مستشرقین کی خیانتوں پر علمی محاکمہ

قرآن کی ہر آیت کے ساتھ اس کی ترتیب بھی منزل من اللہ ہے

ابو سعد اعظمی

غیر جانب دار مستشرقین کی تحریروںسےمتشدد مستشرقین کے اعتراضات کی تردید
  کتاب "حفاظت قرآن مجید اور مستشرقین "کے مصنف پروفیسر محمود اختر علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ حفاظت قرآن مجید کے سلسلے میں مستشرقین کے شکوک وشبہات اور ان کے خدشات کو جس شرح وبسط کے ساتھ آپ نے پیش کیا ہے، قرآنیات کے اردو ذخیرہ میں شاید ہی یہ مباحث اس طور پر کہیں یکجا مل سکیں۔کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نے مستشرقین کے اصل انگریزی متن سے استفادہ کرتے ہوئے کثرت سے ان کے اقتباسات بھی نقل کیے ہیں۔ کتاب میں کل گیارہ ابواب ہیں۔ان میں تحریک استشراق کا تعارف وتجزیہ پیش کیا گیا ہے، مستشرقین کے نزدیک قرآن مجید کے مآخذ کیا ہیں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے،عہد نبوی میں حفاظت قرآن کے انتظامات کا ذکر ہے،عہد صدیق اکبر میں حفاظت قرآن سے متعلق مستشرقین کے اشکالات کا ازالہ کیا گیا ہے، جمع عثمانی کے باب میں مستشرقین کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی گئی ہے، ترتیب قرآن سے متعلق ان کے نظریہ کا جائزہ لیا گیا ہے، نسخ فی القرآن کی بنیاد پر مستشرقین نے صحت قرآن سے متعلق جو اعتراضات کیے ہیں ان کا ابطال کیا گیا ہے، سبعۃ احرف، اختلاف مصاحف اور اختلاف قراءات سے متعلق مستشرقین کے اشکالات اور شکوک وشبہات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔صحت قرآن سے متعلق مستشرقین کے جو متفرق اعتراضات ہیں ان کا رد کیا گیا ہے اورصحت قرآن مجید پر جو خارجی شواہد موجود ہیں انہیں بھی بہتر طریقےسے پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے شروع میں تفصیلی مقدمہ بھی ہے جس میں مصنف نے کتاب کے مواد، اس کی اہمیت اور اپنے منہج کا تذکرہ کیا ہے۔
   باب اول میں تحریک استشراق کا تعارف پیش کیا گیا ہے، اسلام کے بارے میں ان کا انداز فکر اور قرآن مجید کے سلسلے میں ان کی تحقیقات کے مآخذکا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ،پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کے سلسلہ میں کس طرح وہ تحقیق کے مسلمہ اصولوں سے انحراف کرتے ہیں اور اسلام دشمنی کے جذبات میں بہہ کر ناقص اور غیر معتبر ماخذ سے استفادہ کرتے ہوئے خلاف حقیقت نتائج جان بوجھ کر پیش کرتے ہیں۔اس ضمن میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اکثر مستشرقین نے قرآن واحادیث اور اسلامی لٹریچر کا براہ راست مطالعہ کرنے کے بجائے دوسروں کے پیش کردہ نتائج پر اعتماد کیا ہے۔ لہٰذا اگر کسی مستشرق کو اسلام کے سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی یا اس نے ازراہ تعصب دانستہ طور پر اسلام کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا تو بعد میں آنے والوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے غلط روش اختیار کرلی۔مستشرقین نے چونکہ قرآن کی صحت کو مشکوک ٹھیرانے کے لیے شیعی مآخذ سے خوب استفادہ کیا ہے اور بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن سے قرآن کی صحت پر سوال کھڑے ہوتے ہیں، اس لیے صاحب کتاب نے تفصیل سے ان روایات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ شیعہ مکتب فکر میں ان روایات کی کیا حیثیت ہے۔اسی طرح مصنف نے اس باب میں صحت قرآن پر اعتراضات کے حوالہ سے مستشرقین کے اہداف، ان کی علمی بے راہ روی، اسلام کے باب میں ان کی غلط فہمیاں اور عربی زبان سے ان کی ناواقفیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
  اس کتاب کا دوسرا باب ’’مستشرقین کے نزدیک قرآن مجید کے مآخذ‘‘ کے عنوان سے ہے۔مستشرقین چونکہ اسے کلام الٰہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے بڑے موثر اور بظاہر منطقی انداز سے مختلف کڑیاں جوڑ توڑ کر (بزعم خویش) دلائل کا انبار لگاتے ہیں کہ قرآن مجید حضور اکرم (ﷺ) کا کلام ہے۔اپنے اس موقف کا اظہار وہ لوگ اس متاثر کن انداز میں کرتے ہیں کہ حقائق سے کماحقہ ناواقف شخص غیر شعوری طور پر ان کے نقطہ نگاہ کا حامی بن جاتا ہے۔لیکن یہ سب باتیں محض مستشرقین کے زور بیان کی شعبدہ بازیاں ہیں۔تقریبا بیس صفحات میں صاحب کتاب نے قرآن مجید سے متعلق مستشرقین کے خیالات کو ان کے اصل اقتباس کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ان پر ایک سرسری نگاہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید کو انسانی کلام قرار دینے کی کوشش میں انہوں نے کس قدر مضحکہ خیز باتیں نقل کی ہیں اور خود قرآن مجید میں ان کے خیالات کا رد موجود ہے۔اس کے بعد تقریباً ستر صفحات میں بہت تفصیل سے مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس ضمن میں مشرکین مکہ کے قرآن مجید سے متعلق جو اعتراضات تھے ،قرآن کی زبانی اسے پیش کیا گیا ہے، پھر قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر قرآن کی داخلی شہادت سے استدلال کیا گیا ہے،اس کے مضامین ،اس کی فصاحت وبلاغت کو ثبوت کے طور پر نقل کیا ہے اور عقلی استدلال کے ذریعہ سے قرآن مجید کا منزل من اللہ ہونا ثابت کیا گیا ہے۔اس باب میں قرآن مجید سے متعلق مستشرقین کا جو نقطہ نظر ہے ، خود دوسرے مستشرقین کی زبانی اس کی تردید بھی کی گئی ہے یعنی الحق ما شہدت بہ الاعداء حق وہ ہوتا ہے جس کی گواہی دشمن بھی دینے پر مجبور ہوجائیں
اس کتاب کا تیسرا باب ’’عہد نبوی میں حفاظت قرآن مجید‘‘ کے نام سے ہے۔اس باب کی ابتداء میں عہد نبوی میں حفاظت قرآن سے متعلق متعدد مستشرقین مثلا نولدیکی، آرتھر جیفری،رچرڈ بیل، آربری، مارگولیتھ، نکلسن، جان باگوت، مائیکل کوک اور جان برٹن کے نقطہ نظر کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔کتاب کے مباحث سے مصنف کی کوہ کنی اور عرق ریزی کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح مصنف نے اصل مآخذ تک رسائی حاصل کرکے براہ راست ان سے استفادہ کیا ہے اور ان کے اقتباسات بھی نقل کیے ہیں۔
  اس کتاب کا چوتھا باب ’’ عہد صدیق اکبرؓ میں حفاظت قرآن مجید اور مستشرقین‘‘ کے عنوان سے ہے۔ظاہر ہے کہ جب مستشرقین قرآن مجید کو کلام الٰہی تسلیم کرنے میں متردد ہیں اور پورا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کے عہد میں اس کی حفاظت کا کوئی موثر اقدام نہیں کیا گیا تو وہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں حفاظت قرآن کی کسی کوشش کو کیوں قبول کرنے لگے۔مصنف نے تفصیل سے مستشرقین کے نقطۂ نظر کو پیش کیا ہے اور بخاری میں جمع قرآن کی روایت کو تسلیم کرلینے کی صورت میں جو اشکالات پیدا ہوتے ہیں جنہیں مستشرقین نے خوب اچھالا ہے اس کا جائزہ لیا ہے۔
  اس کتاب کا پانچواں باب ’’جمع عثمانی اور مستشرقین ‘‘ کے عنوان سے ہے۔حضرت عثمانؓ کے عہد میں جمع قرآن سے متعلق جو روایت صحیح بخاری میں نقل کی گئی ہیں ان کی بنیاد پر مستشرقین نے پورا زور اس بات کو ثابت کرنے پر صرف کردیا ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔اور نبی (ﷺ) کی وفات کے بیس سال بعد تک قرآن کریم کا کوئی محقق اور مستند نسخہ مسلمانوں میں رائج نہیں تھا۔اس ضمن میں انہوں نے رائی کو پہاڑ بناکر پیش کیا ہے اور مختلف قسم کے اعتراضات کیے ہیں۔ فاضل مصنف نے بہت تفصیل سے ان کی آراء کا محاکمہ کرتے ہوئے اس ضمن میں صحیح اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی کوشش کی ہے۔اور احادیث کے ذخیر ہ میں بعض صحابہ کرامؓ سے اس کے خلاف جو روایات نقل ہوئی ہیں ان کا بھی اسناد اور درایت کے پہلو سے جائزہ لیا ہے۔
  اس کتاب کا چھٹا باب ’’ ترتیب قرآن مجید کے بارے میں مستشرقین کا نقطہ نگاہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ قرآن کریم کی آیات کے سلسلہ میں اتفاق ہے کہ وہ توقیفی ہیں۔البتہ سورتوں کی ترتیب کے سلسلہ میں تین رائیں متقدمین کے یہاں ملتی ہیں۔مستشرقین قرآنی سورتوں میں بے ترتیبی اور عدم ربط کو ظاہر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہیں اور بعض نے تو اپنے لحاظ سے خود ساختہ ترتیب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔فاضل مصنف نے تفصیل سے ان کے نقطہ نظر کو پیش کرکے ان کی بے وقعتی کو ثابت کیا ہے۔ اس کے بعد فاضل مصنف نے کثرت سے ایسی احادیث اور علماء کے اقوال نقل کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ترتیب آیات کی طرح ترتیب سور بھی توقیفی ہیں اور ان میں گہرا نظم وربط پایا جاتا ہے۔اس ضمن میں مصنف نے قاضی ابوبکر باقلانی،ابن الحصار، اور علامہ فراہی سے بھی خصوصی استفادہ کیا ہے اور عہد نبوی میں قرآن کے مرتب ہونے کے عقلی دلائل بھی پیش کیے ہیں۔
  اس کتاب کا ساتواں،آٹھواں اور نواں باب بالترتیب ’’نسخ فی القرآن کی بنیاد پر مستشرقین کے صحت قرآن پر اعتراضات‘‘، ’’سبعۃ احرف، اختلاف قراءات اور مستشرقین‘‘ اور ’’اختلاف مصاحف اور مستشرقین‘‘ کے عناوین سے ہیں۔نسخ کے سلسلہ میں علماء کے یہاں افراط وتفریط پایا جاتا ہے۔اس موضوع پر بے شمار کتب تصنیف کی گئی ہیں۔ذخیرہ احادیث میں بہت سی ایسی روایات ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک آیت پہلے قرآن مجید میں تھی اور لوگ اس کی تلاوت کرتے تھے پھر وہ منسوخ ہوگئی ۔مستشرقین نے ان روایات کو بنیاد بناکر قرآن کی صحت مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ باور کرانا چاہا ہے کہ موجودہ قرآن ناقص ہے۔فاضل مصنف نے نسخ کا مفہوم اور اس کی حکمت واضح کرنے کے بعد ان روایات کی اسناد اور درایت کے پہلو سے جائزہ لیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نسخ کے باب میں مستشرقین کے اعتراضات بے بنیاد ہیں۔سبعہ احرف،اختلاف قراءات اور اختلاف مصاحف کو بھی بنیاد بناکر مستشرقین نے قرآن کی ثقاہت مجروح کرنے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح اختلاف مصاحف کو بھی مستشرقین نے خوب ہوا دی ہے اور صحابہ کے مصاحف میں سورتوں کی ترتیب میں جو اختلاف تھا یا بعض سورتوں کے قرآن میں نہ ہونے کی جو روایت ان کی طرف منسوب ہے اسے مستشرقین نے خوب اچھالا ہے اور اپنے مقاصد سے قریب پاکر اسے بلا چوں و چرا تسلیم کیا ہے۔آٹھویں اور نویں باب میں فاضل مصنف نے اس کا جائزہ لیا ہے اور سبعہ احرف کا مفہوم، مصاحف عثمانیہ میں سبعۃ احرف کا وجود،مستشرقین اور سبعۃ احرف، اختلاف مصاحف کی حقیقت، اختلاف مصاحف اور مستشرقین اور مصحف ابن مسعودؓ کا تحقیقی جائزہ جیسے ذیلی عناوین قائم کرکے بہترین علمی گفتگو کی ہے۔
دسواں باب ’’صحت قرآن پر مستشرقین کے متفرق اعتراضات‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں تحریف قرآن سے متعلق ڈاکٹر منگانا کے دلائل کا علمی محاکمہ کیا گیا ہے۔فاضل مصنف نے مختلف طریقے سے اس کا علمی محاکمہ کرکے یہ ثابت کی ہے کہ کس طرح وہ اسلامیات کے باب میں علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔اس ضمن میں واقعہ غرانیق اور اس کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔اس روایت کی فنی حیثیت کا تعین کیا گیا ہے اور اس بارے میں مفسرین کی آراء کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
  اس کتاب کا گیارہواں اور آخری باب ’’صحت قرآن مجید پر خارجی شواہد‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں مصنف نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے قرآن حکیم کی حفاظت کی ذمہ داری کے اعلان کے باوجود عالم اسباب میں مسلمانوں نے حفاظت قرآن مجید کا ایسا اہتمام کیا ہے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اس احتیاط کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا جس کا اہتمام مسلمانوں نے ہر دور میں کیا۔اس ضمن میں فاضل مصنف نے قرآن مجید کی زبان کا تاریخی تسلسل،تلاوت قرآن مجید کا تسلسل اور ترغیب تلاوت قرآن، مسلمانوں کا غیر معمولی قوت حافظہ، کتابت قرآن مجید میں رسم الخط عثمانی کا التزام وغیرہ ذیلی عناوین کے تحت گفتگو کرتے ہوئے حفاظت قرآن کے خارجی شواہد کو واضح کیا ہے۔
  اس کتاب کی ہر ہر سطر سے فاضل مصنف کی ریاضت ومحنت،علمی جانفشانی،عرق ریزی اور کوہ کنی کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ حفاظت قرآن سے متعلق مستشرقین کے اعتراضات کا صاحب کتاب نے علمی اور معروضی انداز میں محاکمہ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اس ضمن میں مستشرقین اول درجہ کی احادیث وروایات کو نظر انداز کرکے چوتھے درجہ کی روایات سے استناد کرتے ہیں۔اس باب میں ان کی دریدہ ذہنی کا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں کی مسلمہ کتب میں جو احادیث وروایات نقل ہوئی ہیں اسے وہ نظر انداز کردیتے ہیں اور ادب وسیاست کی کتابوں میں اگر انہیں اپنے مفروضہ نقظہ نظر سے متعلق کوئی بات ملتی ہے تو اس سے بلا تامل استدلال کرتے ہیں۔
***

 

***

 اللہ تعالی کی طرف سے قرآن حکیم کی حفاظت کی ذمہ داری کے اعلان کے باوجود عالم اسباب میں مسلمانوں نے حفاظت قرآن مجید کا ایسا اہتمام کیا ہے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اس احتیاط کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا جس کا اہتمام مسلمانوں نے ہر دور میں کیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023