بی جے پی نے پارٹی میں شامل ہونے پر میرے خلاف درج مقدمے ختم کرنے کی پیش کش کی، منیش سسودیا کا دعویٰ

نئی دہلی، اگست 22: دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے پیر کو الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان کے خلاف تمام مقدمات بند کرنے کی پیشکش کی ہے، اگر وہ اس پارٹی میں شامل ہوتے ہیں۔

سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے دہلی کی ایکسائز پالیسی میں بے ضابطگیوں کا الزام لگاتے ہوئے سسودیا سمیت 15 افراد کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی ہے۔ 19 اگست کو مرکزی ایجنسی نے اس معاملے میں مرکزی دہلی میں سسودیا کی سرکاری رہائش گاہ اور سات ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 20 دیگر مقامات پر چھاپے مارے تھے۔

پیر کے روز سسودیا نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے بی جے پی کو بتایا کہ وہ مہارانا پرتاپ کی اولاد ہیں اور ذات کے لحاظ سے ایک راجپوت ہیں اور وہ اپنا سر کاٹ لیں گے لیکن ‘‘بدعنوان سازشیوں‘‘ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔

انھوں نے ٹویٹ کیا کہ میرے خلاف تمام مقدمات جھوٹے ہیں۔ ’’تم جو کرنا چاہتے ہو کرو۔‘‘

ایک پریس کانفرنس میں عام آدمی پارٹی کے ترجمان سوربھ بھاردواج نے دعویٰ کیا کہ اس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ بی جے پی اپنی حریف پارٹیوں کے لیڈروں پر تحقیقات کا دباؤ ڈالتی ہے اور جب وہ پارٹی بدل کر بی جے پی میں شامل ہوجاتے ہیں تو ان کے خلاف درج تمام مقدمات ختم کر دیے جاتے ہیں۔

دریں اثنا بی جے پی ایم پی منوج تیواری نے کہا کہ یہ شرمناک ہے کہ سسودیا اپنا موازنہ مہارانا پرتاپ سے کر رہے ہیں۔ تیواری نے پوچھا کہ کیا میواڑ کے 16ویں صدی کے بادشاہ نے کبھی لوگوں کو شراب پلائی تھی۔

تیواری نے کہا ’’آپ مہارانا پرتاپ کا موازنہ بدعنوانی کے کیس کا سامنا کرنے والے شخص سے کر رہے ہیں؟ ایسے بدعنوان لوگوں کو صرف AAP میں جگہ مل سکتی ہے۔ اسے اس کی غلطی کی سزا ملے گی۔ بی جے پی منیش سسودیا جیسے ظالموں کو سزا دینے کے لیے کام کرتی ہے۔ بی جے پی میں بدعنوانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

سسودیا کے علاوہ مرکزی ایجنسی نے سابق ایکسائز کمشنر اروا گوپی کرشنا، سابق ڈپٹی ایکسائز کمشنر آنند کمار تیواری، اسسٹنٹ ایکسائز کمشنر پنکج بھٹناگر، نو تاجروں اور دو کمپنیوں کو ملزمین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

ایکسائز پالیسی 2021-22، جو ایک ماہر کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر بنائی گئی تھی، نومبر میں نافذ ہوئی۔ اس کے تحت کھلی بولی کے ذریعے 849 شراب کی دکانوں کے لائسنس نجی فرموں کو جاری کیے گئے۔ اس سے قبل چار سرکاری کارپوریشنز 475 شراب کی دکانیں چلاتی تھیں اور باقی 389 نجی دکانیں تھیں۔

تاہم 30 جولائی کو عام آدمی پارٹی کی قیادت والی حکومت نے اسے واپس لے لیا جب دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ونائی کمار سکسینہ نے نئی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کے بارے میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے ذریعہ انکوائری کی سفارش کی۔

ایف آئی آر میں مرکزی ایجنسی نے الزام لگایا ہے کہ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ اور دیگر ملزم سرکاری ملازمین نے مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ایکسائز پالیسی کے بارے میں سفارش کی اور فیصلے کیے جس کا مقصد ’’ٹینڈر کے بعد لائسنس دہندگان کو ناجائز فائدہ پہنچانا ہے۔‘‘