منیش سسودیا کو ایکسائز پالیسی کیس میں 4 مارچ تک سی بی آئی کی حراست میں بھیجا گیا

نئی دہلی، فروری 27: دہلی کی ایک عدالت نے پیر کو نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو ایکسائز پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں 4 مارچ تک سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی تحویل میں بھیج دیا۔

سسودیا کو مرکزی ایجنسی نے تقریباً آٹھ گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد اتوار کو گرفتار کیا تھا۔

پیر کی سماعت میں سی بی آئی نے وزیر سے پوچھ گچھ کے لیے پانچ دن کی تحویل کا مطالبہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ انھیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب انھوں نے مضحکہ خیز جوابات دیے اور ثبوتوں کا سامنا کرنے کے باوجود تعاون نہیں کیا۔

سی بی آئی کے خصوصی جج ایم کے ناگپال نے ایجنسی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے حکام کو 4 مارچ کو دوپہر 2 بجے سسودیا کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

ایکسائز پالیسی 2021-22، جو ایک ماہر کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی، نومبر 2021 میں نافذ ہوئی تھی۔ اس کے تحت کھلی بولی کے ذریعے 849 شراب کی دکانوں کے لائسنس نجی فرموں کو جاری کیے گئے تھے۔ اس سے قبل چار سرکاری کارپوریشنز 475 شراب کی دکانیں چلاتی تھیں اور باقی 389 نجی دکانیں تھیں۔

تاہم 30 جولائی کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ کی جانب سے پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کی سی بی آئی انکوائری کی سفارش کے بعد عام آدمی پارٹی کی قیادت والی حکومت نے اسے واپس لے لیا تھا۔

سی بی آئی کی نمائندگی کرنے والے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر پنکج گپتا نے پیر کی سماعت کے دوران ناگپال کو بتایا کہ سسودیا نے زبانی طور پر سکریٹری کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایکسائز پالیسی کو تبدیل کرنے کے لیے ایک نیا کابینہ نوٹ بنائیں۔

گپتا نے کہا ’’منافع کا مارجن 5% سے بڑھا کر 12% کیا گیا۔ وہ وضاحت نہیں کر سکے کہ تبدیلیاں کیوں کی گئیں۔‘‘

لیکن سسودیا کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ دیان کرشنن نے دعویٰ کیا کہ منافع کے مارجن میں تبدیلی کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ نے منظوری دی تھی۔ کرشنن نے یہ بھی دلیل دی کہ مرکزی ایجنسی ان کے مؤکل کی تحویل اس لیے چاہتی ہے کیوں کہ انھوں نے اس طرح سے سوالات کے جواب نہیں دیے جیسے کہ وہ ان سے کرنا چاہتے تھے۔

اس دوران عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے سسودیا کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا۔

دہلی میں پیر کو کئی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا، جب ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج کے دوران نیم فوجی دستوں سے جھڑپ ہوئی۔

دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ، جن کے پاس دہلی حکومت میں 18 محکمے ہیں، دہلی کابینہ کے ایسے دوسرے وزیر ہیں جنھیں کسی مرکزی ایجنسی نے گرفتار کیا ہے۔ اس سے قبل سابق وزیر صحت ستیندر جین کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے مئی میں منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا تھا۔

پیر کو دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے دعویٰ کیا کہ سسودیا کو سیاسی دباؤ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔

کیجریوال نے ٹویٹ کیا ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ سی بی آئی کے زیادہ تر افسران منیش کی گرفتاری کے خلاف تھے۔ ان سب کو اس کا بہت احترام ہے اور اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لیکن اس کی گرفتاری کا سیاسی دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ انھیں اپنے سیاسی آقاؤں کی بات ماننی پڑی۔‘‘

اپوزیشن جماعتوں کے کئی لیڈروں نے بھی سسودیا کی گرفتاری پر تنقید کی ہے۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ سسودیا کی گرفتاری دہلی کے بچوں کے مستقبل کے خلاف ہے۔

یادیو نے ٹویٹ کیا ’’منیش سسودیا جی کو گرفتار کر کے، جنھوں نے دہلی میں تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، بی جے پی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف تعلیم کے خلاف ہے بلکہ دہلی کے بچوں کے مستقبل کے بھی خلاف ہے۔ دہلی کے عوام اگلے لوک سبھا انتخابات میں تمام سات سیٹوں پر بی جے پی کو شکست دے کر اس کا جواب دیں گے۔‘‘