میر واعظ عمر فاروق کو ابھی بھی نظربند رکھا گیا ہے، انھیں نماز جمعہ کی امامت کی اجازت نہیں
سرینگر، مارچ 5: حریت کانفرنس نے آج دعویٰ کیا ہے کہ اس کے چیئرپرسن میر واعظ عمر فاروق کو نظر بند رکھا گیا ہے اور انھیں سرینگر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی امامت سے بھی روکا گیا ہے، حالاں کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کے حکام نے یہ دعوی کیا ہے کہ انھوں نے انھیں 20 ماہ بعد حراست سے رہا کردیا ہے۔
پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق حریت کے ترجمان نے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ پولیس عہدیداروں نے جمعرات کی رات دیر گئے میر واعظ کی رہائش گاہ پر انھیں یہ پیغام پہنچایا کہ وہ ابھی بھی نظربند ہیں اور انھیں جامع مسجد میں نماز جمعہ کے لیے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ جمعہ کی صبح تک حکام نے ان کے گھر کے باہر اضافی دستے بھی تعینات کردیے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’حریت کانفرنس سخت ناراضگی اور افسوس کا اظہار کرتی ہے کہ اگست 2019 کے بعد سے ہمارے چیئرمین اور میر واعظِ کشمیر عمر فاروق کو 20 ماہ طویل نظربندی سے رہا کرنے کے اعلان کے بعد سرکاری حکام اپنے فیصلے سے مکر گئے۔‘‘
آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو مرکزی حکومت کے ذریعے ختم کرنے کے بعد فاروق کو گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں انھیں گھر میں نظربند کردیا گیا تھا۔ جمعرات کے روز فاروق کے ایک قریبی ساتھی نے دعوی کیا تھا کہ ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں ختم کردی گئی ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے مطابق انتظامیہ نے نہ تو اس کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی اس سے انکار کیا ہے۔
دی ہندو کے مطابق حریت کانفرنس نے اعلان کیا تھا کہ فاروق، حکام کے ذریعہ آزاد ہونے کے بعد جمعہ کے روز مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے اور جامع مسجد میں خطبہ بھی دیں گے۔ میر واعظ کے متعدد عقیدت مند مسجد کے احاطے میں ان کے استقبال کی تیاری کر رہے تھے۔
حریت کے ترجمان نے کہا کہ حکومت کا فاروق کو دوبارہ حراست میں لینے کا مبینہ اقدام آمرانہ ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے ستمبر میں پارلیمنٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں کسی کو بھی گھر میں نظربند نہیں رکھا گیا ہے۔ ’’اگر ایسا ہے تو میر واعظ کو حراست میں کیوں لیا جاتا ہے؟‘‘
تاہم حریت کانفرنس کے ترجمان نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ امید سے محروم نہ ہوں اور کسی بھی طرح سے کسی بھی طرح کے پرتشدد احتجاج کا راستہ اختیار نہ کریں۔