منی پور کا کھیل :تشدد کی آگ میں الیکشن کا تیل

وزیراعظم مودی کےقول و عمل میں واضح تضاد کی ایک اور منی پوری تصویر

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

تمل ناڈو کے لیے ایک دن میں ووٹنگ، جبکہ منی پور کے لیے دو دن! چہ معنی دارد؟
کوکی اور میتی قبائل کے باہمی خلفشار کے درمیان مقامی مسلمانوں کا مسیحائی کردار رحمتِ الٰہی۔۔۔
منی پور ایک ننھا سا صوبہ ہے اور وہاں دو عدد حلقۂ انتخاب ہیں۔ ان حلقوں کا جغرافیہ اس طرح ہے کہ درمیان کی وادی میں اندرونی منی پور اور اس کو چہار جناب سے گھیری ہوئی پہاڑیاں خارجی منی پور کا حلقۂ انتخاب کہلاتی ہیں۔ ان دونوں حلقوں کا نظام الاوقات بھی بڑا دل چسپ ہے۔ میدانی علاقہ اور نصف منی پور کی پولنگ ایک دن اور باقی نصف پہاڑیوں پر دوسرے روز ووٹ ڈالے گئے۔ یہ حیرت انگیز صورت حال ہے کہ تمل ناڈو جیسے بڑے صوبے کی جملہ 39؍ نشستوں پر ایک دن میں الیکشن کی تکمیل ہوگئی اور منی پور جیسے چھوٹے سے صوبے کے ایک حلقۂ انتخاب کے اندر دو الگ الگ دنوں میں رائے دہندگی کروانا طے کیا گیا جو وزیر اعظم کے اس جھوٹ کا پردہ فاش کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی بروقت مداخلت سے ریاست میں امن و امان قائم کر دیا ہے۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ تھا کہ اس کو بولنے سے قبل ہٹلر کے پروپگنڈا وزیر جوزف گوئبل کی زبان بھی کانپ جاتی لیکن کذب گوئی کے معاملے میں وہ بے چارہ مودی کے سامنے پانی بھرتا ہے۔ گوئبل کا اصول تھا کہ ’کبھی بھی بھول چوک یا غلطی کو تسلیم نہ کرو اور نہ کبھی الزام قبول کرو۔ ایک وقت میں ایک دشمن پر توجہ مرکوز کرکے ہر غلط کام کے لیے اس کو مورد الزام ٹھیراو۔ سیاسی ہنگامہ آرائی کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھاو۔ جبکہ مودی نے بڑے فخر سے اس حکمت عملی کو ’آپدا میں اوسر ‘یعنی مشکل میں موقع کے نام سے منسوب کررکھا ہے۔ منی پور کے معاملے میں بزدلی اس انتہا کو پہنچی کہ صاحب منی پور تو دور پڑوس میں میزورم جانے کی جرأت بھی نہیں کرسکے۔ وہاں کسی مخالف پارٹی کی حکومت نہیں تھی اور وہ جانا بھی چاہتے تھے مگر جب حلیف جماعت کے سابق وزیر اعلیٰ زورم تھنگا نے منی پور تشدد کی وجہ سے ان کے ساتھ اسٹیج پر شراکت داری سے انکار کردیا تو وہ ڈر گئے۔ ان کی ہمت جواب دے گئی تو انہوں نے اپنی جگہ وزیر داخلہ کو جانے کے لیے کہہ دیا۔ وہ بھی انہیں کے قبیلے کے تھے اس لیے کیسے جاتے؟ امیت شاہ نے پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو جانے کے لیے کہہ دیا۔ وہ بھی نہیں جاتے مگر انکار کی جرأت نہیں کر سکے اس لیے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں خانہ پری کرکے لوٹ آئے۔ یہ ہے وشو گرو کے احساسِ جرم کا حال کہ وہ دنیا بھر میں تو گھومتے ہیں مگر اپنے ہی ملک کی ایک ریاست میں جانے سے خوف کھاتے ہیں۔ میزورم کے سابق وزیر اعلیٰ تھنگا کا اندیشہ درست نکلا اور صوبے کے لوگوں نے انہیں بی جے پی کا ساتھ دینے کی سزا دے کر اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ ویسے مودی کے ساتھ جانے والے بڑے دھرندر سیاستدانوں کا یہی حال ہے۔ تین سابق وزرائے اعلیٰ کی حالت دیکھیں نتیش کمار گھر سے نہیں نکل پا رہے ہیں۔ غلام نبی آزاد نے میدان چھوڑ دیا ہے اور کیپٹن ارمندر سنگھ گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہوگئے ہیں ۔
منی پور میں جس دن لوگ ووٹ ڈال رہے تھے برطانوی پارلیمنٹ میں ’منی پور اور ہندوستان میں مذہبی آزادی کی موجودہ صورت حال’ کا معاملہ زیر بحث تھا۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ جن لوگوں نے نہیں دیکھی انہیں یہ جان کر تعجب ہوگا کہ وہ بالکل چرچ سے متصل ہے اور اس میں گرجا گھر کا سربراہ بر سبیلِ عہدہ رکن ہوتا ہے۔ مذہب کی یہ اہمیت آج بھی برطانوی سیاست میں موجود ہے لیکن مغرب زدہ مرعوبیت کا شکار کوئی دانشور اس پر ملائیت جیسی کوئی تہمت لگانے کی زحمت نہیں کرتا۔ خیر یہ تو حقیقت کا ایک پہلو ہے۔ برطانوی ایوان پارلیمنٹ میں لارڈ بشپ آف ونچسٹر نے جب منی پور پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تو اس کو رفع کرنے کے لیے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ خارجہ ڈیوڈ کیمرون کو ہاؤس آف لارڈز کے سامنے بیان دینا پڑا۔ انہوں نے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اپنے آئین کے ذریعے مذہبی آزادی اور عقیدے کے لیے پرعزم ہے لیکن ایسے عزم کا کیا فائدہ جو زمینی سطح پر اثر انداز نہیں ہوتا ہو؟
لارڈ بشپ آف ونچسٹر کے ذریعہ حکومت سے یہ پوچھے جانے پر کہ برطانیہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کی موجودہ صورت حال کا کیسے جائزہ لیتا ہے؟ ڈیوڈ کیمرون نے یہ صفائی دی کہ "ہندوستان ایک کثیر مذہبی اور کثیر النسل جمہوریت ہے، یہ دنیا کے متنوع ترین مذہبی معاشروں میں سے ایک ہے۔ یہاں 96 کروڑ 60 لاکھ ہندو، 17 کروڑ 20 لاکھ مسلمان، 2.8 کروڑ عیسائی ہیں۔ وہاں 2 کروڑ سکھ، 80 لاکھ بدھ اور 45 لاکھ جین بھی رہتے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون چونکہ دولت مشترکہ کے ممالک کی وزارت کے ذمہ دار بھی ہیں جس میں ہندوستان بھی شامل ہے، اس لیے یہ سوال براہ راست ان سے متعلق تھا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ’’اگر اس سلسلے میں کوئی خاص مسئلہ یا تشویش پیدا ہوتی ہے تو برطانوی حکومت بلاشبہ ان مسائل کو اٹھاتی ہے۔ اس عمومی سوال و جواب کے بعد براہِ راست منی پور بحث کا موضوع بن گیا۔
ونچسٹر کے لارڈ بشپ کا کہنا تھا کہ "منی پور میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پریشان کن اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جنہیں ’انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم یا بیلیف الائنس‘ (بین لاقوامی مذہبی آزادی و عقائد کے وفاق) نے اجاگر کیا ہے۔ برطانیہ اس اتحاد کا رکن ملک ہے اور اس میں ایم پی فیونا بروس وزیر اعظم کی خصوصی ایلچی موجود ہیں‘‘۔ ان کے عالمی کردار کو موثر بنانے کے لیے حکومت کی حمایت پر بھی استفسار کیا گیا۔ برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت 38 ممالک کے اس اتحاد میں فی الحال ہندوستان شامل نہیں ہے اس کے باوجود کیمرون نے لارڈ بشپ کو حکومت کی حمایت کا یقین دلایا۔ ایک طرف وزیر اعظم کا وطن عزیز کو وشو گرو بنانے کا دعویٰ اور دوسری جانب یہ بدنامی، یہ دونوں چیزیں ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ویسے برطانوی بحث و مباحثہ سے قطع نظر تمل ناڈو اور منی پور کی رائے دہندگی کا ٹائم ٹیبل ہی بی جے پی سرکار کے منافقانہ چہرے کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے اور اس کا کوئی جواب حکومتِ ہند کے پاس نہیں ہے ۔
پچھلے سال منی پور میں پھوٹنے والے تشدد کے بعد بڑی ہمت کرکے امیت شاہ نے ایک بار ریاست کا دورہ کیا تھا اور پھر سے جلد آنے کا وعدہ کرکے لوٹے تھے مگر وہ جملہ نکلا۔ گیارہ ماہ کے بعد انہیں ووٹ مانگنے کے لیے منی پور کی یاد آئی۔ ان کے دورے سے قبل وزیر اعظم حالات کے معمول پر آنے کا اعلان کرچکے تھے حالانکہ اب تک سو سے زیادہ لاشیں سرکاری مردہ خانے میں اپنی آخری رسوم کا انتظار کررہی ہیں اور ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ راحت کیمپوں میں بے خانماں برباد، دال چاول پر گزارہ کر رہے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی انتخابی ریلی کا اعلان ہوا تو اس کے ساتھ ہی تشدد پھوٹ پڑا۔ دو کوکی قبیلے کے نوجوانوں کو بندوق کی گولی سے بھون دیا گیا۔ مسلح افراد کے حملوں کی وجہ سے تشدد کے پیش نظر ریاست میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔ بی جے پی نے اندرون منی پور تو اپنے امیدوار وزیر تعلیم ٹی بسنتا کو میدان میں اتارا مگر بیرون منی پور اس نے کسی کوکی امیدوار کو اتارنے کے بجائے ناگا پیپلز فرنٹ (این پی ایف) کی حمایت کر دی۔ اس طرح وہ میتی سماج کو کوکیوں سے لڑانے کے بعد اب ان کے خلاف ناگا لوگوں کو بھڑکانے کی سازش میں مصروف ہو گئی کیونکہ کوئی کوکی تو اسے ووٹ دینے سے رہا۔
امیت شاہ کے ریاستی دورے سے قبل منی پور حکومت نے شہری علاقوں میں ڈرون یا ریموٹلی پائلٹ گاڑیوں (آر پی وی) کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ راج بھون، چیف منسٹر سکریٹریٹ آفس کمپلیکس، اسمبلی کمپلیکس، سیول سکریٹریٹ، پولیس ہیڈ کوارٹر اور ہوائی اڈے کو کور کرنے والے مستقل ریڈ زون علاقوں میں گڑبڑ پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات دے دی گئیں۔ ان حفاظتی انتظامات کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہپتا کانگجی بنگ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منی پور اور پورا شمال مشرق اتنا اہم ہے کہ جب وہ ریاستیں ترقی کریں گی تو پورا ملک ترقی کرے گا۔ شاہ جی نے کمال ڈھٹائی سے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی شمال مشرق اور منی پور کے دوست ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے ’فرینڈ ان نیڈ از فرینڈ ان ڈیڈ‘ یعنی وقتِ ضرورت کام آنے والا دوست ہی حقیقی دوست ہوتا ہے۔ لیکن یہ کیسا خود غرض دوست ہے کہ جس نے تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود تقریباً ایک سال تک مڑ کر اپنے دوستوں کی جانب دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
امیت شاہ نے الزام لگایا کہ کانگریس ملک کو تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس نے جنوبی اور شمالی ہندوستان کی سیاست شروع کردی ہے اور منی پور والوں سے کہا وہ کسی بھی حالت میں منی پور کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ اول تو کسی ریاست کے تقسیم ہونے سے وہ ملک سے الگ نہیں ہوتی، دوسرے خود مودی سرکار نے جموں و کشمیر سے لداخ کو الگ کرنے کا کام کیا ہے۔ اس سے پہلے اٹل بہاری واجپائی نے بھی کئی ریاستوں کو تقسیم کر دیا تھا اور بی جے پی بڑے فخر سے ان کا ذکر کرتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بی جے پی کی نا اہلی نے منی پور کو عملاً پہاڑ اور وادی میں تقسیم کر دیا ہے۔ اب نہ پہاڑی کے کوکی میدان میں آسکتے ہیں اور نہ وادی سے میتئی پہاڑوں پر جانے کی ہمت کرسکتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان آسام پولیس، بی ایس ایف، سی آر پی ایف اور آسام رائفل حائل ہیں۔ ان تفتیشی چوکیوں سے گزرنا ہند پاک سرحد عبورکرنے سے زیادہ دشوار گزار ہے۔ یہ سب ڈبل انجن سرکار کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ پچھلے گیارہ ماہ میں رسم نبھانے کے لیے صرف گیارہ منٹ کا ایک اسمبلی اجلاس ہوا اور وہ بھی تعزیت کے بعد ختم ہوگیا۔کوکی ارکان اسمبلی کو تک اجلاس میں آنے کا موقع نہیں تھا تو بے چارہ عام کوکی کیا آتا؟ وزیر اعظم مودی کے مطابق یہ ہے حالات کے معمول پر آنے کی حقیقت!
وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوگوں کو 14؍ اپریل 1944 کا وہ واقعہ یاد دلایا جب موئرنگ پر سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی نے حملہ کر دیا تھا۔ وہاں پہلی بار ہندوستانی پرچم لہرایا گیا تھا، بہتر ہوتا کہ شاہ جی یہ بھی بتاتے کہ اس وقت ان کا سنگھ پریوار انگریزوں کی مخبری کر رہا تھا اور ونایک ساورکر انگریزوں سے معافی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ بی جے پی حکومت نے رام مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا کیا لیکن اس کی تکمیل سے پہلے ہی اس پر اپنی سیاسی روٹی سینکنے لگی۔ امیت شاہ کو یہ کہنے میں شرم آنی چاہیے تھی کہ ان کی جماعت نے ملک میں امن قائم کرنے کے لیے علیحدگی پسند تحریک سے لڑنے کا اپنا وعدہ پورا کیا۔ منی پور میں جو کچھ ہوا وہ اگر امن ہے تو بدامنی کسے کہتے ہیں؟ امیت شاہ کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں 25 کروڑ لوگوں کو خط غربت سے اوپر اٹھایا گیا ہے۔ اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ 80 کروڑ لوگوں کو کھانا مفت دیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے 105 کروڑ لوگ مفت اناج کے محتاج تھے؟ چار کروڑ لوگوں کو گھر دینے کا اعلان کرنے والے بھولے شاہ بھول گئے کہ 2022 تک تمام لوگوں کو پکے مکان دینے کا وعدہ کیا گیا تھا تو کیا ملک میں صرف چار کروڑ لوگ ہی بے مکان تھے اور اب کوئی نہیں ہے؟
امیت شاہ نے بڑے فخر سے کہا کہ وزیر اعظم 70 بار شمال مشرق کا دورہ کر چکے ہیں لیکن پچھلے ایک سال میں وہ ایک بار بھی آسام سے آگے کیوں نہیں گئے؟ ان کے مطابق وزراء نے 700 بار خطے کا دورہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ خود گیارہ ماہ کے بعد منی پور کیوں آئے اور جب وہ خود نہیں آئے تو دوسرا کون آیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ چھوٹی ریاستیں ملک کی روح ہیں اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے آسام کو الوداع کہہ دیا تھا۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ آسام چھوٹی ریاست نہیں ہے اور اگر نہرو نے الوداع کہہ دیا تھا تو کیا رام کی طرح مودی آسام کو واپس لے کر آئے ہیں؟ مودی کا حال تو یہ ہے کہ وہ سری لنکا کو کچا تیو جزیرے کے لیے کانگریس پر بہتان تراشی کرتے ہیں جس کا رقبہ محض ایک مربع کلومیٹر ہے جبکہ کئی کلومیٹر انہوں نے بنگلا دیش کو دے دیے اور اروناچل پردیش میں اس سے بھی بڑے علاقہ پر چین نے قبضہ کرلیا۔ اس بات کی گواہی کسی اور نے نہیں بلکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے ایوان میں دی ہے۔ لداخ میں چینی قبضے کے خلاف ریاست گیر تحریک چل رہی اور وہاں جانے کی ہمت وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں میں نہیں ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ کو یہ تو معلوم ہے کہ کانگریس کے ایبوبی سنگھ کی 15 سالہ حکومت کے دوران منی پور میں کوکی ناگا تنازعہ کے دوران 750 لوگ مارے گئے مگر ان کے تاریک دور میں تو ایک سال کے اندر 200 سے زیادہ لوگوں کو مار دیا گیا اور اب وہاں سرکاری پناہ میں چلنے والی ملیشیا آرم بائی ٹینگول کا راج ہے۔ اس کی تعذیب سے نہ تو ارکان اسمبلی محفوظ ہیں اور نہ پولیس افسر لیکن ریاستی سرکار اسے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ ٹینگول پر لب کشائی کرنے کے بجائے بڑی بے حیائی کے ساتھ مظلوم کوکی قبیلے پر بلا واسطہ منشیات کا کاروبار کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن ہونے کا الزام لگا دیتے ہیں۔ ایسے میں انتخابات کا ناٹک ان کے لیے بے معنیٰ ہے۔ کیا کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ عدم تحفظ کے شکار لوگ کیمپ سے نکل کر ووٹ کرنے جائیں گے جبکہ پہلے مرحلے میں ووٹنگ کے دوران کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر فائرنگ، دھمکیاں، ای وی ایم کو توڑنے اور بوتھ پر قبضہ کرنے جیسے واقعات رونما ہو چکے ہیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہاں 72 فیصد لوگوں نے ووٹنگ کی۔
اس تشدد کے سبب کانگریس نے منی پور کے 47 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا جس میں اندرون منی پور حلقہ کے 36 اور بیرونی منی پور حلقہ کے 11 پولنگ اسٹیشن شامل تھے۔ اس کے جواب میں منی پور کے چیف الیکٹورل آفیسر نے 11 پولنگ اسٹیشنوں پر ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر 22؍ اپریل کو دوبارہ پولنگ کرانے کا اعلان کردیا۔ مشیت ایزدی کے کرشمے بھی ہوش ربا ہوتے ہیں۔ سنگھ پریوار نے مسلمانوں کو ویلن بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن منی پور کی یہ صورت حال ہے کہ کوکی اور میتی قبائل کے درمیان تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ میتی، سرکار دربار کے باوجود کوکی علاقوں میں نہیں جا سکتے اور نہ کوکی وادی میں آنے کا تصور کر سکتے ہیں، لیکن ان کے بیچ مسلمان پُل بنے ہوئے ہیں۔ نسلاً میتی ہونے کے سبب وادی میں انہیں پرایا نہیں سمجھا جاتا ہے اور چونکہ وہ غیر ہندو ہیں اس لیے کوکی انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔ وہ بلا خوف وخطر دونوں علاقوں میں آتے جاتے ہیں۔ اس دورِ پر فتن میں منی پوری مسلمانوں کو رب کائنات نے ایک ایسی حیثیت سے نواز دیا ہے جس سے اقتدار کے باوجود سنگھ پریوار محروم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے تشدد کی آگ میں انہیں امن کا پیغامبر بنا دیا۔ یہ معجزہ شکر گزاری کا تقاضا کرتا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 منی پور میں جس دن لوگ ووٹ ڈال رہے تھے برطانوی پارلیمنٹ میں ’منی پور اور ہندوستان میں مذہبی آزادی کی موجودہ صورت حال’ کا معاملہ زیر بحث تھا۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ جن لوگوں نے نہیں دیکھی انہیں یہ جان کر تعجب ہوگا کہ وہ بالکل چرچ سے متصل ہے اور اس میں گرجا گھر کا سربراہ بر سبیلِ عہدہ رکن ہوتا ہے۔ مذہب کی یہ اہمیت آج بھی برطانوی سیاست میں موجود ہے لیکن مغرب زدہ مرعوبیت کا شکار کوئی دانشور اس پر ملائیت جیسی کوئی تہمت لگانے کی زحمت نہیں کرتا۔ خیر یہ تو حقیقت کا ایک پہلو ہے۔ برطانوی ایوان پارلیمنٹ میں لارڈ بشپ آف ونچسٹر نے جب منی پور پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تو اس کو رفع کرنے کے لیے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون کو ہاؤس آف لارڈز کے سامنے بیان دینا پڑا۔
وزیرخارجہ برطانیہ ڈیوڈ کیمرون


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024