افروز عالم ساحل
آج سے ٹھیک 90 سال پہلے 4 جنوری 1931 کو ہندوستان کے عظیم آزادی پسند مجاہد اعظم مولانا محمد علی جوہر اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئے۔
مولانا جوہر 1930 میں ہندوستان کی آزادی کے لیے بیماری کی حالت میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن پہنچے۔ یہاں ان کی کی گئی تقریر تاریخی ہے۔ یہیں انہوں نے 19 نومبر 1930 کو اپنی تقریر میں کہا تھا، ’آج جس مقصد کے لیے میں یہاں آیا ہوں وہ یہی ہے کہ میں اپنے ملک کو ایسی حالت میں واپس جاؤں جب کہ آزادی کا پروانہ میرے ہاتھ میں ہو، میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا۔ ایک غیر ملک میں جب تک وہ آزاد ہے، مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔‘
اس وقت برٹش حکومت نے ہندوستان کو آزادی تو نہیں دی، لیکن مولانا جوہر نے آزاد ملک میں اپنے لیے قبر کی جگہ ضرور لے لی۔ اس مجاہد اعظم نے اپنی آخری سانس لندن کے ہائیڈ پارک ہوٹل میں لی۔ ان کی موت کی خبر نے پوری دنیا کو صدمے میں ڈال دیا۔ ہندوستان میں جب یہ خبر پہنچی تو پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ مختلف مقامات پر تعزیتی جلسے ہوئے، تقاریر کی گئیں، ان کے کاموں کا تذکرہ کیا گیا اور لوگوں کو ملک کی آزادی کے لیے مرمٹنے کے لیے حوصلہ دیا کیا گیا۔ ان جلسوں میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی شریک ہوتے تھے۔ یہی نہیں، ان سے متعلق متعدد اخبار و رسائل شائع ہوئے، جن میں مولانا کی قربانیوں کو بیان کیا گیا۔ ان میں سے’انقلاب‘، ’مدینہ‘ اور ’خلافت‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔عیسائی دنیا پر بھی مولانا کی وفات کی خبر نے گہرا اثر ڈالا۔ اخبار ’المقطم‘ نے لکھا، ’مولانا محمد علی جوہر ہندوستان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما اور دنیا کے مسلم رہنماؤں میں ایک بلند رتبے کے مالک تھے۔ انہوں نے اسلام، ہندوستان اور پورے مشرق کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔‘
مولانا جوہر کی نماز جنازہ کا وقت 5 جنوری 1931 کو شام 6 بجے پیڈگٹن ٹول ہال میں طے کیا گیا۔ خاص طور پر اس وقت کے ہزہائی نیس شاہ بلی خان، افغان سفیر عفیفی پاشا، مصری سفیر نوری اسفندیاری، ایران کے سفیر شیخ حافظ وہبا، سفیر حجزہ اور گول میز کے تمام ممبران نے انہیں کاندھا دیا۔ ہال کے باہر انگریزوں کا ہجوم تھا اور ہال کے اندر بھی تمام جماعتوں کے انگریز نمائندے موجود تھے۔ہر کسی کی خواہش تھی کہ مولانا محمد علی جوہر کو ان کے شہر میں دفن کیا جائے۔ لندن کے لوگوں کی رائے تھی کہ ان کو لندن میں ہی دفنایا جائے، لیکن گھر والے اس کے خلاف تھے۔ خاص طور پر مولانا کی بیوہ امجدی بانو بیگم انہیں ہندوستان لے جانا چاہتی تھی، خود ہندوستان سے سینکڑوں تار پہنچے کہ انہیں یہاں لایا جائے۔ رام پور، لکھنؤ، اجمیر، کلکتہ، دہلی، علی گڑھ اور متعدد شہروں کے لوگوں نے ٹیلی گرام بھیجا کہ مولانا جوہر کو ان کے شہر میں دفن کیا جائے، لیکن فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی نے یروشلم کے بیت المقدس میں دفن کیے جانے کی گزارش کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے ان کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مذہبی بنیاد پر فلسطین کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ جس طرح ہندوستان کے مسلمان مکہ اور مدینہ سے محبت کرتے ہیں، ویسی ہی محبت وہ بیت المقدس سے کریں۔ بیت المقدس جو قبلہ اول اور پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے سفر معراج کی منزل اول ہونے کے علاوہ برگزیدہ انبیاء ومرسلین اور بے شمار اولیاء مقبولین کی قبروں کا مسکن تھا۔
امین الحسینی صاحب کی گزارش پر مولانا محمد علی جوہر کے بھائی شوکت علی راضی ہوگئے۔ کیونکہ مولانا جوہر نے خود ہی کہا تھا کہ وہ غلام ملک میں دفن نہیں ہونا چاہتے…
مولانا محمد علی جوہر نے ساری زندگی کھادی سے بنے کپڑے ہی پہنے تھے چنانچہ ان کا کفن بھی کھدر ہی سے تیار کیا گیا تھا۔ ان کی میت کو 5 دنوں تک لندن میں رکھا گیا۔ پھر ’نارکنڈا‘ جہاز سے ٹبلری بندرگاہ سے بیت المقدس روانہ کیا گیا۔ 21 جنوری کو ان کی میت ’پورٹ سعید‘ پہنچی، جہاں مصر کے شہزادے نے تابوت پر رکھنے کے لیے’’غلاف کعبہ‘‘ کا ایک ٹکڑا پیش کیا۔ یہاں مسجد عباس میں نماز جنازہ پھر ادا کی گئی، جنازے کو مصری پولیس نے سلامی دی۔ جنازے کی جلوس میں وزیر اعظم، شاہ مصر کے نمائندے، شہزادہ اور مشائخین شہر شامل تھے۔
23 جنوری 1931 کو یہ تابوت یروشلم پہنچا تو یہاں کی تمام دکانیں بند ہو گئیں۔ جنازے کے جلوس میں مولانا شوکت علی اور مفتی امین الحسینی آگے آگے تھے۔ ایسا ہجوم امڈ پڑا کہجنازہ کو حرم شریف تک لے جانے میں پورے تین گھنٹے لگے۔ جمعہ کی نماز کے بعد جنازے کی نماز یہاں تیسری بار پڑھی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت قریب دو لاکھ کا جم غفیر موجود تھا۔ کئی اہم مشہور مسلم رہنماؤں کی تقاریر کے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔
آج مولانا محمد علی جوہر ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی عظیم روح آزاد ہندوستان کے ذرہ ذرہ میں موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسطین جا کر بھی وزیر اعظم مودی نے اس عظیم روح کی قبر پر جانا مناسب نہیں سمجھا جبکہ مولانا جوہر نے کبھی کہا تھا ’’میں 7 ہزار میل دور زمین و سمندر کو پار کرکے آیا ہوں، کیونکہ جب بات اسلام اور ہندوستان کی آتی ہے تو میں پاگل ہو جاتا ہوں‘‘ اور اسی ’جنون‘ نے انہیں بیماری کی حالت میں بھی لندن کی گول میز کانفرنس میں جانے پر مجبور کیا تھا کیونکہ وہ کسی بھی حالت میں ہندوستان کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔
مولانا جوہر کا دورہ فلسطین
مولانا محمد علی جوہر کا فلسطین سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں فلسطین کا دورہ کر چکے تھے۔ اس دورے کے گواہ بنے فلسطین کے ناظر حسن الانصاری نے دلی سے نکلنے والے اخبار ’ہمدرد‘ میں ایک خاص رپورٹ لکھی ہے۔ ان کی یہ رپورٹ ’ہمدرد‘ کے 3 دسمبر 1928 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
اس رپورٹ میں وہ لکھتے ہیں، ’القدس میں یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مولانا محمد علی یورپ سے واپس ہوتے ہوئے بلدہ مقدسہ میں تشریف لائیں گے۔ مسلمانان فلسطین عموماً مولانا سے محبت و عقیدت رکھنے والے اس مبارک دن کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ آخر میں دمشق سے مولانا کا تار سید امین الحسینی مفتی اعظم و رئیس مجلس الشرعی الاسلامی الاعلیٰ کے نام موصول ہوا کہ وہ 14 نومبر، 1928 چہارشنبہ کے روز دمشق سے بذریعہ قدس شریف تشریف لا رہے ہیں۔ اس تار کے ساتھ ہی ادھر قدس میں مفتی اعظم و رئیس مجلس اسلامی کے حکم کے موافق محکمہ الشرعی کے اوپر کی وسیع اور پرفضا عمارت ’ضیف عزیز و محترم‘ کے قیام کے لیے درست ہونی شروع ہوگئی۔ یہ عمارت ایک تاریخی مقام ہے۔ ممالیک مصر کے زمانہ میں ان کے گورنر متعینہ قدس کے حکم سے یہ عمارت بنی اور ایک زمانہ تک یہ عظیم الشان مدرسہ رہا۔ سلاطین آل عثمان کے زمانہ سے اب یہاں قاضی الشرع الشریف اور اپیل کے محکمہ جات ہیں۔ زلزلے کے باعث اس عمارت کو تعمیر و مرمت کے غرض سے عارضی طور پر خالی کر دیا گیا تھا، اب تک پورے طور پر اس کی مرمت نہیں ہو پائی تھی کہ مولانا محمد علی کی تشریف آوری کا مسئلہ درپیش ہوگیا۔ چونکہ یہ امر طے ہوچکا تھا کہ فلسطین کے اس محبوب و محترم مہمان کا قیام اسی عمارت میں ہونا چاہیے۔ اس لیے حقیقتاً حیرت انگیز سرگرمی کے ساتھ یہ تہیہ کرلیا گیا تھا کہ مولانا کے تشریف لانے تک اس کی تکمیل درستگی و آراستگی ہونی چاہیے۔ شب و روز مکمل کام جاری رہا۔ خود مفتی اعظم بہ نفس نفیس کام کی نگرانی میں سرگرمی اور دلی شوق سے حصہ لیتے رہے۔ اسی درمیان خبر ملی کہ مولانا چہار شنبہ کے بجائے پنچ شنبہ کے روز تشریف لائیں گے۔ اس سے عمارت کو خوبصورت بنانے کا مزید موقع مل گیا۔
ناظر حسن الانصاری کی رپورٹ کے مطابق یہ خبر تقریباً تمام فلسطین میں نہایت سرعت کے ساتھ پھیل گئی اور فلسطین کی سرحد سے جو قدیم و تاریخی نہر اردن کے پل ’بنات یعقوب‘ سے شروع ہوتی ہے، قدس تک استقبال کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ پنچ شنبہ کے روز فلسطین کے مشہور مقامات پر صبح سے راستے پر ہزاروں افراد کا مجمع ہونا شروع ہو گیا۔ عربی رواج کے مطابق مجمع کے ساتھ ایک جانب اگر گھوڑے سواروں کا مجمع تھا تو دوسری جانب بے شمار عورتیں اور لڑکیاں اپنے دلکش عربی راگ میں خیر مقدمی اشعار گاتی ہوئی ’زعیم الہندی الکبیر‘ کے استقبال کے لیے موجود تھیں۔ اندازہ تھا کہ تقریباً 12 بجے دن میں پہونچ جائیں گے، چنانچہ اسی وقت سے لوگ رات دس بجے تک چشم براہ رہے، لیکن مولانا نہیں آئے۔ سب مایوس ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
جمعہ کے روز تقریباً دس بجے دن کے ایک خبر دمشق سے موصول ہوئی کہ مولانا یہاں سے آج 7 بجے صبح بذریعہ موٹر روانہ ہوچکے ہیں اور تھوڑی دیر مین طبریہ پہنچ جائیں گے۔ لوگ پھر سے استقبال کے لیے اسی جوش و خروش کے ساتھ کھڑے تھے۔ شام ہو گئی لیکن مولانا نہیں پہنچے۔ تمام شب ایسی ہی پریشانی میں گزری۔ دوسرے روز شام میں مولانا کا تار دمشق سے موصول ہوا کہ مقام جسر ’بنات یعقوب‘ پہنچنے کے بعد ان کو فلسطین کی حکومت کی جانب سے یہ حکم ملا کہ وہ فلسطین کے اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ اس خبر سے یہاں کی عوام کافی مایوس ہوئے اور وہ اس کوشش میں لگ گئے کہ حکومت مولانا کو فلسطین آنے کی اجازت دے۔
آخرکار 20 نومبر 1928 کو حکومت نے مولانا کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ 20 نومبر 1928 بہت تاخیر کے ساتھ قریب 8 بجے شب میں مولانا طبریہ میں داخل ہوئے۔ سردی کی وجہ سے رات کو مولانا کو وہیں رکنے کا فیصلہ ہوا۔ اگلے دن 21 نومبر 1928 کی سہ پہر کو 3 بجے مولانا محمد علی جوہر قدس الشریف پہونچے۔ یہاں کافی سردی تھی، کیونکہ 20 نومبر کی رات سے ہی یہاں نہایت بارش ہوئی تھی۔ اس کے باوجود ہر مقام پر لوگوں نے نہایت تپاک اور خلوص دل سے استقبال میں حصہ لیا۔ جس خلوصِ دل، شوق اور انتہائی عقیدتمندی کے ساتھ اہل فلسطین نے مولانا محمد علی کا پرجوش استقبال کیا، اس کی نظیر اس وقت کے دور میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مولانا کے استقبال میں ایک عوامی جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس میں سب سے پہلے سماحتہ الرئیس نے محترم مہمان کا تمام امراء شرفاء ملک سے تعارف کرایا۔ اور مولانا کی خدمات جلیلہ اور اس بے نظیر اثیار کا جو ملک و ملت کے لیے انہوں نے کیا، حاضرین کو کچھ حال سنایا۔ اس کے بعد مولانا محمد علی پر جوش خیر مقدم کے ساتھ تقریر کرنے کے لیے اٹھے۔ تقریر کیا تھی، حکمت و معرفت کا ایک دریا تھا جو امڈا ہوا چلا آرہا تھا۔ اور ایک درس تھا جس سے ایمان تازہ ہو رہے تھے۔ لوگ محو حیرت ہوکر سن رہے تھے اور بیچ بیچ میں بعض فقروں پر جو اثناء تقریر میں آجاتے تھے۔ ایک عجب انبساط کی لہر پیدا ہوجاتی تھی۔ رات کے قیام کے بعد اگلے روز 22 نومبر کو علی الصبح مولانا نے مسجد اقصیٰ اور اس کے نئے تعمیر شدہ حصے کی زیارت کی۔
***
آج مولانا محمد علی جوہر ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی عظیم روح آزاد ہندوستان کے ذرہ ذرہ میں موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسطین جا کر بھی وزیر اعظم مودی نے اس عظیم روح کی قبر پر جانا مناسب نہیں سمجھا
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021