منیریگا بجٹ میں کٹوتی کی مار۔ غریبوں کے پیٹ پر وار
بجٹ میں140کروڑ عوام کے مفاد کو نظر اندازکردیا گیا۔ ملک کے وسائل کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے!
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ایک فلاحی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے اندر امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پاٹ کر عدم مساوات کم کرے۔ ملک کے دو چار افراد یا خاندانوں کے خوب امیر ہو جانے سے ملک خوشحال نہیں ہو جاتا بلکہ ملک کی فی کس آمدنی بڑھا کر ہر پیٹ میں روٹی، ہر سر پر چھت، سستی تعلیم کا بندوست اور بیمار پڑنے پر طبی و دیگر سہولتیں مہیا کرانا پڑتا ہے۔
عام بجٹ میں بڑی سرعت سے منریگا کی رقم کو 2023-24 میں کم کرکے چھ ہزار کروڑ روپے کردیا گیا جو چھ سالوں میں دیہی روز گار اسکیم میں سب سے بڑی کٹوتی ہے۔ یہ رقم 21-2020 میں 111,170 کروڑ روپے تھی 22-2021 میں 98,468 کروڑ روپے اور 2022-23 میں 89,400 کروڑ روپے کر دی گئی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بھارتی معیشت کورونا وبا کی زد سے نکل چکی ہے اور روس-یوکرین جنگ کا اس پر کوئی خاص اثر نہیں رہا ہے۔ وزیر مالیات نے حالیہ سروے میں اعتراف کیا ہے کہ دنیا کی مندی سے متاثر معیشت کے مقابلہ میں ہماری معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اس لیے اب دیہی آبادی کو حفاظتی چادر کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ لہذا معاشی سرگرمیوں میں بہتری آنے سے اب نہ منریگا کے لیے کام کے دنوں کو بڑھانے کی حاجت ہے اور نہ ہی پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے تحت حاشیے پر پڑے ہوئے مفلس لوگوں کے لیے غذائی طمانیت کے لیے اناج کی ترسیل ضروری رہ گئی ہے۔
منریگا بجٹ میں کٹوتی کرکے حکومت نے پینے کے پانی کی ہر گھر میں دستیابی کے لیے جل جیون مشن (جے جے ایم) کے بجٹ کو پچپن ہزار کروڑ روپے سے بڑھا کر ستر ہزار کروڑ روپے کردیا ہے جبکہ پردھان منتری آواس یوجنا کے لیے 77130 کروڑ روپے سے بڑھا کر 79590 کروڑ روپے کردیا ہے۔ اب تو منریگا اسکیم کے تحت کام کرنے والوں کو نل کے ذریعہ جل ملا کرے گا ساتھ ہی ایسے لوگوں کو پختہ مکانات بھی دیے جائیں گے۔ اب تو مزدوروں کو مینوفیکچرنگ سرگرمیوں میں شامل کرکے روزگار فراہم کرائے جائیں گے تاکہ انہیں منریگا کی ضرورت ہی نہ رہے۔ واضح رہے کہ حکومت کے دعویٰ کے مطابق حالات معمول پر بڑی تیزی سے آرہے ہیں۔ خواہ روس-یوکرین۔ جنگ کی کیفیت ہو یا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ سال مارچ میں درجہ حرارت میں اچھال سے ربیع فصل کی تباہی ہو۔ اب تو عالمی طور پر خوردنی اجناس کی قیمتوں میں تخفیف ہورہی ہے۔ دیہی اجرت کی رقم میں اضافہ ہوا ہے۔ ان احوال کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ امسال مودی جی کے سامنے نو ریاستوں کا اسمبلی انتخاب بھی ہے اور 2024 کے عام انتخابات بھی۔ اس لیے حکومت کو اس طرح کے دلکش بجٹ کے ذریعہ الیکشن کو جیتنا ہے۔ 2023-24کے بجٹ سے ایسا لگتا ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ خواہ سماجی، معاشی یا سیاسی ہو ہر طرح سے ان کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوئی ہے، حالانکہ دستوری طور سے تعلیم، غذا، روزگا اور تغذیہ بخش غذا (Nutrition food) کی حسب ضرورت فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے جسے بجٹ میں پوری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ منریگا کی فنڈنگ ایک تہائی کم کرکے روزگار کے ایام کو گھٹا کر اور ان مزدوروں کی اجرت بھی بازار کی قیمت سے کم رکھی گئی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ انہیں وقت پر اجرت بھی نہیں دی جاتی اور اس کی حصولیابی میں مفلوک الحال لوگوں کو کافی دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کچھ بھی کہے ہماری معاشی صحت انتہائی خراب ہے۔ آر بی آئی کے صارفین کے سروے کے مطابق اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ نومبر 2019 کے بعد سے ہی ہماری معیشت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت روزگار فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہے یہ ایک طرح سے غریبوں پر خاموش حملہ ہے۔
مودی حکومت نے مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (MNREGA) کے بجٹ میں تخفیف کردی ہے۔ یہ اسکیم دراصل غیر ہنر مند محنت کشوں کو سو دنوں تک سالانہ روزگار کی فراہمی میں نافذ کی گئی تھا۔ وزارت دیہی ترقیات نے منریگا کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ منریگا اصلاً طلب کی بنیاد پر روزگار فراہم کرتا ہے اور اصلاً تخمینی بجٹ (بی) اس پروگرام 2022-23 کے بجٹ میں مختص کیا گیا تھا مگر ریاستوں نے BE لیول سے زیادہ ہی خرچ کیا۔ اس اسکیم کو بہتر طریقے سے جاری رکھنے کے لیے اضافی رقم کی ضرورت تھی اور وزیر مالیات سے اضافی رقم کی درخواست بھی کی گئی۔ مگر یہ معمہ ہے کہ ریاستی حکومت کے درخواستوں کے باوجود منریگا کے بجٹ میں بڑی تخفیف کی گئی۔ حکومت کچھ بھی کہے مگر گزشتہ تین سالوں میں کورونا وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے لگائے گئے سخت لاک ڈاون نے معیشت کو بھی بیمار کردیا۔ جاریہ روس۔یوکرین جنگ نے تو بھارت کی معاشی نمو کو زبردست طریقہ سے متاثر کیا ہے۔ مگر مودی حکومت نے 2020-21 میں 92.9 میٹرک ٹن (ایم ٹی) 2021-22 میں 105.6 ایم ٹی اور اپریل تا دسمبر 2022 تک 71.2 ایم ٹی کی کھپت ہوئی۔ 81 کروڑ راشن کارڈ ہولڈرس کو پانچ کلو ماہانہ مفت اناج مہیا کرایا گیا۔ اس کے علاوہ دو روپے کلو گرام گیہوں اور تین روپے فی کلو گرام چاول دیا گیا۔ اس کے علاوہ منریگا کے ذریعہ 389 کروڑ لوگوں کو 2020-21 میں اور 2021-22 میں 363 کروڑ لوگوں کو کام دیا گیا۔ حکومت کے دعویٰ کے مطابق 2023-24 کا سال معمول کا سال رہے گا اور اسی مناسب سے ملک سے مصائب اور تکالیف کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے اب مودی حکومت کا دیہی پروگرام ترجیح منتقلی (ٹرانسفر) سے انوسٹمنٹ کی طرف ہو رہی ہے۔ یعنی جل جیون مشن اور پی ایم اے وائی۔ وزیر مالیات کا ماننا ہے کہ دونوں اسکیموں کے ذریعے منریگا کے تحت کام کا مطالبہ کرنے والوں کو فائدہ ملے گا۔ مگر موجودہ حکومت غریبوں کو کچھ دینے کے بجائے ان دونوں اسکیموں کے ذریعے 2024 کے عام انتخاب کو ہر طرح سے اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرے گی۔
عظیم پریم جی یونیورسٹی کے چار ریاستوں کے اکتوبر 2022 میں کیے گئے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے جس کی تصدیق منریگا کنسورشیم نے بھی کی ہے کہ 2019-20 سے ہی منریگا کے ذریعے لوگوں کو پوری طرح دیہی روزگار نہیں دیا جارہا ہے۔ شائع شدہ رپورٹ کے مطابق 39 فیصد کنبوں نے اوسطاً 77 دنوں کے کا مطالبہ کیا مگر ایک دن بھی انہیں کوئی روزگار نہیں ملا۔ جن کو ایک دن کا کام ملا انہیں تو 64 دنوں سے بھی زیادہ کام کی ضرورت تھی۔ مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کو مطالبہ کے مطابق کام کی فراہمی کے لیے لیبر بجٹ کو تین گنا زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس منیجمنٹ سافٹ ویر انفارمیشن سسٹم (MIS) ایپ کے مطابق مذکورہ تمام کنبے چار سالوں سے پوا کام دینے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ مگر وزارت دیہی ترقیات دروغ گوئی کا سہارا لیتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ بجٹ میں کٹوتی دراصل روزگار کے کم مطالبہ کی وجہ سے ہوئی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ بجٹ میں کٹوتی دراصل کام کے مطالبہ کو بذریعہ ایپ کم کرکے دکھانے، اجرت میں تاخیر اور بدعنوانی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایم آئی ایس ایپ کے ذریعہ حاضری رجسٹری نے مزدوروں کے مصائب میں اضافہ ہی کیا ہے مگر اس سے بھی بڑی مشکل بجٹ میں منریگا کے فنڈ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی ہے۔ عام بجٹ میں منریگا کے لیے ساٹھ ہزار کروڑ روپے کی تفویض ملک کی جی ڈی پی کا 0.2 فیصد سے بھی کم ہے۔ ورلڈ بینک کے ماہرین اقتصادیات کا تخمینہ ہے کہ یہ ہماری جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہونا چاہیے مگر گزشتہ سال مزدوروں کی بقایہ اجرت پندرہ ہزار کروڑ تھی اس طرح امسال منریگا میں مفوضہ رقم تو محض پینتالیس ہزار کروڑ روپے ہی رہی۔ People’s Action for Employment Guarantee اور منریگا سنگھرش مورچہ کے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق منریگا فنڈ کے لیے کم از کم 2.72 لاکھ کروڑ روپے دیے جانے چاہئیں۔ ان کے مطابق 1.24 لاکھ کروڑ روپے تو مطالبہ کرنے والے ہر کنبہ کے محض چالیس دنوں کے کام کے لیے ہی دیے جا سکیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ منریگا کی اجرت زرعی اجرت کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ حکومت نے اس تفریق کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 2019-20 اور 2022-23 کے درمیان لگاتار مطالبہ کی وجہ سے لوگوں کو دو کروڑ نئے جاب کارڈس دیے گئے۔ ان محنت کشوں کو سالانہ اوسطاً تقریباً پینتالیس دنوں کا کام دیاگیا جو ثابت کرتا ہے کہ سرکاری عملوں نے حقیقت کی پردہ پوشی کی۔ فنڈز کی کمی کے باعث سرکاری عملے ایم آئی ایس ایپ میں ان مزدوروں کو رجسٹر ہی نہیں کرتے۔ قومی اور ریاستی ایم آئی ایس رپورٹ میں ان مطالبہ کرنے والے مزدوروں کا صحیح اندراج بھی دستیاب نہیں ہے۔ مگر سبھی پنچایتوں میں یہ اعداد وشمار دستیاب ہیں۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے بہار اور آسام سمیت سات ریاستوں میں کروائے گئے دس پنچایتوں کے سیمپل سروے میں 1400 پنچایت کے 11.4 لاکھ مزدوروں کے مطالبے پر کام کے حصول کا تجزیہ کرنے پر پتہ چلا کہ بہت سارے مزدور کام سے غیر حاضر رہے اور حاضری رجسٹر سے ان کی تفصیل بھی دستیاب نہیں ہے۔
اب حکومت نے بجٹ میں روزگار کے تعلق سے کسی طرح کی یقین دہانی کرائے بغیر منریگا کے بجٹ میں کمی کرکے یہ کام ضرور کیا کہ اس امرت کال والے بجٹ کو متر کال بجٹ بنادیا اور 140 کروڑ عوام کے مفاد کو نظر انداز کرکے ہم دو ہمارے دو کے اصول پر اڈانی اور امبانی کو فائدہ پہنچا کر کارپوریٹ گھرانوں کو ملک کے وسائل سونپ دیے۔ ایک فلاحی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے اندر امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پاٹ کر عدم مساوات کو کم کرے۔ ملک کے دو چار افراد یا خاندانوں کے خوب امیر ہو جانے سے ملک خوشحال نہیں ہو جاتا بلکہ ملک میں فی کس آمدنی بڑھا کر ہر پیٹ میں روٹی، ہر سر پر چھت، سستی تعلیم کا بندوست اور بیمار پڑنے پر طبی و دیگر سہولتیں مہیا کرانا پڑتا ہے۔
***
***
وزارت دیہی ترقیات دروغ گوئی کا سہارا لیتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ بجٹ میں کٹوتی دراصل روزگار کے کم مطالبہ کی وجہ سے ہوئی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ بجٹ میں کٹوتی دراصل کام کے مطالبہ کو بذریعہ ایپ کم کرکے دکھانے، اجرت میں تاخیر اور بدعنوانی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایم آئی ایس ایپ کے ذریعہ حاضری رجسٹری نے مزدوروں کے مصائب میں اضافہ ہی کیا ہے مگر اس سے بھی بڑی مشکل بجٹ میں منریگا کے فنڈ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023