ڈاکٹر سلیم خان
چکنی چپڑی باتوں کا مطلب ہے کہ بی جے پی اب ہارنے کے دہانے پر ہے
وزیر اعظم کی حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے جس کا اظہار انتخابی مہم کے دوران ان کے متضاد بیانات سے ہو رہا ہے۔ مودی کے کنفیوژن کا اندازہ لگانے کے لیے مہاراشٹر کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور وزیر اعظم کی قلا بازیوں پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے ۔ 8؍ اپریل کو وزیر اعظم نے چندر پور سے ریاست میں انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ رام مندر اور ایوان پارلیمنٹ کی تعمیر کے لیے چندر پور کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ ویسے اگر تحقیق کی جائے تو ممکن ہے یہ بات غلط بھی نکلے لیکن اگر سچ ہو تب بھی کہیں نہ کہیں کی لکڑی تو استعمال ہونی ہی تھی سو چندر پور کی ہوئی تو اس میں کوئی خاص بات کوئی نہیں ہے۔ نیز، یہاں کی لکڑی نہ جانے کس کس کی چتا جلانے کے لیے بھی استعمال ہوئی ہوگی۔ مودی کا مقصد در اصل رام مندر اور ایوانِ پارلیمنٹ کی نئی عمارت سے وہاں موجود قبائلی لوگوں کو جذباتی طور پر جوڑنا تھا لیکن جن عمارتوں کے افتتاح سے قبائلی صدر مملکت دروپدی مرمو کو انہوں نے قصداً دور رکھا ان سے بھلا عام قبائلی لوگ کیسے جڑ سکتے ہیں؟
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں حزب اختلاف کی غیر مستحکم سرکار کے مقابلے میں بی جے پی کی مستحکم حکومت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ایک طرف ان کی پارٹی ملک کے لیے اہم فیصلے کر رہی ہے اور دوسری طرف کانگریس اور اس کا انڈیا الائنس ہے جن کا مقصد اقتدار کا مزہ لوٹنا اور ملائی کھانا ہے۔ ملائی کھانے اور کھلانے کا معاملہ نہ ہوتا تو مہاراشٹر میں بی جے پی کی حمایت والی سرکار وجود میں ہی نہیں آتی۔ اس حکومت کا تو نام ہی کھوکے باز سرکار ہے۔ ای ڈی کے خوف اور دولت کی لالچ سے مہاراشٹر کی صوبائی حکومت کو عدم استحکام کا شکار خود انہی کی پارٹی نے کیا ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف اپنی قدیم حلیف شیوسینا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا بلکہ این سی پی کے اندر چچا اور بھتیجے کے درمیان پھوٹ ڈال دی۔ این سی پی پر بدعنوانی کا الزام لگانے کے بعد انہیں جیل بھیجنے کی دھمکی خود مودی نے دی اور اگلے دن نائب وزیر اعلیٰ کے طور پر اجیت پوار کی حلف برداری کروا کر پناہ دی ۔
چندر پور کی تقریب میں نریندر مودی نے مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت پر الزام لگایا کہ ان کی حکومت کے دوران مہاراشٹر کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ بات اس لیے درست ہے کیونکہ مہاراشٹر کو نظر انداز کرنے کا جرم خود ان کی مرکزی سرکار نے کیا تھا۔ ادھو ٹھاکرے کو جی ایس ٹی میں ریاست کا حصہ لینے کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑا۔ اپنے پسندیدہ سرمایہ داروں اور ہم زبان لوگوں کی خوشنودی کے لیے مہاراشٹر سے اہم صنعتوں کو گجرات بھیجنے کی نا انصافی کسی اور نے نہیں خود مودی سرکار نے کی ہے۔ اس کے باوجود الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مہاوکاس اگھاڑی اور ادھو ٹھاکرے پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ جب انہیں مہاراشٹر میں اقتدار ملا تو انہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی ترقی ملائی دار ٹھیکے دے کر صوبے کی ترقی کو داؤ پر لگا دیا۔ مہاراشٹر کے ترقیاتی منصوبے آتے تو کمیشن مانگا جاتا۔
انتخابی مہم کے دوران اپنے مخالفین پر اس طرح کے الزامات لگانا فطری عمل ہے مگر وزیراعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کیونکہ سرکاری بدعنوانی کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ اس کے دیگر وزراء بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے کی حکومت میں ان کا دایاں ہاتھ ایکناتھ شندے تھے تو ایسے میں ادھو ٹھاکرے کا بدعنوان اور ان کے قریب ترین ساتھی کا صاف ستھرا ہونا نا ممکن ہے۔ ایسے میں شندے اور ان کے چالیس ہمنواؤں کی جو بقول مودی بدعنوان تھے بی جے پی کی حمایت کا کیا مطلب ہے؟ شندے اور ان کے ساتھیوں کو پھر وزارتیں تھما کر بد عنوانی جاری رکھنے کا کیا جواز ہے؟ مہاراشٹر کے علاوہ دیگر ریاستوں میں جا کر حزب اختلاف کی حکومتوں پر بد عنوانی کا الزام لگانا تو آسان ہے مگر یہاں نہیں۔ اجیت پوار کے پیچھے ای ڈی پڑی ہوئی تھی، وہ بی جے پی کے ساتھ آئے تو ان کے سارے پاپ کنول چھاپ واشنگ مشین میں دھل گئے۔ ان کو کلین چٹ ملنے سے قبل نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ بھی مل گیا۔ اجیت پوار کے پاس پارٹی اور نشان دونوں ہیں تو کیا رویہ بدل گیا ہوگا؟ پہلے تو وہ مرکزی حکومت کے خوف سے تھوڑے بہت محتاط تھے لیکن اب تو بلا تکلف ملائی کھانے کا پروانہ مل گیا ہے۔
وزیر اعظم نے نام بنام جل یکتا شیوار یوجنا یا بالی راجہ واٹر ایریگیشن اسکیم کا ذکر کر کے ان سرکاری پروجیکٹس کو روکنے کا الزام ادھو سرکار پر لگایا تھا۔ اول الذکر کا تعلق عام لوگوں تک آب رسانی سے اور دوسری کا کسانوں سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی سرکاری اسکیموں سے حکومت کی مقبولیت بڑھتی ہے اس لیے صوبائی حکومت کے ذریعہ ان پر روک لگانا ناقابلِ فہم ہے۔ ہاں مرکزی حکومت کا اسے فنڈ نہ دینا سمجھ میں آتا ہے تاکہ ریاستی حکومت کی مقبولیت میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔ وزیر اعظم نے ودربھ کی ترقی کے لیے شروع کی جانے والی سمردھی ہائی وے کی مخالفت کا بھی ذکر کیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایکناتھ شندے نے پی ڈبلیو ڈی وزیر کے طور پر اس میں سب سے زیادہ دولت کمائی اور اسی کے حوالے سے انہیں بلیک میل کرکے توڑا گیا۔ وہ اب بھی بی جے پی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ ہیں اور سڑک بن گئی ہے اس لیے یہ الزام بے بنیاد ٹھیرتا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کونکن میں ریفائنری پروجیکٹ کے روکے جانے کا ذکر کیا لیکن یہ تو ماحولیات کا معاملہ تھا اور بی جے پی بھی اس کی مخالفت کر چکی ہے۔ انہوں نے ممبئی میٹرو کا کام روکنے کا ذکر کیا مگر وہ کام جاری و ساری رہا۔ غریبوں کو مکانات کی فراہمی بند کرنے کا الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق ادھو ٹھاکرے کا مقصد صرف اور صرف کمیشن لینا ورنہ کام میں رکاوٹ ڈالنا تھا۔ ادھو ٹھاکرے کو سیاست چونکہ وراثت میں ملی تھی اس لیے ان پر طنز کرتے ہوئے مودی نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ کسی شاہی خاندان سے نہیں آئے ہیں۔ انہیں بے گھر، دلت اور پسماندہ قبائلی لوگ لائے ہیں۔ ان کے پاس پینے کا پانی، سڑکیں، تعلیم اور دیگر سہولیات نہیں تھیں لیکن وہ تو مودی کی دس سالہ سرکار کے باوجود محروم ہیں۔ سڑکوں پر امیروں کی گاڑیاں دوڑتی ہیں۔ سرکاری تعلیم گاہیں خستہ حال ہیں اور امیر کبیر لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے مہنگے نجی اسکولوں یا یوروپ و امریکہ میں بھیج رہے ہیں۔ مودی کی گارنٹی سے کچھ بھی نہیں بدلا نہ گھر ملے نہ گیس سلنڈر ملا۔ اس حقیقت کا علم ان لوگوں کو سب سے زیادہ تھا جنہیں بسوں میں بھر کر مودی کی تقریر پر تالی بجانے کے لیے لایا گیا تھا۔
وزیر اعظم کی یہ تقریر اپنی ساری کمیوں اور خامیوں کے باوجود ایک سیاسی ضرورت تھی۔ ایک ماہ قبل ان میں ایک زبردست خود اعتمادی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اول تو اپنی کارکردگی بیان کرنے کی کوشش کی اور اپنے اولین مخالف پر الزامات کی جھڑی لگا دی۔ انتخابی مہم میں یہی ہوتا ہے مگر ایک ماہ کے بعد جب دو مرحلوں کی رائے دہندگی کے بعد وہ تیسری بار مہاراشٹر آئے تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ اس لیے کہ خفیہ ایجنسیاں لاکھ چاپلوسی کے باوجود تھوڑا بہت سچ تو بول ہی دیتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ سنگھ کے داخلی جائزے بھی بی جے پی کو کوئی اچھی خبر نہیں سنا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم کا نہ صرف لب و لہجہ بدل گیا ہے تقریر کے مواد میں بھی بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اس بار انہوں نے ادھو ٹھاکرے کے تعلق سے نرم گوشہ اختیار ہوئے ایسا بیان دیا ہے گویا وہ اپنی شکست تسلیم کر رہے ہوں۔
نریندر مودی نے اپنے تازہ انٹرویو میں کہا کہ ’’ادھو ٹھاکرے میرے دشمن نہیں ہیں۔ کل کو ان پر کوئی مصیبت آئے تو میں ہی ان کی مدد کے لیے پہنچوں گا‘‘ وزیر اعظم نے بال ٹھاکرے کی تعریف کرنے کے بعد کہا کہ ’’ادھو ٹھاکرے بال ٹھاکرے ہی کے بیٹے ہیں۔ وہ جب بیمار پڑے تھے تو میں انہیں روزانہ فون کیا کرتا تھا۔ رشمی بھابھی (ادھو کی اہلیہ) کو فون کرکے روزانہ میں ادھو کی خیریت دریافت کیا کرتا تھا۔ جب ادھو کے آپریشن کی تجویز آئی تو انہوں نے مجھے فون کرکے پوچھا ’’ آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے ان سے کہا آپ آپریشن کروائیے، باقی کی فکر چھوڑ دیجیے۔ پہلے اپنی صحت پر توجہ دیجیے۔‘‘ مودی نے کہا ’’کل کو ادھو ٹھاکرے پر کوئی مصیبت آئی تو سب سے پہلے ان کی مدد کے لیے میں ہی پہنچوں گا۔ وزیر اعظم کو اپنے وقار کا خیال کرتے ہوئے ان ذاتی تعلقات کو انتخاب میں بھنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی مگر ان کا تو اصول ہے ’انتخابی کامیابی کے لیے کچھ بھی کرے گا‘۔
وزیر اعظم مودی کی اس پینترے بازی کا بہترین جواب شرد پوار نے دیا۔ انہوں نے دو باتیں کہیں، پہلی تو یہ کہ خدا نہ کرے ادھو ٹھاکرے پر کبھی ایسا برا وقت آئے جب انہیں مودی کے مدد کی ضرورت پڑے۔ دوسرا اور بھی تلخ سوال پوار نے یہ کیا کہ مودی نے خود اپنے خاندان کا خیال کب رکھا ہے جو دوسروں کا خیال رکھیں گے؟ اپنی بیوی جسودھا بین کی حق تلفی کا جو داغ مودی کے دامن پر لگا ہوا ہے اس کو دنیا کی کوئی واشنگ مشین نہیں دھو سکتی۔ مودی کی اس خود آگہی کے پس پشت یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ علاقائی جماعتوں کے ساتھ عوام کا ایک قلبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ وہ صوبائی وقار کی بات کرتی ہیں۔ اقتدار کی ہوس میں بی جے پی نے مہاراشٹر کی دونوں علاقائی جماعتوں کو توڑ کر عوامی جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ آنے والے اجیت پوار کے مقابلے میں شرد پوار کا قد بہت اونچا ہے بلکہ بھتیجے کی اپنے محسن چچا کے خلاف بغاوت کو عوام کا بہت بڑا طبقہ نمک حرامی گردانتا ہے۔ ایکناتھ شندے بھی وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود ادھو ٹھاکرے سے بہت کم مقبول ہیں۔
اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے چھگن بھجبل نے برملا اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’ بی جے پی کے ساتھ ہونے کے باوجود وہ بولے یہ بہت برا ہوا اس لیے ریاست میں شرد پواراور ادھو ٹھاکرے کے حق میں ہمدردی کی لہر ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کے پیروں تلے سے زمین کے کھسکنے نے انہیں گرگٹ کی مانند رنگ بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ انہیں چار و ناچار یہ کہنا پڑا کہ ’’بالا صاحب کا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں ان (ادھو ٹھاکرے) کا ادب وناحترام کرتا آیا ہوں اور آئندہ بھی کروں گا اور میں بالا صاحب ٹھاکرے کے نظریات کو بھی نبھاؤں گا کیوں کہ وہ مجھ سے بےحد محبت کرتے تھے اس لیے میں ان کا احسان بھلا نہیں سکتا‘‘ جس شخص نے اپنے گرو اڈوانی کی عزت نہیں کی اور انہیں عوام میں رسوا کر دیا اس کی زبان پر یہ منافقانہ جملے زیب نہیں دیتے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’گزشتہ الیکشن ہم نے آمنے سامنے لڑا لیکن میں نے بال ٹھاکرے کے تعلق سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ادھو ٹھاکرے میرے تعلق سے کچھ بھی کہہ لیں لیکن میں بالا صاحب سے عقیدت رکھتا ہوں ان کے تعلق سے کچھ نہیں کہوں گا۔ میں بالا صاحب کا احترام کرتا ہوں اور عمر بھر کرتا رہوں گا‘‘
وزیر اعظم کو ان چکنی چپڑی باتوں کے بجائے یہ بتانا چاہیے تھا کہ بال ٹھاکرے سے یہ محبت اچانک کیونکر عود کر آئی؟ پچھلے دس سالوں تک یہ کہاں تھی؟ پہلے وہ مخالفت کے ڈر سے بال ٹھاکرے کے خلاف کچھ نہیں کہتے تھے مگر اس طرح کھل کر کبھی تعریف بھی نہیں کی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بی جے پی کی امیدوار نونیت رانا کے اس خیال سے وہ متفق ہوگئے ہیں کہ فی الحال ملک میں مودی لہر نہیں ہے۔ نونیت رانا فی الحال دوہری پریشانی میں مبتلا ہے۔ ایک تو مودی لہر ندارد ہے دوسرے مقامی بی جے پی کیڈر ان کا مخالف ہے کیونکہ پچھلا انتخاب انہوں نے این سی پی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے طور پر لڑا تھا مگر کامیاب ہونے کے بعد ہنومان چالیسا پڑھنے کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا اور عوامی فلاح و بہبود سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھا ۔ وزیر اعظم کے لیے بیک وقت بال ٹھاکرے کی تعریف و توصیف اور ان کے وارث ادھو ٹھاکرے کی مخالفت پل صراط سے کم نہیں تھی اس لیے وہ توازن قائم نہیں رہ سکے اور اوندھے منہ گر گئے۔ انہوں نے کہہ دیا ’’جن لوگوں نے ساورکر کی توہین اور اورنگ زیب کی تعریف کی، انہی کے ساتھ جا کر بالا صاحب کا بیٹا بیٹھ گیا۔ لوگوں میں اسی بات کا غصہ ہے۔ لوگوں میں اس بات کی چڑ ہے کہ بال ٹھاکرے نے جو کچھ کہا ان کا بیٹا اقتدار کی خاطر اس کے خلاف کام کر رہا ہے۔‘‘
اس چرب زبانی کی حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کی خاطر مودی کن لوگوں کو تھوک کے بھاو میں اپنی پارٹی کے اندر شامل کر رہے ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔ مودی جن پر الزام لگا رہے ہیں ان میں سے ایک اشوک چوہان کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے انہوں نے ایوانِ بالا کا رکن بنوا دیا۔ ملند دیورا جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنی شرن (پناہ) میں لے لیا اس وقت انہیں یاد نہیں آیا کہ یہ لوگ پہلے کیا کر رہے تھے اور کیا انہوں نے یہ سب اقتدار میں برقرار رہنے کے لیے نہیں کیا؟ وزیر اعظم نے کہا ’’بال ٹھاکرے مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ان کا اپنا پن میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ آج کی تاریخ میں مہاراشٹر اسمبلی میں ہمارے سب سے زیادہ اراکین ہیں، اس کے باوجود شیوسینا کو وزیر اعلیٰ کی کرسی دے کر ہم نے اس پر ایکناتھ شندے کو بٹھایا۔ یہ بالا صاحب ٹھاکرے کو خراج عقیدت ہے کیونکہ بالا صاحب کے نظریات کو ایکناتھ شندے آگے بڑھا رہے ہیں‘‘ وزیر اعظم مودی کی اس نام نہاد احسان مندی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے شیوسینا (ادھو) کے ترجمان سنجے راؤت نے سود سمیت سارا حساب کتاب چکتا کر دیا۔ انہوں نے سانگلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ’’وزیر اعظم جھوٹ بول رہے ہیں۔ مودی ایک خسارے میں چل رہے تاجر کی طرح ہیں۔ چانکیہ نے کہا تھا کہ جب تاجر خسارے میں ہو تو جھوٹ بولنے لگتا ہے‘‘ راؤت نے مودی سے ایسے سوالات کیے جن کے جوابات ملک کے لوگ ای وی ایم پر بٹن دبا کر دیں گے انہوں نے پوچھا ’’ اگر نریندر مودی کو محبت کا اتنا ہی پاس تھا تو انہوں نے بال ٹھاکرے کی شیوسینا کو کیوں تقسیم کیا؟‘‘ انہوں نے کہا’’مودی نے نہ صرف شیوسینا کے دو ٹکڑے کیے بلکہ پارٹی کا نام اور نشان ایک بے ایمان آدمی کے ہاتھ سونپنے کا جرم بھی کیا۔ اس لیے اب وہ محبت کا جو دعویٰ کر رہے ہیں، وہ جھوٹا ہے‘‘ وزیر اعظم اپنی حرکتوں سے مخالفین کو انہیں جھوٹا بولنے کا موقع دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نے انتخابات کے دوران عوام کو کنفیوژ کرنے کی جو ایک مذموم کوشش کی اس کا ازالہ کرنے کے لیے سنجے راؤت نے بی جے پی سے مفاہمت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’نریندر مودی اب ہمارے لیے چاہے کھڑکی کھولیں یا دروازہ، ہم ان کے در پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ مہاراشٹر میں عزت نفس نام کی چیز اب بھی باقی ہے‘‘ وزیر اعظم کی اس پینترے بازی کی وجہ سنجے راؤت نے یہ بتایا کہ ’’ان سب باتوں کا مطلب ہے کہ نریندر مودی یہ الیکشن ہار رہے ہیں۔ انہیں اکثریت ملنے کا امکان نہیں ہے اس لیے وہ اب کھڑکی، دروازے اور دریچے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے مودی کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’نریندر مودی کتنے بڑے جھوٹے ہیں یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ وہ کب ہنسیں گے، کب روئیں گے کسی کو نہیں معلوم‘‘ پٹولے کے مطابق مودی نوٹ بندی کے بعد جاپان جا کر تالیاں بجانے بیٹھ گئے۔ ملک کی بربادی کے دوران لوگ اپنے ہی پیسے نکالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے جس میں کئی لوگوں نے اپنی جانیں بھی گنوائیں اور وہ جاپان میں بیٹھ کر ہنس رہے تھے۔ اس دنیا میں ان سے بڑا کوئی ڈرامہ باز نہیں ہے۔‘‘ بدقسمتی سے مودی اب خود اپنی پول کھول رہے ہیں، مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس کے باوجود عوام ان کے جھانسے میں آئیں گے یا الیکشن میں ان کو قرار واقعی سبق سکھائیں گے؟
***
***
وزیر اعظم نے انتخابات کے دوران عوام کو کنفیوژ کرنے کی جو ایک مذموم کوشش کی اس کا ازالہ کرنے کی خاطر سنجے راؤت نے بی جے پی سے مفاہمت سے متعلق ایک سوال کا جواب میں کہا کہ ’’ نریندر مودی اب ہمارے لئے چاہے کھڑکی کھولیں یا دروازہ، ہم ان کے در پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ مہاراشٹر میں عزت نفس نام کی چیز اب بھی باقی ہے۔ ‘‘ وزیر اعظم کی اس پینترے بازی کی وجہ سنجے راؤت نے یہ بتائی کہ ’’ان سب باتوں کا مطلب ہے کہ نریندر مودی یہ الیکشن ہار رہے ہیں۔ انہیں اکثریت ملنے کا امکان نہیں ہے اس لئے وہ اب کھڑکی ، دروازے اور دریچے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
سنجے روات
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024