مہاراشٹر نے کرناٹک کے مراٹھی بولنے والے دیہاتوں کے ’ہر انچ‘ پر دعویٰ کرنے کی قرارداد منظور کی

نئی دہلی، دسمبر 27: مہاراشٹر اسمبلی نے منگل کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کرناٹک کی سرحد کے ساتھ مراٹھی بولنے والے علاقوں کے ’’ہر انچ‘‘ کو ریاست کی حدود میں لانے کے لیے تمام ضروری قانونی اقدامات کرے گی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ میں جاری کیس کی پیروی کرے گی کہ بیلگاوی، کاروار، نپانی، بھلاکی اور بیدر اور کرناٹک کے 865 مراٹھی بولنے والے دیہات مہاراشٹر کا حصہ بن جائیں۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے ناگپور میں جاری سرمائی اجلاس کے دوران اسمبلی میں یہ قرارداد پیش کی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’مہاراشٹر کرناٹک کے مراٹھی بولنے والے شہریوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔‘‘

اس قرارداد میں کرناٹک حکومت کے ’’مراٹھی مخالف‘‘ موقف کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ کرناٹک میں مراٹھی بولنے والے شہریوں کو مظالم اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

قرارداد میں کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومئی کے اس بیان پر بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ کرناٹک کے لوگ ریاست کی ایک انچ زمین بھی نہیں جانے دیں گے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بومئی کا تبصرہ ’’انتہائی اشتعال انگیز‘‘ تھا۔

اس قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس لیڈر اور کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا کہ یہ مہاراشٹرا حکومت کی طرف سے ’’اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

مہاراشٹر اسمبلی میں یہ پیش رفت کرناٹک اسمبلی کی جانب سے مہاراشٹر کے ساتھ جاری سرحدی تنازعہ کے درمیان ریاست کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک قرارداد منظور کیے جانے کے پانچ دن بعد ہوئی ہے۔ وہ قرارداد وزیر اعلیٰ بومئی نے پیش کی تھی اور اسے صوتی ووٹ سے منظور کیا گیا تھا۔

یہ تنازعہ یکم مئی 1960 کو مہاراشٹر کے قیام کے بعد سے اس مطالبے سے متعلق ہے کہ ریاست کی سرحد کے ساتھ کئی شہروں اور مراٹھی بولنے والے 865 گاؤں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ تاہم کرناٹک کا دعویٰ ہے کہ 1956 میں لسانی خطوط پر کی گئی حد بندی حتمی ہے۔ کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

14 دسمبر کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی کرناٹک اور مہاراشٹر کی حکومتیں اپنے درمیان جاری سرحدی تنازعے میں اس وقت تک کوئی دعویٰ نہیں کریں گی جب تک سپریم کورٹ سے اس کیس میں فیصلہ نہیں آ جاتا۔