دہلی ہائی کورٹ نے شراب پالیسی کیس میں منیش سسودیا کو ضمانت دینے سے انکار کیا، کہا کہ الزامات ’’بہت سنگین‘‘ ہیں

نئی دہلی، مئی 30: دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو عام آدمی پارٹی کے رہنما منیش سسودیا کو قومی دارالحکومت کی اب ختم شدہ شراب کی پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق مرکزی تفتیشی بیورو کے ذریعہ دائر ایک مقدمے میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔

جسٹس دنیش کمار شرما کی سنگل جج بنچ نے یہ حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف بدانتظامی کے الزامات ’’انتہائی سنگین‘‘ ہیں۔

انھوں نے مزید کہا ’’ایکسائز پالیسی ساؤتھ گروپ کے کہنے پر بنائی گئی تھی جس کا مقصد انھیں ناجائز فائدہ پہنچانا تھا۔ اس طرح کا عمل درخواست دہندہ کی بدانتظامی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو تسلیم شدہ طور پر ایک سرکاری ملازم تھا اور بہت اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔‘‘

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے مطابق، جو اس کیس کی تحقیقات بھی کر رہا ہے، ’’ساؤتھ گروپ‘‘ نے گرفتار تاجر وجے نائر کے ذریعے عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو کم از کم 100 کروڑ روپے کک بیکس میں ادا کیے تھے۔

منگل کو ہائی کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ سسودیا ایک بااثر شخص ہیں ’’…اور 18 محکموں کے ساتھ ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہونے اور گواہوں میں زیادہ تر سرکاری ملازم ہونے کے باعث گواہوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ کو نومبر 2021 میں نافذ ہونے والی ریاستی حکومت کی ایکسائز پالیسی کے سلسلے میں 26 فروری کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ایکسائز پالیسی کے تحت 849 شراب کی دکانوں کے لائسنس کھلی بولی کے ذریعے نجی فرموں کو جاری کیے گئے۔ اس سے قبل چار سرکاری کارپوریشنز 475 شراب کی دکانیں چلاتی تھیں اور باقی 389 نجی دکانیں تھیں۔ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کی جانب سے اس کی تشکیل اور عمل درآمد کے بارے میں تحقیقات کی سفارش کے بعد 30 جولائی کو اس پالیسی کو واپس لے لیا گیا تھا۔

31 مارچ کو راؤس ایونیو کورٹ کے خصوصی جج ایم کے ناگپال نے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کے ذریعہ دائر مقدمہ میں سسودیا کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلی نظر میں ’’مجرمانہ سازش کا معمار‘‘ قرار دیے جا سکتے ہیں۔

سسودیا نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اور انھیں پھنسایا جارہا ہے۔

عام آدمی پارٹی لیڈر کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ دیان کرشنن نے ہائی کورٹ کو بتایا ’’وہ کہتے ہیں کہ میں [سسودیا] تعاون نہیں کرتا۔ یہ کبھی بھی مجھے ضمانت سے انکار کرنے کی بنیاد نہیں ہوسکتی ہے۔ مجھے اس طرح تعاون کرنے، اعتراف کرنے یا سوالات کے جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے جس طرح وہ چاہتے ہیں۔ میں جس طرح سے چاہوں جواب دوں، یہی آئینی ضمانت ہے۔‘‘

ہائی کورٹ میں اپنی درخواست میں سسودیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ایکسائز پالیسی کابینہ کی ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ ہے اور اسے محکمہ ایکسائز کی طرف سے تیار کیے جانے کے بعد لاگو کیا گیا تھا۔

عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیاست دان کو کابینہ، محکمہ ایکسائز، محکمہ خزانہ، منصوبہ بندی محکمہ، محکمہ قانون اور دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے اجتماعی فیصلے کے لیے مجرمانہ طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

درخواست ضمانت میں کہا گیا تھا ’’درخواست گزار سیاسی وِچ ہنٹ کا شکار ہے، جس کی وجہ سے مدعا علیہ نے درخواست گزار کی ساکھ کو داغدار کرنے کے لیے اس کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔‘‘

28 اپریل کو جسٹس ناگپال نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کیس میں بھی ان کی ضمانت مسترد کر دی تھی۔ اس کے بعد سسودیا نے ہائی کورٹ کا رخ کیا۔

25 اپریل کو سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے پہلی بار کیس میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں سسودیا کو ملزم کے طور پر نامزد کیا تھا۔