منی پور : نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
انسانی بحران سے سیاسی طوفان تک؛ منی پور کے حالات نہایت تشویشناک
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
جس میتی قوم کے لیے کوکیوں سے رقابت مول لی تھی اب وہی دشمن بن گئی!
بی جے پی، پارلیمنٹ میں اڈانی کے علاوہ منی پور پر بھی بحث و مباحثہ نہیں چاہتی حالانکہ اس ننھی سی ریاست کا کل جی ڈی پی اڈانی کی کسی ایک کمپنی سے بھی کم ہی ہوگا۔ تو سوال یہ ہے کہ اس معاملے سے دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کو آخر اتنا ڈر کیوں ہے؟ منی پور شمال مشرقی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کی جملہ آبادی بتیس لاکھ ہے۔ ان میں سے اکتالیس فیصد کوکی قبائل پر مشتمل ہے جو پہاڑوں پر رہنے والے عیسائی ہیں، جبکہ ترپن فیصد ہندو ہیں جو اکثریت میں ہیں۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات وہاں بی جے پی کی لاٹری لگ گئی اور اس نے ساٹھ میں سے بتیس نشستیں جیت لیں۔ بے چاری کانگریس پانچ پر سمٹ گئی۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی حلیف جے ڈی یو نے چھ ناگا پیپلز فرنٹ نے پانچ اور کونراڈ سنگما کی نیشنل پیپلز پارٹی نے سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ ان کے علاوہ دو پر کوکی پیپلز الائنس کے امیدوار اور تین نشستوں پرآزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
اس طرح دیکھا جائے تو ساٹھ رکنی منی پور اسمبلی میں اکثریتی عدد اکتیس ہے جبکہ بی جے پی کے اپنے بتیس ایم ایل اے تھے۔ اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد جنتا دل (یو) کے چھ میں سے پانچ ارکان اسمبلی نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی جس سے ایوان میں اس کے ممبروں کی تعداد سینتیس ہو گئی۔بی جے پی کے پاس اس وقت وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنےکے لیے کوئی قابل چہرہ نہیں تھا اس لیے کانگریس سے بغاوت کرکے آنے والے این بیرن سنگھ کو سی ایم بنا کر حکومت کی قیادت سونپ دی گئی اور یہی غلطی بھگوائیوں کو مہنگی پڑ گئی۔این بیرین سنگھ کو چاہیے تھا کہ مرکزی حکومت کی مدد سے اپنے عوام کی خدمت کرکے کانگریس کو پانچ سے صفر تک پہنچا دیتے لیکن انہوں نے خوشامد کی سیاست کرنے کا فیصلہ کیا۔ ریاست میں کوکی قبائل کو ریزرویشن حاصل ہے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کی مدد سے سیاسی و معاشی حیثیت سے نہایت طاقتور میتی سماج کو بھی ریزرویشن کا مستحق ٹھیرا دیا۔ اس طرح صوبے میں چورانوے فیصد لوگوں کو ریزرویشن کی سہولت کے مل جانے سے وہ بے معنیٰ شے ہوکر رہ گئی۔
این بیرین سنگھ نے یہ سازش اس لیے رچی تاکہ اکثریتی میتی سماج پر احسان جتا کر ہمیشہ کے لیے انہیں اپنا غلام بنا لیا جائے۔ کوکی قبائل کے علحیدگی پسندی کو بڑی مشکل سے کانگریس نے قابو میں کیا تھا مگر اس ناعاقبت اندیش فیصلے نے ان کے اندر عسکریت پسندی کو پھر سے ہوا دی اور وہ پرامن و مسلح احتجاج کے لیے میدان میں اتر گئے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے بیرین سنگھ نے سرکاری سرپرستی میں میتی سماج کے اندر ایک مسلح تحریک پروان چڑھائی اور ان کو سرکاری ہتھیار لوٹنے کا موقع دیا گیا۔ منی پور میں پچھلے سال پھوٹنے والے تشدد کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ آگے چل کر سپریم کورٹ نے ریزرویشن کا فیصلہ بدل دیا مگر حالات کچھ ایسے بگڑے کہ ہنوز بے قابو ہیں۔ گزشتہ سال سے جاری فرقہ وارانہ فسادات کے پہلے ایک سال میں کوکی قبیلے اور میتی برادری کے دو سو سے زیادہ عیسائی مارے گئے اور اب اس تعداد کے تین سو سے تجاوز کر جانے کا دعوٰی کیا جا رہا ہے۔
پہلے سال تشدد میں ایک ہزار سے زیادہ دیہاتوں کو جلا دیا گیا، اور عیسائیوں کے سات سو سے زیادہ گرجا گھروں کو تباہ و برباد کر دیا گیا یا پھر جلا دیا گیا۔ تقریباً دس ہزار مکانات کو لوٹا اور جلایا گیا نیز دونوں برادریوں کے ستر ہزار سے زیادہ خاندان بے گھر ہو گئے۔ فی الحال وہ ریلیف کیمپوں میں یا پڑوسی ریاستوں میں رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس دوران بڑے بھیانک ویڈیوز منظر عام پر آئے جن میں خواتین کی برہنہ پریڈ کی شرمناک واردات بھی تھی۔ آگے چل کر سرکاری تفتیش میں ان واقعات میں پولیس کے ملوث ہونے کی گواہی ملی۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ کی دل دہلا دینے والی آڈیو خوب وائرل ہوئی جس میں وہ میتی عسکریت پسندوں کو تحفظ دلانے کا وعدہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ بی جے پی کے ہائی کمان نے اس معاملے میں کمال بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم نے منی پور کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ وزیر داخلہ پہلے مہینے میں پندر دن بعد دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے جو گئے تو آج تک واپس نہیں آئے۔ بیرین سنگھ کو بدلنے کی علامتی کارروائی تک نہیں کی گئی۔ بی جے پی کی بے حسی نے کوکی کے علاوہ میتی سماج کو بھی بدظن کر دیا۔
پچھلے پارلیمانی انتخاب میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کیونکہ ریاست کی دونوں نشستیں کانگریس نے جیت لیں۔ وادی میں بی جے پی کا اپنا امیدوار ایک لاکھ نو ہزار سے زیادہ ووٹ کے فرق سے ہار گیا اور دوسرے پر اس کا حلیف ناگا پیپلز فرنٹ کا امیدوار پچاسی ہزار ووٹوں سے ہار گیا۔ اس طرح کانگریس کے انڈیا محاذ کے ووٹ کا تناسب تئیس فیصد بڑھ گیا اور بی جے پی کا این ڈی اے محاذ اکیس فیصد گھٹ گیا۔ اس میں اٹھارہ فیصد ووٹوں کی کمی بی جے پی کی تھی جبکہ این پی ایف کے ووٹ چار فیصد سے بھی کم گھٹے تھے۔ ان نتائج کو اگر اسمبلی حلقوں میں تقسیم کیا جائے تو کانگریس پانچ سے بڑھ کر چھتیس پر چلی جاتی ہے اور بی جے پی سینتیس سے گھٹ کر نو پر آجاتی ہے۔ این پی ایف جس کے فی الحال صرف دو ارکان اسمبلی ہیں وہ تیرہ مقامات پر اپنی برتری ثابت کردیتی ہے۔ اس تناظر میں نیشنل پیپلز فرنٹ کے این ڈی اے سے نکلنے کو دیکھنا چاہیے۔
منی پور کا معاملہ اب انسانی بحران سے آگے بڑھ کر سیاسی طوفان بن گیا ہے۔ اس کی ابتدا نیشنل پیپلز پارٹی سے منسلک سات ارکان اسمبلی کے این بیرن سنگھ حکومت کی تائید سے دستبرداری سے ہوئی۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے قومی صدر کونراڈ کے سنگما نے بی جے پی صدر جگت پرکاش نڈا کو خط لکھ کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ کونراڈ کے سنگما نے اپنے مکتوب میں منی پور میں امن وقانون کی صورتحال پر تشویش ظاہر کر کے پچھلے کچھ دنوں میں صورتحال کے خراب ہونے اور مزید جانوں کے ضیاع کو اپنی علحیدگی کا سبب بتایا۔ منی پور قانون ساز اسمبلی میں بی جے پی کے پاس بتیس ارکان اسمبلی ہیں اور اسے این پی ایف، جے ڈی یو اور آزاد ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اس لیے بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے مگر حالیہ تشدد کے بعد جب بیرین سنگھ نے این ڈی اے کی میٹنگ بلائی تو اس میں پینتالیس کے بجائے صرف ستائیس اراکین اسمبلی ہی پہنچے جبکہ اٹھارہ ایم ایل اے غیر حاضر رہے۔ان اراکین اسمبلی میں سے چھ نے طبی معذوری کا حوالہ دیا۔ ایک وزیر کھیم چند سنگھ سمیت گیارہ اراکین اسمبلی نے اپنی عدم شرکت کی وجہ بتانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اس طرح ساٹھ اراکین اسمبلی والی قانون ساز اسمبلی کے اکثریتی ارکان موجود نہیں تھے۔
سیاست دانوں کی عدم موجودگی کی وجہ ان کے اندر پایا جانے والا خوف ہے۔ ان غیر حاضر رہنے والوں میں دس آدیباسی یعنی کوکی اراکین شامل تھے ۔ ان میں سات بی جے پی اور تین آزاد اراکین اسمبلی ہیں۔ آسام سرحد پر ضلع جیری بام کے دور دراز گاؤں جیریمکھ میں چھ لاشوں کے ایک دریا کے قریب سے ملنے پر امپھال میں مشتعل ہجوم نے کئی ارکان اسمبلی کی رہائش گاہوں پر دھاوا بول کر املاک کو تباہ کر دیا۔ لوگوں نے سپم نشی کانت سنگھ کے گھر پر حملہ کرکے گیٹ کے سامنے بنے بنکروں کو تباہ کر دیا۔ اسی ہجوم نے امپھال مغربی ضلع کے سگولبند میں ایم ایل اے آر کے امو کے گھر پر دھاوا بول دیا اور فرنیچر جلا کر کھڑکیاں توڑ دیں۔ ان کے علاوہ جن تین ریاستی وزراء اور چھ ممبران اسمبلی کی گھروں پر حملہ ہوا ان میں وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کے داماد بھی شامل تھے نیز، سپم رنجن، ایل سوسندرو سنگھ اور وائی کھیم چند کے گھر پر بھی حملہ ہوا۔
میتی سماج سے تعلق رکھنے والے ان حملہ آوروں پر بیرین سنگھ نے پولیس کے ہتھیار لٹائے تھے اور انہیں تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی تھی، بطور ثبوت جس کی آڈیو بھی موجود ہے۔ ان لوگوں کی ناز برداری کے لیے وہ مخالفین یعنی کوکی قبائل پر بمباری کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد، جب مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو انتخابی مہم سے فرصت ملی تب انہوں نے پرتشدد واقعات کے پیش نظر ایک اعلیٰ سطحی سیکوریٹی حکام کے ساتھ میٹنگ کرکے ریاست کی سیکوریٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر انہوں نے وہاں موجود افسران اور ریاستی اداروں سے ریاست میں امن و امان کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ ان کی مدد کے لیے مرکزی پولیس فورسیز کی پچاس اضافی کمپنیاں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پہلے سے وہاں بیس کمپنیاں تعینات ہیں۔
قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے منی پور میں حالیہ تشدد کے سنگین معاملات کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی ہدایات پر تیرہ نومبر 2024 کے بعد وقوع پذیر ہونے والے تینوں مقدمات کی دوبارہ جانچ شروع کی گئی ہے۔ این آئی اے کی ٹیم تفتیش کے لیے جائے وقوع پر پہنچ گئی اور اس نے مقامی پولیس سے دستاویزات اور شواہد اکٹھے کیے۔ منی پور میں برپا ہونے والے تشدد کے پیچھے سازش کو بے نقاب کرکے مجرموں پر سخت کارروائی کرنے کے لیے تین معاملات کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ اس میں پہلا واقعہ گیارہ نومبر 2024 کو بوربیکارہ میں پیش آیا جہاں نامعلوم مسلح عسکریت پسندوں نے ایک پولیس اسٹیشن، مکانات اور دکانوں پر حملہ کیا۔ اس دوران آتشزدگی اور فائرنگ میں دو شہری ہلاک ہوئے۔ بعد ازاں تین خواتین اور تین بچوں سمیت چھ افراد کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔
دوسرا معاملہ اسی دن جکوردھور کارونگ میں ہوا جہاں سی آر پی ایف چوکی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس میں ایک کانسٹبل زخمی ہوا، جسے علاج کے لیے سلچر بھیجا گیا ہے۔ پولیس اور سی آر پی ایف کی جوابی کارروائی میں نامعلوم عسکریت پسندوں کی لاشیں اور ان کے پاس سے اسلحہ و گولہ بارود برآمد ہوا۔ تیسرا واقعہ سات نومبر 2024 کو جیریبام میں ایک اکتیس سالہ خاتون جوسانگکم کا ہے جسے عصمت دری کے بعد جلا دیا گیا۔ وہ تین بچوں کی ماں تھی اور اپنے گھر میں عسکریت پسندوں کا نشانہ بنی۔ اس معاملے میں بھی این آئی اے نے دوبارہ ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔ یہ تیسرا واقعہ ہی بعد والے دو سانحات کی وجہ بنا۔ اس کے بعد گیارہ نومبر کو حمار قبائلی گاؤں کے گیارہ رضاکاروں کے قتل کا بدلہ تھا۔ انہیں سیکورٹی ایجنسیوں نے "عسکریت پسند” قرار دے کر موت کے گھاٹ اتاردیا تھا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی جب جھارکھنڈ میں قبائلی خواتین کے تحفظ کا رونا رو رہے تھے اس وقت منی پور کے جیری بام ضلع میں سات نومبر کی رات ایک اکتیس سالہ قبائلی خاتون کے پیر پر گولی ماری گئی۔ اس کے بعد زخمی خاتون کی اجتماعی عصمت دری ہوئی اور پھر اسے زندہ جلا دیا گیا۔ مسلح میتی حملہ آوروں نے گاؤں میں فائرنگ کرتے ہوئے لوٹ مار کی اور سترہ مکانات بھی پھونک دیے۔ اس قتل کو غارت گری کی سزا تین بچوں کو بھی ملے گی جن کی ماں کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔ منی پور میں بی جے پی کی سرکار ہے اس کے باوجود خاتون کی جلی ہوئی لاش کو فارنسک جانچ کے لیے پڑوسی ریاست آسام کے شہر سلچر لے کر جانا پڑا۔ ضلع مجسٹریٹ کو ایسا کرنے کی یہ وجہ بتائی گئی کہ ضلع کے صدر مقام میں پوسٹ مارٹم اور فارنسک جانچ کی سہولتیں نہیں ہیں۔ منی پور میں بڑھتے ہوئے نسلی بحران کے درمیان نعش کو نیشنل ہائی وے-37 کے ذریعے جیری بام سے امپھال تک لے جانا ممکن نہیں تھا اس لیے لاش کو ہوائی جہاز کے ذریعے آسام بھیجا جائے گا۔ لاش چونکہ جل چکی تھی اس لیے راکھ سے یہ پتہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ عصمت دری ہوئی یا نہیں لیکن ہڈیوں کے اندر کیل کے نشان شہادت دے رہے تھے کہ مقتولہ پر کیسے ستم توڑے گئے۔
اس واقعہ کے بعد قبائلی تنظیموں نے منی پور میں کوکی، جومی، ہمار برادریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مرکزی حکومت سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے لیکن وزیراعظم مودی کو چونکہ اس وقت ان کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے اس لیے انہوں نے اپنی توجہات جھارکھنڈ کے قبائلیوں پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال اٹھائیس مئی کو ضلع کاکچنگ میں ایک مجاہد آزادی کی اسی سالہ بیوہ کو اس کے گھر میں بند کر کے زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس بزرگ خاتون کے خاوند چورا چند سنگھ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کے رکن تھے۔ انہیں سابق صدر اے پی جے عبدالکلام نے اعزاز سے نوازا تھا۔ اپریل 1997 میں آل انڈیا فارورڈ بلاک کی طرف سے انہیں نیتا جی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا اس کے باوجود انگریزوں کی جوتیاں چاٹنے والے جعلی دیش بھکتوں کو ان کی اہلیہ پر رحم نہیں آیا اور ریاستی و مرکزی حکومت نے اسے اس لیے نظر انداز کر دیا کیونکہ وہ کوکی تھی۔ اس بار چونکہ میتی سماج پر ظلم ہوا اس لیے دونوں سرکاریں فکرمند ہوگئی ہیں کیونکہ یہ ان کا ووٹ بینک ہے۔
چھپنّ انچ کی چھاتی پیٹنے والے مودی کے لیے یہ نہایت شرم کا مقام ہے کہ ایک ننھا سا صوبہ پچھلے ڈیڑھ سال سے جل رہا ہے اور وہ اس آگ پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ ڈبل انجن سرکار کی اس نا اہلی نے ریاست کے لوگوں کو بھگوائیوں سے پوری طرح مایوس کر دیا ہے۔ ان لوگوں نے پہلے تو انتخاب میں پرامن طریقے سے سرکار کا دماغ درست کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں جب میتی سماج نے اپنے بچوں اور خواتین کی لاشوں کو دریا میں تیرتے ہوئے دیکھا تو ان کے صبر کا پیمانہ پوری طرح لبریز ہوگیا اور ان کا مشتعل ہجوم خود اپنے وزیروں پر حملہ آور ہوگیا ۔ منی پور کی سرکار اگر پہلے ہوش میں آتی تو فی الحال خود کو اس مصیبت سے بچا لیتی اور مرکزی حکومت کی رسوائی کا سبب بھی نہیں بنتی۔ مودی اور بیرین سنگھ کی سرکاروں نے ریاست کے عوام کا چین و سکون غارت کر رکھا ہے۔ فسطائی طاقتوں نے ریاست کے ان لوگوں کو بھی اپنا دشمن بنالیا ہے جن کی ناز برداری کے لیے کوکیوں سے رقابت مول لی گئی تھی۔ منی پور میں اب بی جے پی کی حالت دھوبی کے گدھے کی سی ہوگئی ہے جو گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔ اس پر کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
خدا ہی ملا نہ وصال صنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024