مذہبی رواداری اور اسلام کا کردار

حقوق انسانی کی ادائیگی اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ

مولانا محمد جرجیس کریمی

اسلام روئے زمین پر آباد تمام انسانوں کو اللہ کی مخلوق قرار دیتا ہے، سب کا مادہ تخلیق ایک ہے اور سبھی ایک ہی طریقے سے پیدا کیے گئے ہیں، سب کے ماں باپ آدم اورحوا ہیں اورسبھی فطری اوصاف میں یکساں شریک ہیں۔ اسلام انسانوں کے درمیان مذہبی، فکری، اعتقادی اور لسانی اختلاف اورتنوع اور تکثر کوبھی ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اس اختلاف وتنوع کو اللہ کی مشیت اورخاص حکمت قراردیتاہے۔اس کا بنیادی مقصد لوگوں کی آزمائش کرنا ہے۔
اسلام انسان اور انسانیت کے احترام و تکریم کے پہلو کو مکمل ملحوظ رکھتا ہےاور خود برحق مذہب ہونے کے باوجوددوسرے مذاہب، عقائد اور افکار کو تسلیم کرتاہے؛ اوران کے ماننے والوں کومکمل مذہبی آزادی بھی دیتاہے، اور ان کے ساتھ رواداری کا معاملہ کرتاہے۔دیگر مذاہب سے تصادم کے بجائے اپنے ماننے والوں کوبقائے باہم کے اصول کا سکھاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺنے مدینے میں یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے ذریعے جس ’’مشترک معاشرہ‘‘ کی بنیاد رکھی، وہ تکثیری سماج کا پہلا نمونہ تھا۔حبشہ میں مسلمانوں کوہجرت اور قیام کی اجازت دی اور وہاں کے غیر مسلم ماحول میں مسلمانوں کا قیام پھر بادشاہ حبشہ نجاشی کا قبول اسلام اور ان کے اپنے ملک میں عیسائیوں اور دیگر غیر مسلمین کے ساتھ بہتر معاملات کرنے کی توثیق رسول اکرم ﷺنے فرمائی۔تکثیری معاشرے کا یہ دوسرا نمونہ تھا جو آپ ﷺکی موجودگی میں وقوع پذیر ہوا۔آپ ﷺکے بعد خلافتِ راشدہ، خلافت امویہ، خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ میں دیگر اہل مذاہب وعقائد کومکمل مذہبی آزادی اور شہری حقوق حاصل رہے، جس کی نظیر دنیا کےدیگر مذہبی حکومتوں میں نہیں ملتی ہے۔
اسلام اور مشتر کہ انسانی اوصاف
انسان کی تخلیق کا آغاز مٹی سے ہوا پھر اس کا مادہ تخلیق نطفہ قرار دیا گیا اس تخلیق میں دنیا کے تمام انسان یکساں طور پر شریک ہیں، اسلام اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍۢ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَٰكُم مِّن تُرَابٍۢ
(۱) ترجمہ: اے انسانو!اگر تم دوبارہ زندہ کیے جانے کے سلسلے میں شک وشبہ میں ہوتو ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیاہے۔
انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے روح تمام انسانوں میں موجود ہے،ایسا نہیں ہے کہ بعض انسانوں کو روحانی وجود سے سرفراز کیاگیا اور بعض کو اس سے محروم کر دیاگیا بلکہ تمام انسانوں کے اندر یکساں طریقے پر روح پائی جاتی ہے، اسی طرح تمام انسانوں کو اللہ تعالی نے عزت بخشی،تکریم انسانیت کا معاملہ بھی کسی مخصوص طبقے یا مخصوص مذہب والوں کے ساتھ خاص نہیں ہے، تمام انسانوں کو عقل وارادے سے بھی نوازااورعمدہ اوصاف سے آراستہ کیا؛ تاکہ اس دنیا میں سارے انسان یکساں طریقے سے زندگی بسر کریں اور دنیا کی تعمیرو ترقی میں حصہ لیں۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایاالَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ ۚثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡئِدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ
ترجمہ: اس نے یعنی اللہ نے ہر چیز کی بہتر تخلیق فرمائی، اورانسان کی تخلیق کا آغاز مٹی سے کیا، پھر حقیر پانی کے قطرے سے اس کی نسل جاری فرمائی، پھر اس کو مکمل کیا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی، اورتمہارے لیے کان آنکھیں اور دل بنائے، تم بہت کم شکرکرتے ہو۔
چنانچہ انسانی حقوق میں تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں ہے یعنی کسی انسان کی وجہ سے دوسرے انسان کے حقوق کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔
تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:تما م لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا۔
تمام انسانوں کے مادی ضروریات اور ان کی خواہشات و جذبات بھی یکساں ہیں،ایسا نہیں ہے کہ بعض انسانوں کی بناوٹ سونے چاندی سے ہوئی ہے، بعض انسان لوہے سے بنائے گئے ہیں اور بعض انسان مٹی سے بنائے گئے ہیں،بلکہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے اور خلقی اوصاف میں سب برابر ہیں۔ مذکورہ بالا آیات میں مشترکہ اوصاف مسلمانوں کو دوسروں سے قریب کرتے ہیں۔علم نفسیات کے مطابق جن دو انسانوں کے درمیان جتنے زیادہ مشترکہ اوصاف ہوں گے، ان میں اتنا زیا دہ قرب، ہم آہنگی اورشناسائی ہوگی۔
قرآن مجید میں دی گئی تعلیمات کو مسلمانوں نے ہمیشہ تسلیم کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے چنانچہ وہ سارے انسانوں کو انسانیت شریک بھائی سمجھتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اسی انسانی اخوت کی بنیاد پر انبیاء کرام کو ان کی قوموں کا بھائی فرمایا؛ چنانچہ فرمایاوَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ
(سورہ الاعراف 65)
ترجمہ:اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو(پیغمبر بناکر بھیجا) انہوں نے کہا کہ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو، نہیں ہے تمھارا کوئی معبود سوائے اس کے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ اسی طرح متعدد انبیاء علیہم السلام کو ان کی قوموں کا بھائی فرمایا گیا۔
مذہبی و فکری تنوع اور اسلام
دنیا میں تقریبا چار ہزار سے زائد مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں 10 بڑے بڑے مذاہب ہیں ان مذاہب اور افکار کا یہ اختلاف اورتنوع اللہ تعالی کی مشیت وحکمت کے تحت ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِين(22)
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمان وزمین کی تخلیق، اور تمہاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف ہے، یقینا اس میں جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: وَلَوْ شَآءَ ٱللَهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَلَـٰكِن يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ ۚ وَلَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (النحل93) ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تم لوگوں کوایک ملت بنا دیتا؛ لیکن جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور جس کو چاہتاہے گمراہ کردیتا ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔ ایک اورآیت میں فرمایا:لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۗ وَلَوْ شَاۤءَ اللّٰهُ لَجَـعَلَـكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰـكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِىْ مَاۤ اٰتٰٮكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَـيْـرٰتِۗ(المائدہ: 48) ترجمہ: تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک دستوراور طریقہ بنایا اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک قوم بنا دیتا؛ لیکن (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ وہ تم کو آزمائے اس میں جو تم کو عطا کیا، لہٰذا خیر کے کاموں میں سبقت کرو۔
مذکورہ بالا آیات سے صاف پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالی کی حکمت اور مشیت اس مذہبی اور اعتقادی اختلاف کی متقاضی ہے، اور اس کا مقصد بندوں کی ابتلا اور آزمائش ہے۔ اس مضمون کی آیات اور احادیث مسلمانوں کو تعلیم دیتی ہیں کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ امن وسلامتی سے زندگی بسر کریں۔اور عقیدہ و مذہب کے اختلاف کی وجہ سے ٹکراؤ تصادم خون خرابہ اور فتنہ فساد سے بچیں۔
حقوق انسانی اور اسلام
اسلام تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کو یکساں طور پر تسلیم کرتا ہے اور ان کے احترام کا حکم دیتا ہے چنانچہ اسلام کے نزدیک کسی انسان کی جان کی حرمت کو پامال کرنا یکساں طور پر گناہ عظیم ہے چاہے وہ جس مذہب کا ماننے والا ہو اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ۛ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِى الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا ۗ وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا ۗ وَلَـقَدْ جَاۤءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِى الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ(المائدہ: 32)
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پہ در پہ ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر ائے پھر بھی ان میں سے بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔
اسلام میں انسان کی جان کے احترام کی یہ اہمیت ہے کہ وہ مردہ شخص کے احترام کا بھی حکم دیتاہے۔ روایت میں وارد ہے کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان کے پا س سے ایک شخص کا جنازہ گزرا،تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے، ان کوبتایا گیا کہ یہاں کے کسی ذمی کا جنازہ ہے، تو انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺکے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے، آپ کو بتایا گیا کسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے؟
اسلام کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ کسی شخص کو زور زبردستی کی بنیاد پر مذہب اور عقیدہ بدلنے پر مجبور نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ابن الحصین انصاری کے دولڑکے تھے جو ہجرت سے پہلے عیسائی مذہب اختیار کرکے شام چلے گئے۔ پھر وہ مدینہ واپس آئے، تو انھوں نے ان دونوں سے مذہب اسلام میں داخل ہونے کے لیے اصرار کیا، ان دونوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ کے پاس لے کر آئے؛ تاکہ آپ انھیں اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کریں، ان کے والد کا کہنا تھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا میرا لخت جگر میری آنکھوں کے سامنے جہنم میں جائے گا؟ چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ(البقرۃ: ۶۵۲) ترجمہ: مذہب کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔پھر انھوں نے ان دونوں کو چھوڑ دیا۔(۲۱)
مدینے کا تکثیری معاشرہ۔
رسول اللہ ﷺنے جب مدینہ ہجرت کی اور پھریہاں پہلی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی توآپ ﷺنے مدینے میں معاشرے کودولحاظ سے مضبوط کیا:
(۱) انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات کا رشتہ استوار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے مال اور جائیداد میں شریک کیا۔ جس کی وجہ سے مہاجرین کی باز آباد کاری میں آسانی ہوئی۔
(۲) مدینہ میں رہنے والے مسلمان اور یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے مدینہ کے تمام شہریوں کوحقوق و فرائض میں مساوی حیثیت دی گئی۔اور مدینے کا د فاع سب کی مشترکہ ذمے داری قرار دی گئی۔
رسول اللہ ﷺنے پرُامن بقائے باہم کے لیے مدینے میں ایک ’’مشترک معاشرہ‘‘ قائم کیا، آپ نے اس کے لیے یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، یہ شہری حقوق اور مذہبی آزادی کے حوالے سے تاریخ کا پہلا معاہدہ تھا، جس میں یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی تھی اور ان کے دفاع اور تحفظ کی ذمے داری لی گئی تھی؛ لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پابندی نہیں کی،اور متعدد بار اس کی خلاف ورزیاں کیں جن کی ان کو بعض سزائیں دی گئیں۔
یہ متعدد دفعات پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر دفعات کا تعلق یہودیوں سے ہے،معاہدہ کے مشمولات مذہبی آزادی، حقوق کا تحفظ، جان ومال کا تحفظ، بیرونی حملہ آور دشمن کا مقابلہ،باہمی ہمدردی، کسی اختلافی معاملے کے حل کا طریق کار، مصالحت کا دائرہ اور اختیارات تھے۔
میثاق مدینہ کے بعض دفعات اس طرح تھیں۔
یہ تحریری معاہدہ مدینہ کے مندرجہ ذیل طبقوں کے درمیان ہے. محمد نبی رسول اللہ، مسلمان مہاجرین،مدینہ کے انصار، مدینہ کے یہودی، مدینہ کے نصرانی اور مدینہ کے غیر مسلم۔
دفع اول۔
مذکورہ بالا تمام شش گروہ سیاسی طور پر ایک جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دفعہ دوم۔
ان میں سے ہر گروہ فردا فردامندرجہ ذیل امور کا ذمہ دار ہے اور اس دفعہ میں مدینہ کے مندرجہ ذیل گروہ بھی شامل ہیں۔
بنوعوف
بنو حارث از قبیلہء خزرج
بنو ساعدہ
بنو جشم
بنونجار
بنو امر بن عوف
بنو نبیت
بنو اوس
دفعہ سوم۔
کوئی گروہ دیت کی مقررہ حدوں میں تخفیف کی راہ پیدا نہ کرے
کوئی مسلمان کسی مسلمان کے مظلوم حلیف یعنی موالی کے مقابلے میں اپنے حلیف کی ناحق حمایت نہ کرے
جو شخص باہم ادائے دیت میں سفارش کی راہ پیدا کرنے کی کوشش کرے اس شخص کے خلاف دوسرے مسلمانوں کو ورثاء مقتول کی مناسب طرفداری کرنا ہوگی
جو مسلمان خود یا اس کا بیٹا جماعت میں فساد اور تفرقہ پیدا کرنے میں مصروف ہو اس کے خلاف تمام مسلمانوں کو یکجا ہو کر یہ فتنہ ختم کرنا ہوگا
اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے کافر مارا جائے تو دوسرے مسلمان کا کافر کی حمایت میں مسلمان پر جورو تعدی کرنا خلاف معاہدہ ہوگا
اگر کافر مسلمان کے در پہ ہو تو کسی مسلمان کو ایسے کافر کی حمایت نہ کرنا ہوگی
مسلمانوں کا ہر فرد یکساں طور پر خدا کی پناہ میں ہے اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے دوست اور ولی ہیں
دفعہ چہارم۔
مسلمان کے لیے کسی یہودی کے ایسے معاملہ میں مدد کرنے کا کوئی حرج نہیں جس سے وہ یہودی مسلمان کے انصاف پر اطمینان حاصل کر سکے
مسلمان کے لڑائی میں شریک ہونے کے بعد کسی دوسرے مسلمان پر اس کی ذمہ داری عائد نہ کی جائے گی
تمام مسلمان اسلام کے احسن اور اقوم طریق پر ثابت قدم رہیں گےکوئی مسلمان کسی مشرک کو مسلمان کے خلاف پناہ نہ دے گا نہ کسی ایسے مال کا ضامن ہوگا جو مشرک نے ناجائز طور سے مسلمان کے مال سے حاصل کیا ہو اور نہ کوئی مسلمان مشرک حمایت میں مسلمان کے در پہ ہو گا۔
مومن کے قتل ناحق پر اگر ورثہ قتیل رضا مندی سے دیت لینے پر مائل نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا
جو مسلمان اس معاہدہ میں شامل ہیں اگر وہ دل سے اللہ تعالی اور یوم اخرت پر ایمان لا چکا ہے تو اسے کسی مفسد کی حمایت نہیں کرنی ہوگی اس کو پناہ دینا بھی اس کی حمایت میں شامل ہے ایسے بے انصاف مسلمان پر دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کی لعنت اور عذاب ہے جس عذاب کے بدلے میں اس سے کوئی بدلہ قبول نہ کیا جائے گا
سب اپنے باہمی تنازعات میں خدا اور محمدﷺ کی طرف رجوع کرنے کے پابند ہوں گے۔
یہودشرکائے معاہدہ کے لیے۔
مسلمانوں کی جنگوں میں ان کی مالی اعانت کرنا ہر یہودی پر واجب ہوگا۔
قبیلہ عوف کے تمام یہود کو مسلمانوں کے ساتھ ایک فریق کی حیثیت سے مل کر رہنا ہوگا مسلمان اور یہودی دونوں اپنے اپنے مذہب کے پابند رہیں گے
یہ ذمہ داری بنو عوف کے غلاموں پر بھی ان کے آقاؤں کی مانند عائد ہوگی اور عدم پابندی کی صورت میں ان کے آقا ان کی طرف سے جواب دہ ہوں گے سرکشی کی صورت میں نہ صرف بنو عوف کے مرد بلکہ ان کے بال بچوں پر بھی مواخذہ کیا جا سکتا ہے
اس دفعہ میں مدینہ کے مندرجہ ذیل یہود بھی شامل ہیں
بنو نجار، بنو حارث، بنو ساعدہ، بنو ثعلبہ اور ان کے حلیف،بنو جشم جو بنو ثعلبہ کی شاخ ہے بنو شطیبہ۔
الغرض یہ دفعہ ہر یہودی قبیلہ کے حلیفوں پر لاگو ہے۔
ان میں سے کوئی فرد یا شاخ یا قبیلہ اس دفعہ سے محمد ﷺکی اجازت کے بغیر مستثنی قرار نہیں پا سکتا۔
نہ ان میں سے کوئی فرد یا جماعت کسی کو مجروح کرنے پر مواخذہ سے بری و ذمہ قرار پا سکتا ہے۔
ان میں سے جو فرد یا جماعت قتل ناحق کا ارتکاب کرے اس کا وبال اس کی ذات اور اور اہل و عیال سب پر آسکتا ہے۔
یہود میں سے کسی پر ناحق ایسی تہمت پر اس کا ناصر اور حامی خدا ہے۔
مسلمان اور یہود دونوں اپنے اپنے مصارف زندگی کے خود کفیل ہوں گے۔
دونوں میں سے جو فرد اس قرارداد سے منحرف ہوگا دوسرا فریق اس باغی پر قابو حاصل کرنے میں پہلے فریق کا معاون ہوگا۔
یہود اور مسلمان دونوں ایک دوسرے گروہ اور فرد کے ساتھ صلح اور نصیحت پر عمل پیرا رہیں گے اور صلح و نصیحت میں کسی قسم کی رخنہ اندازی درمیان نہ آنے دیں گے۔
فریقین میں سے کوئی فرد یا جماعت دوسرے فریق کی حق تلفی گوارا نہ کرے گی البتہ ایک دوسرے گروہ کے مظلوم کی حمایت کرنا اس کا فرض ہوگا۔
مسلمان جب تک اپنے دشمنوں سے مصروف پیکار ہیں یہود ان کی مالی اعانت کرتے رہیں گے۔
شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔
ہر فرد اپنے ہمسائے کی طرفداری اپنے نفس کی مانند کرتا رہے گا۔
اس معاہدہ کے پابند افراد اور گروہ باہمی اختلاف اور تنازع کا مقدمہ اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺکے سامنے پیش کریں گے۔
شرکائے معاہدہ میں سے کوئی فرد یا جماعت قریش مکہ کو اپنے ہاں پناہ نہ دے گی اور نہ قریش مکہ کے کسی حلیف کی حمایت کرے گی۔
مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں شرکائے معاہدہ میں سے ہر فرد اور جماعت حملہ آور کے خلاف دوسرے فریق کی حمایت کی جائیگی۔
شرکائے قرارداد کسی جماعت کی طرف سے دشمن کے ساتھ مصالحت میں دوسرے گروہوں میں شریک نہ ہوں گے۔
دشمن سے صلح کی صورت میں اگر کسی نوع کی منفعت ہوگی تو مسلمانوں کی مانند دوسرے شرکائے قرارداد بھی اس سے نفع اندوز ہوں گے۔
۔البتہ جو شخص اپنے دین سے منحرف ہو جائے اس کے لیے یہ دروازہ بند رہے گا۔
جنگی حالت میں فریق معاہدہ کے ہر فرد کو مالی اعانت میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔
قبیلہ اوس کے یہود اور ان یہود کے موالی یعنی حلیف بھی اس قرارداد کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح وہ قبائل جن کا نام بنام ذکر کیا جاچکا ہے۔
اس معاہدہ کے خلاف ورزی ظالم اور مفسد کے سوا کوئی شخص نہیں کر سکتا۔
جو شخص معاہدے میں خلوص اور امن کے ساتھ سکونت رکھے اور وہ شخص جو مدینہ سے خلوص اور امن کے ساتھ کسی اور جگہ نقل مکانی کرنا چاہے ان دونوں پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن فساد اور شرارت کرنے کے لیے قیام مدینہ اور یہاں سے ترک اقامت دونوں پر گرفت ہے۔
جو شخص دوسروں کے ساتھ بھلائی کا طلبگار ہے اللہ تعالی اور محمد رسول اللہ ﷺبھی اس کے خیر اندیش ہیں۔
میثاق مدینہ کے علاوہ رسول اللہ ﷺنے یہود ونصاری کے لیے شہری حقوق کے حوالے سے متعدد دستاویزات جاری فرمائیں۔ آپ نے غزوہ تبوک کے بعد نجران کے عیسائیوں کے لیے ایک دستاویز لکھی جوانصاف، رواداری اور مذہبی آزادی کی آئینہ دار ہے۔ اس میں آپ ﷺنے ان کو مذہبی آزادی اور مکمل تحفظ دیا اور ان پربہت معمولی جزیہ مقرر کیا، آپ ﷺنے تحریرفرمایا: اہل نجران اور ان کے قرب وجوار کے لوگوں کے لیے اللہ کی پناہ ہے۔۔ ان میں سے کوئی دوسرے کے ظلم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوگا، متعلقہ دستاویز کے مطابق ہمیشہ اللہ کی پناہ اور نبی کا عہد رہے گا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالی کا امر آجائے، اگر وہ اپنے اوپر عائد ذمے داریوں کے بارے میں خیرخواہی اور بھلائی سے کام لیں گے تو۔
(جاری)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023