے جہاں سے روزگار کی فراہمی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شعبہ مینوفیکچرنگ میں تنزلی افراط زر میں زبردست اضافہ اور بڑھتے تجارتی خسارہ، روپیہ کی قدر میں کمی نے ملکی معیشت کو متزلزل کر دیا ہے۔ کچھ سالوں سے ہماری صنعتی ترقی کی شرح مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ ہم گھریلو پیداوار پر توجہ دینے اور متحرک کرنے کے بجائے چینی درآمدات پر زیادہ ہی انحصار کر رہے ہیں۔ امسال کے پہلے نو ماہ میں ہمارا تجارتی خسارہ 176 رب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو کافی تشویشناک ہے۔ دراصل ہمیں اپنی صنعتی پالیسی پر ازسر نو غور کرنا ہو گا تاکہ اس سیکٹر سے ملک کے نوجوانوں کو روزگار مل سکے۔ اسی کے ساتھ خوش آئند امر یہ ہے کہ شعبہ زراعت میں امسال 4.6 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ وزارت زراعت کے ذریعہ شائع کردہ ڈیٹا کے مطابق ستمبر 2021 میں خوردنی اشیا کی پیداوار 149.92 ملین ٹن رہی جو گزشتہ سال کے مقابلے 3.91 فیصد کم ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق مانسون کے اوقات میں تغیر کی وجہ سے شدید بارش نے شمال مغرب اور مرکزی بھارت کی زراعتی سرگرمیوں کو کافی متاثر کیا ہے۔ غیر زرعی شعبہ میں صنعتی سرگرمیوں میں کمزوری دیکھنے کو ملی ہے۔ مگر خدمات کے شعبہ میں بہتری آئی ہے۔ ملک کے ماہرین اقتصادیات کے مطابق پہلی ششماہی میں مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سے ان کے نفع کے مارجن پر کافی دباو بڑھا ہے۔ مگر شعبہ خدمات جس میں ہوٹلس، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن آتے ہیں اس میں ملا جلا کر 14.7 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ طلب کے محاذ پر نجی کھپت اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کو بھی کچھ تحریک ملی ہے اگرچہ حکومت کے اخراجات کی کھپت بھی کم ہو گئی ہے۔ اس طرح دوسری ششماہی میں عالمی اور گھریلو وجوہات کے ساتھ عالمی معیشت میں سستی کے آثار ہویدا ہیں۔ خاص طور سے ترقی یافتہ معیشت کا حال بہت برا ہے۔ مرکزی بینکوں نے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے شرح سود میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے جس سے برآمدات پر دباو زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی گھریلو طلب بھی متاثر ہوئی ہے۔ نومورا کنزمپشین ٹریکر جو کرورونا سے پہلے کی سطح سے اپریل جون میں تقریباً 11 فیصد تھا جولائی ستمبر سہ ماہی میں کم ہو کر تقریباً 5 فیصد پر آگیا ہے۔ اکتوبر میں مزید گراوٹ درج کی گئی ہے۔ فروری 2021 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے جب سال دو سال کی بنیاد پر ماہانہ اکسپورٹ میں کمی آئی ہے۔ یہ کم ہو کر اب 30 ارب ڈالر سے نیچے آگیا ہے۔ دوسری طرف نومورا کا کہنا ہے کہ جی ڈی پی کے اعداد و شمار کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مالیاتی سال 2023-24 میں بھارت کی نمو گھٹ کر 5.2 فیصد پر آجانے کا اندازہ ہے۔ یہ جاریہ مالی سال کے اندازہ 7 فیصد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جی ڈی پی نمو کے تازہ اعداد و شمار سے اشارہ مل رہا ہے کہ کورونا وبا کے بعد شعبہ خدمات میں آنے والی تیز رفتار ریکوری اب سست پڑنے لگی ہے۔
اکثر ماہرین اقتصادیات کو بھروسہ ہے کہ ملکی معیشت چوتھی سہ ماہی میں اپنے سابقہ حالت میں لوٹ آئے گی۔ مرکزی بینک کو بھی یقین ہے کہ چوتھی سہ ماہی تک ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن رہے گا۔ مگر حکومت کو بروقت چند مناسب اقدام کرنے ہوں گے مثلاً مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کرنی ہو گی کیونکہ ڈالر کے مقابلے روپے کی کم مائیگی اور شرح سود میں مسلسل اضافہ مہنگائی کو قابو کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ عالمی مندی کی آہٹ ہے مگر گھریلو طلب بڑھنے سے حالات بہتر ہوں گے۔ سرمایہ کاری کو بھی مہمیز ملے گی۔ روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے کورونا کے قہر کے زمانے میں خط افلاس کے نیچے جانے والوں کی حالت بہتر ہو گی کیونکہ 2016 سے ہی مینوفیکچرنگ شعبہ میں روزگار نصف سے بھی کم ہو گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ بازار میں طلب اور سپلائی چین میں توازن قائم ہو۔ دوسری طرف برآمدات بڑھانے کے لیے موافق حالات بنانے ہوں گے۔ ساتھ ہی ملک کے صنعتی شعبہ میں مناسب حالات بنائے جائیں تاکہ برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔ اس سے جہاں روزگار کی فراہمی ہو گی وہیں برآمدات سے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ کو بھی مضبوطی ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی شعبہ زراعت سے منسلک صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے معیشت کو متحرک کیا جائے۔ غور طلب ہے کہ چین نے نو ماہ میں 89.66 بلین ڈالر کا ہمیں ایکسپورٹ کیا اور ہم نے 13.97 بلین ڈالر کا ہی سامان ہی چین کو اکسپورٹ کیا۔
مذکورہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری معیشت ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے اور حسب توقع آر بی آئی کے شرح سود میں اپنی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کی سہ روزہ میٹنگ میں 0.35 فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے بینکوں سے ملنے والے تمام قرض مہنگے ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ آر بی آئی نے امسال شرح سود میں پانچویں بار اضافہ کیا ہے۔ اب تک آر ای ایم آئی (ماہانہ قسط) قرضوں کی ادائیگی کی جا رہی تھی۔ یوں تو آر بی آئی کا یہ قدم مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کے اثرات خاطر خواہ نہیں ہوں گے۔ آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے تسلیم کیا ہے کہ 2024 کے مالیاتی سال کی دوسری سہ ماہی بھارتی معیشت کے لیے مزید ابتری لے کر آئے گی کیوں کہ اس دوران مالیاتی شرح نمو 5.9 فیصد تک گھٹ سکتی ہے۔
حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری معیشت بے سمتی کا شکار ہے۔ اس لیے اب بے روزگاری، مہنگائی، تجارتی خسارہ اور اقتصادی بد انتظامی سے نکلنے میں معیشت کو کافی وقت لگے گا۔ مودی حکومت ملک کے نامی گرامی ماہرین معاشیات، پروفیسر ابھیجیت بنرجی ،پروفیسر رگھو رام راجن، پروفیسر امرتیہ سین اور ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسے درجنوں ماہرین معاشیات کے مشوروں کو خاطر میں نہیں لاتی ہے کیونکہ ان کے افکار آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ نہیں ہیں، چاہے وہ ملک کے لیے بہت مفید ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ ماہرین، حکومت کو بار بار مشورہ دے چکے ہیں کہ حکومت ترقی کے منصوبوں کے اخراجات میں اضافہ کرے اور غریبوں کے ہاتھوں میں نقدی پہنچائے تاکہ ان کی قوت خرید بڑھے اور طلب میں اضافہ ہو تاکہ گھریلو بازار میں ترقی ہو۔
***
مودی حکومت ملک کے نامی گرامی ماہرین معاشیات، پروفیسر ابھیجیت بنرجی ،پروفیسر رگھو رام راجن، پروفیسر امرتیہ سین اور ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسے درجنوں شخصیات کے مشوروں کو خاطر میں نہیں لاتی ہے کیونکہ ان کے افکار آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ نہیں ہیں، چاہے وہ ملک کے لیے بہت مفید ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ ماہرین، حکومت کو بار بار مشورہ دے چکے ہیں کہ حکومت ترقی کے منصوبوں کے اخراجات میں اضافہ کرے اور غریبوں کے ہاتھوں میں نقدی پہنچائے تاکہ ان کی قوت خرید بڑھے اور طلب میں اضافہ ہو تاکہ گھریلو بازار میں ترقی ہو۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022