پروفیسر محسن عثمانی ندوی
یوں تو انسانی سیرت کی تشکیل خدا کی مشیت کے مطابق ہوتی ہے لیکن اس کے لیے ظاہری اسباب قدرت کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں ، انسان کے اندر کسی منزل تک پہنچنے کی خواہش پیدا کی جاتی ہے اور سرپرستوں کے دل میں وہی بات ڈالی جاتی ہے، سارا ماحول اس کا ہمسازاور ہمنوا بن جاتا ہے،ہوا پانی سب اس کے راستہ کے مددگار بن جاتے ہیں۔ اردو کے ایک شاعر نے اس خیال کا اظہار اس طرح کیا ہے ‘‘میں بن گیا ہوں مجھے چاک سے اتارا جائے’’
نام اور کام الگ الگ ہوتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر کوئی انجینیر کوئی پیر طریقت کوئی ادیب کوئی ناول نگار کوئی تاجر کوئی دوا فروش۔ ہزاروں نام ہیں کس کو کیا نام اور کیا کام دیا جائے گا وہ پہلے سے آسمانوں پر طے ہوتا ہے
‘‘نا حق ہم مجبوروں پر تہمت ہے خود مختاری کی’’
اگر یہ بات حقیقبت پر مبنی نہ ہوتی توسب مالدار ہوتے، سب کے گھر میں ہن برستا، کوئی مزدور نہ ملتا کوئی محتاج نہ ہوتا سب کے سر پر تاج ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے کیونکہ
گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن۔
یہ اختلاف مقصود قدرت ہے ۔قدرت نے مجھے ایک صاحب قلم بنایا مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اس راہ پر کشاں کشاں لے جایا گیا ہوں ۔ مجھے صاحب قلم مضمون نگار، مصنف اور عربی زبان وادب سے آشنابنانا قدرت نے طے کیا تھا اور قدرت مجھے اس راستہ پر لے چلی تھی، اس لیے میرے والد کے دل میں مجھے ندوۃ العلماء بھیجنے کا خیال ڈالا گیا۔ میرے والد کے حقیقی ماموں ڈاکٹر شاہ زین العابدین عثمانی ندوہ میں تعلیم حاصل کرچکے تھے اور ہمارے خاندان کی ایک شخصیت جناب طیب عثمانی کی تھی وہ ندوہ میں زیر تعلیم تھے۔ یہ اسباب رہے ہوں گے جن کی وجہ سے ندوہ بھیجنے کا خیال آیا ہوگا۔ جناب طیب عثمانی مجھے لے کر ندوہ گئے اور وہاں میرا داخلہ ہوگیا۔ میں وہاں کا سب سے چھوٹا طالب علم تھا۔ عمر آٹھ سال، ندوہ کے استاذ مولانا عبد الحفیظ بلیاوی صاحب مصباح اللغات کہا کرتے تھے کہ اس لڑکے کو ماں کا دودھ چھڑا کر ندوہ بھیج دیا گیا ہے۔
میں ندوہ سے گرمی کی چھٹیوں میں گھر آتا تو والد صاحب مرحوم شاہ محمد عثمانی پڑھنے کے لیے کتاب دیتے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار انہوں نے مولانا سعید احمد اکبرآبادی ایڈیٹر برہان کی کتاب ‘‘صدیق اکبر’’ پڑھنے کے لیے دی اور چند روز کے بعد پوچھا کتاب پڑھی یا نہیں ۔واقعہ معمولی ہے لیکن اسی انداز سے ہماری تربیت ہوئی۔ پھر ندوہ میں تعلیم کے زمانہ میں قاضی سلیمان منصورپوری کی رحمۃ للعالمین اور مولانا علی میاں کی کئی مشہور کتابیں اور دار المصنفین کی کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ندوہ سے آنے کے بعد ہائی اسکول سے گریجویشن کی منزل تک کتابوں سے جو رشتہ قائم ہوگیا تھا وہ استوار رہا۔ پٹنہ میں گورنمنٹ اردو لائبریری گھر سے ایک دو کیلو میٹر کے فاصلہ پر تھی میں وہاں جایا کرتا لیکن کتاب میرے نام ایشو نہیں ہوتی کیونکہ میں لائبریری کا ممبر نہ تھا اور سلطان صاحب جو لائبریرین تھے مجھے ممبر بنانے کے لیے تیار نہ تھے اور میرے لیے روزانہ آکر کے اور بیٹھ کرکے کتابیں پڑھنا دشوار تھا اور میں ان لوگوں کو رشک کی نظر سے دیکھتا جو کتابیں ایشو کراکے گھر لے جاتے ہیں اور آرام سے مطالعہ کرتے ہیں ۔ایک دن میں نے ہمت کی اور گورنمنٹ اردو لائبریری کے صدر نواب حیدر امام کے پاس ایک درخواست لے کر چلاگیا ،وہ شہر کی بڑی شخصیت تھے اور پٹنہ مارکٹ کے مالک ومختار تھے اور مارکٹ سے متصل ان کی حویلی تھی۔ انہوں نے درخواست پڑھتے ہی مجھے ممبر بنانے کا حکم نامہ لکھ دیا۔ دل کی کلی کھل گئی ،خوشی کے چراغ روشن ہوگئے، میں درخواست لے کرسلطان صاحب کے پاس گورنمنٹ اردو لائبریری پہنچا۔۔چہرہ پر ناگواری کا رنگ آیا لیکن وہ کیا کرسکتے تھے مجھے ممبر بنا لیا گیا اورشہر علم کے دروازے کھل گئے۔ کتابیں ایشو کروا کے گھر لانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
ماہ وسال کی کئی گردشیں مکمل ہوگئیں۔ میں نے ہائی اسکول سے لے کر گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کرلی اور صدائے عام اخبار میں کام بھی شروع کر دیا تھا۔ پٹنہ میں مہندرو محلہ کے مکان سے شاہ گنج کے نئے مکان میں ہم منتقل ہوگئے تھے۔ والد صاحب جو پہلے نقیب کے ایڈیٹر تھے کلکتہ چلے گئے اور پھر مکہ معظمہ۔ وہاں ان کے ماموں رہا کرتے تھے شاہ زین العابدین عثمانی ندوی جو ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے دوستوں میں تھے اور ذاکر صاحب ملک کی صدارت کے زمانہ میں جب عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے لاو لشکر کے ساتھ ان سے ملنے بھی گئے تھے ۔میرے پاس مدرسہ کی ڈگری بھی تھی اور پٹنہ یونیورسٹی کی ڈگری بھی۔ اس درمیان میں ڈاکٹر عابد رضا بیدار خدا بخش لائبریری کے ڈائرکٹر ہو کر پٹنہ تشریف لائے۔میں پٹنہ کے اخبار صدائے عام میں کام تو کررہا تھا لیکن ایسی مستقل ملازمت کی تلاش تھی جو میرے ذوق کے مطابق ہو اور جس سے علمی حاسہ کی تسکین ہو۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار لائبریری کے کیمپس میں منتقل ہونے سے پہلے رمنہ روڈ کے ایک مکان میں فروکش ہوئے،میں نے ان سے ملاقات کی،اپنے والد کے بارے میں بھی بتایا جن کے جمیعۃ علماء سے تعلق کی وجہ سے مولانا حفظ الرحمن اور مفتی عتیق الرحمن عثمانی سے اچھی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار کا مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب سے گہرا تعلق تھا۔ طویل گفتگو کے بعد میں واپس ہوا اور ایک دن معلوم ہوا کہ میرا تقرر خدا بخش لائبریری میں کسٹوڈین کے عہدہ کے لیے ہوگیا ہے۔ ریڈنگ روم کی ذمہ داری سپرد ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ علم کا خزانہ میرے سپرد ہوگیا ہے۔ علم کے دروازے یعنی جنت کے دروازے میرے لیے کھل گئے۔ مخطوطات کو چھوڑ کر تمام کتابوں تک رسائی ہوگئی۔ ہر موضوع ہرزبان میں کتابیں، رسائل اور مجلات کے ڈھیر، اہل علم اور اہل دانش سے ملاقات اور مسلسل سمینار مسلسل علمی مذاکرے۔ اہل فکر اور اہل ادب کے لکچر۔ مخطوطات کی تلاش میں سرگرداں رہنے والوں کی قطار، نادر کتابوں کی فوٹو اسٹیٹس اور مائکروفلم لینے والوں کی آمد۔مجھے محسوس ہوتا کہ میں شہرِ علم میں داخل ہوگیا ہوں یا یہ ہارون رشید کا کوئی دارالحکمۃ ہے جہاں ملک کے اہل علم جمع ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار کو کتاب سے اور کتاب خانہ سے والہانہ محبت تھی۔ ہر وقت اس کی ترقی اور توسیع کی فکر ،وہ خود محنت کرتے تھے اور لائبریری میں کام کرنے والوں کو محنتی اور ایمان دار دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لائبریری میں کام کرنے والوں میں وہی صفات پیدا ہو جائیں جو ان کے اندر ہیں، وہی فرض شناسی وہی ایمان داری ،انہوں نے لائبریری کو ایک مردہ خانے یا میوزم سے ایک زندہ و تابندہ علمی ادارہ سے بدل دیا تھا، چمن میں بہار آگئی تھی، گلشن سے خزاں رخصت ہوگئی تھی:
شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی
ورنہ یہاں کلی کلی مست تھی خواب ناز میں
لیکن شہر میں اور لائبریری میں ایک مافیا تھا جس کا خیال تھا کہ لائبریری شہر عظیم آباد کی لائبریری ہے اور اس شہر میں دانشوروں کی کیا کمی تھی کہ باہر سے ایک شخص کو امپورٹ کرکے یہاں لایا گیا ہے جس نے لوگوں کا سکون سے جینا حرام کردیا ہے۔لیکن شہر کے جو واقعتاً اہل علم وتحقیق تھے جیسے پروفیسر حسن عسکری اور قاضی عبدالودود وغیرہ وہ سب بیدار صاحب کی قدر کرتے تھے۔پروفیسر حسن عسکری انتہائی سادہ مزاج کے آدمی تھے۔ سائیکل چلاتے ہوئے روز لائبریری آتے، لائبریری آنے کی وجہ سے ان کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی تھی۔ کوئی واقعہ پیش آجائے ان کے علمی معمولات میں فرق نہیں آتا تھا۔ یہ سب اہل علم حضرات لائبریری کی کایا پلٹ سے بہت خوش تھے، ان حضرات کے بیدار صاحب سے گہرے مراسم اور تعلقات تھے ۔بیدار صاحب کے علمی ذوق اور لائبریری کے کاموں سے مناسبت اور شغف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانہ میں پورے ملک میں ‘‘معارف’’ اور ‘‘برہان’’ اسلامی علوم کے سب سے معیاری مجلے تھے۔ ان دونوں کے مضامین کا اشاریہ انہوں نے تیار کیا تھا۔ عابد رضا بیدار صاحب خدا بخش لائبریری کے ڈائرکٹر تھے۔ انہوں نے وہ کام کیا جو ان کا فرض منصبی تھا، انہوں نے ایک خوشگوارعلمی انقلاب پیدا کردیا تھا۔شہر کی فضا بدل دی تھی۔ لوگوں کا تعلق کتاب اور کتاب خانہ سے قائم کر دیا تھا۔ خدا بخش لائبریری میں ایک روایت ربیع الاول کے مہینہ میں سیرت کا جلسہ منعقد کرنے کی تھی، انہوں نے یہ روایت باقی رکھی اور دہلی سے مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب کو مقرر کی حیثیت سے بلایا اور کامیاب جلسہ منعقد کیا۔ بیدار صاحب میں کئی غیر معمولی انسانی خوبیاں پائی جاتی تھیں ۔وہ ہر طرح کے کمپلکس سے آزاد تھے ۔ ایک بار وہ فیملی کے ساتھ رکشہ پر جا رہے تھے،رکشہ چلانے والا بہت لاغر اور کمزور تھا اس سے رکشا نہیں کھینچا جا رہا تھا۔ پٹنہ کالج کے سامنے سے گزرتے ہوئے انہیں محسوس ہوا کہ رکشہ چلانے والے کی ہمت جواب دے رہی ہے، انہوں نے ہاتھ کے ایک جھٹکے سے رکشہ راں کو ہٹایا اور خود رکشہ چلانے لگے، لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ پٹنہ کالج کے سامنے روڈ پر خدا بخش لائبریری کا ڈائرکٹر رکشہ چلا رہاہے اور خود رکشہ والا پیچھے بیچھے دوڑ رہا ہے۔جس نے اس واقعہ کو سنا اسے ہنسی آئی ۔میرے نزدیک یہ واقعہ ہر طرح کے کمپلکس سے آزاد ہونے کی علامت اور عظمت کی دلیل ہے۔ حضرت عمرؓ جن کی شخصیت وقت کے تمام فرمارواؤں سے زیادہ عظیم تھی جب وہ فلسطین کا چارج لینے پہنچے تو شہر میں اس حال میں داخل ہوئے تھے کہ ان کا غلام گھوڑے پر سوار تھا اور وہ خود لگام پکڑے ہوئے پیدل چل رہے تھے۔ لیکن حضرت عمر کی نام لیوا قوم گھر کے نوکر کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاسکتی ہے۔بیدار صاحب میں بہت سی انسانی خوبیاں تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انہیں کتاب اور کتاب خانہ سے محبت تھی اور خدابخش لائبریری کے لیے ان سے زیادہ مفید مستعد کارگزار اور کار پرداز کوئی ڈائرکٹر نہیں آیا۔کوئی ڈائرکٹر بہت محنتی اور ایماندار ہو اور ماتحت عملہ تساہل اور کسل مندی شکار ہو تو اختلاف ہونا لازمی ہے۔
خدا بخش لائبریری نے ہمارے علمی ادبی ذوق کی پرورش کی اور یہ سکھایا کہ اگر پروانہ کو چراغ چاہیے اور بلبل کو پھول چٖاہیے تو اہل علم کو کتاب چاہیے۔ لائبریری نے کتابیں پڑھنا اورکتابوں سے محبت کرنا سکھایا، علم کا ذوق اساتذہ سے اور علمی ماحول سے ملتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ اب اساتذہ بھی کتاب نہیں پڑھتے، کتابوں کی دکانوں پر بھی نہیں جاتے اور پھر اپنے بے علم ہونے کا اعتراف بھی نہیں کرتے۔ جو پہلے کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں وہ اب دہلی میں کبابوں کی دکانوں سے بدل گئی ہیں۔ اردو بازار سے اردو غائب ہوگئی۔ یہیں پہلے مشہور ادارہ ندوۃالمصنفین ہوا کرتا تھا
’’اب اسے ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر‘‘
اردو کے زوال کے اصل ذمہ دار اردو کے جاننے والے ہیں جو تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں لیکن کتابوں سے بے تعلق ہیں۔ وہ کوئلہ کی دلالی کا پیشہ اختیار کرتے تو بہتر ہوتاجس میں ہاتھ تو کالے ہوتے ہیں دل و دماغ تو کالے نہیں ہوتے۔
ہم نے خدا بخش لائبریری میں اسلامیات، ادب اور ہر موضوع کی کتابوں کا مطالعہ کیا ،ایک ہی موضوع پر کئی کتابیں پڑھیں۔ بعد میں اس کتاب خانہ کے فیض سے اس طرح کی مضامین قلم سے نکلے جیسے ‘‘سیرت پر اردو کی بہترین کتابیں’’ میں نے خلافت راشدہ کے موضوع پر کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا تو لکھا کہ حضرت ابوبکر پر سب سے اچھی کتاب مولانا سعید احمد اکبرابادی کی صدیق اکبر ہے حضرت عمر پر سب سے اچھی کتاب شبلی کی الفاروق ہے حضرت عثمان پر سب سے اچھی کتاب مولانا سعید احمداکبرآبادی کی عثمان ذوالنورین ہے اور حضرت علی پر سب سے اچھی کتاب مولانا ابو الحسن علی ندوی کی المرتضی ہے۔ یہ تقابلی مطالعہ لائبریری کا فیضان ہے۔ ہم نے بہت سے اہم ناول بھی یہاں پڑھے۔پروفیسر عبدالمغنی صاحب سے جب ہم نے حیات اللہ انصاری کی ناول نگاری کی تعریف کی تو اسے انہوں نے مبالغہ قرار دیا۔ انہوں نے لہو کے پھول کی پانچ جلدیں نہیں پڑھی تھیں جب میں نے انہیں لائبریری سے نکال کر کتابیں دیں اور انہوں نے پڑھیں تو وہ قائل ہوئے۔ وہ انگریزی کے استاد اور اردو کے مشہور نقاد تھے۔ انہوں نے حیات اللہ انصاری کے فن پر مضمون لکھا۔بھوپال میں اسلامک اسٹڈیز والوں کا سمینار تھا، میں نے زہراوی کے مخطوطہ پر عربی میں مضمون لکھا تھا جو پسند کیا گیا ،اس کے بعد میں نے خدابخش لائبریری کے نادر عربی مخطوطات پر کئی مضامین عربی میں لکھے جو کئی قسطوں میں کئی عربی رسالوں میں شائع ہوئے۔خدا بخش لائبریری کی جو نوعیت ہے اس لحاظ سے وہاں ایک عربی کے ماہر اور ایک فارسی کے ماہر کا موجود رہنا ضروری ہے۔ عرب دنیا سے اور ایران سے ریسرچ اسکالر اور محققین وہاں آتے رہتے ہیں اور مخطوطات کے ذریعہ تحقیق کی پیچیدہ راہوں سے گزرتے ہیں۔ میں نے عربی زبان میں اپنے علمی کاموں سے یہ ثابت کیا تھا کہ میرا انتخاب غلط نہیں تھا۔ میں دانش گاہوں کے بیسوں اساتذہ کی طرح عقیم کبھی نہیں رہا۔ اب میری کتابوں کی تعداد چالیس سے اوپر ہوچکی ہے۔ سب سے پہلے میرا ایک چھوٹا سا کتابچہ خدا بخش لائبریری میں شائع ہوا تھا، اس یلغار کی روک تھام کے لیے جو اس لائبریری کے ڈائرکٹر پر چار طرف سے ہو رہی تھی، مجھے لائبریری کے حالات معلوم ہوتے رہتے ہیں، اس وقت وہاں ایسے شخص کی کمی محسوس ہوتی ہے جو بیرون ملک سے آنے والے عرب محققین کے سوالات کا عربی میں جواب دے سکے، جو عربی میں خدا بخش لائبریری کا تعارف کراسکے جو عربی میں خدا بخش لائبریری پر اچھی کتاب لکھ سکے اور شہر کا اور لائبریری کا نام اور بھی زیادہ روشن کرسکے اور یہ کتاب پھر عرب دنیا میں پڑھی جائے۔ عابد رضا بیدار صاحب لائبریری کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے۔ ان کی زمانہ میں لائبریری نے خوب ترقی کی۔ عابد رضا بیدار صاحب نے اپنی ذمہ داریاں بوجہ احسن پوری کی ہیں۔یہ بھی عبادت ہے اور حدیث میں ہے کہ جو شخص کام کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اللہ اس شخص کو پسند کرتا ہے۔جس شخص کو اس حدیث میں شبہ ہو وہ اہل علم سے دریافت کرلے۔
علمی تحقیقی کاموں کامزاج بنانے کے لیے اور ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے لائبریری سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے، یہاں وہ موسم ہوتا ہے جہاں گلشن علم کے پھول کھلتے ہیں، یہ وہ ہسپتال ہے جہاں علم کا آکسیجن ملتا ہے اور جہالت کے مرض کی دوا ملتی ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں قدیم اور مرحوم علماء اور دانشوروں سے ملاقات ہوتی ہے، جن کی عمر کئی سو سال کی ہوچکی ہوتی ہے لیکن وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کی روحیں الماریوں میں بند ہوتی ہیں اور ایک طالب علم ان سے مستفید ہوسکتاہے اور ان کی شاگردی اختیار کرسکتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جس کا لائبریری سے کوئی تعلق نہیں اس کا علم سے تعلق نہیں۔ اس حقیقت کے باوجود میں زیادہ عرصہ تک خدا بخش لائبریری میں نہ رہ سکا۔ اگر چہ میں جہاں بھی رہا وہاں کی لائبریری سے تعلق رکھنے کی کوشش کی۔ عربی زبان وادب جس کے گیسووں کی چھاوں میں کئی سال زندگی کے گزارے تھے اس نے آل انڈیا ریڈیو دہلی کی عربی یونٹ میں پہنچادیا، جہاں خبروں اور مضامین کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ کرنا ہوتا تھا اور عرب دنیا کی لیے نشر کرنا ہوتا تھا اور پھر وہاں سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور پھر دہلی یونیورسٹی اور آخر میں انگلش اینڈ فارن لینگوجز یونیورسٹی حیدرآباد۔ ایک جگہ لکچرر دوسری جگہ ریڈر اور آخر میں پروفیسر۔ لیکن خدا بخش لائبریری میں ذوق کی ادبی اور علمی تربیت ہمیشہ کام آئی۔لیکن لکھنے کے موضوعات بڑی حد تک بعد میں بدل گئے۔ در اصل محسوس یہ ہونے لگا تھا کہ اس ملک میں صرف مخطوطات نہیں مسلمانوں کی حیات خطرے میں ہے اور اسپین کی تاریخ دہرائی جانے والی ہے۔ اس تیرہ وتار فضا میں ماحول سے بے نیاز ہوکر تحقیق اور ریسرچ کرنے والے شخص کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ بستی میں آگ لگی ہوئی ہو اور ایک شخص بستی سے باہر پیپل کے درخت کے سایہ میں بیٹھ کر بانسری بجا رہا ہو۔ میں تحقیق کی بانسری بجانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس ملک میں مسلمانوں کے مسئلہ کا حل کیا ہے یہ موضوع بن گیا۔ ہماری زیادہ تر تحریروں کا اور ہر تحریر کے جام سے سوز غم چھلکنے لگا۔ میں ملت کا حدی خواں بن گیا۔ ہر مضمون میں اشک رواں اور آہ وفغاں اور حل کی مفکرانہ تلاش۔پھر اس موضوع پر ہماری جو کتاب سب سے زیادہ مشہور ہوئی اس کا نام ہے ‘‘حالات بدل سکتے ہیں’’ جسے قاضی پبلشر نے شائع کیا تھا اور جس کے کئی ایڈیشن اضافوں کے ساتھ نکلے۔ کتاب اس شعر کا مصداق تھی
نوا را تلخ تر می زن چوں ذوق نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چوں محمل را گراں بینی
ادب کا اور کتابوں کے مطالعہ کا ذوق زندگی کا ہمسفر رہا۔ خدابخش لائبریری سے بعد میں ہماری دو کتابیں شائع ہوئیں‘‘ کتابوں کے درمیاں’’ اور ‘‘ستاروں کے درمیاں’’ مؤخرالذکر کتاب شخصیات پر ہے پھر ادب کی تاریخ اور تنقیدپر کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ دنیا کے ملکوں کے سفر ہوئے پھر ان تمام ملکوں کا ایک سفر نامہ شائع ہوا۔ ادب کے خیابان و گلزار سے ہمیشہ تعلق رہا اس لیے کئی کتابیں اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ آخر میں مشاہیر اسلام کی سیریز سات جلدوں میں شائع ہوئی۔ کتابوں اور کتابچوں کی مجموعی تعداد چالیس سے زیادہ۔ اب قلم کا سفر جو خدابخش لائبریری سے شروع ہوا تھا آخری پڑاو تک پہنچا ہے۔
وقت طلوع دیکھا وقت غروب دیکھا
اب فکر آخرت ہے دنیا کو خوب دیکھا
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024