زعیم الدین احمد حیدرآباد
ملک کی معاشی صورتحال کو جانچنے کے لیے مختلف پیمانوں کا استعمال ہوتا ہے، ان میں سے کچھ پیمانے ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مثلا: جی ڈی پی اوسط گھریلو پیداوار میں کتنا اضافہ ہوا ہے، برآمدات میں کتنا اضافہ ہوا ہے، درآمدات میں کتنی کمی آئی ہے، بیرونی زرِ مبادلہ کی کیا صورت حال ہے، کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسیٹ کا کیا حال ہے، فسکل ڈیفسیٹ کا کیا حال ہے، بیرونی راست سرمایہ کاری ایف ڈی آئی ہو رہی ہے یا نہیں، اسٹاک مارکیٹ کی کیا صورت حال ہے، افراط زر میں کمی آئی ہے یا نہیں، قرضوں کی کیا کیفیت ہے وغیرہ۔
کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کو جانچنے کے یہ عام پیمانے ہیں، اگر یہ اشاریے صحیح سمت میں جا رہے ہیں تو سمجھیے کہ وہ ملک معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے، اگر ان اشاریوں میں گڑبڑ واقع ہو جائے تو سمجھ جائیے کہ ملک کی معاشی صورتحال غیر اطمینان بخش ہے۔ یہ ساری ضخیم اصلاحات ہم اکثر سنتے رہتے ہیں، ہندسوں کی جادو گری بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ ملک کے معاشی پیمانے بڑے اچھے ہیں اور ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے وغیرہ۔
ہم میں سے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ملک کی معاشی صورتحال کو جانچنے کے لیے ان پیمانوں کے علاوہ غیر مروجہ پیمانے یا اشاریے بھی پائے جاتے مثلا زیر جامہ کپڑوں کی معیشت، یعنی زیر جامہ کپڑوں کی خرید وفروخت کے لحاظ سے معیشت کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اس لیے کہ زیر جامہ کپڑے اشیائے ضروریہ میں شمار ہوتے ہیں، اگر کسی کہ پاس ان کو بھی خریدنے کی سکت نہیں ہے تو سمجھ جائیے کہ معیشت کی صورت حال نہایت ابتر ہے۔ پھر اسی طرح کوڑا کرکٹ کی معیشت، یعنی کوڑا کرکٹ کتنی مقدار میں نکل رہا ہے، اگر کوڑا کرکٹ زیادہ مقدار میں نکل رہا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے، کیوں کہ کوڑا کرکٹ نکلنے کی مقدار اسی وقت زیادہ ہوگی جب کہ اشیاء کی کھپت زیادہ ہوگی اور کھپت اسی وقت زیادہ ہوگی جب کہ لوگوں کی آمدنی اچھی ہوگی اور کچھ بچت بھی ہو رہی ہوگی۔ اسی طرح کے معاشی پیمانوں کو غیر روایتی پیمانے کہا جاتا ہے۔
ان ہی غیر روایتی معاشی پیمانوں میں سے ایک ہے چپلوں کی خریدی، یعنی یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگوں کی چپل خریدنے کی کیا صورت حال ہے، یا چپلیں بیچنے والوں کی معاشی کیفیت کا کیا حال ہے؟ اس کی خرید وفروخت سے معاشی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کیونکہ چپل ایک بنیادی ضرورت ہے جس کی ہر ایک کو ضرورت ہوتی ہے، ہر سطح کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق چپلیں خریدتے ہیں، مثال کے طور بڑے میٹرو پولیٹن شہروں کو لیجیے، یہاں متوسط طبقے کے لوگ ہزار، پندرہ سو روپے کا فٹ ویئر خریدتے ہیں، انہی شہروں میں کم قیمت کا فٹ ویئر خریدنے والے بھی ہوتے ہیں جیسے دو، تین سو روپے کے چپل، ان کے خریدنے والے نسبتاً غریب عوام ہوتے ہیں، ان خریداریوں کی بنیاد پر بھی معیشت کی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آئی سی ایس اے بیک بروکریج کے مطابق سال 2019-20میں ہمارے ملک کے عوام نے 260 کروڑ چپلوں کی جوڑیاں خریدیں ہیں، اس سال کو اس لیے لیا گیا ہے کیونکہ یہ کوویڈ سے پہلے کا سال ہے، اسی لیے معاشی اشاریوں کو ناپنے کے لیے اس سال کو بطور پیمانہ لیا گیا ہے۔ اگلے سال یعنی کوویڈ کی پابندیوں کے سال میں فٹ ویئر کی فروخت میں 35 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی۔ فروخت میں گراوٹ قابل فہم ہے کیونکہ عوام اپنے گھروں سے باہر نکل ہی نہیں سکے اس لیے انہیں چپلوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ پھر سال 2021-22 میں چپلوں کی فروخت میں اضافہ ہوا، جس کو معاشی اصطلاح میں پینٹ اپ ڈیمانڈ کہا جاتا ہے، یعنی لوگوں کو اس کی ضرورت تو تھی لیکن انہوں نے اسے مؤخر کرکے بعد میں خریدا، اسی لیے اس سال کے اشاریے بھی معاشی پیمانوں کو ناپنے کے لیے قبول نہیں کیے جاتے، کیونکہ مؤخر شدہ چیزیں خریدی جاتی ہیں تو لازمی طور پر فروخت زیادہ ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اصل اعداد وشمار سال 2022-23 کے اعداد و شمار کو ہی مانا جاتا ہے، اس مالی سال میں بھی آخری سہ ماہی کے اعداد و شمار کو ہی پیمانے کے طور پر لیا جاتا ہے کیونکہ اس سہ ماہی میں بہت سارے تیوہار دسہرہ، دیپاولی، کرسمس وغیرہ ہوتے ہیں اور عوام ان تہواروں میں بڑے پیمانے پر خریداری کرتے ہیں، چاہے وہ کپڑوں کی خریدی ہو یا گھریلو ساز و سامان ہو، الکٹرانک کا سامان ہو یا زیبائش کا سامان، یہاں تک کہ گاڑیوں کی خریداری بھی اسی سہ ماہی میں زیادہ ہوتی ہے۔ غرض ہر طرح کا سامان لوگ اکثر اسی سہ ماہی میں خریدتے ہیں۔ ہم یہاں دیکھیں گے کہ اس سہ ماہی میں فٹ ویئر کی فروخت کا کیا حال رہا ہے۔ یہاں پر دو طرح کے برانڈس کے اعداد و شمار پیش کیے جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان برانڈس میں سے ایک کا تعلق آئی سی یس آئی بیکڈ بروکریج سے ہے اور دوسرے کا تعلق ایچ ڈی ایف سی سے ہے۔ آئی سی آر اے نامی ادارے نے یہ اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ ایک برانڈ کا نام ‘ریلایژو’ ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو عوامی پزیرائی زیادہ حاصل ہے، گاؤں ہو کہ شہر ہر جگہ اس برانڈ کے فٹ ویئر مل جاتے ہیں، اس کے جوڑے کی قیمت کم از کم ساٹھ روپے ہوتی ہے، یعنی یہ کمپنی سستی قیمت کا فٹ ویئر فروخت کرتی ہے، آئی سی آر اے کے اس برانڈ کے خریدار 70 فیصد عام لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق مذکورہ سہ ماہی میں اس برانڈ کی چپل کی فروخت میں 8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر اس کا موازنہ کوویڈ سے پہلے والے مالی سال سے کیا جائے تو فٹ ویئر کی فروخت میں تقریباً 11 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ آخر فٹ ویئر کی فروخت میں کمی کیوں واقع ہو رہی ہے؟ فٹ ویئر تو ایک عام آدمی کی بنیادی ضرورت ہے، کیا لوگوں نے فٹ ویئر خریدنا کم کر دیا ہے؟ یا جو فٹ ویئرخریدے ہیں وہ زیادہ مضبوط و دیرپا ثابت ہو رہے ہیں؟ بات دراصل یہ ہے کہ فٹ ویئر مہنگے ہوگئے ہیں، ستم بالائے ستم حکومت نے ان پر جی ایس ٹی میں بھی اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا ہے، اسی لیے کمپنی نے قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جب سے اس برانڈ کے فٹ ویئر کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے تب سے کمپنی نے دو مرتبہ قیمتوں میں کمی بھی لائی، لیکن کمی لانے کے باوجود فروخت میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ 11 فیصد کی مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسرا برانڈ ہے اور بہت مشہور بھی ہے وہ ہے باٹا۔ اس کمپنی کے فٹ ویئر کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن پھر بھی اس کی فروخت میں 5 فیصد کی کمی درج گئی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اس اضافے کی وجہ سے فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن فٹ ویئر چوں کہ بنیادی ضرورت کی چیز ہے اس لیے اس کی فروخت میں کمی واقع ہونا تعجب خیز بات ہے۔ اخراجات بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک بنیادی یعنی ضروری اشیاء کی خریداری کا خرچ اور دوسرے ہے اختیاری اشیاء پر خرچ۔ بنیادی اشیاء جیسے اشیائے خورد ونوش، کپڑے، چپلیں وغیرہ، جن کو لازماً خریدنا ہی پڑتا ہے، اگر ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے فروخت میں کمی واقع ہو رہی ہو تو یہ معیشت کی تشویشناک صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ اگر عوام بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی خریدنے کے قابل نہیں ہیں تو پھر ہمارے ملک کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے۔ اختیاری اشیاء جیسے سواریاں، فریج، اے سی، ٹی وی وغیرہ جن کی خریداری کو مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے بلکہ نہیں بھی خریدا جا سکتا ہے، اگر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان کی خریداری میں کمی ہوئی ہے تو یہ کوئی زیادہ تشویشناک بات نہیں ہے کیونکہ یہ بنیادی ضرورت کی اشیاء نہیں ہیں اس لیے چپلوں کی قیمتیں اگر بڑھتی بھی ہیں تو عوام اسے خریدنا ترک نہیں کرتے کیوں کہ اس کا شمار اشیاء ضروریہ میں ہوتا ہے۔ چپلوں کی فروخت میں کمی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے گاوؤں و قریوں میں رہنے والے لوگوں کی آمدنی متاثر ہوئی ہے۔ مذکورہ بالا دو کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کی دیہی فروخت شہروں کی بنسبت شدید متاثر ہوئی ہے کیونکہ دیہی عوام کی آمدنی متاثر ہوئی ہے اس لیے ان کمپنیوں کے فٹ ویئر کی فروخت بھی متاثر ہوئی ہے۔ اس کے برخلاف بڑے شہروں میں مہنگے جوتوں و چپلوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی قسم کے رجحانات فلیٹس کی خریداری میں بھی دیکھنے کو ملے تھے جب مہنگے مکانات کی خریداری میں اضافہ اور اوسط درجے کے گھروں کی فروخت میں بھاری کمی نوٹ کی گئی تھی۔
حکومت کہتی ہے کہ معیشت 5 یا 7 فیصد ترقی کر رہی ہے، جو کہ اہم نہیں ہے، اصل سوال یہ ہے کہ عوام کی معاشی صورت حال کیا ہے؟ آبادی کے ایک بڑے حصے کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ایک مختصر حصہ امیر سے امیر ترین ہوتا جا رہا ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے جدو جہد کر رہا ہے اور ایک مختصر لیکن امیر طبقہ غیر ضروری اشیاء پر کروڑوں روپے خرچ کر رہا ہے۔ یہ معاشی عدم توازن کا کھلا ثبوت ہے۔
***
***
جی ایس ٹی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اس اضافے کی وجہ سے فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن فٹ ویئر چوں کہ بنیادی ضرورت کی چیز ہے اس لیے اس کی فروخت میں کمی واقع ہونا تعجب خیز بات ہے۔ اخراجات بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک بنیادی یعنی ضروری اشیاء کی خریداری کا خرچ اور دوسرے ہے اختیاری اشیاء پر خرچ۔ بنیادی اشیاء جیسے اشیائے خورد ونوش، کپڑے، چپلیں وغیرہ، جن کو لازماً خریدنا ہی پڑتا ہے، اگر ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے فروخت میں کمی واقع ہو رہی ہو تو یہ معیشت کی تشویشناک صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023