نابالغ مسلم لڑکی نے مبینہ اجتماعی عصمت دری کے بعد خودکشی کر لی، اہل خانہ نے کیا انصاف کا مطالبہ
لکھنؤ، فروری 3: اتر پردیش کے کشی نگر میں چار ماہ قبل ایک نابالغ مسلم طالبہ کی مبینہ اجتماعی عصمت دری کے بعد خودکشی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
متاثرہ کے اہل خانہ کے مطابق لڑکی نے یہ جان کر خودکشی کرلی کہ ایک ویڈیو (اس کے ساتھ گھناؤنے فعل کا) وائرل ہورہا ہے۔
یہ مقدمہ 19 ستمبر 2021 کو پیش آنے والے واقعے سے متعلق ہے۔ واقعے کے چار ماہ گزرنے کے بعد بھی ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اہل خانہ نے پولیس پر اس معاملے میں لاپرواہی کا الزام لگایا ہے۔
متاثرہ کا خاندان اتر پردیش کے کشی نگر ضلع کے کھیسیا مانساچھاپر کے جٹاہن بازار کا رہنے والا ہے۔
انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے متاثرہ کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ ’’پولیس ملزمان کو تحفظ دے رہی ہے اور ملزمان ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر ہم نے مقدمہ واپس نہ لیا تو وہ ہمیں جان سے مار دیں گے۔‘‘
اہل خانہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے۔ بالآخر عدالت کی مداخلت کے بعد تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ایف آئی آر درج کرائی گئی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جنسی زیادتی کی تصدیق نہیں ہوئی، لیکن اہل خانہ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی صداقت پر سوال اٹھایا ہے۔ تاہم معاملے کے تفتیشی افسر وریندر سنگھ نے ان تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔
انڈیا ٹومور سے بات کرتے ہوئے متاثرہ کے والد حسام الدین نے کہا ’’میری بیٹی، جو کلاس 9 کی طالبہ تھی اور 14 سال کی تھی، اسکول کے قریب ٹیوشن کی جگہ کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلی تھی، جب پرشانت سنگھ اور چھوٹے لال یادو نے اپنے ساتھی صدام کے ساتھ مل کر میری بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور اسے قریب کی ایک دکان میں لے جا کر اس کی عصمت دری کی۔ انھوں نے اس عمل کی ویڈیو بھی بنائی۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد وہ گھبرا کر گھر واپس آئی اور اپنے کمرے میں لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد محلہ (علاقہ) میں شور مچ گیا کہ اس فعل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے میری بیٹی کو خودکشی پر بھی اکسایا۔ آخر کار میری بیٹی نے اپنے دوپٹہ کی مدد سے چھت کے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی۔
متاثرہ کے اہل خانہ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’متعلقہ تھانے کی پولیس اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے۔ کئی دنوں تک تھانے کے چکر لگانے کے بعد ہم نے عدالت سے رجوع کیا۔ اس طرح واقعہ کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ایف آئی آر درج ہو سکی۔‘‘
خاندان نے ایف آئی آر میں چار افراد پرشانت سنگھ، چھوٹے لال یادو، صدام اور سہیلی زیب النسا پر گینگ ریپ، ویڈیو بنانے اور متاثرہ کو خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام لگایا ہے۔
متاثرہ کے والد نے الزام لگایا ہے کہ اس کی بیٹی نے ویڈیو وائرل ہونے کی خبر سن کر خودکشی کرلی۔
اہل خانہ نے پولیس پر متاثرہ کا موبائل فون رکھنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ متاثرہ کے والد نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ پولیس نے تفتیش کے نام پر میری بیٹی کا موبائل اپنے پاس رکھا اور واقعے کے چار ماہ گزرنے کے بعد بھی اسے واپس نہیں کیا۔ مزید یہ کہ ملزمان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔
انڈیا ٹومورو سے فون پر بات کرتے ہوئے پولیس نے اسے خودکشی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے اس واقعہ کو دونوں فریقوں کے درمیان آپسی عداوت کا معاملہ قرار دیا ہے۔ پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم سے زیادتی کی تصدیق نہیں ہوئی۔
تاہم اہل خانہ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی صداقت پر سوال اٹھایا ہے۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے زیادتی کی تصدیق کے لیے ضروری نمونے نہیں لیے۔ اس کے بجائے خاندان کا دعوی ہے کہ پولیس نے انھیں ایک ہفتے سے زیادہ کے بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ دی.
اہل خانہ انصاف کی امید میں چار ماہ سے سرکاری دفتر کے چکر لگا رہے ہیں۔
متاثرہ خاندان نے ریاست کے وزیر اعلیٰ سے انصاف کی اپیل بھی کی ہے۔ یہ خاندان دو ہفتے قبل گورکھپور کے گورکھ ناتھ مندر گیا اور وزیر اعلیٰ کے نمائندے سے ملاقات کی، انھیں معاملے سے آگاہ کیا اور ضروری کارروائی کی اپیل کی۔ تاہم اب تک کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔