ایم شفیع میر،جموں و کشمیر
علاج کے نام پر مریضوں کو لوٹنے کا بازار گرم
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر /طبیب ایک مسیحا ہوتا ہے ، مریض کی خدمت کرنا نہ صرف ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہوتی ہے بلکہ اخلاقی اور انسانی فرض بھی بنتا ہے ،مریض علاج سے زیادہ ڈاکٹر کے اخلاق سے شفا پاتاہے ،ماضی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بے شمار ایسے طبیب گزرے ہیں جنہوں نے مسیحائی کے اِس پیشہ کا حق ادا کیا ہے ۔عملی طور پر اطباء نے ایسے علم کا مظاہرہ کر کے دکھایا جس کے دور رَس نتائج آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ماضی کے طبیبوں کی مخلصانہ خدمات کی بے شمار مثالیں ہمارے اطراف و اکناف میں بکھری پڑی ہیں جنہیں آج بھی زمانہ بڑے احترام سے یاد کرتا ہے۔گزرے زمانے کے حقیقی مسیحاؤں (طبیبوں/ڈاکٹروں )کی خدمات واقعی مثالی تھیں۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کے ماضی کے طبیبوں کوایسی طبی سہولیات یعنی مشینری میسر نہیں تھیں جن کے ذریعے وہ مریضوں کی تشخیص کرسکتے لیکن ان کے اخلاق اور طرزِ تشخیص میں وہ جادوئی اثر تھا کہ مریض کی نبض دیکھ کر ہی وہ بیماری کا پتہ لگاتے تھے ۔ماضی کے ڈاکٹر واقعی نبض شناس اورچہرہ شناس تھے جومریضوں کی نبض دیکھ کر اور چہروں کو پڑھ کر بیماری کا مکمل اندازہ لگاتےتھے اور پھر مریض کے علاج و معالجہ کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے۔
نبض عجیب شے ہے ،یہ چپ نہیں رہتی ،بلکہ سب کچھ کہہ دیتی ہے ۔نبض کے ذریعے نبض شناس ڈاکٹر مریض کے جسم کی پوشیدہ بیماریوں کے اسباب وعلامات ،ان کے خراب اثرات اور ان سے نجات کے لیے علاج جان لیتے تھے ۔نبض پر نباض کی انگلیاں رکھنے کی دیر ہوتی تھی کہ وہ انسانی وجود میں پلنے والے مرض کی داستان سنا دیتے تھے۔سائنس نے امراض کی تشخیص کے لیے جتنی بھی ایجادات کی ہیں ،مثلاً بیش قیمت مشینیں اور آلات ،ان سب کی ساخت نبض کی اساس پر ہے ۔پہلے زمانے میں نبض ہی کے ذریعہ تشخیص ہوتی تھی اور امراض کے جان لینے کا انحصار اسی پر کیا جاتا تھا ۔بڑے پائے کے نباض آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں اور ہم ان کی علمیت اور مہارت کی داستانیں سن کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
بمشکل آدھ صدی پہلے کی بات ہے کہ تشخیص و علاج کا شعبہ ہمارے سرکاری و غیر سرکار اطباء نے نہایت ہی کامیابی کے ساتھ سنبھالا ہوا تھا۔ ایسی ایسی نامور شخصیات گزری ہیں جن کے کارناموں اور فنی مہارت کی تفصیلات آج کے جدید انسان کو بھی متحیرکردیتی ہیں۔ ایسے مسیحاؤں کی فہرست طویل ہے، جو آج کے اِس مفاد پرستانہ دور کی اندھیرنگری میں ایک جگنو کی طرح چمکتے ہیں۔ ان میں بالخصوص ایک شخصیت جن کی طرز خدمات کو دیکھ کر دورِ ماضی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، ڈاکٹر اشتیاق احمد میر صاحب کی ہے ۔موصوف سادگی اور ایمانداری کی ایک مثالی شخصیت ہیں، ڈاکٹر اشتیاق میر صاحب موجودہ وقت میں مریض کے لیے واقعی ایک مسیحا ہیں۔مریض کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔موصوف کی حتی الوسع یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ مریض کے لیے آسان علاج کا سبب بنیں۔ایسے زمانے اور ایسے دور میں جہاں ڈاکٹروں کا اکثریتی طبقہ مریض کو اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنانے میں کوئی بھی پہلو نہیں چھوڑتے ایسے میں ڈاکٹر اشتیاق کا مریضوں کو آسان طبی امداد فراہم کرنا واقعی قابل ستائش اور قابل فخر عمل ہے۔ ڈاکٹر میر صاحب کی طرزِ خدمات کو دیکھ کر ماضی کا وہ سنہرا دور یاد آتا ہے جب بغیر کسی لالچ یا غرض و غایت کے بیرون ممالک سے طبیب مریضوں کا علاج کرنے کے لیے آتے تھے ۔انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ کونسی بات تھی جو ان ڈاکٹروں کو بغیر کسی معاوضے یا قلیل اجرت کے عوض بیرون ممالک سے یہاں آنے پر رضامند کرتی تھی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ یہ اُس دور اور زمانے کی بات ہے جب یہاں سڑک جیسی سہولیت بھی دستیاب نہیں تھی اور یہ مسیحا نما ڈاکٹر سیکڑوں میل پیدل سفر طے کر کے یہاں پہنچتے تھے اور پھر خندہ پیشانی سے مریضوں کی طبی خدمات انجام دینے کے لیے ہر وقت حاضر رہتے تھے۔ وسیع سوچ وبچار کے بعد یہ سارا معاملہ کچھ اس طرح سے سمجھ میں آتا تھا کہ اِن ڈاکٹر/مسیحاؤں کو ان کی احساس ہمدردی شہروں سے نکال کر ان دور دراز اور دشوار گزار پہاڑیوں پر پہنچاتی تھی۔یہ احساس ہمدردی ہی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے دکھ درد ،مشکلات اور پریشانیوں کو اپنا دکھ درد اور پریشانی سمجھتا ہے۔ بے شک احساسِ ہمدردی معاشرت کی بنیاد ہوتی ہے اور جب معاشرت میں احساسِ ہمدردی مفقود ہو جاتی ہے تو معاشرت کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں اور جب معاشرت کی بنیادیں کمزور ہوجاتی ہیں تو پھر معاشرہ مسیحاؤں اور ہمدردوں کے ہاتھ میں نہیں لٹیروں اور احساس سے عاری افراد کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔
بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک طرف ماضی کے ڈاکٹروں کی قابل ستائش ،قابل فخر اور ناقابل فراموش خدمات کی داستانیں پڑھ کر اور سن کر انسان کو اطمنان اور تسکین مل جاتی ہے وہیں دوسری جانب موجودہ دور کے دنیائے طب میں مریضوں کے لیے دور دور تک بکھرا سناٹا دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ،انسان کو سوائے مایوسی اور پچھتاوے کے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا ۔اخلاقی اقدار سے خالی اور کورے افراد نے اطباء کی جگہ لے لی جو ایک نسخے کے ساتھ ہی مریض کیے لیے پریشانیوں کا پہاڑ کھڑا کر دیتے ہیں،ڈاکٹر صاحب نسخہ لکھتے ہیں یا مریض کے کیے موت کا پیغام کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
آج معالج کی ہدایت پر مختلف امراض کی تشخیص کے لیے بہت سے ٹیسٹ کروانے پڑ رہے ہیں ۔پھر معالج کو ان کی رپورٹ پڑھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ مریض فلاں مرض میں مبتلا ہے ۔اس کے بعد وہ علاج اور ادویہ تجویز کرتے ہیں۔عام چھوٹے موٹے ڈاکٹروں کا تو ذکر ہی کیا، نامی گرامی ماہر ڈاکٹر صاحبان بھاری فیسیں لے کر بڑے ناموں والی لیبارٹریوں سے ڈھیروں ٹیسٹ کروانے کے بعد بھی صحیح تشخیص کیوں نہیں کرپاتے یہ سوال مریضوں کیے لیے سم قاتل ہے ۔مایوسی میں اگر ڈاکٹر بدل لیا جائے تو وہ نئے سرے سے تمام ممکنہ ٹیسٹ کسی نئی لیبارٹری سے کروانے کی تاکید کرتا ہے۔ مگر ڈھاک کے وہی تین پات، نتیجہ پھر بھی صفر نکلتا ہے اور اکثر کیسوں میں تشخیص نہیں ہو پاتی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ جدید لیبارٹری ٹیسٹوں کے بعد بھی بیماری تک پہنچنے میں کیا امر رکاوٹ ہوتا ہے؟ کیا ڈاکٹر صاحبان نااہل ہیں؟ کیا وہ غفلت کا شکار ہیں اور جان بوجھ کر صرف نظر کر جاتے ہیں یا پھر باہمی مفادات کا معاملہ ہے کہ لیبارٹری والے بھی خوش رہیں اور اطبا ءکے وارے نیارے بھی ہوتے رہیں۔ رہے بیچارے مریض تو وہ جائیں بھاڑ میں۔ مرنا تو ان کا مقدر ٹھہرا، اس بیماری سے نہیں تو کسی اور سے مرجائیں گے۔
ڈاکٹروں کی ٹیسٹ کروانے کی تجویز ایک پیچیدہ مسئلہ تو ہے ہی لیکن انسانیت اس وقت شرمسار ہوجاتی ہے جب ڈاکٹر صاحبان ادویہ لکھتے ہیں اور وہ ادویات صرف اسی کلینک پر دستیاب ہوتی ہیں جہاں ڈاکٹر صاحب بیٹھتے ہیں۔ اس کلینک کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی لکھی گئی ادویات دنیا کے کسی کونے میں دستیاب نہیں ہوتیں۔چند ایک ڈاکٹروں نے تو باضابطہ طور پر مارکیٹ میں اپنے خیر خواہ شرکت دار رکھے ہیں جو دوائیاں خود تیار کرتے ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب مریضوں کو علاج کے لیے وہی دوائیاں لکھ دیتے ہیں۔ناجائز منافع خوری میں شراکت داری کی اس مہلک وبا نے اچھے اچھے بھروسہ مند ڈاکٹروں کو قصائی بنا دیا ہے ۔ گوکہ ظاہری طور ان کا رنگ وروپ،چال ڈھال،طور واطوار انتہائی ہمدردانہ اور دوستانہ ہوتا ہے لیکن پردے کے پیچھے ایسے قصائی نما مسیحا مریضوں کے لیے موت کا سامان تیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔اب حالات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ غریب غربا مریض ڈاکٹروں کی طرز خدمات کو بھانپ کر علاج کے بجائے مرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحبان مریضوں کی اس حالت غیر کو محسوس کرنے کے بجائے مکمل طور پر فراموش کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں اکثر و بیشتر ڈاکٹر صاحبان کا شعبہ طب سے منسلک ہونے کا مقصد اور مطلب صرف اور صرف منافع ہے،بس منافع کے لیے ہی ڈاکٹر صاحبان جی رہے ہیں، اِس کے بغیر ہمارے اطباء کی آنکھوں کو کچھ بھی نہیں بہاتا ہے ،بقول شاعر۔۔۔۔۔
اِن طبیبوں کا حال مت پوچھو
یہ مریضوں کے دم پہ جیتے ہیں
ایسی صورتحال کے باجود بھی آج کے اس مفادپرستانہ دور میں بھی انتہائی خدا ترس اور ماہر ڈاکٹر موجود ہیں جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے وہ صاحب احساس ڈاکٹر صاحبان ٹیسٹ کے بغیر ہی معاملہ کی تہہ کو پہنچ جاتے ہیں ۔ غریب غرباء کو لیبارٹیریوں کے چکر کاٹنے کی مشقت میں ڈالے بغیر ہی کام چلا لیا جاتا ہےاور ان کی نیک نیتی کی اوپر والا لاج بھی رکھ لیتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس مقدس پیشہ سے منسلک ہر فرد کویہ توفیق عطا ہو کہ وہ اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دے کر انسانیت کی اور شعبہ طب کی لاج رکھے۔
***
ڈاکٹروں کی ٹیسٹ کروانے کی تجویز ایک پیچیدہ مسئلہ تو ہے ہی لیکن انسانیت اس وقت شرمسار ہوجاتی ہے جب ڈاکٹر صاحبان ادویہ لکھتے ہیں اور وہ ادویات صرف اسی کلینک پر دستیاب ہوتی ہیں جہاں ڈاکٹر صاحب بیٹھتے ہیں۔ اس کلینک کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی لکھی گئی ادویات دنیا کے کسی کونے میں دستیاب نہیں ہوتیں۔چند ایک ڈاکٹروں نے تو باضابطہ طور پر مارکیٹ میں اپنے خیر خواہ شرکت دار رکھے ہیں جو دوائیاں خود تیار کرتے ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب مریضوں کو علاج کے لیے وہی دوائیاں لکھ دیتے ہیں۔ناجائز منافع خوری میں شراکت داری کی اس مہلک وبا نے اچھے اچھے بھروسہ مند ڈاکٹروں کو قصائی بنا دیا ہے ۔ گوکہ ظاہری طور ان کا رنگ وروپ،چال ڈھال،طور واطوار انتہائی ہمدردانہ اور دوستانہ ہوتا ہے لیکن پردے کے پیچھے ایسے قصائی نما مسیحا مریضوں کے لیے موت کا سامان تیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔اب حالات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ غریب غربا مریض ڈاکٹروں کی طرز خدمات کو بھانپ کر علاج کے بجائے مرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحبان مریضوں کی اس حالت غیر کو محسوس کرنے کے بجائے مکمل طور پر فراموش کر رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023