معاشی بد حالی، عصری تعلیم اور زکوٰۃ
مسلمانوں کی پسماندگی کا بڑا سبب موجودہ نظامِ تعلیم سے کنارہ کشی بھی ہے
مشتاق رفیقی، وانم باڑی
زکوٰۃ کو منظم انداز میں تعلیم کے لیے وقف کرنے سے امت کے مسائل کا مداوا ممکن
معاشی بدحالی اور غربت ازل سے انسانی زندگی کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا اور مشکل مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے سے چھٹکارا پانے کے لیے دانش وروں اور مخلص لوگوں نے اپنے اپنے زمانے میں بڑی کوششیں کی ہیں۔ ہر دور میں اس عفریت سے لڑنے کے لیے انسانوں کے درمیان ایک طبقہ موجود رہا ہے، اس کے باوجود آج تک اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکا ۔ موجودہ دور انسانی ترقی کے معراج کا دور ہے مگر اس دور میں بھی یہ قدیم مسئلہ اپنی جگہ اسی شدت کے ساتھ کھڑا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ صرف ایک مسئلہ ہے لیکن اس کے ساتھ جو مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں اور ان مسائل کے ساتھ جو نئے نئے مسائل پیدا ہوتے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ شیطان کی آنت ہے جس کی کوئی انتہا ہی نہیں۔
انسانی معاشرے میں معاشی بدحالی اور غربت کو کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اس میں مبتلا لوگوں کو جہاں انسانوں کے ایک طبقے نے ذلیل اور کم تر سمجھا تو وہیں ایک دوسرا طبقہ ہمیشہ ان کا استحصال کر کے اپنے آپ کو بلند کرنے میں لگا رہا۔مذاہب جس کے پیرو کاروں میں اکثریت مفلسوں اور ناداروں کی ہوا کرتی ہے وہ بھی ان کی دادرسی کرنے میں ناکام رہے، کچھ مذاہب نے حیرت انگیز طور پر غربت اور مفلسی کو خدائی عطیہ بتانے سے بھی دریغ نہیں کیا تاکہ لوگ معاشی اونچ نیچ کو تسلیم کرکے اس پر بے جا سوالات نہ کھڑے کریں۔ حالانکہ غریبی و مفلسی انسانی ہوس اور لالچ کے نتائج ہیں، اور ہوس و لالچ انسانی فطرت کا ہی حصہ ہیں۔ جب تک انسان اپنی اس فطری کمزوری پر قابو پانے کی کوشش نہیں کرے گا وہ معاشرے سے غریبی کو دور نہیں کر پائے گا۔
دین اسلام کو موجودہ ادیان میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ انسانی فطرت کا مکمل خیال رکھتا ہے۔ اس کے احکام انسانی فطرت کو بنیاد بنا کر وضع کیے گئے ہیں اور یہ بات اس کے حق ہونے کی ایک قوی دلیل بھی ہے۔اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید جس کا اصل موضوع انسان ہے دنیا کی وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس میں انسانی مسائل پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں خالقِ کائنات کی حمد و ثنا سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ انسان کس طرح اس دنیا کو اپنے اعمال سے امن کا گہوارہ اور جنت نظیر بنائے۔ دین اسلام کی یہ ایک ایسی خوبی ہے جس کی مثال دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ملتی۔
یہ اور بات ہے کہ وطن عزیز میں آج دین اسلام کے ماننے والے اپنے پاس ایسے بے نظیر اور فطری قوانین ہونے کے باوجود ذلیل و رسوا ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت غربت و مفسلی میں مبتلا ہے۔ در حقیقت یہ سب اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ روایات اور اندھی تقلید میں گم ہوکر امت اپنی اصل سے بھٹک چکی ہے اور اس ہدایت کے نور سے دور ہو چکی ہے جس کی روشنی میں آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے بدوؤں نے اس وقت کی عالمی طاقتوں کو سر نگوں کر دیا تھا۔
آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ کے اس واضح ارشاد کے باوجود کہ
کَادَ الْفَقْرُ أَنْ یَکُونَ کُفْرًا، ممکن ہے کہ فقیری کفر میں مبتلا کردے۔
اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ،اے اللہ! میں کفر اور محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
امت نے معاشرے میں غربت اور مفلسی کے ناسور کو پنپنے دیا اور اس کے دفع کرنے کی راہیں ہونے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی اور آج یہ عالم ہے کہ ہر چوراہے اور نکڑ پر ذلیل و خوار ہو کر مارے مارے پھر رہی ہے۔ کہیں دوڑا دوڑا کر ہمیں مارا جا رہا ہے تو کہیں کوئی معمولی درجے کا ملازم حالت سجدہ میں ہماری کمر پر لات مار دیتا ہے اور ہمیں سہنا پڑتا ہے۔ سماج میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہے، مفلسی اور غربت نے ہمیں اچھوت بنا دیا ہے۔ ہماری حیثیت بکریوں کے اس ریوڑ کی طرح ہوگئی ہے جس کے سر پر چھت کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں، ڈنڈے کے زور پر ہمیں کوئی بھی ہانک کر مذبح خانوں کی طرف لے جاسکتا ہے اور ہم سر جھکائے اس کے پیچھے چلنے کو تیار رہتے ہیں۔ایسا صرف اس لیے ہوا کہ ہم نے دین کو مذاق بنا لیا۔ اس کے صرف ان احکامات کو اپنایا جس میں اپنی انا کی تسکین ہوتی ہے، جس کے ذریعے جنت کا حصول بھی آسان ہوجائے اور ہمیں کچھ قربانی بھی نہ دینی پڑے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نماز کے ساتھ زکوٰۃ بھی ہم پر فرض ہے اور روزوں کے علاوہ حج کا بھی ہمیں حکم ملا ہے ہم نے ان فرائض کی بجا آواری میں غفلت برتی۔ کبھی مال کو حقیر جان کر اس کے حصول کی کوشش ہی نہیں کی کہ میں بھی صاحب نصاب بن کر زکوٰۃ ادا کروں گا اور کعبہ کی زیارت کا شرف حاصل کروں گا، تو کبھی مال رکھتے ہوئے بھی ان فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیاوی مال و متاع، خدائے ذوالجلال کے پاس موجود خزانوں کے آگے حقیر شے ہیں، لیکن جس کے خرچ کرنے پر آپ کو آپ کا خالق ملتا ہو وہ اتنی بھی حقیر نہیں ہو سکتی کہ آپ اس کے حصول سے ہی دامن چھڑا بیٹھیں۔ آپ کا دین آپ کو حلال رزق کی جستجو کا پابند ہی نہیں بناتا بلکہ اس بات پر اصرار بھی کرتا ہے کہ حلال مال کی تلاش اور کوشش میں لگنا آپ کا فرض ہے تاکہ آپ سے حقوق العباد کی ادائیگی آسان ہو جائے۔
فرمان ربی ہے: فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔
یعنی یہاں رزق حلال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے حصول کو عبادت کے فوراً بعد رکھ کر دوسرے اعمال سے مقدم کیا گیا ہے۔ پتہ نہیں اتنی واضح ہدایت کے باوجود کیوں امت اس فرض کی جانب جتنی سنجیدگی سے متوجہ ہونا چاہیے متوجہ نہیں ہوئی، اور آج اسی وجہ سے ہماری حالت معاشی لحاظ سے اتنی گر چکی ہے کہ الامان و الحفیظ!
یہ بات اب بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہوچکی ہے کہ ہم معاشی بدحالی اور غربت میں دوسری کئی اقوام سے بد تر مقام پر ہیں۔ اگر گہرائی سے اس حالت کا تجزیہ کیا جائے تو ایک بات جو سب سے واضح نظر آتی ہے جسے اس زوال کا بنیادی سبب بھی کہا جا سکتا ہے وہ یہ کہ عصری تعلیم سے ہماری لاپروائی اور انکار کی حد تک اس سے تغافل ہونا ہے۔ گزشتہ سو سالوں میں جب عصری تعلیم کا غلبہ شروع ہوا تو دوسری قوموں نے اس کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کو سر آنکھوں پر رکھا لیکن ہمارے کئی دانش وروں اور مصلحیان قوم کی لاکھ کوششوں کے باوجود ہم نے عصری تعلیم کو قابل اعتناء ہی نہیں سمجھا اور اس کو ایک طرح سے دھتکار دیا، جس کا خمیازہ آج ہم اور ہماری نئی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ عصری تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج اگر آپ کو کوئی چھوٹا سا چھوٹا کام بھی کرنا ہے یا کہیں معمولی نوکری بھی حاصل کرنی ہے تو بغیر اس کے آپ کچھ نہیں کرسکتے اور آپ کی حیثیت صفر ہوگی، اتنا ہی نہیں اس کی وجہ سے زندگی کے ہر موڑ پر آپ بری طرح دوسروں کے محتاج ہوں گے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس قوم کی جانب پہلی وحی ہی ‘پڑھو’ کی نازل کی گئی اور جسے بتایا گیا کہ تمہارے جد امجد آدمؑ کو اللہ نے سب سے پہلے اشیاء کے ناموں کی تعلیم یعنی عصری تعلیم دی تھی وہ روایات اور اندھی تقلید میں مبتلا ہوکر اس بات کو فراموش کر گئی۔ جسے دوسری قوموں کے لیے معلم اور نمونہ ہونا چاہیے تھا وہ اب اس تعلیم کے لیے دوسروں کی محتاج بنی کھڑی ہے۔ آج افسوس اس بات پر ہے کہ حالات اتنے دگرگوں ہونے کے باوجود ہم میں سدھار کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت غریبی اور مفلسی کے دلدل سے نکلے اور معاشی طور پر اتنی مضبوط ہو جائے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں نظر انداز نہ کر سکے تو سب سے پہلے امت میں عصری تعلیم کو ایک مضبوط لائحہ عمل بنا کرعام کرنا ہوگا۔ عصری تعلیم گاہوں کا ایک جال وطن عزیز کے کونے کونے میں بچھانا پڑے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے مراکز قائم کرنے ہوں گے۔ کچھ جگہوں پر بنیادی تعلیم کی سہولتیں موجود ہیں لیکن نتائج قابل قدر نہیں نکلتے۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ہے اس میں ہمارا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے اور یہ بڑے شرم کا مقام ہے۔ حکومتیں اس مسئلے میں ہمارے ساتھ کبھی سنجیدہ نہیں رہیں، سرکار کس کی بھی رہی ہو انہوں نے اس بات کو لے کر ہمارا استحصال تو کیا لیکن اس کو سلجھانے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا۔ موجودہ حالات میں ان سے امید نہیں کے برابر ہے۔ اب جو بھی کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کے لیے فنڈز کہاں سے دستیاب ہوں گے؟
اس گئے گزرے دور میں بھی ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو معاشی لحاظ سے کسی حد تک مضبوط ہے۔ خصوصاً وہ لوگ جو کسی کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں ان کی مالی حالت دوسروں سےبہت بہتر ہے۔ خاص کر جنوبی ہندوستان کے اور شمالی ہندوستان کے بھی کچھ مخصوص علاقوں کے مسلمانوں میں پچھلے کئی دہائیوں سے ان میں عصری تعلیم کے عام ہونے کے سبب معاشی طور پر مضبوطی پائی جاتی ہے۔ اور یہ سب شرعی اصطلاح کے تحت صاحب نصاب میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر یہ طبقہ ایک لائحہ عمل بنا کر سنجیدگی کے ساتھ اپنی زکوٰۃ کی رقم عصری تعلیم کو عام کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کو آسان کرنے میں لگائے تو ایک بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔ زکوٰۃ کے تعلق سے ہمارے یہاں جو سوچ ہے وہ بہت محدود ہے۔ حالانکہ یہ اللہ کی جانب سے دیا گیا ایسا طریقہ کار ہے جس پر اگر مکمل عمل ہوجائے تو ہمارے سارے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ قرون اولیٰ میں جب زکوٰۃ کا اجتماعی نظام ہمارے درمیان رائج تھا تو حال یہ تھا کہ امت میں زکوٰۃ لینے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ امت نے جب سے اس طریقے کو پس پشت ڈالا ہے مفلسی اور غربت کا طوق اس کے ایک بڑے حصے کے گلے میں پڑتا چلا گیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے اسی نظام کو اپنے درمیان لانے کی سعی کریں اور اس کے ذریعے عصری تعلیم کو عام کرکے امت کو غربت اور معاشی بدحالی کے صحرا میں بھٹکنے سے بچائیں۔
ایک سرسری اندازے کے مطابق وطن عزیز میں تیس سے چالیس ہزار کروڑ روپیوں تک کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے جس میں اکثر رقم صحیح آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یا غلط رہنمائی کی وجہ سے غلط ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے جس سے امت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر قوم کے دانش ور اور علماء حضرات ایک لائحہ عمل بنا کر اس رقم کو ضائع ہونے سے بچا لیں تو ان کا یہ عمل آج کی تاریخ میں ایک بہت بڑا جہاد ہوگا۔
ایک اشکال کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ کیا زکوٰۃ کی رقم عصری تعلیم کی مد میں خرچ کی جاسکتی ہے؟ تو جہاں تک زکوٰۃ کا تعلق ہے قرآن مجید میں صاف لفظوں میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ یہ رقم کن کن پر خرچ کی جاسکتی ہے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْل،ِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ،ِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔
(التوبہ : 60)
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے، قرض داروں کی مدد کرنے میں، راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
اس آیت میں زکوٰۃ کے درج ذیل مصارف بیان کیے گئے ہیں :
٭فقراء اور مساکین کے لیے
٭عاملین علیھا یعنی ریاست کے ملازمین کے لیے
٭مولفۃ قلوب یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے غیر مسلموں میں
٭ فی الرقاب یعنی غلامی سے نجات کے لیے
٭الغارمین یعنی قرض یا نقصان تاوان کے بوجھ تلے دبے لوگوں کی مدد کے لیے
٭فی سبیل اللہ یعنی دین کی خدمت اور لوگوں کی بہبودی کے کاموں کے لئے
٭ابن السبیل یعنی مسافروں کی مدد اور ان کے لیے سڑکوں پلوں اور سرائے وغیرہ کی تعمیر کے لیے
تدبر اور غور وفکر کر کے ہم ان میں کے تمام یا اکثر مصارف کو موجودہ دور میں عصری تعلیم کے عام کرنے سے جوڑ سکتے ہیں۔ مفلس اور فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ضروریات زندگی کا کوئی ساز و سامان نہ ہو حتٰی کہ دانے دانے کا محتاج ہو یعنی آج کی اصطلاح میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والا، ایسے شخص کی بہترین مدد یہی ہوسکتی ہے کہ اُسے یا اس کی اولاد کو تعلیم و فن سے جوڑ کر اس کی نسلوں کو زکوٰۃ لینے والا نہیں بلکہ زکوٰۃ دینے والا بنا دیں۔ اسی طرح مولفۃ قلوب پر اگر آج کے حالات میں تدبر کریں تو ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم عصری تعلیم گاہیں قائم کریں جہاں بلا تفریق قوم و ملت ہر کسی کو تعلیم کے مواقع میسر ہوں۔ اس سے عام معاشرے میں جہاں ہمارے تعلق سے مثبت پیغام جائے گا وہیں مستقبل میں ہمارے خیر خواہوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوگا جس کی موجودہ حالات میں ہمیں اشد ضرورت ہے۔ جنوبی ہندوستان میں آج اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔
غلامی یعنی ذلت کی زندگی جس میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے امت کی ایک بڑی اکثریت آج مبتلا ہے اس سے نجات کے لیے بھی عصری تعلیم پر خرچ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ الغارمین کے حوالے سے، آج امت کا اس سے بڑا نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں حقیر اور بے وزن ہوگئی ہے۔ نہ اس کے پاس اچھے وکلاء کی اکثریت ہے جو بے جا مقدمات میں پھنسے ہوؤں کو چھڑا سکیں اور نہ کسی بھی میدان کے ماہرین کی ٹیم ہے جو دین کی روشنی میں جدید مسائل کا حل بتا سکیں۔ فی سبیل اللہ اور ابن السبیل کی مد میں، اس کے بین السطور میں پوشیدہ عصری تعلیم اور اس پر خرچ کرنے کی ضرورت کو آپ ذرا سے غور و خوض کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں امت کا درد و فکر رکھنے والا شاید ہی کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے۔ اگر آج قوم کو کسی بات کی اشد ضرورت ہے تو وہ بس عصری تعلیم کی ہے اور اس لحاظ سے اس پرخرچ کرنا گویا آج کا افضل ترین عمل ہے۔
چونکہ اس کی امید کم ہی ہے کہ اجتماعی شکل میں امت فوراً اس کار خیر کی طرف متوجہ ہوجائے اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم میں کا ہر فرد جب تک کوئی اجتماعی نظام نہیں بن جاتا یہ بات ٹھان لے کہ وہ اپنی زکوٰۃ کی رقم کے علاوہ بھی اس سے جو بن پڑے گا وہ عصری تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے میں خرچ کرے گا۔ اپنے آس پاس میں اپنے رشتہ داروں میں اپنے شہر اور گاؤں میں جو بھی تعلیم سے بے گانہ آوارہ گردی میں نظر آئیں انہیں تعلیم کی طرف متوجہ کرے گا، جو تعلیم گاہوں میں خرچ کو لے کر پریشان ہیں ان کی ذمہ داری لے کر انہیں اعلٰی تعلیم تک آسانیاں فراہم کرتا رہے گا۔ اگر یہ روش ہمارے معاشرے میں عام ہوجائے تو اللہ سے قوی امید ہے کہ وہ ہمارے حالات ضرور بدلے گا۔
معاشی بدحالی اور غربت کی عفریت کو ہم ایک ہی ہتھیار کے ذریعے ختم کرسکتے ہیں اور وہ ہے ’تعلیم‘ اور اس کو عام کرنے کے لیے ہمارے پاس اللہ کا دیا ہوا زکوٰۃ کا نظام ایک نعمت ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس نعمت خداوندی کا ہر ممکن طریقے سے صحیح استعمال کرکے موجودہ دور کی طاقتوں سے علم کے بل بوتے پر آنکھ سے آنکھ ملانے والی طاقت بن جائیں ۔اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔
***
قرآن میں مذکور مصارف زکوٰۃ پر تدبر اور غور وفکر کر کے ہم ان میں کے تمام یا اکثر مصارف کو موجودہ دور میں عصری تعلیم کے عام کرنے سے جوڑ سکتے ہیں۔ مفلس اور فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ضروریات زندگی کا کوئی ساز و سامان نہ ہو حتٰی کہ دانے دانے کا محتاج ہو یعنی آج کی اصطلاح میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والا، ایسے شخص کی بہترین مدد یہی ہوسکتی ہے کہ اُسے یا اس کی اولاد کو تعلیم و فن سے جوڑ کر اس کی نسلوں کو زکوٰۃ لینے والا نہیں بلکہ زکوٰۃ دینے والا بنا دیں۔ اسی طرح مولفۃ قلوب پر اگر آج کے حالات میں تدبر کریں تو ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم عصری تعلیم گاہیں قائم کریں جہاں بلا تفریق قوم و ملت ہر کسی کو تعلیم کے مواقع میسر ہوں۔ اس سے عام معاشرے میں جہاں ہمارے تعلق سے مثبت پیغام جائے گا وہیں مستقبل میں ہمارے خیر خواہوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوگا جس کی موجودہ حالات میں ہمیں اشد ضرورت ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024