مہاراشٹر اور کرناٹک کا سرحدی تنازع
پاکستان سے مقبوضہ کشمیر واپس لینے کی بات کرنے والے آپس میں ہی دست و گریباں
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
ریاستی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے سرحدی تنازع کو ہوا دی جارہی ہے
مہاراشٹر میں شیواجی پر گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اور بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی کے بیانات کو پڑھ کر کہاوت ’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ‘ کی یاد آتی ہے۔ صوبے کی نئی مخلوط حکومت کو عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے کچھ ایسا کارنامہ انجام دینا ضروری ہو گیا تھا جو پہلے والی وکاس اگھاڑی کی حکومت سے نہیں ہو سکا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے برطانیہ سے شیواجی کی تلوار واپس لانے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ ان لوگوں نے سوچا ہو گا کہ رشی سونک کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد یہ کام آسان ہوجائے گا لیکن اس سے پہلے کہ اس جانب کوئی پیش قدمی ہوتی ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ صوبے کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے شیواجی کے نمونے کو فرسودہ قرار دے کر نتن گڈکری کو عصرِ حاضر میں متبادل کے طور پر پیش کر دیا۔ یہ شیوسینا کو سونے کی طشتری میں ایک ایسی تلوار رکھ کر پیش کرنے کے مترادف تھا جس سے وہ بی جے پی کا سیاسی قتل عام کر دے۔
گورنر کی اس احمقانہ حرکت سے گھبرا کر بی جے پی والوں نے کسی طرح اپنا پلہّ جھاڑا تو ان کی حمایت میں نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس کی بیگم امرتا کود پڑیں۔ انہوں نے کہا ’’میں گورنر کو ذاتی طور پر جانتی ہوں۔ انہوں نے مہاراشٹر آنے کے بعد مراٹھی سیکھی ہے۔ وہ مراٹھیوں سے حقیقی محبت رکھتے ہیں۔ میں نے خود بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن ایسا کئی بار ہوا ہے کہ انہوں نے کچھ کہا اور اس کی کچھ اور تشریح کر دی گئی۔ وہ دل سے مراٹھی مانوس ہیں‘‘ امرتا پھڈنویس کا تجربہ درست ہو سکتا ہے اور گورنر دل سے مراٹھی بھی ہو سکتے ہیں انہیں مراٹھیوں سے محبت بھی ہو سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے اسی لیے انہوں نے مودی کے بجائے مراٹھی مانوس نتن گڈکری کو عصرِ حاضر میں شیواجی کا متبادل قرار دیا ہو لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گورنر صاحب شیواجی کا احترام کرتے ہیں یا نہیں؟ اپنے بیان میں انہوں نے شیواجی کی توہین کی یا نہیں؟ اگر کوئی شخص دل سے مراٹھی مانوس ہو تو کیا شیوسینا اس کے ذریعہ اپنے آئیڈیل شیواجی مہاراج کی تحقیر برداشت کر لے گی؟ ادھو ٹھاکرے کا بیان اس کی تردید کرتا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے مرکز کو خبردار کیا ہے کہ چار دن میں اگر گورنر کوشیاری کو واپس نہیں بلایا گیا تو شیوسینا اس کے خلاف اپنے انداز میں احتجاج کرے گی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ شیوسینا کا انداز پرتشدد ہوتا ہے۔ امرتا پھڈنویس کی حمایت کے بعد ادھو ٹھاکرے نے یاد دلایا کہ پچھلے ہفتہ گورنر کوشیاری نے شیواجی مہاراج کو پرانے دنوں کا آئیکن کہہ کر ان کی توہین کی تھی۔ انہوں نے کوشیاری کو مرکزی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا ایک ’ایمیزون پارسل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر کو یہ پارسل نہیں چاہیے۔ ادھو نے مرکزی حکومت سے استدعا کی چونکہ ہم یہ نہیں چاہتے اس لیے آپ اسے واپس لے لیں اور جہاں مرضی ہو بھیج دیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مرکزی حکومت ریاستوں پر اپنی پسند کے گورنروں کا تقرر کرتی ہے لیکن ایک آئینی عہدے پر فائز ہو جانے کے بعد اس سے غیر جانبداری کی توقع کی جاتی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے مرکزی حکومت سے سوال کیا کہ کیا گورنر کوشیاری کے ذریعہ پہلے جیوتی با پھولے اور اب شیواجی مہاراج کی توہین مرکزی حکومت کے جذبات و خیالات کا عکاس ہے؟ مرکزی حکومت کو اس کا جواب دینا ہو گا ورنہ ان کا یہ سوال درست ہو جائے گا کہ کیا گورنر کا عہدہ اولڈیج ہوم جیسا ہو گیا ہے؟
ادھو ٹھاکرے نے گورنر کی واپسی کے لیے دباو ڈالنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ اس کا نہایت موثر جواب مہاراشٹر کے معمر ترین سیاسی رہنما شرد پوار کی جانب سے آیا۔ انہوں نے کوشیاری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو اہم عہدہ نہیں دیا جانا چاہیے۔ سابق مرکزی وزیر نے مطابق کوشیاری نے ساری حدیں عبور کردی ہیں ۔ نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران شرد پوار نے کہا گورنر کی جانب سے کی جانے والی شیواجی کی تعریف بہت تاخیر سے سامنے آئی۔ ادھو کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے این سی پی سپریمو نے کہا کہ اب صدر اور وزیر اعظم کو کوشیاری کے بارے ایک حتمی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ بی جے پی کی رعونت دراصل اس کی راہ کا بہت بڑا روڑا ہے۔ اس سے جب کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو وہ توجہ دہانی کے بعد بھی مائل بہ اصلاح ہونے کے بجائے اپنے موقف پر اڑ جاتی ہے اور نقصان کر بیٹھتی ہے۔ گورنر کوشیاری کو اپنی ناک کا مسئلہ بناکر وہ اپنا ناقابلِ تلافی نقصان کروا رہی ہے۔ امرتا پھڈنویس اور بھگت سنگھ کوشیاری نے مل کر شیوسینا کے ہاتھوں میں جو ایشو تھمایا ہے، اس کی مدد سے مہاراشٹر میں بی جے پی کی ارتھی اٹھائی جا سکتی ہے۔
گورنر کے اس تنازعہ نے ساورکر پر راہل گاندھی کے تبصرے سے پیدا ہونے والی دراڑ کو پرُ کر دیا۔ ہندوستانی سیاست میں کانگریس کی مخالفت کے لیے گاندھی جی پر تنقید کرنا جن لوگوں کے لیے ضروری تھا ان کی خاطر ساورکر حمایت ایک مجبوری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ساورکر کو گاندھی کا متبادل بنا کر پیش کیا گیا۔ اس مہم میں شیوسینا سمیت سارے ہندوتوا نواز شامل تھے۔ راہل گاندھی نے ساورکر کو بزدل کہا تو شیوسینا کے لیے دھرم سنکٹ کھڑا ہو گیا اور اس کے لیے راہل سے خود کو الگ کرنا لازمی ہو گیا۔ اس لیے پہلے ادھو ٹھاکرے نے اور پھر سنجے راوت نے ساورکر کے معافی نامہ والے بیان سے برأت کا اعلان کیا۔ اس کے برعکس گورنر کے ذریعہ شیواجی کی توہین نے مہا وکاس اگھاڑی کے سارے فریقوں کو پھر سے متحد کردیا۔ حالات بدلے تو سنجے راوت نے راہل گاندھی کی تعریف کر کے مہا وکاس اگھاڑی کے ٹوٹنے کا خدشہ دور کر دیا۔ راوت نے کہا کہ یاترا کے دوران ان سے صحت کے متعلق مزاج پرسی کر کے راہل نے قابلِ تحسین انسانیت نوازی کا ثبوت دیا ہے۔
ساورکر پر تنقید کے معاملے میں مدافعت میں آنے والی کانگریس پھر سے جوش میں آگئی۔ اس کے ترجمان جے رام رمیش نے نامہ نگاروں سے کہا کہ آپ ہمیشہ ہم سے ساورکر پر سوال کرتے ہیں، میں بی جے پی رہنماوں، مہاراشٹر کے گورنر اور بی جے پی کے ترجمان سدھانشو چترویدی سے پوچھتا ہوں کہ شیواجی مہاراج کے وہ بارے میں بی جے کا موقف بتائیں؟ انہوں نے الزام لگایا کہ ان لوگوں نے شیواجی مہاراج کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا؟ اس لیے کانگریس سے ساورکر پر سوال کرنے کے بجائے بی جے پی سے شیواجی کی بابت استفسار کیا جانا چاہیے۔ جئے رام رمیش نے ساورکر کے دفاع میں شیواجی مہاراج پر بی جے پی کے ترجمان سدھانشو ترویدی کے جس بیان کی جانب اشارہ کیا ہے وہ تاریخی حقیقت ہونے کے باوجود مہاراشٹر کے عوام کو ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے اور اگر حزب اختلاف اس کو ٹھیک سے بھنانے میں کامیاب ہو جائے تو بی جے پی کو یہ بہت مہنگا پڑے گا۔
ساورکر کا معافی نامہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ناممکن ہے، اس لیے پروفیسر سدھانشو نے اس کی تردید کرنے کے بجائے اس کو ایک معمولی سی واردات کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ موقف درست ہونے پر بی جے پی کے ذریعہ راہل گاندھی کی تنقید بے جا قرار پاتی ہے۔ ویسے ترویدی نے ساورکر کے معافی نامہ کا جواز فراہم کرنے کے لیے ایک نجی چینل پر مباحثے کے دوران کہا کہ چھترپتی شیواجی مہاراج نے بھی اورنگ زیب کو پانچ خطوط لکھ کر معافی مانگی تھی۔ راہل گاندھی کے ذریعہ ساورکر پر انگریزوں کا ساتھ دینے اور ان سے معافی مانگنے کے عنوان پر بی جے پی کے قومی ترجمان نے کہا کہ ’’چھترپتی شیواجی مہاراج نے بھی اورنگ زیب کو پانچ بار خط لکھا تھا۔ اس وقت سیاسی مشکلوں سے باہر نکلنے کے لیے کئی لوگ معافی نامہ لکھا کرتے تھے۔‘‘ سدھانشو تریویدی نے ساورکر کے دفاع میں کہا تھا کہ اس وقت کے مروجہ فارمیٹ کے تحت ساورکر نے خط لکھا تو کیا ہو گیا، انہوں نے برطانوی آئین کی قسم تو نہیں اٹھالی تھی۔ اس طرح بزدلی کی حمایت تو کوئی ڈرپوک ہی کر سکتا ہے اور راہل کی بات سچ ہو جاتی ہے۔
شیوسینا کے لیے تو یہ بیان ایک ایٹم بم سے کم نہیں تھا۔ بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی کے اس متنازع بیان پر سنجے راوت نے انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے ترویدی پر شیواجی مہاراج کی توہین کا الزام لگایا۔ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کے لیے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی مخالفت کرنے کا یہ نادر موقع تھا۔ سنجے راوت نے سوال کیا کہ اقتدار کے لالچ میں بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر عزت نفس کی بات کرنے والے ایکناتھ شندے اب کیوں خاموش ہیں؟ راوت نے پوچھا کہ کیا آپ شیواجی کی توہین برداشت کر سکتے ہیں؟ سدھانشو کی اس سیاسی حماقت سے مستفید ہونے کے لیے این سی پی رہنما جتیندراوہاڑ بھی میدان میں اتر گئے۔ انہوں نے سدھانشو ترویدی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ شیواجی کے بارے میں ایسا تبصرہ کرنے والا بی جے پی ترجمان پاگل ہی ہو سکتا ہے۔ سنجے راوت نے الزام لگایا کہ ایکناتھ شندے نے اپنی زبان کو دلی میں گروی رکھ دی ہے۔
مہاراشٹر کے مغرب میں گجرات اور اور جنوبی سرحد پر کرناٹک واقع ہے۔ اتفاق سے گجرات میں فی الحال انتخابات ہو رہے ہیں اور کرناٹک میں عنقریب ہونے والے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں اور ان کی حالت خراب ہے۔ ان ریاستوں کے عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر مہاراشٹر کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ مہاراشٹر میں آنے والے کئی بڑے صنعتی پروجکٹس کو گجرات بھیج دیا گیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے کے بیٹے اور سابق وزیر سیاحت و ماحولیات آدتیہ ٹھاکرے نے مہاراشٹر کو ممکنہ طور پر ملنے والے دو پروجیکٹوں کا معاملہ بڑے زور و شور سے اٹھایا ہے اور وہ اس کی مخالفت میں مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی آدتیہ ٹھاکرے ’شیو سنواد یاترا‘ کے تحت پورے صوبے کے دورے پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ مہاراشٹر کو ملنے والے پروجیکٹوں کی گجرات منتقلی مہاراشٹر کے وقار پر حملہ ہے۔ مرکز نے اسے بزورِ قوت ہتھیالیا ہے اور ریاست میں موجود بی جے پی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے نیز ایکناتھ شندے بھی لب کشائی سے ڈر رہے ہیں۔
آدتیہ ٹھاکرے نے یہ وضاحت کی کہ ویدانتا۔فوکسکان پروجیکٹ سے 76 ہزار کروڑ کی سبسیڈی ملنی والی تھی۔ اس پروجیکٹ کے لیے ایک لاکھ 50 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کی جانی تھی اور تقریباً ایک لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملنے والا تھا لیکن سب کچھ الٹا ہو گیا۔ ہمارے بے روزگار نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ جب مہا وکاس اگھاڑی اقتدار میں تھی تو اس نے اس صنعت کو مہاراشٹر میں لانے کے لیے متعلقہ ذمہ داروں سے کئی بار ملاقاتیں کیں۔ اس پروجیکٹ کو پونے کے تلیگاؤں میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن موجودہ حکومت کی نااہلی کے سبب یہ گجرات منتقل ہو گیا۔ اسی طرح بڑودہ کے پاس قائم ہونے والا اسلحہ کا کارخانہ بھی ناگپور کے قریب آنے والا تھا۔ اس کو بھی گجرات بھیج دیا گیا۔ اب لاکھ کوئی دعوے کرے کہ وہ نیا پروجیکٹ دلوائے گا مگر ایسا نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے پرانے حاصل شدہ پروجکٹ کھو دیے وہ نیا کیا لائیں گے؟ ان سنگین الزامات نے بی جے پی سمیت ایکناتھ شندے کی دیانتداری پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ریاست کی سالمیت کا سوال معیشت سے زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس سے عوام کے جذبات وابستہ ہیں۔ مہاراشٹر کی عوام کے جذبات و احساسات پر ساورکر اور شیواجی کی توہین کے سبب پہلے ہی ٹھیس لگ چکی ہے لیکن اب کرناٹک کے وزیر اعلی بسوراج بومئی نے سرحدی تنازع چھیڑ کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ اپنی کھسکتے ہوئے اقتدار کو بچانے کے لیے انہوں نے کہہ دیا کہ ضلع سانگلی کے 42 گاؤں اور سولاپور کی اکل کوٹ تحصیل کے لوگ بھی کرناٹک میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں۔ اس کا علم انہیں کیسے ہوا یہ کوئی نہیں جانتا۔ بومئی نے جب یہ اشتعال انگیز بیان دیا تو اس کے بعد کرناٹک کی بسوں کے خلاف مہاراشٹر-کرناٹک سرحد پر احتجاج شروع ہو گیا۔ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ دیویندر پھڈنویس نے بومئی کے بیان کی سختی سے تردید کر دی اور کہا کہ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ ایسے میں بی جے پی ہائی کمان کو مداخلت کر کے اپنے دونوں وزرائے اعلیٰ کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کے درمیان صلح صفائی کرانا چاہیے تھا لیکن اسے تو گجرات انتخابات سے فرصت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نہ آسام ومیگھالیہ کی سرحد پر ہونے والے تشدد کی فکر ہے اور نہ مہاراشٹر و کرناٹک تنازع کی۔
مہاراشٹر کے احتجاج کا جواب کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے نہایت سختی سے دیا۔ بومئی نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے اس بیان کو جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہم ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے‘ اشتعال انگیز قرار دیا۔ ان کے مطابق ایک انچ بھی زمین نہ دینے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔ بومئی نے الزام لگایا کہ مہاراشٹر کے سرحدی گاوں میں پانی کا بحران وہاں کے لوگوں کو کرناٹک میں انضمام کے لیے مجبور کر رہا ہے۔ پھڈنویس نے اس مسئلہ کے وجود سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں پانی کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون جھوٹ بول رہا ہے یا دونوں جھوٹ بول رہے ہیں اس لیے کہ دونوں متضاد دعوے سچ نہیں ہوسکتے۔ اس معاملے نے شندے اور پھڈنویس کے تعلقات کو بھی کشیدہ کر دیا ہے۔
ان دو متحارب صوبوں کے درمیان تنازع محض آب رسانی کا نہیں بلکہ لسانی بھی ہے۔ سپریم کورٹ میں کرناٹک حکومت کے ذریعہ 865 گاووں پر دعویٰ 2004 سے زیر التواء ہے۔ کرناٹک کی حکومت نے اس کو حاصل کرنے کے لیے وکلا کی تگڑی ٹیم منظم کی ہے اور مہاراشٹر بھی یہی کر رہا ہے۔ بی جے پی والے پاکستان کے قبضے سے مقبوضہ کشمیر واپس لانے کی بات کرتے تھے مگر یہاں ان کا حال یہ ہے کہ وہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ ریاستی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے بی جے پی سرحدی تنازع کو ہوا دے رہی ہے۔ اس سے چونکہ انتخابی مفاد وابستہ ہے اس لیے اگر وہاں تصادم ہو جائے تو ہند۔چین سرحد سے بھی زیادہ خون خرابا ہو سکتا ہے۔ اس معاملے میں مہاراشٹر اور کرناٹک کی بی جے پی حکومتوں نے گلوان تنازع سے زیادہ خطرناک صورت پیدا کردی ہے۔ بی جے پی کی یہ علاقائی عصبیت ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کا پیش خیمہ ہے۔ اقتدار کی حرص میں بی جے پی اس ملک کو کہاں لے جائے گی یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ اس سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ اس فسطائی جماعت کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔
***
***
بی جے پی والے پاکستان کے قبضے سے مقبوضہ کشمیر واپس لانے کی بات کرتے تھے مگر یہاں ان کا حال یہ ہے کہ وہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ ریاستی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے بی جے پی سرحدی تنازع کو ہوا دے رہی ہے۔ اس سے چونکہ انتخابی مفاد وابستہ ہے اس لیے اگر وہاں تصادم ہو جائے تو ہند چین سرحد سے بھی زیادہ خون خرابا ہو سکتا ہے۔ اس معاملے میں مہاراشٹر اور کرناٹک کی بی جے پی حکومتوں نے گلوان تنازع سے زیادہ خطرناک صورت پیدا کردی ہے۔ بی جے پی کی یہ علاقائی عصبیت ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کا پیش خیمہ ہے۔ اقتدار کی حرص میں بی جے پی اس ملک کو کہاں لے جائے گی یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ اس سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ اس فسطائی جماعت کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022